ہماری حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد کی پہلی تحریر ملاحظہ ہو- اپنے قیمتی تاثرات دینے میں بالکل بخل مت کی جئے گا تاکہ اصلاح کا عمل جاری رہے-
یزید کے حق میں صحیح بخاری کی مشہور و معروف حدیث پیش کی جاتی ہیں، اس کو یزید کے مرید یوں پیش کرتے ہے:
//////صحیح بخاری کی حدیث:’’ أوّل جیش من أمتي یغزون مدینۃ قیصر مغفورلھم ‘‘ (صحیح بخاری:۲۹۲۴) ’’میری اُمت میں سے سب سے پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، ان کی مغفرت ہوگی/////////
استدلال کی کیفیت کچھ یوں ہیں کہ چونکہ یزید اس فوج میں شامل تھا جس نے قسطنطینیہ پر حملہ کیا لہذا یزید بھی اس عمومی مغفرت میں شامل ہے- علماء اہلسنت میں سے مھلب، ابن تیمیہ، ابن کثیر وغیرھم نے اس سے استدلال کیا ہیں
علامہ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَالْإِسْنَادُ كُلُّهُ شَامِيُّونَ
اس روایت کی سند میں تمام راویان شامی ہیں
حوالہ: فتح الباري شرح صحيح البخاري، جلد 6، صفحہ 102، الناشر: دار المعرفة - بيروت، 1379
یہی بات علامہ بدر الدین عینی الحنفی نے اپنی کتاب میں بایں فرمایا:
أَن الْإِسْنَاد كُله شَامِيُّونَ
اس روایت کی سند میں تمام راویان شامی ہیں
حوالہ: عمدة القاري شرح صحيح البخاري، جلد 14، صفحہ 198، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت
شامی حضرات کا نصب میں مشہور و معروف ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں- یہی وجہ تھی کہ ''علامہ نسائی'' نے وہاں کا نصب دیکھ کر ''خصائص امیر المومنین ع'' لکھی اور اس کی پاداش میں علامہ نسائی کو زخمی کیا گیا اور ان زخموں کی تاب نہ لاکر آپ کا انتقال ہوا- اس کی ساری تفصیلات آپ کو 'علامہ شمس الدین ذھبی' کی کتاب 'سیر اعلام النبلاء 'و دیگر کتب تراجم و رجال میں مل جائی گی
اگر اب بھی کفایت نہ ہو تو ہم علامہ ابن کثیر جو ہمارے مخالفین کی دلعزیز ہیں، ان کی کتاب سے ان کا قول ذیشان نقل کرتے ہیں- چنانچہ ابن کثیر دمشقی رقم طراز ہیں:
روافض یعنی شیعہ حضرات جس حزن وغیرہ کا اہتمام یوم عاشورہ کرتے، اس کے برعکس نواصبین اہل شام اس دن یعنی یوم عاشورا میں: ۱، اناج پکاتے۲، غسل کرتے۳، پاک و صاف ہوتے۴، طیب و طاہر ہوتے یعنی خوشبو وغیرہ لگاتے۵، سب سے اعلی لباس کو زیب تن کرتے۶، اس دن کو عید کا دن قرار دیتے۷، انواع و اقسام کے کھانے بناتے۸، اس دن میں خوشی کا اظہار کرتے اس سے ان کا مقصد شیعوں کے بغض میں ان کے اطوار کا الٹ کرنا ہوتا تھا-
حوالہ: : البداية والنهاية، جلد 11، صفحہ 577، الناشر: دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان
چنانچہ ہم نے تو ایک نمونہ دیکھایا نواصبین کی حالت کا- یہ آل بویہ کی حکومت کا دور ہیں، آل بویہ کی حکومت 320 ہجری سے شروع ہوئی اور علامہ بخاری کا دور تیسری صدی ہجری کا ہیں لہذاء ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نصب علامہ بخاری کے دور میں بڑا قوی تھا جس کی وجہ وہ منبر پر برسرعام بنو امیہ کی طرف سے شام میں منبروں سے امام علی علیہ السلام اور ان کے چاہنے والوں پر لعن، سب، شتم اور دشنام تھا-
یقین کریں ان مطالب کی مزید تحقیق کے لئے باآسانی ایک پورا مضمون لکھا جاسکتا ہیں، طلاب و علماء شیعہ نے اس حوالے سے باقاعدہ رسائل و کتب کو تالیف کیا ہیں جو اس قضیہ سب و شتم بر علی ع فی المنابر کے اثبات پر ہیں لیکن بات کو یہاں روکتے ہیں کیونکہ مدعے کے اثبات کے لئے دو شواہد فی الحال کافی ہیں-
اس روایت کی سند میں ثور بن یزید وہ مشہور و معروف ناصبی بھی ہیں جس کے بارے میں 'محمد بن سعد صاحب طبقات' یوں گویا ہوئے:
وكان جد ثور بن يزيد قد شهد صفين مع معاوية وقتل يومئذ فكان ثور إذا ذكر عليا. ع. قال: لا أحب رجلًا قتل جدي.
ثور بن یزید کے جد صفین کے معرکے میں معاویہ کی طرف سے لڑے اور اثنائے جنگ میں قتل کئے گئے لہذاء جب بھی ثور کے سامنے امام علی کا ذکر ہوتا تو ثور یوں گویا ہوتا:
میں ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا اور محبت نہیں رکھتا جس نے میرے جد کو قتل کیا-
حوالہ: الطبقات الكبرى ج 7 ص 324 الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت
بیشک مومن کے علاوہ کوئی علی ع سے محبت نہیں رکھتا، اور منافق کے علاوہ کوئی علی ع سے بغض نہیں رکھتا-
حوالہ: صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب 33، حدیث نمبر 78-
اس سے نتیجہ بطریق سھل نکالا جاسکتا ہیں کہ روایت کے راویان شامی ہیں جن کا نصب اظہر من الشمس ہے- ان میں سے ایک راوی نے تو بنفسہ اقرار کیا ہے اپنے ناصبی ہونے کا- لہذاء نواصب کی روایت یزید کے حق میں لینا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟؟
'''''''''''''''''''علمائے اہلسنت کا اقرار کہ روایت ھذا یزید کی منقبت میں نہیں''''''''''''''''''''''
سندی کلام کے بعد اب ہم اپنی توجہ کو متن کی طرف مبذول کرتے ہیں- علمائے اہلسنت میں سے بعض نے برملا اس حدیث کی شرح میں لکھا ہیں کہ اس حدیث سے یزید کی منقبت اور فضیلت پکڑنا عبث ہے- چنانچہ ذیل میں ان علماء کے نام مع العبارات درج ہیں تاکہ قارئین خود تصدیق بھی کرلیں اور دوسروں کو توجہ بھی دلائیں- ۱، علامہ بدر الدرین عینی الحنفی
وَقَالَ الْمُهلب: فِي هَذَا الحَدِيث منقبة لمعاوية لِأَنَّهُ أول من غزا الْبَحْر، ومنقبة لوَلَده يزِيد، لِأَنَّهُ أول من غزا مَدِينَة قَيْصر. انْتهى. قلت: أَي منقبة كَانَت ليزِيد وحاله مَشْهُور؟ فَإِن قلت: قَالَ، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فِي حق هَذَا الْجَيْش: مغْفُور لَهُم. قلت: لَا يلْزم، من دُخُوله فِي ذَلِك الْعُمُوم أَن لَا يخرج بِدَلِيل خَاص، إِذْ لَا يخْتَلف أهل الْعلم أَن قَوْله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: مغْفُور لَهُم، مَشْرُوط بِأَن يَكُونُوا من أهل الْمَغْفِرَة حَتَّى لَو ارْتَدَّ وَاحِد مِمَّن غَزَاهَا بعد ذَلِك لم يدْخل فِي ذَلِك الْعُمُوم، فَدلَّ على أَن المُرَاد مغْفُور لمن وجد شَرط الْمَغْفِرَة فِيهِ مِنْهُم
مھلب کے بقول اس روایت میں معاویہ کے لئے فضیلت ہیں کیونکہ اس نے سب سے پہلے پانی کے ذریعے جنگ کری اور معاویہ کے بیٹے یزید کی فضیلت ہے کیونکہ وہ سب سے پہلا تھا جس نے شہر قیصر پر حملہ کیا---(مھلب کا قول ختم ہوا)-
میں جواب دیتا ہوں: بھلا یزید کے لئے فضیلت کس طرح ثابت کی جاسکتی ہیں جب کہ اس کی حالت زندگی مشہور ہے؟؟ رسول ص نے اس فوج کے حق میں یہ کہا کہ ان کے لئے بخشش ہوگی- میں کہتا ہوں کہ اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ اس عام قول میں تمام لوگ داخل ہیں جب کہ کسی خاص دلیل کے تحت ان کا اخراج نہ ہوجائے- جیسا کہ اہل علم کے درمیان اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ بخشش کی شرط اس بات پر منحصر ہے کہ وہ مغفرت کے لائق ہوں- یہاں تک کہ اگر کوئی ایک بھی مرتد ہوجائے جس نے جنگ کی ہو تو وہ اس عام قول میں داخل نہیں ہوسکتا- پس ثابت ہوا کہ بخشش ان لوگوں کے لئے ہیں جن کے اندر شرائط بخشش موجود ہو-
حوالہ: عمدة القاري شرح صحيح البخاري، جلد 14، صفحہ 198، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت ۲، علامہ قسطلانی
یزید کے حامی چونکہ جھوٹ کے بغیر اپنی بات نہیں منواسکتے تو وہ بیچارے کم پڑھے لکھے افراد اور عوام پر اپنی کتب بینی کا رعب جھاڑنے کے لئے ضخیم ضخیم کتب عربی کے حوالے دیتے ہیں جن میں بعض جھوٹے ہوتے ہیں اور بعض میں کتروبیونت- چنانچہ ایک یزید کے حامی نے اپنے آرٹیکل میں بڑی بے باکی سے یہ حوالہ دیا:
///////////1۔دامانوی صاحب نے صحیح بخاری کی حدیث:’’ أوّل جیش من أمتي یغزون مدینۃ قیصر مغفورلھم ‘‘ (صحیح بخاری:۲۹۲۴) ’’میری اُمت میں سے سب سے پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، ان کی مغفرت ہوگی۔‘‘کو درج کرنے کے بعد لکھا ہے:’’منکرین حدیث میں سے محمود احمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا ہے۔‘‘ (محدث 49)دامانوی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے بلکہ محمود احمد عباسی سے بہت پہلے مہلب بن احمد،شیخ الاسلا م ابن تیمیہ، حافظ ابن کثیر،حافظ ابن حجر اور علامہ قسطلانی رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا ہے۔جیسا کہ اس کا اعتراف خود دامانوی صاحب نے یہاں اور یہاں پر بھی کیا ہے۔//////////////////
جواب از احقر خیر طلب الحیدری: خدایا اتنا دھوکہ مت دیں کہ بعد میں منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے- علامہ قسطلانی نے مھلب کا باطل قول نقل کرکے بڑا عمدہ جواب دیا ہے، ہم علامہ صاحب کے جواب بالغہ کی افادیت کے پیش نظر پورا جواب من و عن نقل کرتے ہیں تاکہ قارئین کو پتا چلے کہ دھوکہ دہی کی ساری حدود کو یزید کے حامی پار کرچکے ہیں-
وأجيب: بأن هذا جارٍ على طريق الحمية لبني أمية ولا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا خلاف أن قوله عليه الصلاة والسلام "مغفور لهم" مشروط بكونه من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقًا قاله ابن المنير، وقد أطلق بعضهم فيما نقله المولى سعد الدين اللعن على يزيد لما أنه كفر حين أمر بقتل الحسين، واتفقوا على جواز اللعن على من قتله أو أمر به أو أجازه ورضي به، والحق أن رضا يزيد بقتل الحسين واستبشاره بذلك وإهانته أهل بيت النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مما تواتر معناه وإن كان تفاصيلها آحادًا فنحن لا نتوقف في شأنه بل في إيمانه لعنة الله عليه وعلى أنصاره وأعوانه اه۔.
میں یوں جواب دیتا ہوں (مھلب کے باطل دعوی کو نقل کرنے کے بعد)______ اس حدیث سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ اس عام قول میں تمام لوگ داخل ہیں جب کہ کسی خاص دلیل کے تحت ان کا اخراج نہ ہوجائے- جیسا کہ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہ علیہ الصلاتہ و السلام کا قول ان کے لئے بخشش ہے اس بات پر منحصر ہے کہ وہ مغفرت کے لائق ہوں- یہاں تک کہ اگر کوئی ایک بھی مرتد ہوجائے جس نے جنگ کی ہو تو وہ اس عام قول میں داخل نہیں ہوسکتا بالاتفاق- یہ بات ابن منیر نے کہی ہے-
بعض علماء نے تو یزید پر لعنت کا اطلاق کیا ہے جیسا کہ علامہ سعد الدين نے نقل کیا ہے اس وجہ سے کہ اس نے کفر اختیار کیا امام حسین ع کے قتل کا حکم دے کر- اور اس بات پر ان سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص ان کو قتل کرے، یا اس کا حکم دے، اس کی اجازت دے یا اس فعل سے راضی ہو، ایسے پر لعنت کرنا جائز ہے- اور حق بات یہ ہے کہ کہ یزید قتل حسین ع پر راضی ہوا، اس پر خوش ہوا، اور اس نے اھلبیت ع کی توہین کی جو معنوی لحاظ سے تواتر کی حد تک ہے اگرچہ اس کی تفصیل اخبار احاد میں ہو- پس ہم اس لعنت کے معاملے میں توقف کے قائل نہیں (بلکہ جائز ہونے کے قائل ہے)- یہی حال اس کے ایمان کے حوالے سے ہے اور اللہ کی لعنت ہو یزید پر، اس کے مددگاروں پر بھی-
لا يلزم منه كون يزيد بن معاوية مغفورا له لكونه منهم إذ الغفران مشروط بكون الإنسان من أهل المغفرة ويزيد ليس كذلك لخروجه بدليل خاص ويلزم من الجمود على العموم أن من ارتد ممن غزاها مغفور له وقد أطلق جمع محققون حل لعن يزيد به حتى قال التفتازاني : الحق أن رضى يزيد بقتل الحسين وإهانته أهل البيت مما تواتر معناه وإن كان تفاصيله آحادا فنحن لا نتوقف في شأنه بل في إيمانه لعنة الله عليه وعلى أنصاره وأعوانه.
اس حدیث سے یزید بن معاویہ کو مغفرت کا حقدار سمجھنا لازم نہیں آتا کیونکہ بخشے جانا اس بات پر منحصر ہے کہ انسان بخشش کے لائق ہو، اور یزید بخشش کے لائق نہیں تھا- کیونکہ اس کا اس بخشش سے خارج ہونا ایک دلیل خاص کے تحت ہے- اور اس عموم کے قائدے کا اصرار کرنا اور اس پر ڈٹ جانے والے اس کا کیا جواب دیا گے کہ اگر کوئی فوج میں شامل شخص مرتد ہوجائے تو اس کو کیا بخشش کا اہل سمجھا جائے گا؟؟ محققین نے یزید پر لعنت کو حلال قرار دیا ہے یہاں تک تفتازانی نے فرمایا: اور حق بات یہ ہے کہ کہ یزید قتل حسین ع پر راضی ہوا، اس پر خوش ہوا، اور اس نے اھلبیت ع کی توہین کی جو معنوی لحاظ سے تواتر کی حد تک ہے اگرچہ اس کی تفصیل اخبار احاد میں ہو- پس ہم اس لعنت کے معاملے میں توقف کے قائل نہیں (بلکہ جائز ہونے کے قائل ہے)- یہی حال اس کے ایمان کے حوالے سے ہے اور اللہ کی لعنت ہو یزید پر، اس کے مددگاروں پر بھی-
فيض القدير جلد 3، صفحہ 84، حدیث نمبر 2811، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى - مصر ۴و ۵: علامان ابن تین و ابن منیر:
ابن تین اور ابن منیر نے مھلب کا تعاقب کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ اس عام قول میں تمام لوگ داخل ہیں جب کہ کسی خاص دلیل کے تحت ان کا اخراج نہ ہوجائے- جیسا کہ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہ علیہ الصلاتہ و السلام کا قول ان کے لئے بخشش ہے اس بات پر منحصر ہے کہ وہ مغفرت کے لائق ہوں- یہاں تک کہ اگر کوئی ایک بھی مرتد ہوجائے جس نے جنگ کی ہو تو وہ اس عام قول میں داخل نہیں ہوسکتا بالاتفاق- پس ثابت ہوا کہ بخشش ان لوگوں کے لئے ہیں جن کے اندر شرائط بخشش موجود ہو-
حوالہ: فتح الباري شرح صحيح البخاري، جلد 6، صفحہ 102، الناشر: دار المعرفة - بيروت، 1379
''''''''''''''''''''''''''''''''''''علامہ ابن تیمیہ کے کلام سے استدلال؟؟؟''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
ہم نے علامہ ابن تیمیہ کی اس حوالے کی پوری تحقیق کی جس کو مخالف نے بایں الفاظ نقل کیا دیکھا:
//////////////////////اس مضمون کے حوالے سے چند گزارشات پیش خدمت ہیں:یزید بن معاویہ کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒکا یہ فیصلہ مبنی برانصاف واِعتدال ہے۔ آپ لکھتے ہیں:لا یُخَص بمحبۃ ولا یُلعَن ومع ھٰذا فإن کان فاسقًا أو ظالمًا فاﷲُ یغفِر للفاسق والظالم،لا سیما إذا أتٰی بحسناتٍ عظیمۃ،فالواجب الاقتصاد في ذلک والإعراض عن ذکر یزید بن معاویۃ وامتحان المسلمین بہ، فإن ھٰذا من البدع المخالفۃ لأھل السنۃ والجماعۃ (مجموع الفتاویٰ:۳؍۴۱۳)//////////////
جواب: کاش کہ اگر ابن تیمیہ کی پوری عبارت کو پڑھ لیتے تو بہت ساری جگہ چہرے کو جھکانا پڑتا- علامہ ابن تیمیہ کی یہ پوری بحث مجموع الفتاوی، جلد 3، صفحہ 410 سے لے کر صفحہ 415 تک محیط ہے- اس میں علامہ ابن تیمیہ نے بنو امیہ کی حمایت میں اپنا روایتی کردار اپناتے ہوئے ساتھ ساتھ بعض جگہ یزید کی سخت سرزنش کی جو شاید مخالف کی نظر سے نہیں گذری- ۱- ابن تیمیہ نے ایک جگہ قتل حسین ع کے قضیہ کے بارے میں یزید کے کردار کے بارے میں یوں کہا:
قتل حسین ع کے معاملے میں یزید نے اپنے انکار کا اظہار نہیں کیا، ان کی برتری کے لئے اور نہ ہی خون حسین ع کا بدلہ لیا جو کہ اس پر واجب تھا- پس اہل حق نے یہ دیکھ کر اس کو مورد الزام ٹہرانے لگے کہ اس نے واجبات کو ترک کیا اور بعض دیگر امور کی وجہ سے- ۲- ابن تیمیہ نے اس ہی بحث میں یہ بھی کہا:
(چونکہ عبارت لمبی ہیں)- ایک جملہ میں مختصر یہ ہے کہ یزید کا رویہ مدینہ اور مکہ والوں کے ساتھ جو واقعہ حرہ کی صورت میں نمودار ہوا بڑی منفی تھا-
مجموع الفتاوى بن تيمية ج 3 ص 410-415 المحقق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية عام النشر: 1416ه۔/1995م
سوال: ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آخر کیا وجہ کہ ایک قول کو نقل کردیا اور آگے پیچھے کی کہانی شیر مادر کی طرح ھضم کرگئے- ہم یہی کہہ سکتے ہے کہ دراصل معاملہ یہ ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ پیکھا پیکھا تھو - ابن تیمیہ نے جو پول کھولیں اس کا کیا بنا؟؟؟
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''علامہ ابن تیمیہ کی فحش غلطی''''''''''''''''''''''''''''''''''' علامہ ابن تیمیہ نے اگرچہ یزید کے خوب پول کھولے لیکن ساتھ ساتھ نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے، اور اپنے آپ کو اس قبیلہ کا محب ثابت کرنے کے لئے یزید کو جنت تک پہنچا ہی دیا- یزید کے حق میں صحیح بخاری والی روایت سے سہارا لیا جس کا شافی جواب اوپر کی سطور میں دیا جاچکا ہے- لیکن حیرانی کی بات ہے کہ یہ روایت جو ام حرام سے منقول ہے، علامہ ابن تیمیہ نے اسے ابن عمر سے منسوب کیا- اگر یہ غلطی ایک جگہ ہوتی تو معاملہ سھل رہتا لیکن یہ ایک سے زیادہ کتب میں پائی جاتی ہیں ابن عمر سے منسوب کردہ- ذیل میں فقط کتب کے حوالے مع عربی عبارت نقل کی جارہی ہے تاکہ مدعا کا اثبات حوالے سے ہوجائے- ۱- وَقَدْ رَوَى الْبُخَارِيُّ فِي صَحِيحِهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: {أَوَّلُ جَيْشٍ يَغْزُو الْقُسْطَنْطِينِية مَغْفُورٌ لَهُ} وَأَوَّلُ جَيْشٍ غَزَاهَا كَانَ أَمِيرُهُمْ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ مَعَهُ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مجموع الفتاوى بن تيمية الحراني ج 13 ص 413 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية
اور
مجموع الفتاوى بن تيمية الحراني ج 18 ص 352 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية ۲- وَقَدْ ثَبَتَ فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ (6) عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " «أَوَّلُ جَيْشٍ يَغْزُو الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ مَغْفُورٌ لَهُمْ» " (1) وَأَوَّلُ جَيْشٍ غَزَاهَا كَانَ أَمِيرُهُمْ يَزِيدَ، وَالْجَيْشُ عَدَدٌ مُعَيَّنٌ لَا مُطْلَقٌ، وَشُمُولُ الْمَغْفِرَةِ لِآحَادِ هَذَا الْجَيْشِ أَقْوَى مِنْ شُمُولِ اللَّعْنَةِ لِكُلِّ وَاحِدٍ وَاحِدٍ مِنَ الظَّالِمِينَ، فَإِنَّ هَذَا أَخَصُّ، وَالْجَيْشُ مُعَيَّنُونَ.
منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ج 4 ص 570-571 الناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
خیر انسان سے سھو ہوجاتا ہے لیکن یہ سھو بھی بڑا عجیب ہے جس سے جنت مل جائے__ فتامل
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''یزیدیت کے تابوت میں آخری کیل''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
چونکہ یزیدی مریدین جانتے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا ہتھیار تاریخ کو جھوٹ کہنا، عجمی اور رافضیوں کی سازش قرار دینا- علماء اہلسنت پر اتہام تشیع کرنا اور ان کے قول احسن کو ردی کہنا- لہذاء ہم بات کو نقل در نقل تک محدود نہیں کرنا چاہتے بلکہ تاریخِی اعتبار سے یزید کے کردار کو دیکھنا چاہتے ہیں-
جیسا کہ یزیدیوں کا زعم ہے کہ اس روایت سے بخشش کی عظیم نعمت سارے فوجیوں کو نصیب ہوئی تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس عظیم نعمت سے استفادے کے لئے یزید سب سے پیش پیش ہوتا لیکن تاریخ نے کردار یزید بالکل اس کے برعکس نقل کیا ہے- تاریخی روایت کچھ یوں کردار یزید پر روشنی ڈالتی ہے اس جنگ کے حوالے سے:
علامہ ابن خلدون جو ایک نھج سے یزیدیوں کے ہم مشرب ثابت ہوئے ہے، انہوں نے اپنی تاریخ میں لکھا:
بعث معاوية سنة خمسين جيشاً كثيفاً إلى بلاد الروم مع سفيان بن عوف وندب يزيد ابنه معهم فتثاقل فتركه. ثم بلغ الناس أنّ الغزاة أصابهم جوع ومرض وبلغ معاوية أنّ يزيد أنشد في ذلك:ما إن أبالي بما لاقت جموعهم ... بالفدفد البيد من حمّى ومن شومإذا اتطأت على الأنماط مرتفقا ... بدير مرّان عندي أمّ كلثوموهي امرأته بنت عبد الله بن عامر فحلف ليلحقن بهم
معاویہ نے شہر روم میں سفیان بن عوف کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا، یزید بن معاویہ کو بھی معاویہ نے حکم دیا لیکن یزید نے طبعیت خراب ہونے کے بہانے جانے سے پرہیز کیا، پس لوگ یہ خبر لے کر آئے کہ فوج جنگ کے دوران سخت بھوک اور مرض میں مبتلا ہے- معاویہ کو یزید کے ان اشعار کی خبر ہوئی جو اس نے اس موقع پر کہے:
مجھے کوئی فکر نہیں کہ اگر فوج پر مقام فرقدونہ پر بخار اور تنگی کی تکالیف نازل ہو، جب کہ میں دیر مران میں اونچے تخت میں راحت میں ہوں اور ام کلثوم میرے پاس ہے-
ام کلثوم ایک لڑکی تھی جو عبداللہ بن عامی کی بیٹی تھی، پس معاویہ نے قسم کھائی کہ یزید کو فوج سے ملحق کرے گا-
حوالہ: تاریخ ابن خلدون، جلد 3، صفحہ 12، طبع دار الفکر-
یہ ہے یزید کا کردار ایک بخشش حاصل کرنے کے لئے کہ بخشش حاصل کرنے والوں کا مذاق اڑا رہا ہے!!!!!!!
غرض یہ کہ ہم نے بہت اختصار کے ساتھ اس پر اپنی گذارشات کو پیش کیا- لکھنا بہت کچھ چاہتے تھے اس ضمن میں، لیکن وقت کی قلت ایک قدغن کی مانند سامنے آیا- یقین جانیں یزیدی حامیوں سمیت تمام نواصبین کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا انہیں راہ ہدایت کی طرف رہنمائی دے- بھلا کس طرح ممکن ہے کہ ایک جگہ حسین ع ہو اور دوسری طرف یزید اور انتخاب موخر الذکر یعنی یزید کا کیا جائے- یہ سودہ کتنے گھاٹے کا ہے- ہم نے اپنے جواب میں احترام کو ملحوظ خاطر رکھا ہے- لہذاء جو حضرت بھی جواب دیں، ان سے امید کی جاتی ہے کہ اخلاق کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے- اور جس طرح ہم نے تمام مطالب پر کما حقہ گفتگوں کی ہے اسی طرح مخالف بھی ہمارے ہر نکتہ کا بطریق احسن جواب دے ورنہ ایک بات پکڑ کر جواب دینا عقلمندی و دانشمندی نہیں-
السلام علیکم
ہم لوگ مخالفت یاشمولیت میں اس لئے کنجوسی کرتے ہیں کہ جو ہمارے ہاں چلتا آرہا ہے وہ بغیر جانچ کے اگے بڑھادیتے ہیں
کسی کا جھوٹا ہونا کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں کو بغیر تصدیق کیے پھیلاتے رہتے ہیں
میں نہ یزید کی حمایت کرتا ہوں اور نہ میں اسکوبرا کہتا ہوں۔
اسمیں میں کئیں باتیں ہیں۔
ہم اس دور میں نہیں تھےاور تو اور وہ دور جس میں منافقین نے بہت اچھا جال بچھاہوا تھا عبداللہ ابن صباح کا بچھایا ہوا جال جو علی رضی اللہ عنہ کے دور سے شروع ہوا تھا۔ یہ یہودی منافق مسلمانوں کے لباس میں مسلمانوں کو گمراہ کررہا تھا اور علی رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو بھاگ نکلا اور عراق میں بسیرا کرلیا اس کے بعد کی کہانی تو آپ سب جانتے ہیں فرقے پر فرقے بنتے چلے گئے۔جھوٹوں اور مکاروں کے ٹولے مسلمانوں میں شامل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ پھر ایک کے بعد دیگرے جنگیں ہوئیں اس میں سے ایک حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کی کہانی ہے بے شک بہت بڑا ظلم ہوا تھا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو چال منافقوں نے چلی ایسی چال آج تک کسی اور نے نہیں چلی ہوگی۔ تاریخ میں دیکھیں تو قصور وار وہ ہیں جنہوں نے ان کو کربلا بلواکر ساتھ دینے کے بجائے گھروں میں چھپ گئے۔
یہ تو بچپن سے ہی ہم سب جانتے ہیں۔
انتہی۔
السلام علیکم
کیا بات بولی ہے آپ نے محمد قادر صاحب اگر یہ سب کہانی ہے تو پھر اسلام بھی ایک کہانی ہوئی آپ کی نظر میں کیوں کے آپ نے خود تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا نہیں ہے اور یہ بات تو اس سے بھی مزہ کی ہے :
کوڈ:
تاریخ میں دیکھیں تو قصور وار وہ ہیں جنہوں نے ان کو کربلا بلواکر ساتھ دینے کے بجائے گھروں میں چھپ گئے۔
اگر آپ کی اس بات کو مان لئے تو پھر آپ کی نظر میں حضرت حمزہ علیہ السلام کا قاتل کوں ہوا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
والسلام
بڑے بھیا،،
کسی کو کس سے ملا رہے ہیں،،،،،،
کربلا کی کہانی ایمان کامل مفصل یا مجمل نہیں،،
میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے میرا ایمان جاتا ہو۔
اور نہ میں منکر ہوا اس بات سے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسین رضی اللہ عنہ پر ظلم ہوا۔
ہر محرم میں دس دن تک ہر ایک مولانا اپنی چھوڑتے چھوڑتے اس کہانی میں اتنا اپنا رنگ بھر دیتے ہیں کہ
جیسے وہ وہاں موجود تھے ایک دن میں نے ایسا کلپ دیکھا جس میں ایک منافق علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں
کہہ گیا نعوذوباللہ ،، علی کو نہ اوپر سے کوئی جانا نہ نیچے سے۔ لاحول ولا قوت الا باللہ۔۔
اس لئے میں کربلا کے کہانی کا قائل نہیں جو سچ ہے اللہ بہتر جانتا ہے ذندگی بھر یزید برا ، یزید برا کہنے سے
جو حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کا مقصد پورا نہیں ہوتا، بلکہ حسین رضی اللہ عنہ کا مقصد صرف اور صرف
اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پورا کرنا تھا وہ پیغام کہ قیامت تک آنےوالے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی
جہنم سے بچ جائے۔
آج ہی صبح سویرے اللہ پاک نے سورۃ البقرہ میں غور کروایا، کہ جو لوگ مفسد ہیں ان کو کہیں یا نہ کہیں وہ ایمان لانے والے نہیں
اور اگے بیان کیا کہ یہ جو مفسد ہیں وہ دنیا میں بربادی پھیلاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ ہم امن کی کوشش کررہے ہیں
آج دیکھ لیں کے کفار یہود، نصارا، زیونیسٹ ، ہندو، بت مت کے پیروکار سبھی یہ کوشش میں لگے ہیں کہ کسی طرح مسلمان
اس آواز کو چھوڑ دے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز تھی جو خلفائے راشدین کی آواز تھی جو حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی
آواز تھی تابعین کی آواز تھی چارو اماموں کی آواز تھی محدثین کی آواز تھی۔ یہ سب تو الحمد للہ ، اللہ کے پاس بہتر مقام میں ہیں
ہمارے پاس اس وقت ایک نور ہے جسکوں ہمیں سنبھالنا ہے اور پکڑ نا ہے وہ ہے اللہ کی کتاب "قرآن کریم" اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کا طریقہ۔ اسی سے ہماری بخشش ہوسکتی ہے اس کے علاوہ کچھ کام نہیں آئےگا۔
انتہی۔