نور وجدان

لائبریرین
“سنو میرے قرین …….”
آج یونہی اکیلے بیٹھے تمہاری یاد آئی ۔
یوں لگا تم میرے پاس ہو ۔
دل نے کہا کہ تمہارے سامنے حدیث ذات کہہ دی جائے ۔
گزرے ماضی کی تلخ یاد سے چھٹکارا پا لیا جائے ……….۔۔

مجھے تمہارے سامنے اعتراف کرنا ہے ……..
اور جب اعتراف کرنا ہی ہے تو صرف سچ ہی کہوں گی ۔
اک تم ہی تو ہو جسے میری روح اپنا مجاز جان تمہارے سامنے حال دل بیان کر دیتی ہے

میں تمہارے سامنے یہ سب اعتراف اس لیے کر رہی ہوں کہ
مجھے ماضی کی گُم گشتہ چنگاریوں کو راکھ کرکے ،
ان پر پاؤں رکھ کے مستقبل کی طرف قدم بڑھانا ہے ۔مجھے آگے جانا ہے ۔

سُنو ……………! میری مدد کرو گے………… ؟
اجنبی تو ہو مگر مجھے اپنا مجاز لگتے ہو یہ تو بتاؤ کہ تم کون ہو ……..؟

"میں " کون ہوں……… ؟میں وہی تمھاری روح کا حصہ ہوں جو ''میں '' بن کے تمھیں بھٹکاتا رہا ہے ……۔ اب تم مجھے سب کہے جاؤ……..
مجھے کہتی جاؤ مگر اس شرط کے ساتھ کہ تم نے کبھی ماضی کی طرف پلٹنا نہیں ہے۔

''جارہے ہو اگر دور مجھ سے صنم۔۔
پھر لوٹ کے آنا نہیں۔۔۔۔''

''وہ'' سوچ رہی تھی کہ فضاء میں جُھماکا سا ہوا ۔اس کے ساتھ ہی موسیقی نے تال سے تال ملا دی اور یاد کی دہلیز پر گانا بجنے لگا۔اسے یاد آیا کہ یہ گانا اسے بہت پسند تھا۔ایک دن''میں'' اس کو یہ گانا سُنا رہی تھی۔ اور ''میں'' کی گنگناہٹ میں ''میں''نے لفظوں کو دیوار پر گردش کرتے پایا۔ یہ لفظ گول دائرے میں گردش کرتے ہوئے بامعانی جملے بنانے لگے ۔سفید دیوار پر قوس ِ قزح کی طرح رنگ بکھیرتے لفظوں نے زندگی کے ازلی دشمن ''میں'' کا پردہ فاش کیا۔



''کہتے ہیں سوچوں کے پرندوں کو بدن کی قید سے آزاد کرکے موت نہ دو ۔ یہ پرندے تمہاری روحیں ہیں اور سوچ کے پر بہت جلد پروان چڑھتے ہیں۔ اک دفعہ لب سے جو ادا ہوا ۔ اس کا صلہ یوں ملا کہ روح نے ناتا توڑ کر بدن سے انا کی تلوار سنبھال لی۔ بدن زخمی اور چور چور ہوا بالآخر مٹی پہ مٹی مٹی ہو گیا۔زندگی کی قبر پر سوچ نے کتبہ لگایا۔''

''مجھے کبھی عیاں نہ ہونے دینا۔ورنہ خونِ جگر تمہاری آنکھوں سے رس رس کر تمہاری جان کو گھائل کر دے گا۔۔۔''

''میں '' کی سدا کی قیدی اور اسیر ''وہ'' دیوار پر لفظوں کا عکس دیکھ کر جُھنجلا گئی ۔ اور ''وہ'' سوچنے لگی "

''اگر خیال پر قید لگا دی جائے تو بے خیالی مقدر ہوجاتی ہے ۔ کچھ لوگ ہی خیالات کے انتقال کی صلاحیت رکھتے ہیں ، جبکہ بہت کم انتقال و انصال سے روشنی لیتے ہیں ۔ جو لوگ اس کام میں مہارت رکھتے ہیں ، وہ دانشور ہوتے ہیں کیونکہ وہ تبدیلی لاچکنے پر قادر ہیں یا لاسکتے ہیں ، یہی لوگ سرمایہ ہوتے ہیں ۔ ان کو انقلابی و طوفانی کے القابات دینے سے مت گھبرانا ۔۔۔۔'


میں'' کا تماشہ اس کی ذات کو ہمہ وقت گھیرے رکھتا ۔'' وہ'' اس میں بہتی رہتی اور لکھتی جاتی ۔ یوں ان صفحات سفید کاغذ پر بکھرتے جاتے لفظوں کو اپنا سرمایہ بناتی رہتی ۔ لفظ جو گیت ہوتے ہیں اور ذات کا سنگیت بن کے جب نرم ہونٹوں سے گنگنائے جاتے ہیں تو ان کا ابدی و لافانی ذائقہ اس دنیا میں موجود جسم خاکی میں قید جیون جنگ میں مصروف صرف حساس روحیں ہی محسوس کرتی ہیں ۔ان سے نہ صرف حوصلہ پاتے بلکہ ان کی چاشنی میں گھلی مٹھاس سے ابھرتی دھیمی دھیمی کسک سے لطف پاتی ہیں ۔

٭٭٭٭٭
کراچی کےسمندر کے ساحل پر ولی خان بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ ساحل کنارے بیٹھنا اس کو ناگوار گزرا کرتا تھا۔لہروں کا شور اس کی سماعت پر گراں گزرا کرتا تھا۔وہ اکثر سوچا کرتا کہ کیا جال سے لہروں کے بھنور میں رقص کرتی مچھلیاں پکڑنا ، ان کو چھاٹنا صاف کرنا اور پھر چھوٹی مچھلیوں کو سمندر میں واپس ڈال دینا ۔۔۔۔۔کیا یہی اُس کی زندگی کا مقصد ہے جو کہ اس کو ملی میراث ہے !؟

ہر انسان اپنے ارد گرد کے ماحول کے نشیب و فراز سے مکمل آگہی رکھنے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ وہ اسی ماحول کا رہنما ٹھہرے ! سورج کی تمازت کے باوجود ہلکی رواں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے فضا میں تازگی کی جیسے بوندیں چھڑک رہے تھے ۔ ساحل پر پاؤں کے نشان لہریں مٹا رہی تھیں ، نئے نشان بنتے جاتے ، لہریں مٹاتی جاتیں ۔ ولی خان نے اک مٹھی ریت اٹھائی اور ریزہ ریزہ اسے اپنے ہاتھ سے ساحل کی زمین پر گرتے سوچنے لگا کہ زندگی بھی یونہی ہاتھ سے پھسلتی جاتی ہے ۔ وہ لہروں کی طغیانی دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جیسے تندو تیز موجیں سمندرمیں طلاطم برپا کیئے طوفان سا اٹھائے رکھتی ہیں ۔ ایسے ہی انسان کی زندگی میں خواہشیں اور حسرتیں بےقرار طوفان اٹھائے رکھتی ہیں ۔ ریت ہاتھ سے گر چکی تھی مگر اس کا انہماک ہاتھ سے گرنے والی ریت نہ توڑ سکی ۔

ولی خان کی زندگی کی صبح کا آغاز رات کے لگے جال کو پانی سے باہر نکالنا ان میں الجھی جل مچھلیوں کو چھاٹنے سے ہوتا ۔ شروع شروع میں یہ عمل اس کے لیے قدرے دشوار تھا کہ اس کی نفیساتی کشمکش میں مبتلا کرتی تھی ۔ دل کا غبار ساحل پر بیٹھ یونہی سوچتے ہلکا کیا کرتا تھا ۔ یونہی اس کی جوانی اس بھیڑ چال میں گزررہی تھی ۔گزرے ماضی کی یادوں کو بھلانا آسان نہیں ہوتا ہے بعض اوقات انسان خود ہی ان میں گم ہوجاتا ہے ۔ خواہش اور حسرت کے جال میں پھنس انسان کیسے خود کو اس جال سے آزاد کروانے کی کوشش کرتا ہے ۔جال میں پھنسی تڑپتی مچھلیاں اور سمندر کی تندو تیز موجیں اسے یہ المیہ یاد دلایا کرتی تھیں ۔

ساحل کنارے بیٹھے انہی سوچوں میں الجھے وقت بتاتے دو تین ماہ سے روزانہ ایک لڑکی ساحل پر آتے اور وہاں گھنٹوں بیٹھ کاغذ پر قلم سے کچھ لکھتے دیکھ رہا تھا ۔ جب وہ اسے آتے دیکھتا تو سوچ میں گم ہوجاتا کہ وہ کون ہوگی ؟ اس کا ان کاغذوں سے کیا رشتہ ہے ؟ کیا وہی رشتہ جو میرا لہروں سے ہے ؟

یونہی ایک دن ساحل کنارے بیٹھا ہوا تھا ۔ سمندر کی تیز لہریں ایک بڑی نیم مردہ جل مچھلی اس کے پاس چھوڑ گئیں ۔ اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی رنگت میں چمک پاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ وقت کتنا بے رحم پرندہ ہے جیسے گدھ مردہ ہوتے ہوئے جانور کو کھاتا ہے ، وقت بھی شجر کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے ۔ یکایک کچھ صفحات کی پھڑپھڑاہٹ فضا میں سنائی دی ۔۔۔۔۔

ولی نے دیکھا کہ " وہ "لڑکی جن صفحات پر کچھ لکھ رہی تھی ایک بہت تیز ہوا کے جھونکے نے وہ سارے صفحات اس کے ہاتھ سے چھین ساحل کی گیلی زمین پر بکھیر دیے تھے ۔اور وہ پریشان اور سراسیمہ سی کھڑی اپنی محنت کو پانی ہوتا دیکھ رہی تھی ۔ ولی جو اس سے بات کرنے کا موقع چاہتا تھا اس موقع کو غنیمت جانا ، ۔اور جلدی سے بھاگ کر ان نمیدہ صفحات کو ساحل کی ریتلی مٹی سے اٹھا کر جو بہت آہستہ آہستہ ساحل کی مٹی میں جذب ہوتے اپنی سیاہی کھو رہے تھے کو اکھٹے کرکے اس کو پکڑانے اس کے پاس لایا جس کی یہ ملکیت تھی اس کو وہ کاغذ تھما دیے ، اچانک جیسے غیبی مدد پا کر اس لڑکی نے آنکھ سے بہتی آنسو ؤں کی لڑی کو صاف کیا ۔ اور اک مدھر صدا فضاء میں بکھر گئی ۔

" شکریہ " لڑکی آواز ابھری
ولی خان کو حیرانگی کا جھٹکا لگا ۔
''یاحیرت !
آواز اور لہریں ۔۔۔۔۔!
دونوں کتنی مماثلت رکھتی ہیں''
بلاشبہ وہ آواز نغمگی لیے ہوئی اپنی مدھرتا سے سنگیت چھیڑ رہی تھی ۔
حریم اور ولی خان کی پہلی ملاقات تھی مگرولی کو لگا صدیوں کی پہچان ہے ۔
سرتاپا حیرت میں وہ اس سے مخاطب ہوا۔۔
''تو تم کاغذوں سے کھیلتی ہو؟ یوں نہ ہو کہ کسی دن کاغذ تم سے کھیل جائے ۔۔۔!!!

حریم نے اپنی سمندر جیسی گہرائی کی حامل آنکھوں کو اٹھا یا ۔ ولی کی آنکھوں میں دیکھا ۔ تو ولی کو لگا جیسے ہر جانب نیلے رنگ کی چاندنی پھیل گئی ہے ۔


تم نے کبھی محبت کی ؟ میری ساری زندگی محبتوں میں گزری ہے ۔۔ ! اس کو نبھاتے لمحے میں صدی کا درد پیتا ہوں ۔۔۔ ! یوں میں صدیوں کا درد خود میں سموئے ہوئے ہوں اور میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا میرے جتنا درد سہا ہے جو کاغذوں سے کھیلتی ہو ؟؟؟​
 

نایاب

لائبریرین
تم نے کبھی محبت کی ؟ میری ساری زندگی محبتوں میں گزری ہے ۔ ۔۔۔ ! اس کو نبھاتے لمحے میں صدی کا درد پیتا ہوں ۔۔۔ ! یوں میں صدیوں کا درد خود میں سموئے ہوئے ہوں اور میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا میرے جتنا درد سہا ہے جو کاغذوں سے کھیلتی ہو ؟؟؟
محترم سعدیہ بٹیا
ابتدا تو بہت خوب ہے ۔ ماشاء اللہ
دوسری قسط کا انتظار رہے گا ۔
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
محترم سعدیہ بٹیا
ابتدا تو بہت خوب ہے ۔ ماشاء اللہ
دوسری قسط کا انتظار رہے گا ۔
بہت دعائیں
شکریہ جناب .... پسند آوری ہے ..ان شاء اللہ.اللہ.کے فضل.سے ایک.اچھی کہانی.ملے گی ...اللہ.مجھے ارادے میں.کامیاب فرمائے کہ.سب ذات اللہ.سے چلتا ہے ..
 
ریحان ذات سے عرفان ذات کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے حدیث ذات کبھی کوئے ملامت کا طواف کرتی۔ہے کبھی سوئے دار چڑھ جاتی ہے
پہلا ناول ہونے کے باوجود جھول محسوس نہیں۔ہوا دوسری قسط کا انتظار رہے گا
شاد و آباد رہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
ریحان ذات سے عرفان ذات کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے حدیث ذات کبھی کوئے ملامت کا طواف کرتی۔ہے کبھی سوئے دار چڑھ جاتی ہے
پہلا ناول ہونے کے باوجود جھول محسوس نہیں۔ہوا دوسری قسط کا انتظار رہے گا
شاد و آباد رہیں
آپ جیسی نظر شناس اور اہل.دل ہستی تحریر کی روح کو بخوبی سمجھ پائی ہے ... ان شاء اللہ مناسب وقت کے ساتھ اقساط پبلش کرتی رہوں گی. شکریہ جناب
 
نور میں فرصت سے پڑھوں گا ۔ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔ تم اتنا سارا کیسے لکھ لیتی ہو ۔ بس دعا گو ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔۔ یہ وعدہ رہا پڑھ کے ضرور تبصرہ کروں گا ۔
 
ایک اچھی تحریر ہے الفاظ کا چناو اپنی جگہ ایک منفرد انداز میں ہے۔۔۔کسی کسی جگہ تھوڑی جھول نظر آئ جیسے اس جگہ
"تم نے کبھی محبت کی ؟ میری ساری زندگی محبتوں میں گزری ہے مگر پھر بھی میری پیاس بجھتی نہیں ہے ۔ میں ہر جل پری سے محبت کرتا بھی ہوں اور نبھاتا بھی ہوں۔۔۔ ! اس کو نبھاتے لمحے میں صدی کا دردپیتا ہوں"
یہاں سمجھ نہیں آئ کی آیا یہ تحریم کے الفاظ ہیں یا کہ ولی خان کے۔۔۔۔مجموعی طور پر اچھا لکھا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نور میں فرصت سے پڑھوں گا ۔ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔ تم اتنا سارا کیسے لکھ لیتی ہو ۔ بس دعا گو ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔۔ یہ وعدہ رہا پڑھ کے ضرور تبصرہ کروں گا ۔
چلیں ! انتظار رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ بھیا ۔۔ آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک اچھی تحریر ہے الفاظ کا چناو اپنی جگہ ایک منفرد انداز میں ہے۔۔۔کسی کسی جگہ تھوڑی جھول نظر آئ جیسے اس جگہ
"تم نے کبھی محبت کی ؟ میری ساری زندگی محبتوں میں گزری ہے مگر پھر بھی میری پیاس بجھتی نہیں ہے ۔ میں ہر جل پری سے محبت کرتا بھی ہوں اور نبھاتا بھی ہوں۔۔۔ ! اس کو نبھاتے لمحے میں صدی کا دردپیتا ہوں"
یہاں سمجھ نہیں آئ کی آیا یہ تحریم کے الفاظ ہیں یا کہ ولی خان کے۔۔۔۔مجموعی طور پر اچھا لکھا۔
شکریہ کامران ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میں نے یہ قسط تو پڑھ لی جو مجھے واقعی بہت پسند آیا ۔ معمولی طور پر کہیں کہیں ٹائپو یا جملے کی بندش روانی میں خلل پیدا کرتی ہے ۔ مگر ایک و مرتبہ جب آپ خود پڑھیں گی تو ٹھیک ہو جائے گا ۔ میری نیک تمنائیں ناول کے لئے ۔ قسطیں ذرا جلدی جلدی پیش کریں ۔ باقی اللہ مدد کرے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے یہ قسط تو پڑھ لی جو مجھے واقعی بہت پسند آیا ۔ معمولی طور پر کہیں کہیں ٹائپو یا جملے کی بندش روانی میں خلل پیدا کرتی ہے ۔ مگر ایک و مرتبہ جب آپ خود پڑھیں گی تو ٹھیک ہو جائے گا ۔ میری نیک تمنائیں ناول کے لئے ۔ قسطیں ذرا جلدی جلدی پیش کریں ۔ باقی اللہ مدد کرے ۔
شکریہ ۔۔۔۔۔زبان پر غور کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پسندیدگی کے لیے شکریہ جناب۔۔جلدی جلدی تو بالکل نہیں دینی میں نے ۔۔۔۔۔ترستے رہو تم بس :)
 

محمود ایاز

محفلین
میں نے جب اس تحریر کا مطالعہ کیا تو مبہوت سا ہو گیا اور وہ منظر جو اُن الفاظ کی جادوگری نے میرے ذہن کے کینوس پر پینٹ کیے، زندہ ہوگئے۔۔۔بھئی اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہو سکتی ہے اس تحریر کی۔۔۔۔ یہ ایک اچھے کہانی کار کا خاصہ ہے کہ چنیدہ لفظوں ، تراکیب، تشبیہات و استعارات کا ایسا شاندار استعمال کرے جو ایک واضح اور موثر وحدت تاثر دے۔اور قاری کو ایسا محسوس ہو کہ یہ سب کچھ اُسی پر بیت رہا ہے۔
بلاشبہ اس ناول کی ابتدا بہت جاندار ہے اور کہیں ایسا نہیں لگا کہ قلم کار نے لفظوں کو برتنے میں کوتاہی کی ہے۔۔۔ دراصل ناول لکھنے والوں کا رُخ اب کرداروں کے نفسیاتی پہلوؤں سے زیادہ اُن کے ہنگامی اور ہیجانی پہلوؤں کی طرف منتقل ہو گیا ہے، واقعات کو تفسیر و تشریح میں بدل دیا گیا ہے اور حقیقت نگاری ہی ناول کا خاصہ بن چکی ہے۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ حقیقت نگاری بھی ضروری ہے مگر ناول میں رومانیت نہ ہو تو حقیقت سے پیدا ہونے والی تلخی میں شیرنی کیسے محسوس ہوگی اور زندگی کی شرینیوں میں تلخیاں کیسے دریافت ہونگی، خؤاب اور حقیقت کی کشمکش کیسے دکھائی دے گی؟
بہرحال قلم کار کو مبارک باد ۔۔۔ مزید اقساط کا انتظار رہے گا شکریہ
 
بہت ہی پیار ا ناول ہے ۔۔۔اچھا لکھتی ہیں آپ سب کچھ لفظوں میں پرو ڈالا ہے آپ نے تو بہت سی داد اللہ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے آمین
مزید اقساط کا انتظار رہے گا۔۔۔
 
ریحان ذات سے عرفان ذات کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے حدیث ذات کبھی کوئے ملامت کا طواف کرتی۔ہے کبھی سوئے دار چڑھ جاتی ہے
پہلا ناول ہونے کے باوجود جھول محسوس نہیں۔ہوا دوسری قسط کا انتظار رہے گا
شاد و آباد رہیں
میں آپ کے ساتھ متفق ہوں یہ سفر بہت ہی کٹھن ہوتا ہے ۔۔۔اکثر راہی تو راہ میں ہی رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔
 
Top