حجیتِ حدیث اور شیخ بن باز سے منسوب جعلی خط !!

باذوق

محفلین
السلام علیکم محترم ساتھیو!
شیخ بن باز (رحمة اللہ) کے حوالے سے ایک فتوے کو کئی بار یہاں اردو محفل پر پیش کیا جا چکا ہے۔
جس کی ایک نقل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
نوٹ: اس خط کی سکین شدہ کاپی آپ میری ویب سائٹ پہ دیکھ سکتے ہیں، اصل خط انگریزی میں ہے۔

11 اپریل 1999
مطابق 24 ذی الحجہ، 1419 ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے دینی سرمائے کی حفاظت کے لئے عقاب کی طرح ہوشیار رہنا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ اسلام دشمن عناصر نے ہماری کتابوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ حیرت جب ہوتی اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ ہماری پناہ گا کیا ہے؟ القران۔

اپنی کتاب حضور رسالت مآب صلعم کے اس قول کریم سے شروع کیجئے۔
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

مع السلامۃ ،

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
مفتی اعظم، مملکۃ العربیۃ السعودیۃ

انگریزی ترجمہ: احمد علی المّری، الریاض
نظرثانی: دکتور احمد اے خالد، جدہ
اردو ترجمہ : بریگیڈیر افواج پاکستان، ڈاکٹر شبیر احمد، سابق معالج خاص ملک فیصل- الباکستانی

ہمارا دعویٰ ہے کہ اوپر کے اقتباس میں شیخ بن باز (رحمة اللہ) سے منسوب جو خط لگایا گیا ہے ، وہ ایک جعلی خط ہے !!
اس تھریڈ میں دلائل کے ذریعے اس خط کا جعلی ہونا ثابت کیا جا رہا ہے (اللہ کی توفیق سے)۔
 

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ بات تو مسلّم ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت کا قرآن کریم سے ناقابل انقطاع تعلق ہے ۔
قرآن کریم کو مکمل طور سے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہے ۔
چنانچہ حدیث جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قول ، فعل اور تقریر سے عبارت ہے قرآن کریم کے پہلو بہ پہلو ہدایت انسانی کا دوسرا اہم ترین سر چشمہ ہے ۔ حدیثِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ صرف قرآن مجید کی علمی و عملی شرح و تفسیر ہے بلکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جو انقلاب اس دنیا عالم میں بپا کیا گیاہے، اس کی صحیح ترین عملی تشکیل بھی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی پیش کرتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) دشمنان اسلام کی سازشوں کا مستقل محور رہی ہے ۔ اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہر قسم کے وسائل کو نہ صرف بروئے کار لایا گیا بلکہ جید علماء و محدثین ، جن کی زندگیاں حدیث و سنت کی خدمت و حفاظت میں گزر گئیں ، ان کے اقوال و مقالات میں خیانت کر کے یا مختلف نوعیت کے مہمل سوالات کر کے من پسند جوابات حاصل کئے گئے اور ان کے ذریعہ عوام ا لناس کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔
مثلاً ڈاکٹر شبیر نے اپنی تصنیف "اسلام کے مجرم" میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ و امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب کے حوالے دے کر نا معقول اقوال ان کی طرف منسوب کیے ہیں۔
بالکل یہی حال سماحۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کے فتویٰ کا بھی ہے۔

کوئی بھی ذی شعور مسلمان ، جو حجیتِ حدیث پر ایمان رکھتا ہو ، اس فتویٰ سے اتفاق نہیں کرے گا کہ جس کی نقل ڈاکٹر شبیر نے اپنی کتاب "اسلام کے مجرم" میں دی ہے ۔
کیونکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ تو حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سچے شیدائی تھے اور آپ کی پوری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزری بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ آپ نے قرآن و حدیث کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا ۔

چودہ (14) جلدوں پر مشتمل "فتح الباری شرح صحیح بخاری" کی تصحیح اور بیس (20) مجلدات میں آپ رحمہ اللہ کے فتاویٰ و مقالات اور سینکڑوں کتب اس دعویٰ کی بیّن دلیل ہے۔
یہ نا ممکن ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ صرف قرآن مجید کو تھامے رکھنے کی تلقین کریں اور حدیثِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی شرعی اور قانونی حیثیت نہ دیں ۔
بلکہ آپ تو ایسے لوگوں کو ملحد اور یہود و نصاریٰ کے قبیل میں شمار کرتے تھے کہ جو دین اسلام کی تفہیم کے لئے صرف قرآن مجید کو کافی سمجھتے ہیں ۔

ذیل میں ہم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے اس مقالے سے کچھ اقتباسات نقل کئے دیتے ہیں کہ جو انہوں نے "حجت حدیث" کے سلسلے میں ترتیب دیا تھا۔ تاکہ حق اور باطل کے درمیان فرق واضح ہو جائے۔

[arabic]والأصل الثاني من الأدلة سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة، لدلالة المعجزة على صدقه، ولأمر الله بطاعته، وتحذيره من مخالفة أمره). انتهى المقصود، وقال الحافظ ابن كثير رحمه الله في تفسير قوله تعالى:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
أي: عن أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو سبيله ومنهاجه وطريقته، وسنته وشريعته، فتوزن الأقوال والأعمال بأقواله وأعماله، فما وافق ذلك قبل، وما خالفه فهو مردود على قائله وفاعله كائنا من كان، كما ثبت في الصحيحين وغيرهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد أي: فليخش وليحذر من خالف شريعة الرسول باطنا وظاهرا[/arabic]
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنن و اقوال قطعی حجت ہیں۔ اس لئے کہ :
اولاً : قرآن آپ کے صدق کی گواہی دیتا ہے ۔
ثانیاً: اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا آپ کے حکم کی مخالفت سے لازمی طور پر اجتناب کرنا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ آیت درج ذیل کے تحت فرماتے ہیں :
[arabic]فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ[/arabic]
جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ ان پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے
( سورة النور : 24 ، آیت : 63 )
یہاں امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مراد آپ کا رستہ ، منہج ، طریقہ ، سنت اور شریعت ہے ۔ ہر قسم کے ا قوال اور اعمال کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال و اعمال پر پیش کیا جائے گا اگر ان میں موافقت ہوئی تو اس کو قبول کیا جائے گا اور مخالفت ہوئی تو اسے کہنے اور کرنے والے ہی کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔
اسی طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں ہےکہ :
جس نے کوئی ایسا عمل کیا کہ جس پر ہمارا حکم موجود نہ ہو تو وہ مردود ہے۔
شریعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ظاہر ی اور باطنی مخالفت کرنے والے کو ڈرنا چاہیئے۔
(مجموع الفتاویٰ ومقالات ، جلد:1، صفحہ:163)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ :
[arabic]اعلموا رحمكم الله أن من أنكر أن كون حديث النبي صلى الله عليه وسلم قولا كان أو فعلا بشرطه المعروف في الأصول حجة كفر وخرج عن دائرة الإسلام وحشر مع اليهود والنصارى[/arabic]
جان لو کہ اللہ تم پر رحم کرے کہ جس شخص نے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کسی قولی یا فعلی حدیث کا انکار کیا تو وہ کافرہے اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور قیامت کے روز اس کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
(مجموع الفتاویٰ ومقالات ، جلد:1، صفحہ:220)

ملاحظہ فرمائیں کہ متذکرہ بالا فتویٰ میں تو سماحۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ، حدیث کا انکار کرنے والے پر کفر کا فتویٰ لگائیں اور کوئی ڈاکٹر شبیر احمد یہ بلند بانگ دعویٰ کریں کہ بن باز نے احادیث کی صحت پر شکوک ظاہر کیے ہیں۔
ظاہر ہے ایسے بےبنیاد دعوؤں کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے !

۔۔۔۔ جاری ہے !
 

باذوق

محفلین
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
پہلی بات تو یہ کہ عربی متن اور اردو ترجمے میں مطابقت نہیں ہے۔
درست اردو ترجمہ یوں بنتا ہے :

عربی متن :
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
اردو ترجمہ :
اگر مجھ سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو پھر اگر وہ اس کے موافق و مطابق ہو تو اسے قبول کر لو اور نہ چھوڑو۔

محترم فاروق صاحب نے دراصل ذیل کی روایت کا مفہوم پیش کیا ہے :
[ARABIC]‏إذا روي عني حديث فاعرضوه على كتاب الله فإن وافقه فاقبلوه وإن خالفه فردوه‏[/ARABIC]
جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے ۔۔۔۔۔ اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ردّ کر دیں۔

یہ روایت ان الفاظ یا مفہوم کے ساتھ حدیث کی کسی باسند کتاب میں سند کے ساتھ مروی نہیں ہے بلکہ محض بےاصل اور باطل روایت ہے۔
شیخ محمد طاہر پٹنی ہندی (متوفی:986ھ) نے اس روایت کو اپنی کتاب "تذکرة الموضوعات" میں ذکر کرتے ہوئے اس کو موضوع روایت بتایا ہے۔
آن لائن حوالہ بھی دیکھ لیں :
[ARABIC]تذکرة الموضوعات ، باب رواية الحديث والعمل بالضعيف بحسن الظن فإنه ينفع ولو بالحجر[/ARABIC]

[ARABIC]وفي رسالة علم الحديث ما أورده الأصوليون من قوله: (‏إذا روي عني حديث فاعرضوه على كتاب الله فإن وافقه فاقبلوه وإن خالفه فردوه‏)‏ وقال الخطابي وضعته الزنادقة ويدفعه حديث أني أويت الكتاب وما يعدله (‏ويروى ومثله معه‏)‏ وكذا قال الصغاني‏.[/ARABIC]
اور علم الحدیث میں اصول پرستوں نے اس قول کے بارے میں کہا ہے: ([ARABIC]‏إذا روي عني حديث فاعرضوه على كتاب الله فإن وافقه فاقبلوه وإن خالفه فردوه[/ARABIC]‏)‏ خطابی نے کہا : اس کو زنادقۃ نے گھڑا ہے (نوٹ: وضع کے معنی گھڑنے کے ہیں) اور اس حدیث کے خلاف ہے
"مجھے کتاب دی گئی ہے اور اسی کی مانند ایک اور چیز (یہ بھی روایت ہے: ومثله معه‏ )"
اور یہی الصغانی نے کہا۔

زندیقوں اور کافروں کی گھڑی ہوئی اس روایت کو ایک عام طالب علم بھی بطورِ استدلال پیش نہیں کر سکتا تو شیخ ابن باز رحمة اللہ کس طرح پیش کر سکتے تھے؟
دوسرے یہ کہ ۔۔۔۔
یہ بےاصل ، باطل اور گھڑی ہوئی روایت بذاتِ خود قرآن مجید کے خلاف ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
[ARABIC]وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ[/ARABIC]
اور تمہیں رسول جو دے تو اسے لے لو۔
( سورة الحشر : 59 ، آیت : 7 )
اس قرآنی آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم واجب التسلیم ہے لہذا ۔۔۔
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحیح و ثابت حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا !!

( اقتباسات بہ شکریہ :
حافظ زبیر علی زئی اور محمد حسین میمن)
 
Top