حدیث‌قدسی : ایک تعارف

میاں شاہد

محفلین
:786:
” حدیث قدسی“

تحریر: مفتی عتیق الرحمٰن شہید
حدیث قدسی احادیث طیبہ کی ایک خاص قسم ہے جو نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم سے اس طرح روایت کی جاتی ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم اسے براہ راست اﷲ رب العزت کی طرف منسوب کرکے بیان فرماتے ہیں ۔اور یہ نسبت الٰہیہ ان احادیث طیبہ میں ایک خاص قسم کا تقدس پیداکردیتی ہے جس کی وجہ سے یہ احادیث ”احادیث قدسیہ “ کہلاتی ہیں ۔انہیں احادیث الٰہیہ یااحادیث ربانیہ بھی کہاجاتاہے ۔
حدیث قدسی کی متقدمین ومتأخرین علماءنے اپنے اپنے دور میں مختلف تعریفات بیان فرمائی ہیں ۔متقدمین علماءمیں سید علی جرجانی رحمۃ اﷲ علیہ (متوفی816ھ ) نے اپنی مشہورزمانہ تصنیف ”کتاب التعریفات“ میں حدیث قدسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے :
”حدیث قدسی معنی کے لحاظ سے اﷲ رب العزت کی طرف سے اور الفاظ کے لحاظ سے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی طرف سے ہوتی ہے ۔پس یہ وہ کلام ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو الہام یاخواب کے ذریعے بتائیں ۔ پھر آپ صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے الفاظ میں اسے بیان فرمائیں ۔قرآن کریم کی فضیلت اس کے مقابلے میں اپنی جگہ پر مسلم ہے۔اس لئے کہ اس کے الفاظ بھی اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ ہوتے ہیں ۔“ (کتاب التعریفات صفحہ 83-84)
علماءمتأخرین میں سے احناف کے مایہ ناز محدث اور فقیہ ملا علی القاری رحمۃ اﷲ اپنی تالیف ”الاحادیث القدسیۃ الاربعینیۃ“ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :
”حدیث قدسی وہ ہے جسے صدرالروایات وبدرالثقات صلی اﷲعلیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے روایت کریں ۔کبھی جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ سے اور کبھی وحی ،الہام یاخواب کے ذریعہ۔اس کی تعبیر آپ ﷺ کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی ،جن الفاظ سے چاہیںتعبیر فرمادیں۔ وہ قرآن مجید اور فرقان حمید سے متغیر ہوتی ہے ۔قرآن کریم روح الامین کے واسطہ کے بغیر نازل نہیں ہوتا اورانہی متعین الفاظ کے ساتھ نقل کیا جاتاہے جو لوح محفوظ سے نازل کئے گئے اورہر طبقہ اورزمانہ میں متواتر منقول ہوتاہے“۔
چنانچہ اس سے علماءکرام نے بہت سے فرعی احکام مستنبط کئے ہیں کہ” احادیث قدسیہ کی قرأت سے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔جنبی حائض اور نفساءکے لئے احادیث قدسیہ کاچھونا حرام نہیں ہے ۔ان کا منکر کافر بھی نہیں ہے اورنہ ہی ان سے اعجاز متعلق ہے ۔“(الاحادیث القدسیہ الاربعینیہ صفحہ۲)
علاوہ ازیں حسین بن محمد الطیبی(م ۔ 473ھ) شارح مشکوة ۔ محمد بن یوسف الکرمانی (م۔786ھ) شارح البخاری ۔ ابن حجر الہیثمی (م۔974ھ)۔ شارح الاربعین النوویہ اور محمد بن علان الصدیقی الشافعی (م۔1057ھ) ۔ شارح ریاض الصالحین وغیرہ نے بھی احادیث قدسیہ کے بارے میں اس سے ملتی جلتی آراءکا اظہار کیاہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل کتب میں دیکھی جاسکتی ہے :
1۔ الاحادیث القدسیۃ (المجلس الاعلیٰ للشؤن الاسلامیۃ )صفحہ 5-6-7 ج 1
2۔ دلیل الفالحین (محمد بن علان الصدیقی الشافعی ) صفحہ 74۔201 ج 1
3۔ الاحادیث القدسیۃ ومنزلتہا فی التشریح صفحہ 28(الدکتور شعبان محمد اسماعیل)
متقدمین ومتأخرین علماءکی آراءاوروضاحتوں کے پیش نظر حدیث قدسی کے معنی کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل چار امور پیش نظر رہنے چاہئیں:

1۔ حدیث قدسی اور عام حدیث نبوی میں فرق :

عام حدیث نبوی کی سند رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم پر ختم ہوجاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی سند اﷲ جل شانہ تک پہنچتی ہے اور عموماً متکلم کی ضمیر استعمال ہوتی ہے۔ جیسے تحریم ظلم کی حدیث :
یاعبادی انی حرمت الظلم علی نفسی وجعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا ۔
لیکن اس سے عام حدیث نبوی کے منجانب اﷲ ہونے کی نفی لازم نہیں آتی ۔اس لئے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کا ہر کلام اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتاہے ۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وماینطق عن الھویٰ o ان ہو الاوحی یوحیٰ o ”وہ (نبی ) اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ جوکچھ بھی کہتے ہیں اﷲ کی طرف سے وحی کیا ہواہوتاہے ۔“

2۔ حدیث قدسی اور قرآن کریم کے درمیان فرق:

قرآن کریم ہر دور میں تواتر قطعی کے ساتھ منقول ہوتا چلا آیا ہے جبکہ احادیث قدسیہ روایت آحاد کے ساتھ منقول ومروی ہوتی ہیں ۔احادیث قدسیہ پر روایت حدیث کے تمام قواعد وضوابط کا اجراءہوتاہے اور انہیں صحیح ،حسن ،ضعیف بلکہ موضوع تک قرار دیا جاسکتاہے جبکہ قرآن کریم پر یہ اصطلاحات چسپاں نہیں کی جاسکتیں ۔ قرآن کریم کو آیتوں اور سورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اس کی روایت بالمعنیٰ جائز نہیں ہے۔ اس کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں ۔اس کے حافظ کو جنت میں آیات قرآنیہ کے برابر درجات ملیں گے ۔حافظ قرآن کے والد کو سورج سے زیادہ روشن اور چمکدار تاج پہنایاجائے گا۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی بھی قسم کے تغیر وتبدل سے حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔قرأت قرآن کریم کے بغیر نماز ادا نہیں ہوسکتی جبکہ احادیث قدسیہ کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں ہے۔

3۔احادیث قدسیہ کے الفاظ ومعانی کے بارے میں علماءکرام کی دو رائے ہیں :

(الف) الفاظ ومعانی دونوں اﷲ رب العزت کی طرف سے ہیں کیونکہ ان کے الفاظ ا ﷲ رب العزت کی طرف منسوب کرکے نقل کئے جاتے ہیں ۔ان کے نام میں ”قدسیہ “،”الٰہیہ“ یا”ربانیہ“ کا اضافہ اور متکلم کاصیغہ بھی اسی کی طرف مشیر ہے۔
(ب) معنی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر الفاظ اور تعبیر رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کی ہے۔اسی وجہ سے احادیث قدسیہ کے الفاظ سے اعجاز متعلق نہیں ہیں اور ان کی روایت میں بھی اختلاف کی گنجائش ہے۔اس میں روایت بالمعنٰی بھی جائز ہے۔

خلاصہ کی بات یہ ہے کہ حدیث قدسی کے الفاظ کو تواتر کامقام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے الفاظ میں اعجاز ہے اور نہ ہی اس کے تغیر وتبدل سے حفاظت کی ربانی ذمہ داری ہے ۔لہٰذا اس کے الفاظ اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی یا الہام یاخواب کے ذریعہ تسلیم کرلئے جائیںتب بھی ”الفاظ قرآنیہ “کا امتیاز اپنی جگہ برقرار رہتاہے۔
4۔حدیث قدسی کی روایت کی دوصورتیں علماءکرام نے بیان فرمائی ہیں :

(الف) پہلی صورت جسے افضل ترین صورت قرار دیاگیا ہے اور وہ یہ کہ حدیث قدسی کاراوی اسے ان الفاظ سے نقل کرے:یقول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فیما یرویہ عن ربہ عزوجل(نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں )۔
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ راوی یوں کہے :قال اﷲ تعالیٰ فیما رواہ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ( اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جو کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے روایت کیا)۔
لیکن ذخیرئہ حدیث میں غور کیا جائے تو ان دوصورتوں کے علاوہ کچھ مزید صورتیں بھی ملتی ہیں :
(الف ) حدیث قدسی کے شروع میں یہ الفاظ ہوں :قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال اﷲ تعالیٰ(رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا)پھر اس کے بعد حدیث مذکور ہو اوریہ تعبیر آپ کو اکثر احادیث قدسیہ کی روایت میں ملے گی۔
(ب) حدیث شریف میں اﷲ تعالیٰ کاکلام ”قول “ کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر کرکے ذکر کیا جائے ۔ جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ” لما قضی اﷲ الخلق کتب فی کتابہ علی نفسہ فہو موضوع عندہ:ان رحمتی تغلب غضبی“۔عبارت کامتکلم کے صیغہ سے مذکور ہونا قطعی دلیل ہے اﷲ تعالیٰ کا کلام ہونے کی ۔
(ج) حدیث اول سے آخر تک قدسی نہ ہو بلکہ اس کاکوئی جز ءاﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب ہورہاہو۔جیسا کہ نسائی کی روایت میں ہے: یعجب ربک من راعی غنم فی راس شظیۃ الجبل یؤذن بالصلوۃ ویصلی فیقول اﷲ عزوجل :انظرو الی عبدی ھذا .... الحدیث
(د) حدیث قدسی کا ٹکڑا پوری حدیث کے ضمن میں مذکور ہو لیکن صراحۃً اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ ہو بلکہ سیاق وسباق سے اس کی نسبت سمجھ میں آتی ہو ۔جیساکہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے : ”قال صلی اﷲ علیہ وسلم تفتح ابواب الجنۃ یوم الاثنین ویوم الخمیس فیغفر لکل عبد لایشرک باﷲ شیئا الارجلا کانت بینہ وبین اخیہ شحناءفیقال :انظروا ھذین حتی یصطلحا “۔ اس حدیث شریف میں ”یقال “ کے مجہول صیغہ کے باوجود سیاق کلام اس بات پر دلالت کرتاہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کاقول ہے اور اس کی تائید ”فیغفر “ کے مجہول صیغہ سے بھی ہوتی ہے کیونکہ مغفرت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ۔
مذکورہ بالا تمام صورتیں اﷲ تعالیٰ کی طرف نسبت کے موجود ہونے کی بناءپر ”وصف قدسیہ“کے ساتھ متصف ہوں گی۔

احادیث قدسیہ کے مصادر اورکتب

جب عمومی طورپراحادیث نبویہ کی جمع وتدوین اورتحقیق وتبویب کا کام شر وع ہوا تواحادیث قدسیہ کوبھی اس میں سے وافر حصہ ملا اور محد ثین کرام نے خصو صی توجہ اوراہتما م سے ذخیرہ حدیث کی مستند ومعتمد کتب میں احادیث قدسیہ کو بھی شامل فر مایا۔تدوین حدیث کے ابتدائی دور میں احادیث قدسیہ کے لئے اگرچہ مستقل کتب تصنیف نہیں کی گئیں اور عام کتب احادیث میں انہیں کوئی امتیازی مقام بھی نہیں دیا گیاتاہم مضامین وابواب کی مناسبت سے انہیں کتب حدیث میںشامل کیا گیا ہے اوران کا امتیازان کی روایت کے وہ مخصوص صیغے ہی ہوا کرتے تھے جن کا ہم اس سے پہلی بحث میں تذکرہ کر چکے ہیں۔لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کے احادیث قد سیہ کے لئے عام کتب حدیث ہی مصادر ومراجع کا درجہ رکھتی ہیں ۔ البتہ بعد کے ادوار میں اس موضو ع پر مستقل تصنیفا ت مر تب کی گئی ہیں جن کا تذکرہ ہم ذیل میں کر رہے ہیں:

1۔ مشکوة الا نوار فیما روی عن اﷲ سبحانہ من الاخبار مؤ لف : شیخ محی الدین بن العر بی(المتو فی۔ 238ھ) ۔
یہ کتا ب ایک سو احا دیث قد سیہ پر مشتل ہے اور1346ھ بمطا بق 1927ءمیں حلب سے شائع ہوئی۔ معلو م ہوتا ہے کہ ابن حجر الہیثمی نے اپنی کتا ب میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:
”احادیث قدسیہ سو (100) سے زائد ہیں ۔جنہیں بعض علماءنے ایک جز ءکبیر میں جمع کیاہے“(الفتح المبین صفحہ 201)
2۔ ( جمع الجوامع /جامع کبیر) اور جامع صغیر میں مذکور احادیث قدسیہ۔مؤلف:الامام العلام جلال الدین السیوطی رحمہ اﷲ (م۔911ھ) ۔ یہ احادیث قدسیہ کی مستقل کتاب نہیں ہے لیکن مؤلف رحمہ اﷲ نے حروف تہجی کی رعایت سے اس کتاب میں احادیث کو جمع کیا ہے اس لئے احادیث قدسی کے ذکر میں ایک ”امتیاز “ پیدا ہوگیا ہے اور ”قال اﷲ تعالیٰ “ کے عنوان کے تحت احادیث قدسیہ کی ایک معتد بہ تعداد یکجا ذکر کردی گئی ہے ۔چنانچہ جمع الجوامع میں ایک سو تینتیس (133) اور جامع صغیر میں چھیاسٹھ (66) احادیث قدسیہ مذکور ہیں ۔
3۔ الاحادیث القدسیۃ الاربعینیۃ مؤلف : ملاعلی القاری الفقیہ المحدث الحنفی (م۔1016ھ)
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے اس کتاب میں چالیس احادیث قدسیہ مذکور ہیں جنہیں مؤلف علیہ الرحمۃ نے ذخیرئہ حدیث سے منتخب کیاہے ۔یہ کتاب ترکی کے شہر آستانہ سے 1316ھ بمطابق 1898م میں طبع ہوئی اور پھرشام کے شہر حلب سے 1346ھ بمطابق 1927 میں دوبارہ شائع ہوئی۔
4۔الاتحاف السنیۃ بالاحادیث القدسیۃ۔مؤلف : الشیخ عبدالرؤف المناوی(المتوفی1031ھ)۔
یہ کتاب دوسوبہتر(272) احادیث قدسیہ پر مشتمل ہے جو کہ حروف تہجی کی ترتیب سے مذکور ہیں اور قاہرہ سے متعدد بار شائع ہوچکی ہے ۔
5۔ الاتحاف السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ ۔مؤلف : محمد محمود طربزوفی المدنی الفقیہ الحنفی(متوفی1200ھ بمطابق 1795م)
”فی “ اور ” ب“ کے معمولی فرق کے علاوہ نام میں شیخ مناوی صاحب کی کتاب کے ہم نام ہے لیکن ایک مستقل اور وقیع کتاب ہے جس کی تالیف میں مؤلف علیہ الرحمۃ نے دوسری کتب حدیث کے علاوہ علامہ سیوطی اور علامہ مناوی رحمہ اﷲ کے مجموعوں سے بھر پور نقل واستفادہ کیاہے اور صاحب کتاب کو احادیث قدسیہ کا جس قدر ذخیرہ مل سکا اسے اپنے مجموعہ میں شامل کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا ۔انتخاب ونقل میں مؤلف کی رواداری اور وسعت کا یہ عالم ہے کہ ضعیف روایات تو درکنار بہت سی موضوع روایتیں بھی نقل کردی ہیں۔ لیکن علمی دیانت کے پیش نظر مؤلف نے ان پر تنبیہ ضرور کردی ہے ۔
اس تالیف میں آٹھ سو تریسٹھ (863) احادیث قدسیہ موجود ہیں جبکہ مؤلف علیہ الرحمۃ کے خیال کے مطابق تلاش وجستجو سے مزید تعداد جمع کی جاسکتی ہے۔یہ مجموعہ حیدرآباد دکن سے دو مرتبہ (1323ھ بمطابق 1905م اور 1358بمطابق1939م میں )شائع ہوچکاہے اور مصر سے 1387ھ بمطابق 1976م میں طبع ہوا۔
6۔ الاحادیث القدسیۃ : مصر کی مجلس اعلیٰ برائے مذہبی امور کے ذیلی شعبہ لجنۃ القرآن والحدیث نے دواجزاءپر مشتمل یہ مجموعہ تالیف کیا جس میں صحاح ستہ اورمؤطا امام مالک میں موجود احادیث قدسیہ شامل کی گئیں ہیں ۔یہ چار سو(400) احادیث قدسیہ پر مشتمل ہے جس میں ایک حدیث کی مختلف روایات کو بھی مستقل حدیث شمار کیا گیا ہے اور آج تک زیور طبع سے آراستہ ہونے والے ”مجموعات قدسیہ “ میں ایک انتہائی منضبط ،وسیع اورقابل قدر مجموعہ ہے لیکن اگر مسند احمد اورباقی کتب حدیث سے بھی احادیث قدسیہ کاانتخاب اس میں شامل کرلیاجاتا تو اس مجموعہ کی جامعیت اورافادیت دوبالاہوجاتی ۔

احادیث قدسیہ کے مضامین

عام احادیث نبویہ کے مقابلہ میں احادیث قدسیہ کی تعداد بہت کم ہے ۔اسی وجہ سے ان میں بیان شدہ مضامین بھی کم ہیں ۔ البتہ ”قول ربانی“ ہونے کی بناءپر ان احادیث کامخصوص دائرہ کار اور منفرد چھاپ ہے ۔احادیث قدسیہ میں غور وخوض سے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت ان میں بیان شدہ مضامین کاخلاصہ نکالا جاسکتاہے :
1۔ عقیدئہ توحید کی پختگی : ایک مخصوص انداز میں عقیدئہ توحید کی اصلاح اور ا س میں پختگی کادرس دیا جاتاہے ۔کفر وشرک سے علیحدگی اور دوری کی تعلیم ہوتی ہے۔شکوک وشبہات سے پاک کیاجاتاہے ۔ خالق کائنات کی عظمت وجلال اورصفات الٰہیہ کی انفرادیت اورکمال کا بیان ہوتاہے اورصدق دل اورخلوص نیت کے ساتھ یکسو ہوکر متوجہ الی اﷲ ہونے پر برانگیختہ کیا جاتاہے ۔
2۔ عبادات میں حسن وخوبصورتی پیداکرنا : فرض اورنفل عبادات ۔نماز،روزہ ،حج ، زکوة ذکرو نوافل کو پورے اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ ثواب کی نیت سے ادائیگی کی ترغیب دی جاتی ہے۔
3۔ اخلاق وکردار کی بلندی : اچھی صفات ،نیکی کا جذبہ،صلہ رحمی ،خدمت خلق ،صالحین کی محبت ،امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی خوبیاںبیان کرکے ان اعمال کا شوق وجذبہ ابھاراجاتاہے۔
4۔ فنافی اﷲ : رضاءبالقضاء،دربار خداوندی میں حاضری کاشوق ،اپنے خالق ومالک کی رضامندی کے حصول اور اطاعت شعاری میں جان ومال لٹادینے کاجذبہ پیدا کیاجاتاہے ۔
5۔ آخرت کی تیاری : قیامت کے دن کی جزاوسزا کے استحضار کے ساتھ توبہ واستغفار کے اہتمام ،خوف ورجاءکی کیفیت،اعمال صالحہ کے ذریعے قرب خداوندی اور حصول شفاعت کی کوشش اور رحیم وکریم ذات کی وسیع ولامتناہی رحمتوں پر کامل اعتماد کے ساتھ آخرت کی تیاری اور اس کاشوق وجذبہ بیدار کیاجاتاہے۔

خلاصہ کی بات یہ ہے کہ احادیث قدسیہ الوہیت وعبودیت کے معنی میں نکھار پیدا کرتی ہیں۔اچھی اقدار کی گہرائی وگیرائی کو واضح کرتی ہیں ۔عقائد ،عبادات اور اخلاقیات کے دائرہ کار سے نکل کر فقہی مسائل واحکام اور معاملات میں دخل انداز نہیں ہوتیں۔
احادیث قدسیہ کا اپنا منفرد اسلوب ہے جو ان کے موضوع ومضمون کے ساتھ انتہائی مناسبت رکھتاہے ۔براہ راست گفتگو کا انداز اپنایا گیا ہے ۔جس میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک” مقدس پکار “ ہوتی ہے یاآقا اور غلام کے درمیان سرگوشی کاپیار بھراانداز ہوتاہے۔غرضیکہ ایساانداز اختیار کیاجاتاہے جس سے خالق ومخلوق ،عابد ومعبود اور بندے اورآقا کے درمیان رابطہ میں پختگی اورگہرائی پیداہوجائے۔
بہرحال احادیث قدسیہ کااسلوب اپنی تمام صورتوں میں تاثیر میں ڈوباہوا اپنے اندر” روحانی چھاپ “لئے ہوئے ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترغیب وترہیب اور تصوف ومجاہدات کی کتابوں میں مصنفین نے احادیث قدسیہ سے زیادہ استفادہ اوراستدلال کیاہے۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیر ، ان معلومات کا شکریہ ، اچھا آئے بڑے بھائی ، ایسی تجویز دی کہ موسیقی ہی بند کروا دی ، و السلام علیکم۔
 

میاں شاہد

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیر ، ان معلومات کا شکریہ ، اچھا آئے بڑے بھائی ، ایسی تجویز دی کہ موسیقی ہی بند کروا دی ، و السلام علیکم۔
شکریہ عادل بھائی ! میں سوچ رہا تھا کہ شاید ایک دن میل جائے تو کہانی کو آگے بڑھائیں گے مگر اُنہوں نے پہلے ہی بٹن دبادیا:)
 
سلام علیکم

برادران سے عرض ہے کہ روزانہ تھوڑا تھوڑا قران حکیم بامعنی --- اعوذ باللہ من الشیط۔ٰن الرجیم -- پڑھ کے پڑھا کیجئے۔ انشاء اللہ علم و دانش میں مزید اضافہ ہوگا۔ انشاء اللہ ۔۔۔

احادیث قدسیہ کی قرآت سے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔جنبی حائض اور نفساءکے لئے احادیث قدسیہ کاچھونا حرام نہیں ہے ۔ان کا منکر کافر بھی نہیں ہے اورنہ ہی ان سے اعجاز متعلق ہے ۔“(الاحادیث القدسیہ الاربعینیہ صفحہ۲)


والسلام
 

میاں شاہد

محفلین
سلام علیکم

برادران سے عرض ہے کہ روزانہ تھوڑا تھوڑا قران حکیم بامعنی --- اعوذ باللہ من الشیط۔ٰن الرجیم -- پڑھ کے پڑھا کیجئے۔ انشاء اللہ علم و دانش میں مزید اضافہ ہوگا۔ انشاء اللہ ۔۔۔
والسلام
درست فرمایا جناب نے بلکہ اگر اعوذ باللہ کے بعد بسم اللہ بھی مکمل پڑھ لیں تو انشا اللہ علم و دانش کے علاوہ بصیرت میں بھی اضافہ ہونے کی توقع ہے

اللہ پاک ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق دے آمین

والسلام
 
Top