قمر بُخاری
محفلین
حج کا واجب هونا
قَالَ عَلِی (ع):
”فَرَضَ عَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِہِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلَہُ قِبْلَةً لِلْاٴَنْامِ “۔[1]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خداوند عالم نے اپنے اس محترم گھر کے حج کو تم پر واجب قرار دیا ھے جسے اس نے لوگوں کا قبلہ بنایا ھے“۔
قال علی (ع):
”فَرَضَ حَجَّہُ وَاٴَوْجَبَ حَقَّہُ وَکَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفَادَتَہُ فَقَالَ سُبْحَانَہُ <وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطاٰعَ إِلَیْہِ سَبِیلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰالَمِینَ >[2]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو واجب ،اس کے حق کی
(۲)ادائیگی کو لاز م اور اس کی زیارت کو تم پر مقرر کیا ھے پس وہ فرماتا ھے:”لوگوں پر خدا کا حق یہ ھے کہ جو بھی خدا کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ھے وہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے جائے اور وہ شخص جو کفر اختیار کرتا ھے (یعنی حج انجام نھیں دیتا )تو خدا عالمین سے بے نیاز ھے “۔
حج کا فلسفہ
قال علی (ع):
”جَعَلَہُ سُبْحَانَہُ عَلاٰمَةً لِتَوَاضُعِھِمْ لِعَظَمَتِہِ و َاِذعانَھُمْ لِعِزَّتِہِ“۔[3]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو علامت قرار دیا ھے تاکہ لوگ اس کی عظمت کے سامنے فروتنی کا اظھار کریں اور پروردگار عالم کے غلبہ نیز اس کی عظمت و بزرگواری کا اعتراف کریں “۔
قال علی (ع):
”جَعَلَہُ سُبْحَانَہُ لِلْإِسْلاٰمِ عَلَماًوَلِلْعَائِذِینَ حَرَماً“۔[4]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے حج اور کعبہ کو اسلام کا نشان اور پرچم قرار دیا ھے اور پناہ لینے والے کے لئے اس جگہ کو جائے امن بنایا ھے“۔
دین کی تقویت کا سبب
قال علی (ع):
”۔۔۔وَالْحَجَّ تَقْوِیَةً لِلدِّینِ “[5]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”۔۔۔اورحج کو دین کی تقویت کا سبب قرار دیاھے“۔
دلوں کا سکون
قال الباقر (ع):
”الحَجُّ تَسْکِین القُلُوبُ“[6]
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”حج دلوں کی راحت وسکون کا سبب ھے“۔
حج ترک کرنے والا
قال رسول اللہ (ص):
”مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَاءَ یَھُودِیّاً وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِیّاً“۔[7][8]
پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:
”جو شخص حج انجام دیئے بغیر مر جائے (اس سے کھا جائے گا کہ ) تو چاھے یہودی مرے یا نصرانی “۔
یھی مضمو ن ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادق (ع) سے بھی نقلهواھے۔[9]
حج و کامیابی
”لوگوں نے امام محمد باقر (ع)سے دریافت کیا کہ حج کا نام حج کیوں رکھا گیاھے ؟تو آپ نے فرمایا:
”قَالَ حَجَّ فُلاٰنٌ اٴَيْ اٴَفْلَحَ فُلاٰنٌ“۔[10]
” فلاں شخص نے حج کیا یعنی وہ کامیابهوا “۔
حج کی اھمیت
محمد بن مسلم کھتے ھیں کہ :
امام محمد باقر (ع)یا امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”وَدَّ مَنْ في الْقُبُورِ لَوْ اٴَنَّ لَہُ حَجَّةً وَاحِدَةً بِالدُّنْیَا وَمَا فِیھَا“۔[11]
”مُردے اپنی قبروں میں یہ آرزو کرتے ھیں کہ اے کاش!وہ دنیا،اور دنیا میں جو کچھ بھی ھے دیدیتے اور اس کے عوض انھیں ایک حج کا ثواب مل جاتا “۔
حج کا حق
قال الإمام زَیْنُ العابِدِین(ع) فِي رسالَةِ الحُقُوق: ”حَقُّ الْحَجِّ اٴَنْ تَعْلَمَ اٴَنَّہُ وِفَادَةٌ إِلَی رَبِّکَ وَفِرَارٌ إِلَیْہِ مِنْ ذُنُوبِکَ وَفِیہِ قَبُولُ تَوْبَتِکَ وَقَضَاءُ الْفَرْضِ الَّذِي اٴَوْجَبَہُ اللّٰہُ تَعَالیَ عَلَیْکَ“۔[12]
امام زین العابدین (ع) اپنے رسالہٴ حقوق میں فرماتے ھیں:
”حج کا حق تم پر یہ ھے کہ جان لو حج اپنے پروردگار کے حضو رمیں تمھاری حاضری ھے اوراپنے گناہوںسے اس کی جانب فرار ھے حج میں تمھاری توبہ قبولهوتی ھے اوریہ ایک ایسا فریضہ ھے جسے خدا وند عالم نے تم پر واجب کیا ھے“۔
خد اجوئی
قال الصادق (ع):
”مَنْ حَجَّ یُرِیدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لاٰ یُرِیدُ بِہِ رِیَاءً وَلاٰ سُمْعَةً غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ اَلْبَتَّةَ“.[13]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”جو شخص حج کی انجام دھی میں خدا کا ارادہ رکھتاهواور ریاکاری و شھرت کا خیال نہ رکھتاهو خدا وند عالم یقینا اسے بخش دے گا“۔
حج کا ثواب
قالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
”لَیْسَ لِلْحِجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوابٌ إِلاَّ الجَنَّةَ “۔[14]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ اور نھیں ھے“۔
حج کی تاثیر
ہشام بن حکم کھتے ھیں :
امام جعفر صادق (ع) نے فر مایا:
”مَامِن سَفَرٍاٴَبْلَغَ فِي لَحْمٍ وَلاٰدَمٍ وَلاٰجِلْدٍ وَلاٰ شَعْرٍ مِنْ سَفَرِ مَکَّةً وَمَا اٴَحَدٌ یَبْلُغُہُ حَتَّی تَنَالَہُ الْمَشَقَّةُ“۔[15]
”مکہ کے سفر کی طرح کوئی سفر بھی انسان کے گوشت، خون، جلد، اور بالوں کوکا متاثر نھیں کرتا اور کوئی شخص سختی اور مشقت کے بغیر وھاں تک نھیں پہنچتا “۔
حج میں نیت کی اھمیت
قال الصادق(ع):
”لَمَّا حَجَّ مُوسَی(ع)نَزَلَ عَلَیْہِ جَبْرَئِیلُ فَقَالَ لَہُ مُوسَی یَا جَبْرَئِیلُ ۔۔۔مٰا لِمَنْ حَجَّ ھَذَا الْبَیْتَ بَنِیَّہٍ صَادِقَةٍ وَنَفَقَةٍ طَیِّبَةٍ؟قَالَ:فَرَجَعَ إِلَی اللّٰہِ
عَزَّ وَجَلَّ،فَاٴَوْحَی اللّٰہُ تَعَالیٰ إِلَیْہِ؛قُلْ لَہُ:اٴَجْعَلُہُ فِي الرَّفِیقِ الْاٴَعْلَی مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنْ اٴُولَئِکَ رَفِیقاً“۔[16]
”جس وقت جناب موسیٰ نے حج کے اعمال انجام دیئے تو جبرئیل (ع) ان پر نازلهوئے جناب موسیٰ نے ان سے پوچھا:
اے جبرئیل (ع)!
جو شخص اس گھر کا حج سچی نیت اور پاک خرچ سے بجا لائے اس کی جزا کیا مقررهوئی ھے جبرئیل کچھ جواب دیئے بغیر خدا وند عالم کی بارگاہ میں واپس گئے (اور اس کا جواب دریافت کیا)خداوند عالم نے ان پر وحی کی اور فرمایا:موسیٰ سے کہو کہ میں ایسے شخص کو ملکوت اعلیٰ میں پیغمبروں صدیقوں ،شھدااور صالحین کا ھم نشین قرا ر دوں گااور وہ بھترین رفیق اور دوست ھیں“۔
نور میں واردهونا
عبد الرحمان بن سمرة کھتے ھیں:ایک روز میں حضرت پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں تھا کہ آنحضرت(ص)نے فرمایا:
”إِنِّي رَاٴَیْتُ الْبَارِحَةَ عَجَائِبَ“۔
میں نے گذشتہ رات عجائبات کا مشاھدہ کیا ۔
ھم نے عرض کی کہ اے رسو ل خدا (ص)!ھماری جان ھمارا خاندان اور ھماری اولاد آپ(ص)پر فداهوں آپ نے کیا دیکھا ھم سے بھی بیان فرمایئے:
فقال۔۔۔
رَاٴَیْتُ رَجُلاً مِنْ اٴُمَّتِي مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ ظُلُمَةٌ وَمِنْ خَلْفِہِ ظُلْمَةٌ وَعَنْ یَمِینِہِ ظُلَمَةٌ وَعَنْ شِمَالِہِ ظُلْمَةٌ وَمِنْ تَحْتِہِ ظُلْمَةٌ ، مُسْتَنْقِعاً فِي الظُّلْمَةِ فَجَاءَ ہُ حَجُّہُ وَعُمْرَتُہُ فَاٴَخْرَجَاہُ مِنَ الظُّلْمَةِ وَاٴَدْخَلاٰہُ فِي النُّورِ۔۔۔۔[17]
”فرمایا:میں نے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے سامنے سے، پشت سے ، دائیں اور بائیں سے،اور قدموں کے نیچے سے ، اسے تاریکی نے گھیر رکھا تھا اور وہ ظلمت میں غرق تھا اس کا حج اور اس کا عمرہ اس کے پاس آئے اور انھوں نے اسے تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کردیا “۔
حق کے حضور حاضری
قالَ عَلِیٌّ (ع):
اَلْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُاللّٰہِ،وَحَقٌّ عَلَی اللّٰہِ اٴَنْ یُکْرِمَ وَفْدَہُ وَیَحْبُوَہُ بِالْمَغْفِرَةِ۔[18]
حضرت علی(ع) فرماتے ھیں:
”حج اور عمرہ انجام دینے والا خدا کی بارگا ہ میں حاضرهونے والوں میں سے اور خدا پر ھے کہ اپنی بارگاہ میں آنے والے کا اکرام کرے اور اسے اپنی مغفرت و بخشش میںشامل قرار دے ‘ ‘۔
خدا وند عالم کی میزبانی
قال الصّادق (ع):
إِنَّ ضَیْفَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ رَجُلٌ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ فَھُوَ ضَیْفُ اللّٰہِ حَتَّی یَرْجِعَ إِلَی مَنْزِلِہِ۔[19]
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص حج یا عمرہ بجالائے وہ خدا کا مھمان ھے اور جب تک وہ اپنے گھر واپس نہهو جائے ا س کا مھمان باقی رھتا ھے ‘ ‘ ۔
حج اور جھاد
قال رسول اللہ(ص):
جِھٰادُ الْکَبیرِ وَالصَّغیرِ وَالضَّعیفِ وَالْمَراٴَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ۔[20]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”عورتوںاور کمزور لوگوں کا حج اور عمرہ بڑا جھاد اور چھوٹا جھاد ھے“۔
حج عمرہ سے بھتر ھے
قال رسول اللہ (ص):
اِعْلَمْ اَنَّ الُعُمْرَةَ ھِیَ الْحَجُّ الاٴصُغَرُ،وَاَنَّ عُمْرَةً خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیٰا وَمٰا فیھٰا وَحَجَّةً خَیْرٌ مِنْ عُمْرَةٍ۔[21]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن ابی العاص سے فرمایا:
”جان لو کہ عمرہ حج اصغر ھے اور بلا شہ عمرہ دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ھے ان سب سے بھتر ھے ،نیز یہ بھی جان لو کہ حج عمرہ سے بھتر ھے“ ۔
گناہ دُھل جاتے ھیں
قال رسول اللہ (ص):
اَیُّ رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِہ حٰاجاًاَوْ مُعْتَمِراً، فَکُلَّمٰا رَفَعَ قَدَماًوَ وَضَعَ قَدَماً،تَنٰاثَرَتِ الذُّنُوبُ مِنْ بَدَنِہِ کَمٰایَتَنٰا ثَرُ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ،فَاِذَا وَرَدَ الْمَدِیْنَةَ وَصٰافَحَنی بِالسَّلاٰمِ،صٰافَحَتْہُ الْمَلاٰئِکَةُ بِالسَّلاٰمِ،فَاِذَا وَرَدَ ذَالْحُلَیْفَةَ وَاغْتَسَلَ،طَھَّرَہ اللّٰہُ مِنَ الذُّنُوبِ،وَاِذَا لَبِسَ ثَوْبَیْنِ جَدیدَیْنِ،جَدَّدَ اللّٰہُ لَہُ الْحَسَنٰاتِ و َاِذَا قَالَ:اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، اٴَجٰابَہُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:”لَبَّیْکَ و َسَعْدَیْکَ،اَسْمَعُ کَلاٰمَکَ وَاَنْظُرُ اِلَیْکَ،فَاِذَا دَخَلَ مَکَّةَ وَ طٰافَ وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفٰاوَالْمَرْوَةَ وَصَلَ اللّٰہُ لَہُ الْخَیْراتِ۔۔۔۔[22]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص حج وعمرہ کے لئے اپنے گھر سے باھر نکلتا ھے پس جو قدم بھی وہ اٹھاتا اور زمین پر رکھتا ھے اس کے بدن سے گناہ یوں گرتے جاتے ھیں جیسے درختوں سے پتے چھڑتے ھیں،
پس جب وہ شخص مدینہ میں واردهوتا ھے اور سلام کے
ذریعہ مجھ سے مصافحہ کرتا ھے تو فرشتے بھی سلام کے ذریعہ اس سے ھاتھ ملاتے ھیں اور مصافحہ کرتے ھیں اور جب وہ ذولحلیفہ (مسجد شجرہ) میںواردهو کر غسل کرتا ھے تو خدا وند عالم اسے گناہوں سے پاک کردیتا ھے۔ جب وہ احرام کے دو جامہ اپنے تن پر لپٹتا ھے تو خدا وند عالم اسے نئے حسنات اور ثواب عطا کرتا ھے جب وہ ”لبیک اللھم لبیک “کھتا ھے تو خداوند عزوجل اسے جواب دیتےهوئے فرماتا ھے ”لیبک و سعدیک“ میں نے تیرا کلام اور تیری آواز سنی اور (عنایت کی نظر )تجھ پر ڈال رھاهوں اور جب وہ مکہ میں واردهوتاھے اور طواف نیز صفا ومروہ کے درمیان سعی انجام دیتا ھے تو خد اوند عالم ھمیشہ کی نیکیاں اور خیرات اس کے شامل حال کر دیتا ھے“۔
دعا کی قبولیت
قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):
اَرْبَعَةٌ لا تُرَدُّ لَھُمْ دَعُوَةٌ حَتّٰی تُفْتَحَ لَھُمْ اَبْوٰابُ السَّمٰاءِ وَتَصیرَ إِلَی الْعَرْشِ:
اَلْوٰالِدُ لِوَلَدِہِ،وَالْمَظْلُومُ عَلٰی مَنْ ظَلَمَہُ، وَالْمُعْتَمِرُحَتّی یَرْجِعَ ، والصّٰائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ۔[23]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”چار لوگ ایسے ھیں جن کی دعا رد نھیںهوتی یھاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھو ل دیئے جاتے ھیں اور دعائیں عرش الٰھی تک پہنچ جاتی ھیں :
۱۔باپ کی دعا اولاد کے لئے ،
۲۔مظلوم کی دعا ظالم کے خلاف،
۳۔عمرہ کرنے والے کی دعا جب تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے ۔
۴۔روزہ دار کی دعا یھاں تک کہ وہ افطار کر لے ۔
دنیا بھی اور آخرت بھی
قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):
مَنْ اَرَادَا لدُّنْیٰاوَالآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ ھٰذَاالبَیْتَ،فَمٰا اٴتٰاہُ عَبْدٌ یَسْاٴَلُ اللّٰہَ دُنْیٰا اِلاَّ اٴَعْطٰاہُ اللّٰہُ مِنْھٰا،وَلایَسْاٴَلُہُ آخِرَةً اِلاَّادَّخَرَلَہُ مِنْھٰا۔[24]
رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص دنیا اور آخرت کو چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا ارادہ کرے بلاشبہ جوبھی اس جگہ پر آیا اور اس نے خدا
سے دنیا مانگی تو خداوند عالم نے اس کی حاجت پوری کردی نیز یہ کہ اگر خدا وند عالم سے اس نے آخرت طلب کی تو خدا وند عالم نے اس کی یہ دعا بھی قبول کی اور اسے اس کے لئے ذخیرہ کردیا“۔
آگاھی کے ساتھ حج
قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):في خُطْبَتِہِ یَوْمَ الْغَدِیر: مَعٰاشِرَ النّٰاسِ، حُجُّواالْبَیْتَ بِکَمٰالِ الدّینِ وَالتَّفَقُّہ، وَلا تَنْصَرِفُواعَنِ الْمَشٰاھِدِ اِلاَّ بِتَوْبَةٍ واِقْلاٰعٍ۔ [25]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوم غد یر کے خطبہ میں فرمایا:
”اے لوگو! خانہ ٴ خدا کا حج پوری آگاھی اور دینداری سے کرو ، اوران متبرک مقامات سے توبہ اور گناہوں کی بخشش کے بغیر واپس نہ لوٹو “۔
شرط حضور
قَالَ اٴَبُو عَبْدِاللّٰہِ (ع)کاَنَ اٴَبِي یَقُولُ:
مَنْ اٴَمَّ ھَذَاالْبَیْتَ حَاجّاً اٴَوْمُعْتَمِراًمُبَرَّاٴً مِنَ الْکِبْرِ رَجَعَ مِنْ ذُنُوبِہِ کَھَیْئَةِ یَوْمَ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ۔[26]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے اس گھر کی طرف روانہهو اور خود کو کبر و خود پسندی سے دور رکھے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاکهو جاتا ھے جیسے اسے اس کی ماں نے ابھی پیدا کیاهو“۔
حج کی برکتیں
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ (ع):
حَجُّوا وَاعْتَمِرُوا،تَصِحَّ اٴَبْدَانُکُمْ،وَتَتَّسعَ اٴَرْزَاقُکُمْ،وَتُکْفَوْا مَوٴُونٰاتِ عِیَالِکُمْ،وَقَالَ:الْحَاجُّ مَغْفُورٌ لَہُ وَمَوْجُوبٌ لَہُ الْجَنَّةُ،وَمُسْتَاٴْنَفٌ لَہُ الْعَمَلُ،وَمَحْفُوظٌ فِي اٴَھْلِہِ وَمَالِہِ۔[27]
امام جعفر صادق (ع)سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:
” علی بن الحسین علیھما السلام فرماتے تھے کہ:حج اور عمرہ بجالاوٴتاکہ تمھارے جسم سالم،تمھاری روزیاںزیادہ اور تمھار ے خانوادہ اور زندگی کا خرچ پوراهو آپ مزید فرماتے تھے:حاجی بخش دیا جاتا ھے جنت اس پر واجبهو جاتی ھے ، اس کا نامہٴ
عمل پاک کر کے پھر سے لکھا جاتا ھے اور اس کا مال اور خاندان امان میں رھتے ھیں“۔
جو حج قبول نھیں
عَنْ اٴَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ(ع)قَالَ:
مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ اٴَرْبَعٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہِ فِي اٴَرْبَعٍ: مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ غُلُولٍ اٴَوْ رِبًا اٴَوْ خِیَانَةٍاٴَوْ سَرِقَةٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہُ فِي زَکَاةٍ وَلاٰ صَدَقَةٍ وَلاٰحَجٍّ وَلاٰ عُمْرَةٍ۔[28]
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”جو شخص چار طریقوں سے مال اور پیسہ حاصل کرے اس کا خرچ کرنا چار چیزوں میں قبول نھیں ھے :
جو شخص آلودگی اور فریب کی راہ سے،سودکے ذریعہ، خیانت کے ذریعہ اور چوری کے ذریعہ پیسہ حاصل کرے تو اس کی زکات ، صدقہ،حج اور عمرہ کرنا قبول نھیں ھے ‘ ‘ ۔
مال حرام کے ذریعہ حج
قال اٴبو جعفر(ع):
لا یَقْبَلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ حَجّاًوَلاٰعُمْرَةً مِنْ مالٍ حَرامٍ۔[29]
امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں:
”خدا وند عالم حرام مال کے ذریعہ کئے جانے والے حج و عمرہ کو قبول نھیں کرتا “۔
حاجی کا اخلاق
عَنْ اٴَبي جَعْفَرٍ(ع) قَالَ:
مَا یُعْباٴُ مَنْ یَسْلُکُ ھَذَا الطَّرِیقَ اِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْہِ ثَلاٰثُ خِصَالٍ: وَرَعٌ یَحْجُزُہُ عَنْ مَعَاصِي اللّٰہِ،وَحِلْمٌ یَمْلِکُ بِہِ غَضَبَہُ،وَ حُسْنُ الصُّحْبَةِ لِمَنْ صَحِبَہُ۔[30]
امام محمد باقر (ع)نے فرمایا :
” جو شخص حج کے لئے اس راہ کو طے کرتا ھے اگر اس میں تین خصلتیں نہهوں تو وہ خدا کی توجہ کا مرکز نھیں بنتا :
۱۔تقویٰ وپرھیز گاری جو اسے گناہ سے دور رکھے۔
۲۔صبر وتحمل جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے۔
۳۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک ۔
کامیاب حج
قال رسول اللہ (ص):
مَنْ حَجَّ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ یَرْجِعُ کَھَیْئَةِ یَومٍ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ۔[31]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج یا عمرہ کیا اورکوئی فسق وفجور انجام نہ دیا تو وہ اس شخص کی طرح پاک واپسهوتا ھے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی پیدا کیا ھے“۔
حج کی قسمیں
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
الْحَجُّ حَجَّانِ:حَجُّ اللّٰہِ،وَحَجُّ لِلنَّاسِ،فَمَنْ حَجَّ لِلّٰہِ کَانَ ثَوَابُہُ عَلَی اللّٰہِ الْجَنَّةَ،وَمَنْ حَجَّ لِلنَّاسِ کاَنَ ثَوَابُہُ عَلَی النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔[32]
امام جعفر صادق ٍ(ع)فرماتے ھیں:
حج کی دو قسمیں ھیں:
”خدا کے لئے حج اور لوگوں کے لئے حج،پس جو شخص خدا
کے لئے حج بجالایا اس کی جزا وہ خدا سے جنت کی شکل میں حاصل کرے گا اور جو شخص لوگوں کے دکھانے کے لئے حج کرتا ھے اس کی جزا قیامت کے دن لوگوں کے ذمہ ھے “۔
حاجیوں کی قسمیں
معاویہ ابن عمار کھتے کہ امام صادق (ع)نے فرمایا:
الْحَاجُّ یَصْدُرُونَ عَلَی ثَلاٰثَةِ اٴَصْنَافٍ:فَصِنْفٌ یَعْتِقُونَ مِنَ النَّارِ،وَصِنْفٌ یَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِہِ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ،وَصِنْفٌ یُحْفَظُ فِي اٴَہْلِہِ وَمَالِہِ،فَذَلِکَ اٴَدْنَی مَا یَرْجِعُ بِہِ الْحَاجُّ۔[33]
” حاجی تین قسم کےهوتے ھیں :
ایک گروہ جہنم کی آگ سے رھائی پاتا ھے ،دوسرا گروہ گناہوں سے اس طرح پاکهوتا ھے جیسے وہ ابھی اپنی ماں کے بطن سے پیداهواهو، اور تیسرا گروہ وہ ھے0 کہ اس کا خاندان اور اس کا مال محفوظهوجاتا ھے اور یہ وہ کمترین جزا ھے جس کے ساتھ حاجی واپسهوتے ھیں“۔
ناکام حاجی
قال رسول اللہ (ص):
یَاٴتي عَلَی النَّاسِ زَمانٌ یَحُجُّ اٴغنِیاءُ اٴمَتِّي لِلنُّزھَةِ،وَاٴَوْساطُھُمْ لِلْتِجارةِ،وَقُرّاوٴُ ھُمْ للریّاءِ وَالسَّمْعَةِ وَفُقَرائُھُم لِلمساٴلةِ۔(۱)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری امت کے دولت مندلوگ سیرو تفریح کے لئے اور درمیانی طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے قاری حضرات ریاکاری اور شھرت کے لئے اور فقرا مانگنے کے لئے حج کو جائیں گے “۔
اپنے ھمراھیوں کے ساتھ سلوک
قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):
وَطِّنْ نَفْسَکَ عَلَی حُسْنِ الصِّحَابَةِ لِمَنْ صَحِبْتَ فِي حُسْنِ خُلْقِکَ،وَکُفَّ لِسَانَکَ،وَاکْظِمْ غَیْظَکَ،وَاٴَقِلَّ لَغْوَکَ،وَتَفْرُشُ عَفْوَکَ، وَتَسْخُو نَفْسَکَ۔[34]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”خود کو آمادہ کرو تاکہ جس شخص کے بھی ھمراہ سفر کرو اچھے اور خوش اخلاق ساتھی رہو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو ،اپنے غصہ کو پی جاوٴ،بیہودہ وبے فائدہ کام کم کرو ،اپنی بخشش کو دوسروں کے لئے وسیع کرو،اور سخا وت کرنے والے رہو“۔
راہ کی اذیت
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
مَنْ اٴَمَاطَ اٴَذًی عَنْ طَرِیقِ مَکَّةَ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ حَسَنَةً وَمَنْ کَتَبَ لَہْ حَسَنَةً لَمْ یُعَذِّبْہُ۔[35]
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں اذیت و تکلیف اٹھا ئے خدا وند عالم اس کے لئے نیکی لکھتا ھے اور جس شخص کے لئے خداوند عالم نیکی لکھتا ھے اسے عذاب نھیں دیتا “۔
حج کی راہ میں موت
قال الصادق(ع):
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع)
قَالَ: مَنْ مَاتَ فِي طَرِیقِ مَکَّةَ ذَاھِباًاَّوُ جَائِیاً اٴَمِنَ مِنَ الّفَزَعِ الّاٴَکْبَرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔[36]
عبد اللہ ابن سنان سے روایت ھے کہ امام جعفر صادق ٍ(ع)نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں جاتے وقت یا واپسهوتے وقت مرجائے وہ قیامت کے دن کے عظیم خوف ھراس سے امان میں ر ھے گا “۔
حج میں انفاق کرنا
قال الصادق (ع):
”دِرْھَمٌ فِي الْحَجِّ اٴَفْضَلُ مِنْ اٴَلْفِيْ اٴَلْفٍ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰہِ “۔[37]
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
”حج کی راہ میں ایک درھم خرچ کرنا حج کے علاوہ کسی اور دینی راہ میں بیس لاکھ درھم خرچ کرنے سے بھتر ھے“۔
احرام کا فلسفہ
عَنِ الرِّضَا(ع):
فَاِنْ قَالَ:فَلِمَ اُمِرُوا بِالإحْرٰامٍ؟قیل:لِاَ ن یَتَخَشَّعُوا قَبْلَ دُخُولِ حَرَمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَمْنِہِ وَلِئَلاّٰ یَلْھُوا وَیَشْتَغِلُوا بِشَیْءٍ مِنْ اٴمُرِ الدُّنْیَا وَزِینَتِھَا وَالَذَّاتِھَا وَیَکُونُوا جَادِّینَ فِیمَا ھُمْ فِیہِ قَاصِدِینَ نَحْوَہُ،مُقْبِلِینَ عَلَیْہِ بِکُلِّیِّتِھِمْ،مَعَ مَا فِیہِ مِنَ التَّعْظیمِ لِلّٰہِ تَعٰالی وَلِبَیْتِہِ،وَالتَّذَلُّلِ لِاٴَنْفُسِھِمْ عِنْدَ قَصْدِ ھِمْ إِلَی اللّٰہِ تَعٰالیٰ وَوِفَادَتِھِمْ إِلَیْہِ، رَاجِینَ ثَوَابَہُ،رَاھِبِینَ مِنْ عِقَابِہِ،مَاضِینَ نَحْوَہُ مُقْبِلِینَ إِلَیْہِ بِالذُّلِّ وَالِاسْتِکَانَةِ وَالْخُضُوعِ۔[38]
امام علی رضا (ع)نے فرمایا:
”اگر یہ کھا جائے کہ لوگوں کواحرام پہننے کا حکم کیوں دیا گیا ھے ؟ تو یہ کھا جائے گا کہ :اس لئے کہ لوگ اللہ کے حرم اور امن وامان کی جگہ میں واردهونے سے پھلے خاشع اور منکسر مزاجهوں ، امور دنیا ،اس کی لذتوںاور زینتوں میں سے کسی بھی چیز میں خودکو مشغول نہ کرےں جس کام کے لئے آئے ھیںاور جس کا ارادہ رکھتے ھیں اس پر صابر رھیں اور پورے وجود سے اس پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ احرام میں خدااور اس کے گھر کی تعظیم۔ اپنی فروتنی اور باطنی ذلت وحقارت ، خدا کی طرف قصد
اور اس کے حضور واردهونا ھے،جب کہ وہ اس سے جزا کی امید رکھتے ھیں اس کے عقاب اور سزا سے خوف زدہ ھیں اور انکسار وفروتنی اور ذلت خوا ری کی حالت میں اس کی طرف رخ کئےهوئے ھیں“۔
احرام کا ادب
قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):
إِذَا اٴَحْرَمْتَ فَعَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ،وَذِکْرِ اللّٰہِ کَثِیراً،وَقِلَّةِ الْکَلاٰمِ إِلاَّ بِخَیْرٍ،فَإِنَّ مِنْ تَمَامٍ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ اٴَنْ یَحْفَظَ الْمَرْءُ لِسَانَہُ إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ۔[39]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا :
”جب محرمهو جاوٴ تو تم پر لازم ھے کہ باتقویٰ رہو ،خدا کو بہت یاد کرو ،نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرو کہ بلا شبہ حج اور عمرہ کا کاملهونا یہ ھے کہ انسان اپنی زبان کو نیکی کے علاوہ کسی اور امر میں نہ کھو لے “۔
حقیقی لبیک
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص): مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبّی اِلاَّ لَبّٰی مَا عَنْ یَمینِہِ وَشِمٰالِہِ
مِنْ حَجَرٍاٴَوْ شَجَرٍاٴَْومَدَرٍحَتّٰی تَنْقَطِعَ الاَرْضُ مِنْ ھٰا ھُنَا وَھٰاھُنَا۔[40]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”کوئی شخ-ص لبیک نھیں کھتا مگر یہ کہ اس کے دائیں بائیں ،پتھر درخت ،ڈھیلے اس کے ساتھ لبیک کھتے ھیں یھاں تک کہ وہ زمین کو یھاں سے وھاں تک طے کر لے “۔
حج کا نعرہ
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص): اٴَتَانِي جَبْرَئِیلُ(ع) فَقَالَ:
اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَاٴْ مُرُکَ اَنْ تَاٴْمُرَ اٴَصْحَابَکَ اٴَنْ یَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَھُمْ بِالتَّلْبِیَةِ فَإِنَّھَا شِعَارُ الْحَجِّ۔[41]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جبرئیل میرے پاس آئے اور کھا کہ خدا وند عالم آپ کو حکم دیتا ھے کہ اپنے ساتھیوں اوراصحاب کو حکم دیں کہ بلند آواز سے لبیک کھیں کیونکہ یہ حج کا نعرہ ھے “۔
معرفت کے ساتھ واردهونا
قَالَ الْبَاقِرُ(ع):
مَنْ دَخَلَ ھَذَا الْبَیْتَ عَارِفاً بِجَمیع ما اٴَوْجَبَہُ اللّٰہ عَلَیْہِ کٰانَ اٴَمِناً فِي الآخِرَةِ مِنَ الْعَذَابِ الدّٰائِمِ۔[42]
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں :
”جو شخص اس گھر میں اس عرفان کے ساتھ داخلهو کہ جو کچھ خداوند عالم نے اس پر واجب کیا ھے اس سے آگاہ رھے تو قیامت میں دائمی عذاب سے محفوظ رھے گا“۔
خدا کے غضب سے امان
عبد اللہ بن سنان کھتے ھیں کہ میں نے امام جعفر صادق ں سے پوچھا :”کہ خدا وند عالم کا ارشاد ”ومن دخلہ کان آمناً“[43]
”یعنی جو شخص اس میں داخلهو وہ امان میں ھے اس سے مراد گھر ھے یا حرم ؟
قَالَ:مَنْ دَخَلَ الْحَرَمَ مِنَ النَّاسِ مُسْتَجِیراً بِہِ فَھُوَ آمِنٌ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ ۔۔۔ ۔[44]
”امام (ع)نے فرمایا:جو شخص بھی حرم میں داخلهو اور وھاں پناہ حاصل کرے وہ خدا کے غضب سے امان میں رھے گا “۔
مکہ خدا و رسول کا حرم
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
مَکَّةُ حَرَمُ اللّٰہِ وَحَرَمُ رَسُولِہِ وَحَرَمَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ (ع)،الصَّلاٰةُ فِیھَابِمِائَةِ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ، وَالدِّرْھَمُ فِیھَ ابِمِائَةِ اٴَلْفِ دِرْھَم،وَالْمَدِینَةُ حَرَمُ اللّٰہِ وَحَرَمُ رَسُولِہِ وَحَرَمُ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ۔ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمَا۔الصَّلاٰةُ فِیھَا بِعَشَرَةِ آلاٰف صَلاٰةٍ وَ الدِّرْھَمُ فِیھَا بِعَشَرَةِ آلاٰفِ دِرْھَمٍ۔[45]
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :
”مکہ خدا وندعالم ،اس کے رسول(ص)(پیغمبر اکرم (ص)) اور امیر المومنین کا حرم ھے اس میں ایک رکعت نماز ادا کرنا ایک لاکھ رکعت کے برابر ھے۔ ایک درھم انفاق کرنا ایک لاکھ درھم
خیرات کرنے کے برابر ھے۔ مدینہ (بھی)اللہ ،اس کے رسول اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع)کا حرم ھے اس میں پڑھی جانے والی نماز دس ہزار نماز کے برابر اور خیرات کیا جانے والا ایک درھم دس ہزار درھم کے برابر ھے “۔
مسجد الحرام میں داخل هونے کے آدا ب
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَادْخُلْہُ حَافِیاً عَلَی السَّکِینَة ِوَالوَقَارِ وَالْخُشُوعِ۔۔۔ ۔[46]
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں :
”جب تم مسجد الحرام میں داخلهوتو پابرہنہ اور سکون ووقار نیز خوف الٰھی کے ساتھ داخلهو “۔
جنت کے محل
قَالَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ (ع):
اٴَرْبَعَةٌ مِنْ قُصُورِ الْجَنّةِ فِي الدُّنْیَا:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ،وَمَسْجِدُ الرَّسُولِ (ص)، وَ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَمَسْجِدُ الْکُوفَةِ؛[47]
حضرت علی ابن ابی طالب (ع)فرماتے ھیں :
”چار جگھیں دنیا میں جنت کے محل ھیں :
۱۔مسجد الحرام ، ۲۔مسجد النبی(ص) ، ۳۔مسجد الاقصیٰ، ۴۔مسجد کوفہ ،
حرمین میں نماز
عَنْ إِبْرَاھِیمَ بْنِ شَیْبَةَقَالَ:
کَتَبْتُ إِلَی اٴَبِي جَعْفَرٍ(ع) اٴَسْاٴَلُہُ عَنْ إِتْمَامِ الصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ،فَکَتَبَ إِلَیَّ:کَانَ رَسُولُ اللّٰہ یُحِبُّ إِکْثَارَالصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ فَاٴَکْثِرْفِیھِمَا وَاٴَتِم َّ۔[48]
ابراھیم بن شیبہ کھتے ھیں کہ:
میں نے امام محمد باقر(ع) کو خط لکھا اور اس میں مکہ اور مدینہ میں پوری نماز اداکرنے کے سلسلہ میں دریافت کیا امام (ع)نے جواب میں تحریر فرمایا:
” رسول خدا (ص)ھمیشہ مسجد الحرام اور مسجد النبی میں زیادہ نماز پڑھنا پسند کرتے تھے پس ان دو جگہوں پر نماز یں زیادہ پڑھو اور اپنی نماز بھی پوری ادا کرو“۔
مکہ میں نماز جماعت
عَنْ اٴَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ اٴَبِي نَصْرٍ،عَنْ اٴَبِيالْحَسَنِ (ع)قَالَ:
سَاٴَلْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّي فِي جَمَاعَةٍ فِي مَنْزِلِہِ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ اٴَوْ وَحْدَہُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ: وَحْدَہُ۔[49]
احمد ابن محمد ابن ابی نصرکھتے ھیں :
”میں نے حضرت علی بن موسیٰ الرضا(ع) سے دریافت کیا اگر کوئی شخص مکہ میں نماز جماعت اپنے گھر میں ادا کرے یہ افضل ھے یا مسجد الحرام میں فرادیٰ نماز اداکرنا افضل ھے فرمایا: فرادیٰ (مسجد الحرام میں)“ ۔
اھل سنت کے ساتھ نماز
عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ،قَالَ:
”قَالَ لِي اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):یَا إِسْحَاقُ اٴَ تُصَلَّي مَعَھُمْ فِي الْمَسْجِدِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ:صَلِّ مَعَھُمْ فَإِنَّ الْمُصَلِّي مَعَھُمْ فِي الصَّفِّ الْاٴَوَّلِ کاَلشَّاھِرِ سَیْفَہُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ“۔[50]
اسحاق ابن عمار کھتے ھیں :
”امام جعفر صادق (ع)نے مجھ سے فرمایاکہ: اے
اسحاق!کیا تم ان لوگوں (اھل سنت )کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتےهو؟میں نے عرض کیا ھاں!حضرت (ع)نے فرمایا:ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو بلاشبہ جو شخص ان لوگوں کے ھمراہ پھلی صف میں نماز پڑھے وہ اس مجاھد کے مانند ھے جو خدا کی راہ میں تلوار چلا رھاهواور دشمنان دین کے ساتھ جنگ کررھاہو‘ ‘۔
کعبہ چوکور کیوں ھے؟
رُوِيَ اٴَنَّہُ إِنَّمَا سَمِّیَتْ کَعْبَةً لِاٴَنَّھَا مُرَبَّعَةٌ وَصَارَتْ مُرَبِّعَةً لِاٴَنَّھَا بِحِذَاءِ الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ وَھُوَ مَرَبِّعٌ وَصَارَ الْبَیْتُ الْمَعْمُورُ مُرَبِّعاً لِاٴَنَّہُ بِحِذَاءِ الْعَرْشِ وَھُوَمُرَبَّعٌ، وَصَارَالْعَرْشُ مُرَبَّعاً،لِاٴَنَّ الْکَلِمَاتِ الَّتِي بُنِیي عَلَیْھَا الْإِسْلاٰمُ اٴَرْبَعٌ:وَھِیَ :سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اٴَکْبَرُ۔(۱)[51]
شیخ صدوق ۺ فرماتے ھیں:
”ایک روایت میں آیا ھے کہ کعبہ کو کعبہ اس لئے کھا گیا ھے کہ وہ چوکور ھے اور وہ چوکو اس لئے بنا یاگیا ھے کہ اسی کے مقابل (آسمان اول پر) بیت المعمور چوکور بنایا گیا ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ وہ عرش خدا کے مقابل ھے جو چوکور ھے اور عرش خدا بھی اس لئے چوکور ھے کہ اس کی بنیاد اسلام کے چار کلموں پر ھے اور وہ یہ ھیں :”سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،وَاللّٰہُ اٴَکْبَرُ“۔
کعبہ کی طرف دیکھنا
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
مَنْ نَظَرَإِلَی الْکَعْبَةِ لَمْ یَزَلْ تُکْتَبُ لَہُ حَسَنَةٌ وَتُمْحَی عَنْہُ سَیِّئَةٌ، حَتَّی یَنْصَرِفَ بِبِصَرِہِ عَنْھَا۔[52]
امام جعفر صادق (ع)فرمایا :
”جو شخص کعبہ کی طرف دیکھے ھمیشہ اس کے لئے حسنات لکھے جاتے ھیں اور اس کے گناہ محو کئے جاتے ھیں جب تک وہ اپنی نگاھیں کعبہ سے ہٹا نھیں لیتا “۔
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
النَّظَرُ إِلَی الْکَعْبَةِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْوَالِدَیْنِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْإِمَامِ عِبَادَةٌ۔[53]
امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:
”کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ھے ،ماں باپ کی طرف دیکھنا عبادت ھے،اور امام کی طرف دیکھنا عبادت ھے“۔
الٰھی لمحہ
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِنَّ لِلْکَعْبَةِ لَلَحْظَةً فِي کُلِّ یَوْمٍ یُغْفَرُ لِمَنْ طَافَ بِھَا اٴَوْ حَنَّ قَلْبُہُ إِلَیْھَا اٴَوْ حَسَبَہُ عَنْھَا عُذْرٌ۔[54]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”بلا شبہ کعبہ کے لئے ھر روز ایک لمحہ (ایک وقت )ھے کہ خدا وند عالم اس میں کعبہ کا طواف کرنے والوں اور ان لوگوں کو جن کا دل کعبہ کے عشق سے لبریز ھے نیز ان لوگوں کو جو کعبہ کی زیارت کے مشتاق ھیں لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیں ھیں ،بخش دیتا ھے“۔
برکتوں کا نزول
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ حَوْلَ الْکَعْبَةِ عِشْرِینَ وَمِائَةَ رَحْمَةٍ مِنْھَا سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَاٴَرْبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَعِشْرُونَ لِلنَّاظِرِینَ۔[55]
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
”خدا وند عالم اپنی ایک سو بیس رحمتیں کعبہ کے اوپر نازل کرتا ھے جن میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں کے لئے ،چالیس رحمتیں نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس رحمتیں کعبہ کی طرف دیکھنے والوں کے لئےهوتی ھیں“۔
دین اور کعبہ کا ربط
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
لاٰ یَزَالُ الدِّینُ قَائِماً مَا قَامَتِ الْکَعْبَةُ۔[56]
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں :
”جب تک کعبہ قائم ھے اس وقت تک دین بھی اپنی جگہ بر قرار رھے گا“۔
یہ عمل منع ھے
محمد ابن مسلم کھتے ھیں کہ: میںنے امام صادق ںسے سنا آپ فرما رھے تھے:
قال الصادق (ع):
لاٰ یَنْبَغِي لِاٴَحَدٍ اٴَنْ یَاٴْخُذَ مِنْ تُرْبَةِ مَا حَوْلَ الْکَعْبَةِ وَإِنْ اٴَخَذَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئاً رَدَّہُ۔[57]
” کسی شخص کے لئے یہ درست نھیں ھے کہ کعبہ اور اس کے اطراف کی مٹی اٹھائے اور اگر کسی نے اٹھا ئی ھے تواسے واپس کر دے“۔
کعبہ کا پردہ
عَنْ جَعفر،عَنْ اٴَبیہِ علیھما السلام:
اٴَنَّ عَلِیّاً کَانَ یَبْعَثُ بِکِسْوَةِ الْبَیْتِ في کُلِّ سَنَةٍ مِنَ الْعَرٰاقِ۔[58]
امام محمد باقر (ع)نے فرمایا:
”بلا شبہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ھر سال عراق سے کعبہ کا پردہ بھیجتے تھے “۔
امام زمانہ(ع) کعبہ میں
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ اٴَنَّہُ قَالَ: سَاٴَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعُمْرِیَّ -رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ - فَقُلْتُ لَہُ:رَاٴَیْتَ صَاحِبَ ھَذَا الْاٴَمْرِ؟فَقَالَ:نَعَمْ وَآخِرُ عَھْدِي بِہِ عِنْدَ بَیْتِ اللّٰہِ الْحَرَامِ وَھُوَ یَقُولُ:اللَّھُمَّ اٴَنْجِزْ لِي مَاوَعَدْتَنِي۔[59]
عبد اللہ ابن جعفر حمیری کھتے ھیں:
”میں نے محمد بن عثمان عمری سے پوچھا کیا تم نے امام زمانہ(ع) کو دیکھا ؟انھوں نے جواب دیا ھاں!میںنے آخری بار انھیں کعبہ کے نزدیک دیکھا کہ حضرت (ع)فرمارھے تھے اے میرے اللہ !جس چیز کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ھے اسے پورا فر ما “۔
حجر اسود
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ (ص):
اَلْحَجَرُ یَمینُ اللّٰہِ فِي الاٴَرْضِ،فَمَنْ مَسَحَ یَدَہُ عَلَی الْحَجَرِ فَقَدْ بٰایَعَ اللّٰہَ اَنْ لاٰ یَعْصِیَہُ۔[60]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حجر اسود زمین میں خدا کے داہنے ھاتھ کے مانند ھے پس جو شخص اپنا ھاتھ حجر اسود پر پھیرے اس نے اس بات پر اللہ کی بیعت کی ھے کہ اس کی معصیت ونافرمانی نھیں کرے گا“۔
حجر اسود کو دور سے چومنا
عَنْ سَیْفٍ التَّمَّارِ قَالَ:
قُلْتُ لِاٴَ بِي عَبْدِ اللّٰہِ اٴَتَیْتُ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَوَجَدْتُ عَلَیْہِ زِحَاماً فَلَمْ اٴَلْقَ إِلاَّ رَجُلاً مِنْ اٴَصْحَابِنَا فَسَاٴَلْتُہُ فَقَالَ:لاٰبُدَّ مِنِ اسْتِلاٰمِہِ فَقَالَ:إِنْ وَجَدْتَہُ خَالِیاً وَإِلاَّ فَسَلِّمْ مِنْ بَعِیدٍ۔[61]
سیف ابن تمار کھتے ھیں”میں نے امام جعفرصادقں سے عرض کیا :
”میں حجر اسود کے قریب آیا وھاں جمعیت بہت زیادہ تھی میں نے اپنے ساتھیوں میں سے ھر ایک سے پوچھا کیا کروں ؟ سب نے جواب دیا کہ استلا م حجر کرو (حجر اسود کا بوسہ لو)۔میرا فریضہ کیا ھے؟امام نے اس سے فرمایا :اگر حجر اسود کے پاس مجمع نہهو تو اسے استلام کروورنہ اپنے ھاتھ سے دور سے اشارہ کرو “۔
قَالَ عَلِی (ع):
”فَرَضَ عَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِہِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلَہُ قِبْلَةً لِلْاٴَنْامِ “۔[1]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خداوند عالم نے اپنے اس محترم گھر کے حج کو تم پر واجب قرار دیا ھے جسے اس نے لوگوں کا قبلہ بنایا ھے“۔
قال علی (ع):
”فَرَضَ حَجَّہُ وَاٴَوْجَبَ حَقَّہُ وَکَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفَادَتَہُ فَقَالَ سُبْحَانَہُ <وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطاٰعَ إِلَیْہِ سَبِیلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰالَمِینَ >[2]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو واجب ،اس کے حق کی
(۲)ادائیگی کو لاز م اور اس کی زیارت کو تم پر مقرر کیا ھے پس وہ فرماتا ھے:”لوگوں پر خدا کا حق یہ ھے کہ جو بھی خدا کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ھے وہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے جائے اور وہ شخص جو کفر اختیار کرتا ھے (یعنی حج انجام نھیں دیتا )تو خدا عالمین سے بے نیاز ھے “۔
حج کا فلسفہ
قال علی (ع):
”جَعَلَہُ سُبْحَانَہُ عَلاٰمَةً لِتَوَاضُعِھِمْ لِعَظَمَتِہِ و َاِذعانَھُمْ لِعِزَّتِہِ“۔[3]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو علامت قرار دیا ھے تاکہ لوگ اس کی عظمت کے سامنے فروتنی کا اظھار کریں اور پروردگار عالم کے غلبہ نیز اس کی عظمت و بزرگواری کا اعتراف کریں “۔
قال علی (ع):
”جَعَلَہُ سُبْحَانَہُ لِلْإِسْلاٰمِ عَلَماًوَلِلْعَائِذِینَ حَرَماً“۔[4]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے حج اور کعبہ کو اسلام کا نشان اور پرچم قرار دیا ھے اور پناہ لینے والے کے لئے اس جگہ کو جائے امن بنایا ھے“۔
دین کی تقویت کا سبب
قال علی (ع):
”۔۔۔وَالْحَجَّ تَقْوِیَةً لِلدِّینِ “[5]
حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے فرمایا:
”۔۔۔اورحج کو دین کی تقویت کا سبب قرار دیاھے“۔
دلوں کا سکون
قال الباقر (ع):
”الحَجُّ تَسْکِین القُلُوبُ“[6]
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”حج دلوں کی راحت وسکون کا سبب ھے“۔
حج ترک کرنے والا
قال رسول اللہ (ص):
”مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَاءَ یَھُودِیّاً وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِیّاً“۔[7][8]
پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:
”جو شخص حج انجام دیئے بغیر مر جائے (اس سے کھا جائے گا کہ ) تو چاھے یہودی مرے یا نصرانی “۔
یھی مضمو ن ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادق (ع) سے بھی نقلهواھے۔[9]
حج و کامیابی
”لوگوں نے امام محمد باقر (ع)سے دریافت کیا کہ حج کا نام حج کیوں رکھا گیاھے ؟تو آپ نے فرمایا:
”قَالَ حَجَّ فُلاٰنٌ اٴَيْ اٴَفْلَحَ فُلاٰنٌ“۔[10]
” فلاں شخص نے حج کیا یعنی وہ کامیابهوا “۔
حج کی اھمیت
محمد بن مسلم کھتے ھیں کہ :
امام محمد باقر (ع)یا امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”وَدَّ مَنْ في الْقُبُورِ لَوْ اٴَنَّ لَہُ حَجَّةً وَاحِدَةً بِالدُّنْیَا وَمَا فِیھَا“۔[11]
”مُردے اپنی قبروں میں یہ آرزو کرتے ھیں کہ اے کاش!وہ دنیا،اور دنیا میں جو کچھ بھی ھے دیدیتے اور اس کے عوض انھیں ایک حج کا ثواب مل جاتا “۔
حج کا حق
قال الإمام زَیْنُ العابِدِین(ع) فِي رسالَةِ الحُقُوق: ”حَقُّ الْحَجِّ اٴَنْ تَعْلَمَ اٴَنَّہُ وِفَادَةٌ إِلَی رَبِّکَ وَفِرَارٌ إِلَیْہِ مِنْ ذُنُوبِکَ وَفِیہِ قَبُولُ تَوْبَتِکَ وَقَضَاءُ الْفَرْضِ الَّذِي اٴَوْجَبَہُ اللّٰہُ تَعَالیَ عَلَیْکَ“۔[12]
امام زین العابدین (ع) اپنے رسالہٴ حقوق میں فرماتے ھیں:
”حج کا حق تم پر یہ ھے کہ جان لو حج اپنے پروردگار کے حضو رمیں تمھاری حاضری ھے اوراپنے گناہوںسے اس کی جانب فرار ھے حج میں تمھاری توبہ قبولهوتی ھے اوریہ ایک ایسا فریضہ ھے جسے خدا وند عالم نے تم پر واجب کیا ھے“۔
خد اجوئی
قال الصادق (ع):
”مَنْ حَجَّ یُرِیدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لاٰ یُرِیدُ بِہِ رِیَاءً وَلاٰ سُمْعَةً غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ اَلْبَتَّةَ“.[13]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”جو شخص حج کی انجام دھی میں خدا کا ارادہ رکھتاهواور ریاکاری و شھرت کا خیال نہ رکھتاهو خدا وند عالم یقینا اسے بخش دے گا“۔
حج کا ثواب
قالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
”لَیْسَ لِلْحِجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوابٌ إِلاَّ الجَنَّةَ “۔[14]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ اور نھیں ھے“۔
حج کی تاثیر
ہشام بن حکم کھتے ھیں :
امام جعفر صادق (ع) نے فر مایا:
”مَامِن سَفَرٍاٴَبْلَغَ فِي لَحْمٍ وَلاٰدَمٍ وَلاٰجِلْدٍ وَلاٰ شَعْرٍ مِنْ سَفَرِ مَکَّةً وَمَا اٴَحَدٌ یَبْلُغُہُ حَتَّی تَنَالَہُ الْمَشَقَّةُ“۔[15]
”مکہ کے سفر کی طرح کوئی سفر بھی انسان کے گوشت، خون، جلد، اور بالوں کوکا متاثر نھیں کرتا اور کوئی شخص سختی اور مشقت کے بغیر وھاں تک نھیں پہنچتا “۔
حج میں نیت کی اھمیت
قال الصادق(ع):
”لَمَّا حَجَّ مُوسَی(ع)نَزَلَ عَلَیْہِ جَبْرَئِیلُ فَقَالَ لَہُ مُوسَی یَا جَبْرَئِیلُ ۔۔۔مٰا لِمَنْ حَجَّ ھَذَا الْبَیْتَ بَنِیَّہٍ صَادِقَةٍ وَنَفَقَةٍ طَیِّبَةٍ؟قَالَ:فَرَجَعَ إِلَی اللّٰہِ
عَزَّ وَجَلَّ،فَاٴَوْحَی اللّٰہُ تَعَالیٰ إِلَیْہِ؛قُلْ لَہُ:اٴَجْعَلُہُ فِي الرَّفِیقِ الْاٴَعْلَی مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنْ اٴُولَئِکَ رَفِیقاً“۔[16]
”جس وقت جناب موسیٰ نے حج کے اعمال انجام دیئے تو جبرئیل (ع) ان پر نازلهوئے جناب موسیٰ نے ان سے پوچھا:
اے جبرئیل (ع)!
جو شخص اس گھر کا حج سچی نیت اور پاک خرچ سے بجا لائے اس کی جزا کیا مقررهوئی ھے جبرئیل کچھ جواب دیئے بغیر خدا وند عالم کی بارگاہ میں واپس گئے (اور اس کا جواب دریافت کیا)خداوند عالم نے ان پر وحی کی اور فرمایا:موسیٰ سے کہو کہ میں ایسے شخص کو ملکوت اعلیٰ میں پیغمبروں صدیقوں ،شھدااور صالحین کا ھم نشین قرا ر دوں گااور وہ بھترین رفیق اور دوست ھیں“۔
نور میں واردهونا
عبد الرحمان بن سمرة کھتے ھیں:ایک روز میں حضرت پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں تھا کہ آنحضرت(ص)نے فرمایا:
”إِنِّي رَاٴَیْتُ الْبَارِحَةَ عَجَائِبَ“۔
میں نے گذشتہ رات عجائبات کا مشاھدہ کیا ۔
ھم نے عرض کی کہ اے رسو ل خدا (ص)!ھماری جان ھمارا خاندان اور ھماری اولاد آپ(ص)پر فداهوں آپ نے کیا دیکھا ھم سے بھی بیان فرمایئے:
فقال۔۔۔
رَاٴَیْتُ رَجُلاً مِنْ اٴُمَّتِي مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ ظُلُمَةٌ وَمِنْ خَلْفِہِ ظُلْمَةٌ وَعَنْ یَمِینِہِ ظُلَمَةٌ وَعَنْ شِمَالِہِ ظُلْمَةٌ وَمِنْ تَحْتِہِ ظُلْمَةٌ ، مُسْتَنْقِعاً فِي الظُّلْمَةِ فَجَاءَ ہُ حَجُّہُ وَعُمْرَتُہُ فَاٴَخْرَجَاہُ مِنَ الظُّلْمَةِ وَاٴَدْخَلاٰہُ فِي النُّورِ۔۔۔۔[17]
”فرمایا:میں نے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے سامنے سے، پشت سے ، دائیں اور بائیں سے،اور قدموں کے نیچے سے ، اسے تاریکی نے گھیر رکھا تھا اور وہ ظلمت میں غرق تھا اس کا حج اور اس کا عمرہ اس کے پاس آئے اور انھوں نے اسے تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کردیا “۔
حق کے حضور حاضری
قالَ عَلِیٌّ (ع):
اَلْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُاللّٰہِ،وَحَقٌّ عَلَی اللّٰہِ اٴَنْ یُکْرِمَ وَفْدَہُ وَیَحْبُوَہُ بِالْمَغْفِرَةِ۔[18]
حضرت علی(ع) فرماتے ھیں:
”حج اور عمرہ انجام دینے والا خدا کی بارگا ہ میں حاضرهونے والوں میں سے اور خدا پر ھے کہ اپنی بارگاہ میں آنے والے کا اکرام کرے اور اسے اپنی مغفرت و بخشش میںشامل قرار دے ‘ ‘۔
خدا وند عالم کی میزبانی
قال الصّادق (ع):
إِنَّ ضَیْفَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ رَجُلٌ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ فَھُوَ ضَیْفُ اللّٰہِ حَتَّی یَرْجِعَ إِلَی مَنْزِلِہِ۔[19]
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص حج یا عمرہ بجالائے وہ خدا کا مھمان ھے اور جب تک وہ اپنے گھر واپس نہهو جائے ا س کا مھمان باقی رھتا ھے ‘ ‘ ۔
حج اور جھاد
قال رسول اللہ(ص):
جِھٰادُ الْکَبیرِ وَالصَّغیرِ وَالضَّعیفِ وَالْمَراٴَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ۔[20]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”عورتوںاور کمزور لوگوں کا حج اور عمرہ بڑا جھاد اور چھوٹا جھاد ھے“۔
حج عمرہ سے بھتر ھے
قال رسول اللہ (ص):
اِعْلَمْ اَنَّ الُعُمْرَةَ ھِیَ الْحَجُّ الاٴصُغَرُ،وَاَنَّ عُمْرَةً خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیٰا وَمٰا فیھٰا وَحَجَّةً خَیْرٌ مِنْ عُمْرَةٍ۔[21]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن ابی العاص سے فرمایا:
”جان لو کہ عمرہ حج اصغر ھے اور بلا شہ عمرہ دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ھے ان سب سے بھتر ھے ،نیز یہ بھی جان لو کہ حج عمرہ سے بھتر ھے“ ۔
گناہ دُھل جاتے ھیں
قال رسول اللہ (ص):
اَیُّ رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِہ حٰاجاًاَوْ مُعْتَمِراً، فَکُلَّمٰا رَفَعَ قَدَماًوَ وَضَعَ قَدَماً،تَنٰاثَرَتِ الذُّنُوبُ مِنْ بَدَنِہِ کَمٰایَتَنٰا ثَرُ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ،فَاِذَا وَرَدَ الْمَدِیْنَةَ وَصٰافَحَنی بِالسَّلاٰمِ،صٰافَحَتْہُ الْمَلاٰئِکَةُ بِالسَّلاٰمِ،فَاِذَا وَرَدَ ذَالْحُلَیْفَةَ وَاغْتَسَلَ،طَھَّرَہ اللّٰہُ مِنَ الذُّنُوبِ،وَاِذَا لَبِسَ ثَوْبَیْنِ جَدیدَیْنِ،جَدَّدَ اللّٰہُ لَہُ الْحَسَنٰاتِ و َاِذَا قَالَ:اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، اٴَجٰابَہُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:”لَبَّیْکَ و َسَعْدَیْکَ،اَسْمَعُ کَلاٰمَکَ وَاَنْظُرُ اِلَیْکَ،فَاِذَا دَخَلَ مَکَّةَ وَ طٰافَ وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفٰاوَالْمَرْوَةَ وَصَلَ اللّٰہُ لَہُ الْخَیْراتِ۔۔۔۔[22]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص حج وعمرہ کے لئے اپنے گھر سے باھر نکلتا ھے پس جو قدم بھی وہ اٹھاتا اور زمین پر رکھتا ھے اس کے بدن سے گناہ یوں گرتے جاتے ھیں جیسے درختوں سے پتے چھڑتے ھیں،
پس جب وہ شخص مدینہ میں واردهوتا ھے اور سلام کے
ذریعہ مجھ سے مصافحہ کرتا ھے تو فرشتے بھی سلام کے ذریعہ اس سے ھاتھ ملاتے ھیں اور مصافحہ کرتے ھیں اور جب وہ ذولحلیفہ (مسجد شجرہ) میںواردهو کر غسل کرتا ھے تو خدا وند عالم اسے گناہوں سے پاک کردیتا ھے۔ جب وہ احرام کے دو جامہ اپنے تن پر لپٹتا ھے تو خدا وند عالم اسے نئے حسنات اور ثواب عطا کرتا ھے جب وہ ”لبیک اللھم لبیک “کھتا ھے تو خداوند عزوجل اسے جواب دیتےهوئے فرماتا ھے ”لیبک و سعدیک“ میں نے تیرا کلام اور تیری آواز سنی اور (عنایت کی نظر )تجھ پر ڈال رھاهوں اور جب وہ مکہ میں واردهوتاھے اور طواف نیز صفا ومروہ کے درمیان سعی انجام دیتا ھے تو خد اوند عالم ھمیشہ کی نیکیاں اور خیرات اس کے شامل حال کر دیتا ھے“۔
دعا کی قبولیت
قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):
اَرْبَعَةٌ لا تُرَدُّ لَھُمْ دَعُوَةٌ حَتّٰی تُفْتَحَ لَھُمْ اَبْوٰابُ السَّمٰاءِ وَتَصیرَ إِلَی الْعَرْشِ:
اَلْوٰالِدُ لِوَلَدِہِ،وَالْمَظْلُومُ عَلٰی مَنْ ظَلَمَہُ، وَالْمُعْتَمِرُحَتّی یَرْجِعَ ، والصّٰائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ۔[23]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”چار لوگ ایسے ھیں جن کی دعا رد نھیںهوتی یھاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھو ل دیئے جاتے ھیں اور دعائیں عرش الٰھی تک پہنچ جاتی ھیں :
۱۔باپ کی دعا اولاد کے لئے ،
۲۔مظلوم کی دعا ظالم کے خلاف،
۳۔عمرہ کرنے والے کی دعا جب تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے ۔
۴۔روزہ دار کی دعا یھاں تک کہ وہ افطار کر لے ۔
دنیا بھی اور آخرت بھی
قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):
مَنْ اَرَادَا لدُّنْیٰاوَالآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ ھٰذَاالبَیْتَ،فَمٰا اٴتٰاہُ عَبْدٌ یَسْاٴَلُ اللّٰہَ دُنْیٰا اِلاَّ اٴَعْطٰاہُ اللّٰہُ مِنْھٰا،وَلایَسْاٴَلُہُ آخِرَةً اِلاَّادَّخَرَلَہُ مِنْھٰا۔[24]
رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص دنیا اور آخرت کو چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا ارادہ کرے بلاشبہ جوبھی اس جگہ پر آیا اور اس نے خدا
سے دنیا مانگی تو خداوند عالم نے اس کی حاجت پوری کردی نیز یہ کہ اگر خدا وند عالم سے اس نے آخرت طلب کی تو خدا وند عالم نے اس کی یہ دعا بھی قبول کی اور اسے اس کے لئے ذخیرہ کردیا“۔
آگاھی کے ساتھ حج
قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص):في خُطْبَتِہِ یَوْمَ الْغَدِیر: مَعٰاشِرَ النّٰاسِ، حُجُّواالْبَیْتَ بِکَمٰالِ الدّینِ وَالتَّفَقُّہ، وَلا تَنْصَرِفُواعَنِ الْمَشٰاھِدِ اِلاَّ بِتَوْبَةٍ واِقْلاٰعٍ۔ [25]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوم غد یر کے خطبہ میں فرمایا:
”اے لوگو! خانہ ٴ خدا کا حج پوری آگاھی اور دینداری سے کرو ، اوران متبرک مقامات سے توبہ اور گناہوں کی بخشش کے بغیر واپس نہ لوٹو “۔
شرط حضور
قَالَ اٴَبُو عَبْدِاللّٰہِ (ع)کاَنَ اٴَبِي یَقُولُ:
مَنْ اٴَمَّ ھَذَاالْبَیْتَ حَاجّاً اٴَوْمُعْتَمِراًمُبَرَّاٴً مِنَ الْکِبْرِ رَجَعَ مِنْ ذُنُوبِہِ کَھَیْئَةِ یَوْمَ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ۔[26]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے اس گھر کی طرف روانہهو اور خود کو کبر و خود پسندی سے دور رکھے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاکهو جاتا ھے جیسے اسے اس کی ماں نے ابھی پیدا کیاهو“۔
حج کی برکتیں
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ (ع):
حَجُّوا وَاعْتَمِرُوا،تَصِحَّ اٴَبْدَانُکُمْ،وَتَتَّسعَ اٴَرْزَاقُکُمْ،وَتُکْفَوْا مَوٴُونٰاتِ عِیَالِکُمْ،وَقَالَ:الْحَاجُّ مَغْفُورٌ لَہُ وَمَوْجُوبٌ لَہُ الْجَنَّةُ،وَمُسْتَاٴْنَفٌ لَہُ الْعَمَلُ،وَمَحْفُوظٌ فِي اٴَھْلِہِ وَمَالِہِ۔[27]
امام جعفر صادق (ع)سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:
” علی بن الحسین علیھما السلام فرماتے تھے کہ:حج اور عمرہ بجالاوٴتاکہ تمھارے جسم سالم،تمھاری روزیاںزیادہ اور تمھار ے خانوادہ اور زندگی کا خرچ پوراهو آپ مزید فرماتے تھے:حاجی بخش دیا جاتا ھے جنت اس پر واجبهو جاتی ھے ، اس کا نامہٴ
عمل پاک کر کے پھر سے لکھا جاتا ھے اور اس کا مال اور خاندان امان میں رھتے ھیں“۔
جو حج قبول نھیں
عَنْ اٴَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ(ع)قَالَ:
مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ اٴَرْبَعٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہِ فِي اٴَرْبَعٍ: مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ غُلُولٍ اٴَوْ رِبًا اٴَوْ خِیَانَةٍاٴَوْ سَرِقَةٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہُ فِي زَکَاةٍ وَلاٰ صَدَقَةٍ وَلاٰحَجٍّ وَلاٰ عُمْرَةٍ۔[28]
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”جو شخص چار طریقوں سے مال اور پیسہ حاصل کرے اس کا خرچ کرنا چار چیزوں میں قبول نھیں ھے :
جو شخص آلودگی اور فریب کی راہ سے،سودکے ذریعہ، خیانت کے ذریعہ اور چوری کے ذریعہ پیسہ حاصل کرے تو اس کی زکات ، صدقہ،حج اور عمرہ کرنا قبول نھیں ھے ‘ ‘ ۔
مال حرام کے ذریعہ حج
قال اٴبو جعفر(ع):
لا یَقْبَلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ حَجّاًوَلاٰعُمْرَةً مِنْ مالٍ حَرامٍ۔[29]
امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں:
”خدا وند عالم حرام مال کے ذریعہ کئے جانے والے حج و عمرہ کو قبول نھیں کرتا “۔
حاجی کا اخلاق
عَنْ اٴَبي جَعْفَرٍ(ع) قَالَ:
مَا یُعْباٴُ مَنْ یَسْلُکُ ھَذَا الطَّرِیقَ اِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْہِ ثَلاٰثُ خِصَالٍ: وَرَعٌ یَحْجُزُہُ عَنْ مَعَاصِي اللّٰہِ،وَحِلْمٌ یَمْلِکُ بِہِ غَضَبَہُ،وَ حُسْنُ الصُّحْبَةِ لِمَنْ صَحِبَہُ۔[30]
امام محمد باقر (ع)نے فرمایا :
” جو شخص حج کے لئے اس راہ کو طے کرتا ھے اگر اس میں تین خصلتیں نہهوں تو وہ خدا کی توجہ کا مرکز نھیں بنتا :
۱۔تقویٰ وپرھیز گاری جو اسے گناہ سے دور رکھے۔
۲۔صبر وتحمل جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے۔
۳۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک ۔
کامیاب حج
قال رسول اللہ (ص):
مَنْ حَجَّ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ یَرْجِعُ کَھَیْئَةِ یَومٍ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ۔[31]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج یا عمرہ کیا اورکوئی فسق وفجور انجام نہ دیا تو وہ اس شخص کی طرح پاک واپسهوتا ھے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی پیدا کیا ھے“۔
حج کی قسمیں
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
الْحَجُّ حَجَّانِ:حَجُّ اللّٰہِ،وَحَجُّ لِلنَّاسِ،فَمَنْ حَجَّ لِلّٰہِ کَانَ ثَوَابُہُ عَلَی اللّٰہِ الْجَنَّةَ،وَمَنْ حَجَّ لِلنَّاسِ کاَنَ ثَوَابُہُ عَلَی النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔[32]
امام جعفر صادق ٍ(ع)فرماتے ھیں:
حج کی دو قسمیں ھیں:
”خدا کے لئے حج اور لوگوں کے لئے حج،پس جو شخص خدا
کے لئے حج بجالایا اس کی جزا وہ خدا سے جنت کی شکل میں حاصل کرے گا اور جو شخص لوگوں کے دکھانے کے لئے حج کرتا ھے اس کی جزا قیامت کے دن لوگوں کے ذمہ ھے “۔
حاجیوں کی قسمیں
معاویہ ابن عمار کھتے کہ امام صادق (ع)نے فرمایا:
الْحَاجُّ یَصْدُرُونَ عَلَی ثَلاٰثَةِ اٴَصْنَافٍ:فَصِنْفٌ یَعْتِقُونَ مِنَ النَّارِ،وَصِنْفٌ یَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِہِ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اٴُمُّہُ،وَصِنْفٌ یُحْفَظُ فِي اٴَہْلِہِ وَمَالِہِ،فَذَلِکَ اٴَدْنَی مَا یَرْجِعُ بِہِ الْحَاجُّ۔[33]
” حاجی تین قسم کےهوتے ھیں :
ایک گروہ جہنم کی آگ سے رھائی پاتا ھے ،دوسرا گروہ گناہوں سے اس طرح پاکهوتا ھے جیسے وہ ابھی اپنی ماں کے بطن سے پیداهواهو، اور تیسرا گروہ وہ ھے0 کہ اس کا خاندان اور اس کا مال محفوظهوجاتا ھے اور یہ وہ کمترین جزا ھے جس کے ساتھ حاجی واپسهوتے ھیں“۔
ناکام حاجی
قال رسول اللہ (ص):
یَاٴتي عَلَی النَّاسِ زَمانٌ یَحُجُّ اٴغنِیاءُ اٴمَتِّي لِلنُّزھَةِ،وَاٴَوْساطُھُمْ لِلْتِجارةِ،وَقُرّاوٴُ ھُمْ للریّاءِ وَالسَّمْعَةِ وَفُقَرائُھُم لِلمساٴلةِ۔(۱)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری امت کے دولت مندلوگ سیرو تفریح کے لئے اور درمیانی طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے قاری حضرات ریاکاری اور شھرت کے لئے اور فقرا مانگنے کے لئے حج کو جائیں گے “۔
اپنے ھمراھیوں کے ساتھ سلوک
قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):
وَطِّنْ نَفْسَکَ عَلَی حُسْنِ الصِّحَابَةِ لِمَنْ صَحِبْتَ فِي حُسْنِ خُلْقِکَ،وَکُفَّ لِسَانَکَ،وَاکْظِمْ غَیْظَکَ،وَاٴَقِلَّ لَغْوَکَ،وَتَفْرُشُ عَفْوَکَ، وَتَسْخُو نَفْسَکَ۔[34]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”خود کو آمادہ کرو تاکہ جس شخص کے بھی ھمراہ سفر کرو اچھے اور خوش اخلاق ساتھی رہو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو ،اپنے غصہ کو پی جاوٴ،بیہودہ وبے فائدہ کام کم کرو ،اپنی بخشش کو دوسروں کے لئے وسیع کرو،اور سخا وت کرنے والے رہو“۔
راہ کی اذیت
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
مَنْ اٴَمَاطَ اٴَذًی عَنْ طَرِیقِ مَکَّةَ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ حَسَنَةً وَمَنْ کَتَبَ لَہْ حَسَنَةً لَمْ یُعَذِّبْہُ۔[35]
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں اذیت و تکلیف اٹھا ئے خدا وند عالم اس کے لئے نیکی لکھتا ھے اور جس شخص کے لئے خداوند عالم نیکی لکھتا ھے اسے عذاب نھیں دیتا “۔
حج کی راہ میں موت
قال الصادق(ع):
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع)
قَالَ: مَنْ مَاتَ فِي طَرِیقِ مَکَّةَ ذَاھِباًاَّوُ جَائِیاً اٴَمِنَ مِنَ الّفَزَعِ الّاٴَکْبَرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔[36]
عبد اللہ ابن سنان سے روایت ھے کہ امام جعفر صادق ٍ(ع)نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں جاتے وقت یا واپسهوتے وقت مرجائے وہ قیامت کے دن کے عظیم خوف ھراس سے امان میں ر ھے گا “۔
حج میں انفاق کرنا
قال الصادق (ع):
”دِرْھَمٌ فِي الْحَجِّ اٴَفْضَلُ مِنْ اٴَلْفِيْ اٴَلْفٍ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰہِ “۔[37]
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
”حج کی راہ میں ایک درھم خرچ کرنا حج کے علاوہ کسی اور دینی راہ میں بیس لاکھ درھم خرچ کرنے سے بھتر ھے“۔
احرام کا فلسفہ
عَنِ الرِّضَا(ع):
فَاِنْ قَالَ:فَلِمَ اُمِرُوا بِالإحْرٰامٍ؟قیل:لِاَ ن یَتَخَشَّعُوا قَبْلَ دُخُولِ حَرَمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَمْنِہِ وَلِئَلاّٰ یَلْھُوا وَیَشْتَغِلُوا بِشَیْءٍ مِنْ اٴمُرِ الدُّنْیَا وَزِینَتِھَا وَالَذَّاتِھَا وَیَکُونُوا جَادِّینَ فِیمَا ھُمْ فِیہِ قَاصِدِینَ نَحْوَہُ،مُقْبِلِینَ عَلَیْہِ بِکُلِّیِّتِھِمْ،مَعَ مَا فِیہِ مِنَ التَّعْظیمِ لِلّٰہِ تَعٰالی وَلِبَیْتِہِ،وَالتَّذَلُّلِ لِاٴَنْفُسِھِمْ عِنْدَ قَصْدِ ھِمْ إِلَی اللّٰہِ تَعٰالیٰ وَوِفَادَتِھِمْ إِلَیْہِ، رَاجِینَ ثَوَابَہُ،رَاھِبِینَ مِنْ عِقَابِہِ،مَاضِینَ نَحْوَہُ مُقْبِلِینَ إِلَیْہِ بِالذُّلِّ وَالِاسْتِکَانَةِ وَالْخُضُوعِ۔[38]
امام علی رضا (ع)نے فرمایا:
”اگر یہ کھا جائے کہ لوگوں کواحرام پہننے کا حکم کیوں دیا گیا ھے ؟ تو یہ کھا جائے گا کہ :اس لئے کہ لوگ اللہ کے حرم اور امن وامان کی جگہ میں واردهونے سے پھلے خاشع اور منکسر مزاجهوں ، امور دنیا ،اس کی لذتوںاور زینتوں میں سے کسی بھی چیز میں خودکو مشغول نہ کرےں جس کام کے لئے آئے ھیںاور جس کا ارادہ رکھتے ھیں اس پر صابر رھیں اور پورے وجود سے اس پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ احرام میں خدااور اس کے گھر کی تعظیم۔ اپنی فروتنی اور باطنی ذلت وحقارت ، خدا کی طرف قصد
اور اس کے حضور واردهونا ھے،جب کہ وہ اس سے جزا کی امید رکھتے ھیں اس کے عقاب اور سزا سے خوف زدہ ھیں اور انکسار وفروتنی اور ذلت خوا ری کی حالت میں اس کی طرف رخ کئےهوئے ھیں“۔
احرام کا ادب
قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):
إِذَا اٴَحْرَمْتَ فَعَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ،وَذِکْرِ اللّٰہِ کَثِیراً،وَقِلَّةِ الْکَلاٰمِ إِلاَّ بِخَیْرٍ،فَإِنَّ مِنْ تَمَامٍ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ اٴَنْ یَحْفَظَ الْمَرْءُ لِسَانَہُ إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ۔[39]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا :
”جب محرمهو جاوٴ تو تم پر لازم ھے کہ باتقویٰ رہو ،خدا کو بہت یاد کرو ،نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرو کہ بلا شبہ حج اور عمرہ کا کاملهونا یہ ھے کہ انسان اپنی زبان کو نیکی کے علاوہ کسی اور امر میں نہ کھو لے “۔
حقیقی لبیک
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص): مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبّی اِلاَّ لَبّٰی مَا عَنْ یَمینِہِ وَشِمٰالِہِ
مِنْ حَجَرٍاٴَوْ شَجَرٍاٴَْومَدَرٍحَتّٰی تَنْقَطِعَ الاَرْضُ مِنْ ھٰا ھُنَا وَھٰاھُنَا۔[40]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”کوئی شخ-ص لبیک نھیں کھتا مگر یہ کہ اس کے دائیں بائیں ،پتھر درخت ،ڈھیلے اس کے ساتھ لبیک کھتے ھیں یھاں تک کہ وہ زمین کو یھاں سے وھاں تک طے کر لے “۔
حج کا نعرہ
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص): اٴَتَانِي جَبْرَئِیلُ(ع) فَقَالَ:
اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَاٴْ مُرُکَ اَنْ تَاٴْمُرَ اٴَصْحَابَکَ اٴَنْ یَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَھُمْ بِالتَّلْبِیَةِ فَإِنَّھَا شِعَارُ الْحَجِّ۔[41]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جبرئیل میرے پاس آئے اور کھا کہ خدا وند عالم آپ کو حکم دیتا ھے کہ اپنے ساتھیوں اوراصحاب کو حکم دیں کہ بلند آواز سے لبیک کھیں کیونکہ یہ حج کا نعرہ ھے “۔
معرفت کے ساتھ واردهونا
قَالَ الْبَاقِرُ(ع):
مَنْ دَخَلَ ھَذَا الْبَیْتَ عَارِفاً بِجَمیع ما اٴَوْجَبَہُ اللّٰہ عَلَیْہِ کٰانَ اٴَمِناً فِي الآخِرَةِ مِنَ الْعَذَابِ الدّٰائِمِ۔[42]
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں :
”جو شخص اس گھر میں اس عرفان کے ساتھ داخلهو کہ جو کچھ خداوند عالم نے اس پر واجب کیا ھے اس سے آگاہ رھے تو قیامت میں دائمی عذاب سے محفوظ رھے گا“۔
خدا کے غضب سے امان
عبد اللہ بن سنان کھتے ھیں کہ میں نے امام جعفر صادق ں سے پوچھا :”کہ خدا وند عالم کا ارشاد ”ومن دخلہ کان آمناً“[43]
”یعنی جو شخص اس میں داخلهو وہ امان میں ھے اس سے مراد گھر ھے یا حرم ؟
قَالَ:مَنْ دَخَلَ الْحَرَمَ مِنَ النَّاسِ مُسْتَجِیراً بِہِ فَھُوَ آمِنٌ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ ۔۔۔ ۔[44]
”امام (ع)نے فرمایا:جو شخص بھی حرم میں داخلهو اور وھاں پناہ حاصل کرے وہ خدا کے غضب سے امان میں رھے گا “۔
مکہ خدا و رسول کا حرم
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
مَکَّةُ حَرَمُ اللّٰہِ وَحَرَمُ رَسُولِہِ وَحَرَمَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ (ع)،الصَّلاٰةُ فِیھَابِمِائَةِ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ، وَالدِّرْھَمُ فِیھَ ابِمِائَةِ اٴَلْفِ دِرْھَم،وَالْمَدِینَةُ حَرَمُ اللّٰہِ وَحَرَمُ رَسُولِہِ وَحَرَمُ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ۔ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمَا۔الصَّلاٰةُ فِیھَا بِعَشَرَةِ آلاٰف صَلاٰةٍ وَ الدِّرْھَمُ فِیھَا بِعَشَرَةِ آلاٰفِ دِرْھَمٍ۔[45]
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :
”مکہ خدا وندعالم ،اس کے رسول(ص)(پیغمبر اکرم (ص)) اور امیر المومنین کا حرم ھے اس میں ایک رکعت نماز ادا کرنا ایک لاکھ رکعت کے برابر ھے۔ ایک درھم انفاق کرنا ایک لاکھ درھم
خیرات کرنے کے برابر ھے۔ مدینہ (بھی)اللہ ،اس کے رسول اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع)کا حرم ھے اس میں پڑھی جانے والی نماز دس ہزار نماز کے برابر اور خیرات کیا جانے والا ایک درھم دس ہزار درھم کے برابر ھے “۔
مسجد الحرام میں داخل هونے کے آدا ب
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَادْخُلْہُ حَافِیاً عَلَی السَّکِینَة ِوَالوَقَارِ وَالْخُشُوعِ۔۔۔ ۔[46]
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں :
”جب تم مسجد الحرام میں داخلهوتو پابرہنہ اور سکون ووقار نیز خوف الٰھی کے ساتھ داخلهو “۔
جنت کے محل
قَالَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ (ع):
اٴَرْبَعَةٌ مِنْ قُصُورِ الْجَنّةِ فِي الدُّنْیَا:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ،وَمَسْجِدُ الرَّسُولِ (ص)، وَ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَمَسْجِدُ الْکُوفَةِ؛[47]
حضرت علی ابن ابی طالب (ع)فرماتے ھیں :
”چار جگھیں دنیا میں جنت کے محل ھیں :
۱۔مسجد الحرام ، ۲۔مسجد النبی(ص) ، ۳۔مسجد الاقصیٰ، ۴۔مسجد کوفہ ،
حرمین میں نماز
عَنْ إِبْرَاھِیمَ بْنِ شَیْبَةَقَالَ:
کَتَبْتُ إِلَی اٴَبِي جَعْفَرٍ(ع) اٴَسْاٴَلُہُ عَنْ إِتْمَامِ الصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ،فَکَتَبَ إِلَیَّ:کَانَ رَسُولُ اللّٰہ یُحِبُّ إِکْثَارَالصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ فَاٴَکْثِرْفِیھِمَا وَاٴَتِم َّ۔[48]
ابراھیم بن شیبہ کھتے ھیں کہ:
میں نے امام محمد باقر(ع) کو خط لکھا اور اس میں مکہ اور مدینہ میں پوری نماز اداکرنے کے سلسلہ میں دریافت کیا امام (ع)نے جواب میں تحریر فرمایا:
” رسول خدا (ص)ھمیشہ مسجد الحرام اور مسجد النبی میں زیادہ نماز پڑھنا پسند کرتے تھے پس ان دو جگہوں پر نماز یں زیادہ پڑھو اور اپنی نماز بھی پوری ادا کرو“۔
مکہ میں نماز جماعت
عَنْ اٴَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ اٴَبِي نَصْرٍ،عَنْ اٴَبِيالْحَسَنِ (ع)قَالَ:
سَاٴَلْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّي فِي جَمَاعَةٍ فِي مَنْزِلِہِ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ اٴَوْ وَحْدَہُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ: وَحْدَہُ۔[49]
احمد ابن محمد ابن ابی نصرکھتے ھیں :
”میں نے حضرت علی بن موسیٰ الرضا(ع) سے دریافت کیا اگر کوئی شخص مکہ میں نماز جماعت اپنے گھر میں ادا کرے یہ افضل ھے یا مسجد الحرام میں فرادیٰ نماز اداکرنا افضل ھے فرمایا: فرادیٰ (مسجد الحرام میں)“ ۔
اھل سنت کے ساتھ نماز
عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ،قَالَ:
”قَالَ لِي اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ(ع):یَا إِسْحَاقُ اٴَ تُصَلَّي مَعَھُمْ فِي الْمَسْجِدِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ:صَلِّ مَعَھُمْ فَإِنَّ الْمُصَلِّي مَعَھُمْ فِي الصَّفِّ الْاٴَوَّلِ کاَلشَّاھِرِ سَیْفَہُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ“۔[50]
اسحاق ابن عمار کھتے ھیں :
”امام جعفر صادق (ع)نے مجھ سے فرمایاکہ: اے
اسحاق!کیا تم ان لوگوں (اھل سنت )کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتےهو؟میں نے عرض کیا ھاں!حضرت (ع)نے فرمایا:ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو بلاشبہ جو شخص ان لوگوں کے ھمراہ پھلی صف میں نماز پڑھے وہ اس مجاھد کے مانند ھے جو خدا کی راہ میں تلوار چلا رھاهواور دشمنان دین کے ساتھ جنگ کررھاہو‘ ‘۔
کعبہ چوکور کیوں ھے؟
رُوِيَ اٴَنَّہُ إِنَّمَا سَمِّیَتْ کَعْبَةً لِاٴَنَّھَا مُرَبَّعَةٌ وَصَارَتْ مُرَبِّعَةً لِاٴَنَّھَا بِحِذَاءِ الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ وَھُوَ مَرَبِّعٌ وَصَارَ الْبَیْتُ الْمَعْمُورُ مُرَبِّعاً لِاٴَنَّہُ بِحِذَاءِ الْعَرْشِ وَھُوَمُرَبَّعٌ، وَصَارَالْعَرْشُ مُرَبَّعاً،لِاٴَنَّ الْکَلِمَاتِ الَّتِي بُنِیي عَلَیْھَا الْإِسْلاٰمُ اٴَرْبَعٌ:وَھِیَ :سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اٴَکْبَرُ۔(۱)[51]
شیخ صدوق ۺ فرماتے ھیں:
”ایک روایت میں آیا ھے کہ کعبہ کو کعبہ اس لئے کھا گیا ھے کہ وہ چوکور ھے اور وہ چوکو اس لئے بنا یاگیا ھے کہ اسی کے مقابل (آسمان اول پر) بیت المعمور چوکور بنایا گیا ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ وہ عرش خدا کے مقابل ھے جو چوکور ھے اور عرش خدا بھی اس لئے چوکور ھے کہ اس کی بنیاد اسلام کے چار کلموں پر ھے اور وہ یہ ھیں :”سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،وَاللّٰہُ اٴَکْبَرُ“۔
کعبہ کی طرف دیکھنا
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
مَنْ نَظَرَإِلَی الْکَعْبَةِ لَمْ یَزَلْ تُکْتَبُ لَہُ حَسَنَةٌ وَتُمْحَی عَنْہُ سَیِّئَةٌ، حَتَّی یَنْصَرِفَ بِبِصَرِہِ عَنْھَا۔[52]
امام جعفر صادق (ع)فرمایا :
”جو شخص کعبہ کی طرف دیکھے ھمیشہ اس کے لئے حسنات لکھے جاتے ھیں اور اس کے گناہ محو کئے جاتے ھیں جب تک وہ اپنی نگاھیں کعبہ سے ہٹا نھیں لیتا “۔
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
النَّظَرُ إِلَی الْکَعْبَةِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْوَالِدَیْنِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْإِمَامِ عِبَادَةٌ۔[53]
امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:
”کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ھے ،ماں باپ کی طرف دیکھنا عبادت ھے،اور امام کی طرف دیکھنا عبادت ھے“۔
الٰھی لمحہ
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِنَّ لِلْکَعْبَةِ لَلَحْظَةً فِي کُلِّ یَوْمٍ یُغْفَرُ لِمَنْ طَافَ بِھَا اٴَوْ حَنَّ قَلْبُہُ إِلَیْھَا اٴَوْ حَسَبَہُ عَنْھَا عُذْرٌ۔[54]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”بلا شبہ کعبہ کے لئے ھر روز ایک لمحہ (ایک وقت )ھے کہ خدا وند عالم اس میں کعبہ کا طواف کرنے والوں اور ان لوگوں کو جن کا دل کعبہ کے عشق سے لبریز ھے نیز ان لوگوں کو جو کعبہ کی زیارت کے مشتاق ھیں لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیں ھیں ،بخش دیتا ھے“۔
برکتوں کا نزول
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ حَوْلَ الْکَعْبَةِ عِشْرِینَ وَمِائَةَ رَحْمَةٍ مِنْھَا سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَاٴَرْبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَعِشْرُونَ لِلنَّاظِرِینَ۔[55]
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
”خدا وند عالم اپنی ایک سو بیس رحمتیں کعبہ کے اوپر نازل کرتا ھے جن میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں کے لئے ،چالیس رحمتیں نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس رحمتیں کعبہ کی طرف دیکھنے والوں کے لئےهوتی ھیں“۔
دین اور کعبہ کا ربط
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
لاٰ یَزَالُ الدِّینُ قَائِماً مَا قَامَتِ الْکَعْبَةُ۔[56]
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں :
”جب تک کعبہ قائم ھے اس وقت تک دین بھی اپنی جگہ بر قرار رھے گا“۔
یہ عمل منع ھے
محمد ابن مسلم کھتے ھیں کہ: میںنے امام صادق ںسے سنا آپ فرما رھے تھے:
قال الصادق (ع):
لاٰ یَنْبَغِي لِاٴَحَدٍ اٴَنْ یَاٴْخُذَ مِنْ تُرْبَةِ مَا حَوْلَ الْکَعْبَةِ وَإِنْ اٴَخَذَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئاً رَدَّہُ۔[57]
” کسی شخص کے لئے یہ درست نھیں ھے کہ کعبہ اور اس کے اطراف کی مٹی اٹھائے اور اگر کسی نے اٹھا ئی ھے تواسے واپس کر دے“۔
کعبہ کا پردہ
عَنْ جَعفر،عَنْ اٴَبیہِ علیھما السلام:
اٴَنَّ عَلِیّاً کَانَ یَبْعَثُ بِکِسْوَةِ الْبَیْتِ في کُلِّ سَنَةٍ مِنَ الْعَرٰاقِ۔[58]
امام محمد باقر (ع)نے فرمایا:
”بلا شبہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ھر سال عراق سے کعبہ کا پردہ بھیجتے تھے “۔
امام زمانہ(ع) کعبہ میں
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ اٴَنَّہُ قَالَ: سَاٴَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعُمْرِیَّ -رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ - فَقُلْتُ لَہُ:رَاٴَیْتَ صَاحِبَ ھَذَا الْاٴَمْرِ؟فَقَالَ:نَعَمْ وَآخِرُ عَھْدِي بِہِ عِنْدَ بَیْتِ اللّٰہِ الْحَرَامِ وَھُوَ یَقُولُ:اللَّھُمَّ اٴَنْجِزْ لِي مَاوَعَدْتَنِي۔[59]
عبد اللہ ابن جعفر حمیری کھتے ھیں:
”میں نے محمد بن عثمان عمری سے پوچھا کیا تم نے امام زمانہ(ع) کو دیکھا ؟انھوں نے جواب دیا ھاں!میںنے آخری بار انھیں کعبہ کے نزدیک دیکھا کہ حضرت (ع)فرمارھے تھے اے میرے اللہ !جس چیز کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ھے اسے پورا فر ما “۔
حجر اسود
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ (ص):
اَلْحَجَرُ یَمینُ اللّٰہِ فِي الاٴَرْضِ،فَمَنْ مَسَحَ یَدَہُ عَلَی الْحَجَرِ فَقَدْ بٰایَعَ اللّٰہَ اَنْ لاٰ یَعْصِیَہُ۔[60]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حجر اسود زمین میں خدا کے داہنے ھاتھ کے مانند ھے پس جو شخص اپنا ھاتھ حجر اسود پر پھیرے اس نے اس بات پر اللہ کی بیعت کی ھے کہ اس کی معصیت ونافرمانی نھیں کرے گا“۔
حجر اسود کو دور سے چومنا
عَنْ سَیْفٍ التَّمَّارِ قَالَ:
قُلْتُ لِاٴَ بِي عَبْدِ اللّٰہِ اٴَتَیْتُ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَوَجَدْتُ عَلَیْہِ زِحَاماً فَلَمْ اٴَلْقَ إِلاَّ رَجُلاً مِنْ اٴَصْحَابِنَا فَسَاٴَلْتُہُ فَقَالَ:لاٰبُدَّ مِنِ اسْتِلاٰمِہِ فَقَالَ:إِنْ وَجَدْتَہُ خَالِیاً وَإِلاَّ فَسَلِّمْ مِنْ بَعِیدٍ۔[61]
سیف ابن تمار کھتے ھیں”میں نے امام جعفرصادقں سے عرض کیا :
”میں حجر اسود کے قریب آیا وھاں جمعیت بہت زیادہ تھی میں نے اپنے ساتھیوں میں سے ھر ایک سے پوچھا کیا کروں ؟ سب نے جواب دیا کہ استلا م حجر کرو (حجر اسود کا بوسہ لو)۔میرا فریضہ کیا ھے؟امام نے اس سے فرمایا :اگر حجر اسود کے پاس مجمع نہهو تو اسے استلام کروورنہ اپنے ھاتھ سے دور سے اشارہ کرو “۔