حدیث غار:- اس حدیث پاک کی روشنی میں مصیبت سے نجات پائی جا سکتی ہے۔
حدیث پاک میں ہے :
''تین آدمی پیدل سفر کر رہے تھے کہ انہیں بارش نے آلیا،انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، پھر پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھک کر آیا اور غار کے دہانے کو بند کردیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اپنا کوئی ایسا نیک عمل یاد کرو جو محض اللہ کی رضا کے لیے کیا ہواور اُس کے وسیلے سے دعا کرو (کہ اللہ اس بلا کو ٹال دے)۔پس اُن میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے بچے (بھی )تھے،میں بکریاں چرایا کرتا تھا ،پھر جب میں شام کو لوٹتا تو دودھ دوہتا ،اپنے بچے سے پہلے والدین کو پلاتا ،ایک دن چارے کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی اور رات گئے لوٹا، تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں سوگئے ہیں ۔ میں حسبِ معمول دودھ دوہ کر لایا اور والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا،نہ میں نے انہیں نیند سے جگانا پسند کیا اورنہ ہی اپنے بچوں کو اُن سے پہلے دودھ پلانا پسند کیا،چنانچہ میرے بچے میرے قدموں میں روتے رہے اور اسی حالت میںمجھے صبح ہوگئی۔پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہمارے لیے اس غار کے دہانے کو اتنا کشادہ فرما کہ ہم آسمان کودیکھ سکیں، سو اللہ نے غار میں اتنی کشادگی فرمادی کہ انہیں آسمان نظر آنے لگا۔دوسرے نے کہا: اے اللہ!میری ایک چچا زاد بہن تھی ،میں اس سے اتنی شدید محبت کرتا تھاجتنی کسی مرد کو کسی عورت سے ہوسکتی ہے۔پس میں نے اس سے اپنی خواہش پورا کرنا چاہی تو اس نے انکار کیایہاں تک کہ میں اسے سو دینار دوں۔ پس میں نے سو دینار جمع کیے اورجب میں (اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے )اس کے قریب گیا تو اس نے کہا:اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور میری عفت کو قائم رہنے دے، میں (اللہ کے خوف سے )کھڑا ہوگیا ،(اس نے کہا۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا کے لیے کیا ہے ،تو اس غار میں ہمارے لیے کشادگی پیدا فرما، سو اللہ نے غار کے دہانے کو مزید کشادہ کردیا۔ تیسرے نے کہا: اے اللہ! میں نے آٹھ کلو گرام چاول کے عوض اُجرت پر ایک مزدور رکھا ،سو جب اس نے کام پورا کرلیا تو اس نے کہا: میرا حق دو، میں نے اُسے مزدوری پیش کردی، اس نے (کم سمجھ کر اسے چھوڑ دیا)، پھر میں اُن چاولوں کو کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس (کی آمدنی ) سے گائیں خریدیں اور چرواہا مقررکردیا، پھر (کافی عرصے بعد )وہ میرے پاس آیا اور کہا: اللہ سے ڈر ، مجھ پر ظلم نہ کراور مجھے میرا حق دے، میں نے کہا: ان گایوں (کے ریوڑ) اور چرواہے کو لے جائو، اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور میرا مذاق مت اڑا، میں نے کہا: میں مذاق نہیں کر رہا، چرواہے سمیت اس ریوڑ کو لے لو، سو وہ لے کر چلا گیا، (اس نے کہا:اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اس غار کے دہانے کو ہم پر پورا کھول دے، سو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے غار کے دہانے کو کھول دیا (اور وہ صحیح سالم نکل کر چلے گئے)،(بخاری:5974)‘‘۔
حدیث پاک میں ہے :
''تین آدمی پیدل سفر کر رہے تھے کہ انہیں بارش نے آلیا،انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، پھر پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھک کر آیا اور غار کے دہانے کو بند کردیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اپنا کوئی ایسا نیک عمل یاد کرو جو محض اللہ کی رضا کے لیے کیا ہواور اُس کے وسیلے سے دعا کرو (کہ اللہ اس بلا کو ٹال دے)۔پس اُن میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے بچے (بھی )تھے،میں بکریاں چرایا کرتا تھا ،پھر جب میں شام کو لوٹتا تو دودھ دوہتا ،اپنے بچے سے پہلے والدین کو پلاتا ،ایک دن چارے کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی اور رات گئے لوٹا، تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں سوگئے ہیں ۔ میں حسبِ معمول دودھ دوہ کر لایا اور والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا،نہ میں نے انہیں نیند سے جگانا پسند کیا اورنہ ہی اپنے بچوں کو اُن سے پہلے دودھ پلانا پسند کیا،چنانچہ میرے بچے میرے قدموں میں روتے رہے اور اسی حالت میںمجھے صبح ہوگئی۔پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہمارے لیے اس غار کے دہانے کو اتنا کشادہ فرما کہ ہم آسمان کودیکھ سکیں، سو اللہ نے غار میں اتنی کشادگی فرمادی کہ انہیں آسمان نظر آنے لگا۔دوسرے نے کہا: اے اللہ!میری ایک چچا زاد بہن تھی ،میں اس سے اتنی شدید محبت کرتا تھاجتنی کسی مرد کو کسی عورت سے ہوسکتی ہے۔پس میں نے اس سے اپنی خواہش پورا کرنا چاہی تو اس نے انکار کیایہاں تک کہ میں اسے سو دینار دوں۔ پس میں نے سو دینار جمع کیے اورجب میں (اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے )اس کے قریب گیا تو اس نے کہا:اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور میری عفت کو قائم رہنے دے، میں (اللہ کے خوف سے )کھڑا ہوگیا ،(اس نے کہا۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا کے لیے کیا ہے ،تو اس غار میں ہمارے لیے کشادگی پیدا فرما، سو اللہ نے غار کے دہانے کو مزید کشادہ کردیا۔ تیسرے نے کہا: اے اللہ! میں نے آٹھ کلو گرام چاول کے عوض اُجرت پر ایک مزدور رکھا ،سو جب اس نے کام پورا کرلیا تو اس نے کہا: میرا حق دو، میں نے اُسے مزدوری پیش کردی، اس نے (کم سمجھ کر اسے چھوڑ دیا)، پھر میں اُن چاولوں کو کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس (کی آمدنی ) سے گائیں خریدیں اور چرواہا مقررکردیا، پھر (کافی عرصے بعد )وہ میرے پاس آیا اور کہا: اللہ سے ڈر ، مجھ پر ظلم نہ کراور مجھے میرا حق دے، میں نے کہا: ان گایوں (کے ریوڑ) اور چرواہے کو لے جائو، اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور میرا مذاق مت اڑا، میں نے کہا: میں مذاق نہیں کر رہا، چرواہے سمیت اس ریوڑ کو لے لو، سو وہ لے کر چلا گیا، (اس نے کہا:اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اس غار کے دہانے کو ہم پر پورا کھول دے، سو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے غار کے دہانے کو کھول دیا (اور وہ صحیح سالم نکل کر چلے گئے)،(بخاری:5974)‘‘۔