حجاب- مغربی ممالک کا ہدف کیوں؟؟

نگار ف

محفلین
مغربی دنیا کی مذہب سے دوری کے فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی مذہب سے عدم دلچسپی اور لا تعلقی نے مذہب کی جگہ ان کے کلچر اور تہذیب نے لے لی ہے ۔ ۔یورپ میں عیسائیت کی بنیادی تعلیم تو مسخ شدہ عیسائیت میں پہلے ہی دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ لیکن مذہب سے عملاََ لاتعلقی نے اور ان کی اخلاق سے عاری تہذیب نے بے حیائی و بدکاری کے بہت سے گل کھلائے ہیں ۔ گویا یورپ میں اب مسخ شدہ عیسائی مذہب کی بھی چند مذہبی رسومات باقی ہیں۔ اور ان کی تمدنی ترقی نے جو مادہ پرست تہذیب پیدا کی ہے گویا مذہب کی جگہ یہ اپنی تہذیب کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں ۔ مذہبی اخلاق اور عام نیک اقدار سے عاری اپنی مادر پدر آزاد تہذیب کی پیروی کرنے والے یورپ میں مذہب بے حقیقت ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور عیسائی مذہب کی بنیادی تعلیم کی نیک اقدار بھی لادینی تہذیب کے تابع ہو کر رہ گئی ہیں ۔ مغربی اقوام اخلاق باختہ ہو چکی ہیں ۔ کیونکہ ان کی تہذیب میں آزادی کے نام پر بے حیائیاں اختیا ر کی جارہی ہیں۔ اسی لئے مغربی سوسائیٹی میں کوئی اخلاقی سماجی قدغن نہیں ۔ اپنے لئے یہ لوگ بڑے حساس ہیں . لباس کا معاملہ آئے تو کہتے ہیں کہ ہم جیسے کپڑ ے پہنیں" چاہیں تو ننگے پھریں لیکن دوسری طرف یہ مسلمان عورتوں کے حجاب یا سکارف پر بھی معترض ہیں ۔ گویا اہل یورپ کے نزدیک ان کے کلچر و تہذیب کا تقاضا ہے کہ اہل مشرق جو یورپ میں مقیم ہیں وہ اپنی اسلامی تہذیبی اقدار کو ترک کرکے ہمارے کلچر رہن سہن کو اپنائیں۔ بصور ت دیگر یورپ میں مقیم بالخصوص خواتین کا باپردہ لباس نسلی منافرت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔
بعض مشرقی( مسلمان ) خاندان جو تقریباََ ایک صدی سے یورپ میں رہائیشی ہیں۔ لیکن وہ کبھی تہذیبی تصادم کے مسئلہ سے دوچار نہیں ہوئے کیونکہ یورپی اقوام نے " " حجاب یا سکارف " اور تہذیبوں کے تصادم کا مسئلہ ایک صدی کے بعد اُٹھایا ہے ۔ اس سے قبل مشرقی کلچر لباس ان کے قانون کی نظر میں قابل برداشت تھا ۔ گویا اب تو یورپ کے بعض ممالک میں مشرقی عورت کی فطرتی حیاء کے تقاضے بھی ان کے سیکولر قانون کی ذد میں ہیں۔ یورپ کے بعض ممالک میں بعض جگہوں اداروں میں ان کے قانون کی نظر میں مشرقی عورت کو یہ اجازت نہیں ایسے با حیاء لباس سکارف چادر یا پردہ میں خود کو ملبوس کرسکے ۔ کیونکہ ایسا باپردہ لباس (بعض اداروں میں) قانون کی نظر میں ان کے کلچر سے متصا دم سمجھا جانے لگا ہے۔
مغربی ا خباروں انکے میڈیا پر مسلمان عورت کے باحیاء لباس یا پردہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اوراسلام کو پسماندہ تنگ نظر مذہب کا الزام دیا جا رہا ہے ۔اسلام کی تعلیم پر یہ معترض ہیں کہ فطرت نے عورت پر حیاء کے لباس یا پردہ جیسی کوئی قدغن نہیں لگائی لیکن اسلام نے عورت کی آزادی پر اسلامی پردہ کی یہ غیر ضروری قدغن لگائی ہے جو ہمارے لئے نا قابل برداشت ہے ۔ دراصل یورپ کے اخباروں اور میڈیا میں جو کلچر تصادم مسئلے کا چرچا ہے ۔ دراصل یہ کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ مسئلہ ان کا خود کا پیدا کردہ ہے اور ان کے پیدا کردہ مسئلہ کے درپردہ ان کے کلچر کی بجائے ان کے سیاسی عزائم ہیں۔
ان کی تہذیب یا کلچر کو عورت کے حیاء دار لباس حجاب یا سکارف سے کیا خطرہ لا حق ہوسکتا ہے ۔ اصل بات کلچر تصادم یا نسلی منافرت کا انہیں خدشہ نہیں بلکہ یہ سیاسی مسئلہ ان کے پیدا کردہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ بلکہ حقیقت میں ان کا مقصد اسلام دشمنی ہے۔ کیونکہ مغربی اقوام مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی پردہ کی پابندی سے بد دل کرنا چاہتی ہیں ۔ حالا نکہ خود ان کے پاس مذہب نہیں اور اس لئے مذہبی نیک اقدار ان کی نظر میں کھٹکتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے انسان (یعنی عیسیٰ علیہ السلام نبی) کو خدا بنا لیا ہے اور رفتہ رفتہ انہوں نے غیر فطرتی غیر معقول بگڑے ہوئے عیسائی مذہب سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ہے بظاہر ان قوموں کو فقط کلچر کا غم کھائے جا رہا ہے لیکن غم کے پردہ میں اسلامی دشمنی ہے ۔ مذہب سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے ان کی اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہوچکا ہے ۔انکے نزدیک اسلامی لباس یا پردہ ہی قابل اعتراض نہیں بلکہ یہ اسلام کے مقدسوں پر بھی کیچڑ اُچھالنے سے باز نہیں آ تے۔ یہ مختلف قسم کے شوشے چھوڑ کر یورپ میں مقیم مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی سازش تیار کرچکے ہیں۔
مغربی اقوام دنیا کے لہولہب میں اس قدر غرق ہوچکی ہے کہ ان قو مو ں کے میڈیا اخباروں فلموں، ڈراموں میں یہ مذہب و انبیاء کرام کے وجود کو بھی بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ لوگ مذہب خدا انبیاء پر تمسخر سے اور توہین رسالت ۖ سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسی بیباک مغربی اقوام کے نزدیک مذہبی اقدار بےحقیقت ہو کر رہ گئی ہیں اور خصوصاََ اسلامی اقدار ان کے نزدیک نا قابل برداشت ہیں۔ گویا رفتہ رفتہ یورپی قوانین مسلم اقوام کی ضمیر کی آزادی " مذہبی آزادی کو چھین لینے کے درپہ ہیں ۔
فرانس میں عورتوں کا سکارف بعض تعلیمی اداروں یا دفاتر جیسی جگہوں پر انکا قانون ( سکارف تک کی ) اجازت نہیں دیتا ۔اور کلچر ( ڈھونگ) تصادم کے نام پر ہالینڈ میں بھی پبلک مقام پر برقعہ پہننے کی پابندی لگ چکی ہے ۔ اور جرمنی میں سولہ میں آٹھ صوبوں میں پبلک مقامات اور سرکاری ملازم کو دفتری اوقات میں حجاب پر پابندی موجود ہے ۔لیکن اس کے باوجود یورپ کی بیشتر حکومتیں اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد میں دخل اندازی کئے بغیر اہل مشرق (مسلمان شہریوں )کو مملکت کا برابر کا شہری سمجھتے ہوئے ملک کی یکجہتی کو قائم کرکے ملکی ترقی میں مسلمانوں کو برابر کا شریک دیکھنا چاہتی ہے۔
لیکن بعض مغربی ملکوں کے سیاسی و سماجی اداروں کی طرف بظاہر کلچرتصادم کا ڈرامہ رچایا گیا ہے لیکن اس کے پس پردہ ان کے اسلامی دشمنی کے بد ارادے ہیں اور بعض یورپی ملک میں مذہبی عقائد کی مذہبی آزادی میں یہ صریحاََ دخل اندازی کا خطرناک رحجان چل نکلا ہے ۔ اور اسلامی پردہ کی فطرتی تعلیم کو جبر پر مبنی تعلیم قرار دے کر ایسا ایشو اُٹھا کر یورپی معاشرہ میں اسلام کے خلاف نفرتوں کے بیج بوئے جا رہے ہیں گویا اسلام کو غیر فطرتی غیر معقول مذہب قرار دینے کی یہ سازش ہے۔
اس خطرناک رحجان و اقدامات کے خلاف یورپ میں یا اسلامی حکومتوں میں اسلام کا درد رکھنے والے ہر مسلمان کے لئے نظریاتی جہاد کی ضرورت ہے ۔ تا کہ مغربی قوموں کے عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ اسلام کی تعلیم مین لا اکراہ فی الدین کے اعلان کے مطابق اسلام میں کسی قسم کا جبر نہیں۔ اس لئے جو عورت اپنے فطرتی حیاء ( یعنی با پردہ لباس میں اپنی زینتوں اور جنسی خطوط کو پس پردہ رکھنا چاہتی ہیں ) اور اپنی عزت عصمت کا شعور رکھتی ہے گویا وہ باپردہ لباس میں ملبوس ہونا ضروری سمجھتی ہے ۔ اور جو عورت پردہ کو غیر ضروری پابندی سمجھتی ہے اس پر کسی قسم کی جبر کی تلوار مسلط نہیں۔ کیونکہ لا اکراہ فی الدین ۔ یعنی دین میں کسی قسم کا جبر روا کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ با پردہ لباس تو جبر نہیں بلکہ عورت کی فطرتی پاکیزگی کا محافظ ہے۔
ہر فہیم انسان نفس امارہ کے جوشوں سے باخبر ہے۔ ان شہوانی جوشوں کے پیش نظر عورت کے لئے باپردہ لباس و حجاب کو ضروری قرار دیا گیا تاکہ عورت مرد ہر قسم کی جنسی بے راہ رو ی سے بچ کر رہیں اور خدا کے احکام کی روگردانی سے بچ سکیں ۔ ۔ اسلامی پردہ میں لباس کے ساتھ ساتھ انسان کی گھریلو معاشرتی زندگی کیلئے اعلیٰ درجہ کی ہدایات پائی جاتی ہیں جو ہر پہلو سے معاشرہ کیلئے عافیت کا حصار کا کام دیتیں ہیں ۔گویا اسلامی پردہ مرد کے عورت کی صنفوں کے تقاضو ں کے مطابق دونوں کے لئے ہے یعنی مرد عورت دونوں کو غص البصرنگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے تو عورت کی صنف نازک کو اپنی زینتوں کو چھپانے کے لئے اسلامی پردہ کا حکم ہے ۔ گویا مختصراََ یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کا ایسی جگہوں اور محفلوں یعنی مخلوط مکسڈ پارٹیز سے پرہیز کرنا جہاں بے حیائی کے فروغ کا احتمال ہو " نیز روزمرہ گھریلو اور معاشرتی زندگی میں اپنی زینتوں کو غیر محرموں پر ظاہر نہ کرتے ہوئے ایسے طریقے انداز اختیار کرنا کہ جن سے معاشرہ میں عفت پاکدامنی کے قیام میں مدد ملے ۔ سورة النور میں فرمایا "" مومن عورتیں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینتوں کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو اور اپنی اُوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اس کو ڈھانک کر پہنا کریں ۔ "" دراصل اسلامی پردہ میں جبر نہیں بلکہ عورت کی نسوانیت اور فطرتی حیاء کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی جنسی خطوط کی زینتوں کو چھپا کر رکھے یہی اسلامی پردہ ہے۔
پردہ عورت کی آزادی پر کوئی غیرضروری قدغن نہیں بلکہ مرد عورت کے جسمانی اعضاء کی تخلیقی و فطرتی فرق کیوجہ سے ان کا دائرہ کار بھی الگ الگ اور ان کی ذمہ داریوں کا الگ الگ تعین کیا گیا ہے اُن کے مناسب حال ہی ان کو صلاحتیں دی گئی ہیں ان دونوں قسم کی بنیادی ذمہ داریوں کی تقسیم کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ عورت گھر میں مقید ہو کر رہ جائے بلکہ یہ دونوں ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے فرائض میں ممکنہ حد تک مدد بھی دے سکتے ہیں ۔ اور دونوں کا بوقت ضرورت معاشرتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا بھی مانع نہیں ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ عورت مرد کی نسبت زیادہ جاذب نظر ہے اور اسی طرح عورت کے اندر اپنے حُسن کی نمائش مرد کی نسبت کہیں زیادہ پائی جاتی ہے جس کی تکمیل وہ میک اپ کے ذریعہ اپنے آپ کو زیادہ جاذب نظر بنا کر مختصر لباس پہن کر کرتی ہے۔ یاد رہے یہ قدرتی جذبہ اگرچہ دنیا کی تمام عورتوں میں مشترک ہے ۔ چنانچہ مرد اپنے فطرتی تقاضوں کے تحت عورت کے حسن کی خوبصورتی اس کے بے حجاب حسن کی کشش کی طرف مائل ہوتا ہے اور مرد ہی عورت کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور ناجائز تعلقات قائم کرنے کی ترغیب میں مرد ہی پہل کرتا ہے ۔اسلام نے عورت کی عصمت عفت پاکیزگی عزت کی خصوصی حفاظت کے لئے عورت کو پردہ کا حکم دیا۔ لیکن لا اکراہ الدین کی تعلیم بھی ساتھ دی کہ دین میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں تو پھر عورت پر بھی کوئی جبر نہیں کہ اس کو پردہ کی پابندی زبردستی کروائی جائے۔
لیکن اس کے باوجود بعض یورپی ممالک میں اسلامی پردہ بھی قانون کی زد میں آچکا ہے۔ گویا اب یورپ کے مسلما نوں کیلئے یہ دوسرا بڑا مسئلہ حجاب ہے ۔ لیکن حجاب پر قانونی قدغن یورپی ملکوں کے مستقبل کے لئے سود مند نہیں ۔ ان خطرات کو بھانپتے ہوئے جرمن ادارے تحقیقی کام اور جائزہ رپورٹ بنانے میں متحرک ہیں ۔
لیکن ہم مسلما نوں کی طرف سے ایسے مسائل کے حل کیلئے اجتماعی سوچ یا کوشش کی کوئی تدابیر نظر نہیں آرہی ہیں۔ گویا عالم اسلام کے دانشوروں " سیاستدانوں حکمرانوں نے یورپ میںمقیم مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت کو معمولی مسئلہ سمجھا ہوا ہے ۔ اسی لئے عالم اسلام نے اس کا نوٹس نہیں لیا ہے ۔عالم اسلام کو یورپی ملکوں میں مذہبی آزادیوں پر قدغن لگانے کے قوانین کا نوٹس لینا چاہیے بصورت دیگر کل کلاں اسلام سے بغض کیوجہ سے مشرقی عورت کا لباس (شلوار قمیص) بھی مغربی قوموں کے کلچر تصادم یا قانون کی زد میں آ سکتا ہے ۔ کوئی بعید نہیں کہ یورپی قومیں ہمیشہ کی طرح ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں " کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دل آزاری ہو ۔

ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہے ہو سکتا ہے کہ قانوناََ مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندیاں لگانے کی کوشش کی جائے ۔ بہرحال قطع نظر اس کے یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں ۔ یورپ میں مقیم مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد اتفاق یکجہتی کے اوصاف پیدا کرنے چاہیں اور اپنے رویے " اسلامی تعلیم اور اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے چاہیے ۔

تحریر: شیخ عبدالمجید، جرمنی
پیشکش: سکینہ از تبیان
 

عسکری

معطل
وہ مغربی طالبان ہیں جیسے ہمارے یہاں مشرقی ۔ یورپ والے عورت کو برہنہ اور ہمارے والے قید خانے میں بند کرنے کے درپے ہیں ۔ دونوں ہی قابل مذمت اور حیوانیت کا شکار ہیں ۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
وہ مغربی طالبان ہیں جیسے ہمارے یہاں مشرقی ۔ یورپ والے عورت کو برہنہ اور ہمارے والے قید خانے میں بند کرنے کے درپے ہیں ۔ دونوں ہی قابل مذمت اور حیوانیت کا شکار ہیں ۔
قید خانہ کیا ہوتا ہے وضاحت طلب بات ہے
اس کہانی میں طالبان کہاں سے آگئے بات یورپ کی ہورہی تھی۔
بات تو حدف کی ہورہی ہے۔ وہ بھی مغربی الرجی۔
ان کے نن پہنے تو پاک ، مسلمان پہنے تو دہشت گرد۔
 

عسکری

معطل
قید خانہ کیا ہوتا ہے وضاحت طلب بات ہے
اس کہانی میں طالبان کہاں سے آگئے بات یورپ کی ہورہی تھی۔
بات تو حدف کی ہورہی ہے۔ وہ بھی مغربی الرجی۔
ان کے نن پہنے تو پاک ، مسلمان پہنے تو دہشت گرد۔
وہی جس کی وجہ سے ہمارے سینکڑوں سکول اڑا دیے گئے تو کہیں ہمارے ملک کی بچیوں کو دھمکایا جا رہا ہے تو کہیں تیزاب تک پھینکا جا رہا ہے اور کیا ۔
کیونکہ وہ بھی طالبان ہیں لبرل طالبان ۔ مجھے ان پر زیادہ غصہ آتا ہے کیونکہ وہ پڑھے لکھے سمجھدار ہو کر ایسا کرتے ہیں ہمارے طالبان تو جاھل گنوار جنگلی ہیں چلو ۔نن کو بھی گولی مارو ہماری کونسی چاچی لگتی ہے :mrgreen:
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
وہی جس کی وجہ سے ہمارے سینکڑوں سکول اڑا دیے گئے تو کہیں ہمارے ملک کی بچیوں کو دھمکایا جا رہا ہے تو کہیں تیزاب تک پھینکا جا رہا ہے اور کیا ۔
کیونکہ وہ بھی طالبان ہیں لبرل طالبان ۔ مجھے ان پر زیادہ غصہ آتا ہے کیونکہ وہ پڑھے لکھے سمجھدار ہو کر ایسا کرتے ہیں ہمارے طالبان تو جاھل گنوار جنگلی ہیں چلو ۔نن کو بھی گولی مارو ہماری کونسی چاچی لگتی ہے :mrgreen:
ویسے تیزاب والے کیسز تو محبت میں ناکام لفنگوں کو کام ہوتا ہے اور ہمیشہ ٹی وی پر ایسی ہیں خبریں ہوتی ہے۔
اگر لڑکی پردے میں نکلتی تو شاید کوئی لفنگا دل نہیں پھینگتا۔ پھر نہ لڑکی کو انکار کرنا ہوتا نہ تیزا ب کی بوتل ہوتی۔
 

عسکری

معطل
ویسے تیزاب والے کیسز تو محبت میں ناکام لفنگوں کو کام ہوتا ہے اور ہمیشہ ٹی وی پر ایسی ہیں خبریں ہوتی ہے۔
اگر لڑکی پردے میں نکلتی تو شاید کوئی لفنگا دل نہیں پھینگتا۔ پھر نہ لڑکی کو انکار کرنا ہوتا نہ تیزا ب کی بوتل ہوتی۔
آپ نے وہ سنا نہیں پھر ؟
http://tribune.com.pk/story/450686/militants-attack-shia-students-with-guns-acid-in-kurram/
 

نگار ف

محفلین
قید خانہ کیا ہوتا ہے وضاحت طلب بات ہے
اس کہانی میں طالبان کہاں سے آگئے بات یورپ کی ہورہی تھی۔
بات تو حدف کی ہورہی ہے۔ وہ بھی مغربی الرجی۔
ان کے نن پہنے تو پاک ، مسلمان پہنے تو دہشت گرد۔
جہاں اقدار اسلام کو منہدم کرنے کی بات آئے وہ مغرب ہو یا مشرقی طالبان دونوں ہی قابل مذمت ہیں
 

نگار ف

محفلین
اس خبر کو جب ہم نے ملالہ والی لڑی میں بیان کی تھی تو ہمارے کچھ احباب برا مان گئے تھے :battingeyelashes:
خیر نبیلہ ہو ملالہ ہو یا کنزہ۔۔۔۔ ہم یہاں بات کر رہے ہیں ایک خاص قسم کی ذہنیت کی جو شعائر اسلام کو نقصان پہنجا رہا ہے
 

عسکری

معطل
اس خبر کو جب ہم نے ملالہ والی لڑی میں بیان کی تھی تو ہمارے کچھ احباب برا مان گئے تھے :battingeyelashes:
خیر نبیلہ ہو ملالہ ہو یا کنزہ۔۔۔ ۔ ہم یہاں بات کر رہے ہیں ایک خاص قسم کی ذہنیت کی جو شعائر اسلام کو نقصان پہنجا رہا ہے
بلکہ انسانیت کو اپنی مرضی سے چلانے کی خواہش یا اپنے عقائد دوسروں پر تھوپنے کا جنون
 

باباجی

محفلین
جزاک اللہ

بہت اچھی موضوع ہے یہ
محمد قادی علی بھائی نے کیا خوب بات کی
کہ عیسائی نن پہنے تو ان کا مذہبی معاملہ ہے
مسلم عورت پہنے تو کلچر کا مسئلہ ہے

وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہی ننس کو اسقاط حمل کی دوائیں دی جاتی ہیں
کیونکہ وہ اپنے ہی مذہبی ٹھیکیدار پادریوں کی جنسی تسکین کا ذریعہ ہوتی ہیں

اور یہاں قرآنی ریفرنس بھی دیا گیا ہے
اور ثابت ہے کہ کتابِ زندگی کی کوئی بات بلا وجہ نہیں ہے
اس کو مسلم و غیر مسلم سب سے ہر طریقے سے پرکھا اور آخر کار مان لیا

بجائے اس کے کہ ہم لوگ طالبان و غیر طالبان کی بات کریں
کیوں نہ پردہ و ستر پوشی کے فوائد پر غور کریں
کیونکہ پردہ و ستر پوشی کا کوئی نقصان نہیں صرف فائدہ ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ویسے تیزاب والے کیسز تو محبت میں ناکام لفنگوں کو کام ہوتا ہے اور ہمیشہ ٹی وی پر ایسی ہیں خبریں ہوتی ہے۔
اگر لڑکی پردے میں نکلتی تو شاید کوئی لفنگا دل نہیں پھینگتا۔ پھر نہ لڑکی کو انکار کرنا ہوتا نہ تیزا ب کی بوتل ہوتی۔
معذرت کے ساتھ۔ تیزاب کے کیسز میں بہت سی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی مسلم خاتون کو پردے سے ہر گز انکار نہیں ہونا چاہئیے لیکن پلیز اس بات کو مردوں کی غلط حرکات کی جسٹیفیکیشن نہ بنائیں۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
14275_525605607468004_1904057849_n.jpg
 

نگار ف

محفلین
جزاک اللہ

بہت اچھی موضوع ہے یہ
محمد قادی علی بھائی نے کیا خوب بات کی
کہ عیسائی نن پہنے تو ان کا مذہبی معاملہ ہے
مسلم عورت پہنے تو کلچر کا مسئلہ ہے

وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہی ننس کو اسقاط حمل کی دوائیں دی جاتی ہیں
کیونکہ وہ اپنے ہی مذہبی ٹھیکیدار پادریوں کی جنسی تسکین کا ذریعہ ہوتی ہیں

اور یہاں قرآنی ریفرنس بھی دیا گیا ہے
اور ثابت ہے کہ کتابِ زندگی کی کوئی بات بلا وجہ نہیں ہے
اس کو مسلم و غیر مسلم سب سے ہر طریقے سے پرکھا اور آخر کار مان لیا

بجائے اس کے کہ ہم لوگ طالبان و غیر طالبان کی بات کریں
کیوں نہ پردہ و ستر پوشی کے فوائد پر غور کریں
کیونکہ پردہ و ستر پوشی کا کوئی نقصان نہیں صرف فائدہ ہے

جی بلکل بجا فرمایا! حجاب کی اہمیت کے حوالے سے کلام الٰہی سے حوالہ جات اور آیات ملاحظہ کیجئے
(۱) قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ إِنَّ اللہ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِینَتَہُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلاَیَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَتُوْبُوا إِلَی اللہ جَمِیْعًا أَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
آپ مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے۔اور مومنہ عورتوں سے بھی دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کر یں اوراپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اوراپنی زیبائش کی جگہوں کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں آبا ء شوہر کے آبا ء اپنے بیٹوں، شوہر کے بیٹوں اپنے بھائیوں بھائیوں کے بیٹوں بہنوں کے بیٹوں اپنی ہم صنف عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ا ن بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی بات سے واقف نہ ہوں اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ چلتے ہوئے اپنے پاوٴں زور سے نہ رکھیں کہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے ۔اور اے مومنو سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو امید ہے کہ تم فلاح پا وٴ گے ۔ (سورہ نور :۳۰،۳۱)
(۲ ) یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنٰی أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَیُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللہ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ اے نبی! اپنی ازواج اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں ۔ یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا ۔ پھرکوئی انہیں اذیت نہیں دے گا ۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے ۔ (سورہ احزاب :۵۹)
(۳) وَإِذَا سَأَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ ۔ اور جس وقت وسائل زندگی میں سے کوئی چیز عاریتاً ان رسول کی بیویوں سے طلب کرو درمیان میں پردہ حائل ہونا چاہیے یہ کا م تمہارے اور انکے دلوں کو زیادہ پاک رکھتاہے۔ ( سورہ احزاب :۵۳)
(۴) وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُوْلَی ۔ اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو ۔ ( سورہ احزاب :۳۳)
(۵) وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللاَّ تِیْ لاَیَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ م بِزِیْنَةٍ وَأَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ وَاللہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ اور جو عورتیں ضعف السنی کی وجہ سے گھروں میں خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے حجاب کے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ۔ تاہم عفت کاپاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے ۔ ( سورہ نور:۶۰)

پردہ ہر زمانہ میں شافت و عظمت کی نشانی سمجھا جاتا رہاہے اسلام نے اس کاحکم دے کرایک عورت کی عظمت کی حفاظت کی ہے ۔ پردہ چادر برقعہ دو پٹہ غرضیکہ ایسا کپڑ ا جس سے عورت کا بدن اور اس کے بال نظر نہ آئیں ۔

۱)حکم ہے کہ نرم لہجہ میں ہنستے ہوئے غیر مردسے بات نہ کریں ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے :

فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔ نرم لہجہ میں بات نہ کرو کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔ ( سورہ احزاب : ۳۲ )

۲) میک اپ بن سنور کا بازار یاباہر کسی جگہ جاناممنوع ،زینت صرف شوہر وں کے لیے ہونا چاہیے۔ہاں محرموں کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں۔وَلاَیُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِہِنَّ ۔ اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر شوہر وں اور محروں کے لئے ۔(سورہ نور:۳۱)
۳) چلتے ہوئے کوئی ایسی علامت نہیں ہونی چاہیے جس سے لوگ متوجہ ہوں مثل پاؤں زور سے مارنا پا زیب یا اس طرح کا زیور جس سے آواز پید اہو پرفیوم عطریات جس سے لوگ خصوصی توجہ شروع کریں ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے : لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ۔ جس سے پوشیدہ زینت ظاہرہو جائے ۔ (سورہ نور:۳۱)
۴)ایسی چادر دوپٹہ اوڑھیں جس سے بدن کے اعضا سینہ گردن بال ظاہر نہ ہوں ۔ ارشاد ِرب العزت ہے : وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ۔ اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش ظاہر نہ ہونے دیں۔(نور:۳۱)

مذید اضافے کے لیے عبدالرزاق قادری صاحب!
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ نگار ف
بہت اعلیٰ اور مدلل تحریر ہے۔ لیکن بات وہ ماننے اور نہ ماننے کی ہے۔ جو کفار ہیں، ان کی تو بات ہی الگ ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے (نام نہاد :) ) مسلمان بھی ایسے ہیں کہ جہاں کہیں قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قرآن و حدیث) کی بات آئی، ان کا ”موڈ آف“ ہوجاتا ہے۔ اور وہ شعائراسلام اور اسلامی تعلیمات کو ”طالبان، القاعدہ، مولوی ملا “ کی معرفت برا بھلا کہنے لگتے ہیں :eek:
 
Top