نگار ف
محفلین
مغربی دنیا کی مذہب سے دوری کے فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی مذہب سے عدم دلچسپی اور لا تعلقی نے مذہب کی جگہ ان کے کلچر اور تہذیب نے لے لی ہے ۔ ۔یورپ میں عیسائیت کی بنیادی تعلیم تو مسخ شدہ عیسائیت میں پہلے ہی دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ لیکن مذہب سے عملاََ لاتعلقی نے اور ان کی اخلاق سے عاری تہذیب نے بے حیائی و بدکاری کے بہت سے گل کھلائے ہیں ۔ گویا یورپ میں اب مسخ شدہ عیسائی مذہب کی بھی چند مذہبی رسومات باقی ہیں۔ اور ان کی تمدنی ترقی نے جو مادہ پرست تہذیب پیدا کی ہے گویا مذہب کی جگہ یہ اپنی تہذیب کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں ۔ مذہبی اخلاق اور عام نیک اقدار سے عاری اپنی مادر پدر آزاد تہذیب کی پیروی کرنے والے یورپ میں مذہب بے حقیقت ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور عیسائی مذہب کی بنیادی تعلیم کی نیک اقدار بھی لادینی تہذیب کے تابع ہو کر رہ گئی ہیں ۔ مغربی اقوام اخلاق باختہ ہو چکی ہیں ۔ کیونکہ ان کی تہذیب میں آزادی کے نام پر بے حیائیاں اختیا ر کی جارہی ہیں۔ اسی لئے مغربی سوسائیٹی میں کوئی اخلاقی سماجی قدغن نہیں ۔ اپنے لئے یہ لوگ بڑے حساس ہیں . لباس کا معاملہ آئے تو کہتے ہیں کہ ہم جیسے کپڑ ے پہنیں" چاہیں تو ننگے پھریں لیکن دوسری طرف یہ مسلمان عورتوں کے حجاب یا سکارف پر بھی معترض ہیں ۔ گویا اہل یورپ کے نزدیک ان کے کلچر و تہذیب کا تقاضا ہے کہ اہل مشرق جو یورپ میں مقیم ہیں وہ اپنی اسلامی تہذیبی اقدار کو ترک کرکے ہمارے کلچر رہن سہن کو اپنائیں۔ بصور ت دیگر یورپ میں مقیم بالخصوص خواتین کا باپردہ لباس نسلی منافرت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔
بعض مشرقی( مسلمان ) خاندان جو تقریباََ ایک صدی سے یورپ میں رہائیشی ہیں۔ لیکن وہ کبھی تہذیبی تصادم کے مسئلہ سے دوچار نہیں ہوئے کیونکہ یورپی اقوام نے " " حجاب یا سکارف " اور تہذیبوں کے تصادم کا مسئلہ ایک صدی کے بعد اُٹھایا ہے ۔ اس سے قبل مشرقی کلچر لباس ان کے قانون کی نظر میں قابل برداشت تھا ۔ گویا اب تو یورپ کے بعض ممالک میں مشرقی عورت کی فطرتی حیاء کے تقاضے بھی ان کے سیکولر قانون کی ذد میں ہیں۔ یورپ کے بعض ممالک میں بعض جگہوں اداروں میں ان کے قانون کی نظر میں مشرقی عورت کو یہ اجازت نہیں ایسے با حیاء لباس سکارف چادر یا پردہ میں خود کو ملبوس کرسکے ۔ کیونکہ ایسا باپردہ لباس (بعض اداروں میں) قانون کی نظر میں ان کے کلچر سے متصا دم سمجھا جانے لگا ہے۔
مغربی ا خباروں انکے میڈیا پر مسلمان عورت کے باحیاء لباس یا پردہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اوراسلام کو پسماندہ تنگ نظر مذہب کا الزام دیا جا رہا ہے ۔اسلام کی تعلیم پر یہ معترض ہیں کہ فطرت نے عورت پر حیاء کے لباس یا پردہ جیسی کوئی قدغن نہیں لگائی لیکن اسلام نے عورت کی آزادی پر اسلامی پردہ کی یہ غیر ضروری قدغن لگائی ہے جو ہمارے لئے نا قابل برداشت ہے ۔ دراصل یورپ کے اخباروں اور میڈیا میں جو کلچر تصادم مسئلے کا چرچا ہے ۔ دراصل یہ کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ مسئلہ ان کا خود کا پیدا کردہ ہے اور ان کے پیدا کردہ مسئلہ کے درپردہ ان کے کلچر کی بجائے ان کے سیاسی عزائم ہیں۔
ان کی تہذیب یا کلچر کو عورت کے حیاء دار لباس حجاب یا سکارف سے کیا خطرہ لا حق ہوسکتا ہے ۔ اصل بات کلچر تصادم یا نسلی منافرت کا انہیں خدشہ نہیں بلکہ یہ سیاسی مسئلہ ان کے پیدا کردہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ بلکہ حقیقت میں ان کا مقصد اسلام دشمنی ہے۔ کیونکہ مغربی اقوام مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی پردہ کی پابندی سے بد دل کرنا چاہتی ہیں ۔ حالا نکہ خود ان کے پاس مذہب نہیں اور اس لئے مذہبی نیک اقدار ان کی نظر میں کھٹکتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے انسان (یعنی عیسیٰ علیہ السلام نبی) کو خدا بنا لیا ہے اور رفتہ رفتہ انہوں نے غیر فطرتی غیر معقول بگڑے ہوئے عیسائی مذہب سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ہے بظاہر ان قوموں کو فقط کلچر کا غم کھائے جا رہا ہے لیکن غم کے پردہ میں اسلامی دشمنی ہے ۔ مذہب سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے ان کی اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہوچکا ہے ۔انکے نزدیک اسلامی لباس یا پردہ ہی قابل اعتراض نہیں بلکہ یہ اسلام کے مقدسوں پر بھی کیچڑ اُچھالنے سے باز نہیں آ تے۔ یہ مختلف قسم کے شوشے چھوڑ کر یورپ میں مقیم مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی سازش تیار کرچکے ہیں۔
مغربی اقوام دنیا کے لہولہب میں اس قدر غرق ہوچکی ہے کہ ان قو مو ں کے میڈیا اخباروں فلموں، ڈراموں میں یہ مذہب و انبیاء کرام کے وجود کو بھی بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ لوگ مذہب خدا انبیاء پر تمسخر سے اور توہین رسالت ۖ سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسی بیباک مغربی اقوام کے نزدیک مذہبی اقدار بےحقیقت ہو کر رہ گئی ہیں اور خصوصاََ اسلامی اقدار ان کے نزدیک نا قابل برداشت ہیں۔ گویا رفتہ رفتہ یورپی قوانین مسلم اقوام کی ضمیر کی آزادی " مذہبی آزادی کو چھین لینے کے درپہ ہیں ۔
فرانس میں عورتوں کا سکارف بعض تعلیمی اداروں یا دفاتر جیسی جگہوں پر انکا قانون ( سکارف تک کی ) اجازت نہیں دیتا ۔اور کلچر ( ڈھونگ) تصادم کے نام پر ہالینڈ میں بھی پبلک مقام پر برقعہ پہننے کی پابندی لگ چکی ہے ۔ اور جرمنی میں سولہ میں آٹھ صوبوں میں پبلک مقامات اور سرکاری ملازم کو دفتری اوقات میں حجاب پر پابندی موجود ہے ۔لیکن اس کے باوجود یورپ کی بیشتر حکومتیں اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد میں دخل اندازی کئے بغیر اہل مشرق (مسلمان شہریوں )کو مملکت کا برابر کا شہری سمجھتے ہوئے ملک کی یکجہتی کو قائم کرکے ملکی ترقی میں مسلمانوں کو برابر کا شریک دیکھنا چاہتی ہے۔
لیکن بعض مغربی ملکوں کے سیاسی و سماجی اداروں کی طرف بظاہر کلچرتصادم کا ڈرامہ رچایا گیا ہے لیکن اس کے پس پردہ ان کے اسلامی دشمنی کے بد ارادے ہیں اور بعض یورپی ملک میں مذہبی عقائد کی مذہبی آزادی میں یہ صریحاََ دخل اندازی کا خطرناک رحجان چل نکلا ہے ۔ اور اسلامی پردہ کی فطرتی تعلیم کو جبر پر مبنی تعلیم قرار دے کر ایسا ایشو اُٹھا کر یورپی معاشرہ میں اسلام کے خلاف نفرتوں کے بیج بوئے جا رہے ہیں گویا اسلام کو غیر فطرتی غیر معقول مذہب قرار دینے کی یہ سازش ہے۔
اس خطرناک رحجان و اقدامات کے خلاف یورپ میں یا اسلامی حکومتوں میں اسلام کا درد رکھنے والے ہر مسلمان کے لئے نظریاتی جہاد کی ضرورت ہے ۔ تا کہ مغربی قوموں کے عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ اسلام کی تعلیم مین لا اکراہ فی الدین کے اعلان کے مطابق اسلام میں کسی قسم کا جبر نہیں۔ اس لئے جو عورت اپنے فطرتی حیاء ( یعنی با پردہ لباس میں اپنی زینتوں اور جنسی خطوط کو پس پردہ رکھنا چاہتی ہیں ) اور اپنی عزت عصمت کا شعور رکھتی ہے گویا وہ باپردہ لباس میں ملبوس ہونا ضروری سمجھتی ہے ۔ اور جو عورت پردہ کو غیر ضروری پابندی سمجھتی ہے اس پر کسی قسم کی جبر کی تلوار مسلط نہیں۔ کیونکہ لا اکراہ فی الدین ۔ یعنی دین میں کسی قسم کا جبر روا کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ با پردہ لباس تو جبر نہیں بلکہ عورت کی فطرتی پاکیزگی کا محافظ ہے۔
ہر فہیم انسان نفس امارہ کے جوشوں سے باخبر ہے۔ ان شہوانی جوشوں کے پیش نظر عورت کے لئے باپردہ لباس و حجاب کو ضروری قرار دیا گیا تاکہ عورت مرد ہر قسم کی جنسی بے راہ رو ی سے بچ کر رہیں اور خدا کے احکام کی روگردانی سے بچ سکیں ۔ ۔ اسلامی پردہ میں لباس کے ساتھ ساتھ انسان کی گھریلو معاشرتی زندگی کیلئے اعلیٰ درجہ کی ہدایات پائی جاتی ہیں جو ہر پہلو سے معاشرہ کیلئے عافیت کا حصار کا کام دیتیں ہیں ۔گویا اسلامی پردہ مرد کے عورت کی صنفوں کے تقاضو ں کے مطابق دونوں کے لئے ہے یعنی مرد عورت دونوں کو غص البصرنگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے تو عورت کی صنف نازک کو اپنی زینتوں کو چھپانے کے لئے اسلامی پردہ کا حکم ہے ۔ گویا مختصراََ یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کا ایسی جگہوں اور محفلوں یعنی مخلوط مکسڈ پارٹیز سے پرہیز کرنا جہاں بے حیائی کے فروغ کا احتمال ہو " نیز روزمرہ گھریلو اور معاشرتی زندگی میں اپنی زینتوں کو غیر محرموں پر ظاہر نہ کرتے ہوئے ایسے طریقے انداز اختیار کرنا کہ جن سے معاشرہ میں عفت پاکدامنی کے قیام میں مدد ملے ۔ سورة النور میں فرمایا "" مومن عورتیں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینتوں کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو اور اپنی اُوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اس کو ڈھانک کر پہنا کریں ۔ "" دراصل اسلامی پردہ میں جبر نہیں بلکہ عورت کی نسوانیت اور فطرتی حیاء کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی جنسی خطوط کی زینتوں کو چھپا کر رکھے یہی اسلامی پردہ ہے۔
پردہ عورت کی آزادی پر کوئی غیرضروری قدغن نہیں بلکہ مرد عورت کے جسمانی اعضاء کی تخلیقی و فطرتی فرق کیوجہ سے ان کا دائرہ کار بھی الگ الگ اور ان کی ذمہ داریوں کا الگ الگ تعین کیا گیا ہے اُن کے مناسب حال ہی ان کو صلاحتیں دی گئی ہیں ان دونوں قسم کی بنیادی ذمہ داریوں کی تقسیم کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ عورت گھر میں مقید ہو کر رہ جائے بلکہ یہ دونوں ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے فرائض میں ممکنہ حد تک مدد بھی دے سکتے ہیں ۔ اور دونوں کا بوقت ضرورت معاشرتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا بھی مانع نہیں ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ عورت مرد کی نسبت زیادہ جاذب نظر ہے اور اسی طرح عورت کے اندر اپنے حُسن کی نمائش مرد کی نسبت کہیں زیادہ پائی جاتی ہے جس کی تکمیل وہ میک اپ کے ذریعہ اپنے آپ کو زیادہ جاذب نظر بنا کر مختصر لباس پہن کر کرتی ہے۔ یاد رہے یہ قدرتی جذبہ اگرچہ دنیا کی تمام عورتوں میں مشترک ہے ۔ چنانچہ مرد اپنے فطرتی تقاضوں کے تحت عورت کے حسن کی خوبصورتی اس کے بے حجاب حسن کی کشش کی طرف مائل ہوتا ہے اور مرد ہی عورت کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور ناجائز تعلقات قائم کرنے کی ترغیب میں مرد ہی پہل کرتا ہے ۔اسلام نے عورت کی عصمت عفت پاکیزگی عزت کی خصوصی حفاظت کے لئے عورت کو پردہ کا حکم دیا۔ لیکن لا اکراہ الدین کی تعلیم بھی ساتھ دی کہ دین میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں تو پھر عورت پر بھی کوئی جبر نہیں کہ اس کو پردہ کی پابندی زبردستی کروائی جائے۔
لیکن اس کے باوجود بعض یورپی ممالک میں اسلامی پردہ بھی قانون کی زد میں آچکا ہے۔ گویا اب یورپ کے مسلما نوں کیلئے یہ دوسرا بڑا مسئلہ حجاب ہے ۔ لیکن حجاب پر قانونی قدغن یورپی ملکوں کے مستقبل کے لئے سود مند نہیں ۔ ان خطرات کو بھانپتے ہوئے جرمن ادارے تحقیقی کام اور جائزہ رپورٹ بنانے میں متحرک ہیں ۔
لیکن ہم مسلما نوں کی طرف سے ایسے مسائل کے حل کیلئے اجتماعی سوچ یا کوشش کی کوئی تدابیر نظر نہیں آرہی ہیں۔ گویا عالم اسلام کے دانشوروں " سیاستدانوں حکمرانوں نے یورپ میںمقیم مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت کو معمولی مسئلہ سمجھا ہوا ہے ۔ اسی لئے عالم اسلام نے اس کا نوٹس نہیں لیا ہے ۔عالم اسلام کو یورپی ملکوں میں مذہبی آزادیوں پر قدغن لگانے کے قوانین کا نوٹس لینا چاہیے بصورت دیگر کل کلاں اسلام سے بغض کیوجہ سے مشرقی عورت کا لباس (شلوار قمیص) بھی مغربی قوموں کے کلچر تصادم یا قانون کی زد میں آ سکتا ہے ۔ کوئی بعید نہیں کہ یورپی قومیں ہمیشہ کی طرح ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں " کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دل آزاری ہو ۔
ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہے ہو سکتا ہے کہ قانوناََ مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندیاں لگانے کی کوشش کی جائے ۔ بہرحال قطع نظر اس کے یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں ۔ یورپ میں مقیم مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد اتفاق یکجہتی کے اوصاف پیدا کرنے چاہیں اور اپنے رویے " اسلامی تعلیم اور اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے چاہیے ۔
تحریر: شیخ عبدالمجید، جرمنی
پیشکش: سکینہ از تبیان
بعض مشرقی( مسلمان ) خاندان جو تقریباََ ایک صدی سے یورپ میں رہائیشی ہیں۔ لیکن وہ کبھی تہذیبی تصادم کے مسئلہ سے دوچار نہیں ہوئے کیونکہ یورپی اقوام نے " " حجاب یا سکارف " اور تہذیبوں کے تصادم کا مسئلہ ایک صدی کے بعد اُٹھایا ہے ۔ اس سے قبل مشرقی کلچر لباس ان کے قانون کی نظر میں قابل برداشت تھا ۔ گویا اب تو یورپ کے بعض ممالک میں مشرقی عورت کی فطرتی حیاء کے تقاضے بھی ان کے سیکولر قانون کی ذد میں ہیں۔ یورپ کے بعض ممالک میں بعض جگہوں اداروں میں ان کے قانون کی نظر میں مشرقی عورت کو یہ اجازت نہیں ایسے با حیاء لباس سکارف چادر یا پردہ میں خود کو ملبوس کرسکے ۔ کیونکہ ایسا باپردہ لباس (بعض اداروں میں) قانون کی نظر میں ان کے کلچر سے متصا دم سمجھا جانے لگا ہے۔
مغربی ا خباروں انکے میڈیا پر مسلمان عورت کے باحیاء لباس یا پردہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اوراسلام کو پسماندہ تنگ نظر مذہب کا الزام دیا جا رہا ہے ۔اسلام کی تعلیم پر یہ معترض ہیں کہ فطرت نے عورت پر حیاء کے لباس یا پردہ جیسی کوئی قدغن نہیں لگائی لیکن اسلام نے عورت کی آزادی پر اسلامی پردہ کی یہ غیر ضروری قدغن لگائی ہے جو ہمارے لئے نا قابل برداشت ہے ۔ دراصل یورپ کے اخباروں اور میڈیا میں جو کلچر تصادم مسئلے کا چرچا ہے ۔ دراصل یہ کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ مسئلہ ان کا خود کا پیدا کردہ ہے اور ان کے پیدا کردہ مسئلہ کے درپردہ ان کے کلچر کی بجائے ان کے سیاسی عزائم ہیں۔
ان کی تہذیب یا کلچر کو عورت کے حیاء دار لباس حجاب یا سکارف سے کیا خطرہ لا حق ہوسکتا ہے ۔ اصل بات کلچر تصادم یا نسلی منافرت کا انہیں خدشہ نہیں بلکہ یہ سیاسی مسئلہ ان کے پیدا کردہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ بلکہ حقیقت میں ان کا مقصد اسلام دشمنی ہے۔ کیونکہ مغربی اقوام مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی پردہ کی پابندی سے بد دل کرنا چاہتی ہیں ۔ حالا نکہ خود ان کے پاس مذہب نہیں اور اس لئے مذہبی نیک اقدار ان کی نظر میں کھٹکتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے انسان (یعنی عیسیٰ علیہ السلام نبی) کو خدا بنا لیا ہے اور رفتہ رفتہ انہوں نے غیر فطرتی غیر معقول بگڑے ہوئے عیسائی مذہب سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ہے بظاہر ان قوموں کو فقط کلچر کا غم کھائے جا رہا ہے لیکن غم کے پردہ میں اسلامی دشمنی ہے ۔ مذہب سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے ان کی اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہوچکا ہے ۔انکے نزدیک اسلامی لباس یا پردہ ہی قابل اعتراض نہیں بلکہ یہ اسلام کے مقدسوں پر بھی کیچڑ اُچھالنے سے باز نہیں آ تے۔ یہ مختلف قسم کے شوشے چھوڑ کر یورپ میں مقیم مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی سازش تیار کرچکے ہیں۔
مغربی اقوام دنیا کے لہولہب میں اس قدر غرق ہوچکی ہے کہ ان قو مو ں کے میڈیا اخباروں فلموں، ڈراموں میں یہ مذہب و انبیاء کرام کے وجود کو بھی بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ لوگ مذہب خدا انبیاء پر تمسخر سے اور توہین رسالت ۖ سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسی بیباک مغربی اقوام کے نزدیک مذہبی اقدار بےحقیقت ہو کر رہ گئی ہیں اور خصوصاََ اسلامی اقدار ان کے نزدیک نا قابل برداشت ہیں۔ گویا رفتہ رفتہ یورپی قوانین مسلم اقوام کی ضمیر کی آزادی " مذہبی آزادی کو چھین لینے کے درپہ ہیں ۔
فرانس میں عورتوں کا سکارف بعض تعلیمی اداروں یا دفاتر جیسی جگہوں پر انکا قانون ( سکارف تک کی ) اجازت نہیں دیتا ۔اور کلچر ( ڈھونگ) تصادم کے نام پر ہالینڈ میں بھی پبلک مقام پر برقعہ پہننے کی پابندی لگ چکی ہے ۔ اور جرمنی میں سولہ میں آٹھ صوبوں میں پبلک مقامات اور سرکاری ملازم کو دفتری اوقات میں حجاب پر پابندی موجود ہے ۔لیکن اس کے باوجود یورپ کی بیشتر حکومتیں اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد میں دخل اندازی کئے بغیر اہل مشرق (مسلمان شہریوں )کو مملکت کا برابر کا شہری سمجھتے ہوئے ملک کی یکجہتی کو قائم کرکے ملکی ترقی میں مسلمانوں کو برابر کا شریک دیکھنا چاہتی ہے۔
لیکن بعض مغربی ملکوں کے سیاسی و سماجی اداروں کی طرف بظاہر کلچرتصادم کا ڈرامہ رچایا گیا ہے لیکن اس کے پس پردہ ان کے اسلامی دشمنی کے بد ارادے ہیں اور بعض یورپی ملک میں مذہبی عقائد کی مذہبی آزادی میں یہ صریحاََ دخل اندازی کا خطرناک رحجان چل نکلا ہے ۔ اور اسلامی پردہ کی فطرتی تعلیم کو جبر پر مبنی تعلیم قرار دے کر ایسا ایشو اُٹھا کر یورپی معاشرہ میں اسلام کے خلاف نفرتوں کے بیج بوئے جا رہے ہیں گویا اسلام کو غیر فطرتی غیر معقول مذہب قرار دینے کی یہ سازش ہے۔
اس خطرناک رحجان و اقدامات کے خلاف یورپ میں یا اسلامی حکومتوں میں اسلام کا درد رکھنے والے ہر مسلمان کے لئے نظریاتی جہاد کی ضرورت ہے ۔ تا کہ مغربی قوموں کے عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ اسلام کی تعلیم مین لا اکراہ فی الدین کے اعلان کے مطابق اسلام میں کسی قسم کا جبر نہیں۔ اس لئے جو عورت اپنے فطرتی حیاء ( یعنی با پردہ لباس میں اپنی زینتوں اور جنسی خطوط کو پس پردہ رکھنا چاہتی ہیں ) اور اپنی عزت عصمت کا شعور رکھتی ہے گویا وہ باپردہ لباس میں ملبوس ہونا ضروری سمجھتی ہے ۔ اور جو عورت پردہ کو غیر ضروری پابندی سمجھتی ہے اس پر کسی قسم کی جبر کی تلوار مسلط نہیں۔ کیونکہ لا اکراہ فی الدین ۔ یعنی دین میں کسی قسم کا جبر روا کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ با پردہ لباس تو جبر نہیں بلکہ عورت کی فطرتی پاکیزگی کا محافظ ہے۔
ہر فہیم انسان نفس امارہ کے جوشوں سے باخبر ہے۔ ان شہوانی جوشوں کے پیش نظر عورت کے لئے باپردہ لباس و حجاب کو ضروری قرار دیا گیا تاکہ عورت مرد ہر قسم کی جنسی بے راہ رو ی سے بچ کر رہیں اور خدا کے احکام کی روگردانی سے بچ سکیں ۔ ۔ اسلامی پردہ میں لباس کے ساتھ ساتھ انسان کی گھریلو معاشرتی زندگی کیلئے اعلیٰ درجہ کی ہدایات پائی جاتی ہیں جو ہر پہلو سے معاشرہ کیلئے عافیت کا حصار کا کام دیتیں ہیں ۔گویا اسلامی پردہ مرد کے عورت کی صنفوں کے تقاضو ں کے مطابق دونوں کے لئے ہے یعنی مرد عورت دونوں کو غص البصرنگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے تو عورت کی صنف نازک کو اپنی زینتوں کو چھپانے کے لئے اسلامی پردہ کا حکم ہے ۔ گویا مختصراََ یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کا ایسی جگہوں اور محفلوں یعنی مخلوط مکسڈ پارٹیز سے پرہیز کرنا جہاں بے حیائی کے فروغ کا احتمال ہو " نیز روزمرہ گھریلو اور معاشرتی زندگی میں اپنی زینتوں کو غیر محرموں پر ظاہر نہ کرتے ہوئے ایسے طریقے انداز اختیار کرنا کہ جن سے معاشرہ میں عفت پاکدامنی کے قیام میں مدد ملے ۔ سورة النور میں فرمایا "" مومن عورتیں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینتوں کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو اور اپنی اُوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اس کو ڈھانک کر پہنا کریں ۔ "" دراصل اسلامی پردہ میں جبر نہیں بلکہ عورت کی نسوانیت اور فطرتی حیاء کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی جنسی خطوط کی زینتوں کو چھپا کر رکھے یہی اسلامی پردہ ہے۔
پردہ عورت کی آزادی پر کوئی غیرضروری قدغن نہیں بلکہ مرد عورت کے جسمانی اعضاء کی تخلیقی و فطرتی فرق کیوجہ سے ان کا دائرہ کار بھی الگ الگ اور ان کی ذمہ داریوں کا الگ الگ تعین کیا گیا ہے اُن کے مناسب حال ہی ان کو صلاحتیں دی گئی ہیں ان دونوں قسم کی بنیادی ذمہ داریوں کی تقسیم کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ عورت گھر میں مقید ہو کر رہ جائے بلکہ یہ دونوں ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے فرائض میں ممکنہ حد تک مدد بھی دے سکتے ہیں ۔ اور دونوں کا بوقت ضرورت معاشرتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا بھی مانع نہیں ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ عورت مرد کی نسبت زیادہ جاذب نظر ہے اور اسی طرح عورت کے اندر اپنے حُسن کی نمائش مرد کی نسبت کہیں زیادہ پائی جاتی ہے جس کی تکمیل وہ میک اپ کے ذریعہ اپنے آپ کو زیادہ جاذب نظر بنا کر مختصر لباس پہن کر کرتی ہے۔ یاد رہے یہ قدرتی جذبہ اگرچہ دنیا کی تمام عورتوں میں مشترک ہے ۔ چنانچہ مرد اپنے فطرتی تقاضوں کے تحت عورت کے حسن کی خوبصورتی اس کے بے حجاب حسن کی کشش کی طرف مائل ہوتا ہے اور مرد ہی عورت کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور ناجائز تعلقات قائم کرنے کی ترغیب میں مرد ہی پہل کرتا ہے ۔اسلام نے عورت کی عصمت عفت پاکیزگی عزت کی خصوصی حفاظت کے لئے عورت کو پردہ کا حکم دیا۔ لیکن لا اکراہ الدین کی تعلیم بھی ساتھ دی کہ دین میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں تو پھر عورت پر بھی کوئی جبر نہیں کہ اس کو پردہ کی پابندی زبردستی کروائی جائے۔
لیکن اس کے باوجود بعض یورپی ممالک میں اسلامی پردہ بھی قانون کی زد میں آچکا ہے۔ گویا اب یورپ کے مسلما نوں کیلئے یہ دوسرا بڑا مسئلہ حجاب ہے ۔ لیکن حجاب پر قانونی قدغن یورپی ملکوں کے مستقبل کے لئے سود مند نہیں ۔ ان خطرات کو بھانپتے ہوئے جرمن ادارے تحقیقی کام اور جائزہ رپورٹ بنانے میں متحرک ہیں ۔
لیکن ہم مسلما نوں کی طرف سے ایسے مسائل کے حل کیلئے اجتماعی سوچ یا کوشش کی کوئی تدابیر نظر نہیں آرہی ہیں۔ گویا عالم اسلام کے دانشوروں " سیاستدانوں حکمرانوں نے یورپ میںمقیم مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت کو معمولی مسئلہ سمجھا ہوا ہے ۔ اسی لئے عالم اسلام نے اس کا نوٹس نہیں لیا ہے ۔عالم اسلام کو یورپی ملکوں میں مذہبی آزادیوں پر قدغن لگانے کے قوانین کا نوٹس لینا چاہیے بصورت دیگر کل کلاں اسلام سے بغض کیوجہ سے مشرقی عورت کا لباس (شلوار قمیص) بھی مغربی قوموں کے کلچر تصادم یا قانون کی زد میں آ سکتا ہے ۔ کوئی بعید نہیں کہ یورپی قومیں ہمیشہ کی طرح ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں " کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دل آزاری ہو ۔
ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہے ہو سکتا ہے کہ قانوناََ مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندیاں لگانے کی کوشش کی جائے ۔ بہرحال قطع نظر اس کے یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں ۔ یورپ میں مقیم مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد اتفاق یکجہتی کے اوصاف پیدا کرنے چاہیں اور اپنے رویے " اسلامی تعلیم اور اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے چاہیے ۔
تحریر: شیخ عبدالمجید، جرمنی
پیشکش: سکینہ از تبیان