حجاب- مغربی ممالک کا ہدف کیوں؟؟

نگار ف

محفلین
جزاک اللہ نگار ف
بہت اعلیٰ اور مدلل تحریر ہے۔ لیکن بات وہ ماننے اور نہ ماننے کی ہے۔ جو کفار ہیں، ان کی تو بات ہی الگ ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے (نام نہاد :) ) مسلمان بھی ایسے ہیں کہ جہاں کہیں قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قرآن و حدیث) کی بات آئی، ان کا ”موڈ آف“ ہوجاتا ہے۔ اور وہ شعائراسلام اور اسلامی تعلیمات کو ”طالبان، القاعدہ، مولوی ملا “ کی معرفت برا بھلا کہنے لگتے ہیں :eek:

:) احسنت!
 
تحریر: شیخ عبدالمجید، جرمنی
پیشکش: سکینہ از تبیان



حالا نکہ خود ان کے پاس مذہب نہیں اور اس لئے مذہبی نیک اقدار ان کی نظر میں کھٹکتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے انسان (یعنی عیسیٰ علیہ السلام نبی) کو خدا بنا لیا ہے

مغربی قوموں کے عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ اسلام کی تعلیم مین لا اکراہ فی الدین کے اعلان کے مطابق اسلام میں کسی قسم کا جبر نہیں۔

اس لئے جو عورت اپنے فطرتی حیاء ( یعنی با پردہ لباس میں اپنی زینتوں اور جنسی خطوط کو پس پردہ رکھنا چاہتی ہیں ) اور اپنی عزت عصمت کا شعور رکھتی ہے گویا وہ باپردہ لباس میں ملبوس ہونا ضروری سمجھتی ہے ۔ اور جو عورت پردہ کو غیر ضروری پابندی سمجھتی ہے اس پر کسی قسم کی جبر کی تلوار مسلط نہیں۔ کیونکہ لا اکراہ فی الدین ۔ یعنی دین میں کسی قسم کا جبر روا کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ با پردہ لباس تو جبر نہیں بلکہ عورت کی فطرتی پاکیزگی کا محافظ ہے۔

ہر فہیم انسان نفس امارہ کے جوشوں سے باخبر ہے۔ ان شہوانی جوشوں کے پیش نظر عورت کے لئے باپردہ لباس و حجاب کو ضروری قرار دیا گیا تاکہ عورت مرد ہر قسم کی جنسی بے راہ رو ی سے بچ کر رہیں اور خدا کے احکام کی روگردانی سے بچ سکیں ۔ ۔
پردہ عورت کی آزادی پر کوئی غیرضروری قدغن نہیں بلکہ مرد عورت کے جسمانی اعضاء کی تخلیقی و فطرتی فرق کیوجہ سے ان کا دائرہ کار بھی الگ الگ اور ان کی ذمہ داریوں کا الگ الگ تعین کیا گیا ہے
چنانچہ مرد اپنے فطرتی تقاضوں کے تحت عورت کے حسن کی خوبصورتی اس کے بے حجاب حسن کی کشش کی طرف مائل ہوتا ہے اور مرد ہی عورت کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور ناجائز تعلقات قائم کرنے کی ترغیب میں مرد ہی پہل کرتا ہے ۔اسلام نے عورت کی عصمت عفت پاکیزگی عزت کی خصوصی حفاظت کے لئے عورت کو پردہ کا حکم دیا۔
لیکن لا اکراہ الدین کی تعلیم بھی ساتھ دی کہ دین میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں تو پھر عورت پر بھی کوئی جبر نہیں کہ اس کو پردہ کی پابندی زبردستی کروائی جائے۔
اچھی تحریر ہے۔ لیکن "لا اکراہ فی الدین" کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا۔ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ نے جب عورتوں کے مسجد جانے پر بھی پابندی لگائی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر آج نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو اس فتنے کے دور میں منع فرما دیتے۔ "لا اکراہ فی الدین" دوسرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ آیات کے اطلاق کے باقاعدہ طریقے کار ہیں۔ جس طرح آپ نے نیچے اس پوسٹ میں مجھے ٹیگ کیا وہاں آپ نے خود آیات قرآنی سے بتا دیا تو یہ "اکراہ فی ادین" نہیں بلکہ احکام ہیں۔ حدوداللہ ہیں۔ ان کی تفصیلات پر ان شاءاللہ پھر تفصیلی لکھوں گا۔ شیخ صاحب کی تحریر میں یہ باتیں قابل غور ہیں۔ کہیں کہیں ایک بات کا جواب دوسری بات ہے۔
 
لیکن ہم میں سے بہت سے (نام نہاد :) ) مسلمان بھی ایسے ہیں کہ جہاں کہیں قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قرآن و حدیث) کی بات آئی، ان کا ”موڈ آف“ ہوجاتا ہے۔ اور وہ شعائراسلام اور اسلامی تعلیمات کو ”طالبان، القاعدہ، مولوی ملا “ کی معرفت برا بھلا کہنے لگتے ہیں :eek:
جی پتہ نہیں کیوں
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
 

عسکری

معطل
جزاک اللہ نگار ف
بہت اعلیٰ اور مدلل تحریر ہے۔ لیکن بات وہ ماننے اور نہ ماننے کی ہے۔ جو کفار ہیں، ان کی تو بات ہی الگ ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے (نام نہاد :) ) مسلمان بھی ایسے ہیں کہ جہاں کہیں قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قرآن و حدیث) کی بات آئی، ان کا ”موڈ آف“ ہوجاتا ہے۔ اور وہ شعائراسلام اور اسلامی تعلیمات کو ”طالبان، القاعدہ، مولوی ملا “ کی معرفت برا بھلا کہنے لگتے ہیں :eek:
پہلے ایسا نا تھا جب تک ملائیت نے اپنے رنگ نہیں بکھیرے تھے جناب :laugh: یہ سب کچھ جہالت اور انتہا پسندی کا ہی کارنامہ ہے
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
282249_459096234128544_1091640482_n.jpg
 
Top