علی فاروقی
محفلین
معاشرانِ خراباتِ حرفِ سادہء مئے
زبانِ دل سے کبھی عارفانہ بھی سنتے
قتیلِ زمزمہء و صلِ نالہء ہجراں
نوائے حسرتِ غیر عاشقانہ بھی سنتے
روایتِ ابدی پر یقین سے پہلے
حقیقتِ اذلی کا ترانہ بھی سنتے
اس انتہائے جلال و جمال سے آگے
خیال کا سبقِ ناصحانہ بھی سنتے
زکواۃ دل کبھی دیتا غرورِ کج کُلَہی
نکاتِ ذہن کبھی عاجزانہ بھی سنتے
یہ دوڑتی ہوئ راتیں ،یہ بھاگتے ہوئے دن
صدائے مسلہء جاودانہ بھی سنتے
حدیث کی روشِ عامیانہ سے ہٹ کر
خِرد کا تزکرہِ عالمانہ بھی سنتے
یہ قِراَتوں کے دھوئیں میں گُھٹے ہوئے ماحول
ہوا کا زمزمہء بیکرانہ بھی سنتے
سیاسیاتِ و تمدن کے ناز پر وردہ
صعوبتِ قفس و تازیانہ بھی سنتے
یہ قید و بند یہ تعزیر عام باتیں
شکایتِ دل و جاں مشفقانہ بھی سنتے
سزا جزا کے عوض آدمی سے عرضِ حیات
وفا جفا کی طرح دوستانہ بھی سنتے
مصاحبوں نے بہت کچھ جنہیں بتایا ہے
زبانِ خلقِ خداغائبانہ بھی سنتے
غرورِ عشق کو خوئے نیاز سے ملتے
تعّلیوں کو مِری شاعرانہ بھی سنتے
زبانِ دل سے کبھی عارفانہ بھی سنتے
قتیلِ زمزمہء و صلِ نالہء ہجراں
نوائے حسرتِ غیر عاشقانہ بھی سنتے
روایتِ ابدی پر یقین سے پہلے
حقیقتِ اذلی کا ترانہ بھی سنتے
اس انتہائے جلال و جمال سے آگے
خیال کا سبقِ ناصحانہ بھی سنتے
زکواۃ دل کبھی دیتا غرورِ کج کُلَہی
نکاتِ ذہن کبھی عاجزانہ بھی سنتے
یہ دوڑتی ہوئ راتیں ،یہ بھاگتے ہوئے دن
صدائے مسلہء جاودانہ بھی سنتے
حدیث کی روشِ عامیانہ سے ہٹ کر
خِرد کا تزکرہِ عالمانہ بھی سنتے
یہ قِراَتوں کے دھوئیں میں گُھٹے ہوئے ماحول
ہوا کا زمزمہء بیکرانہ بھی سنتے
سیاسیاتِ و تمدن کے ناز پر وردہ
صعوبتِ قفس و تازیانہ بھی سنتے
یہ قید و بند یہ تعزیر عام باتیں
شکایتِ دل و جاں مشفقانہ بھی سنتے
سزا جزا کے عوض آدمی سے عرضِ حیات
وفا جفا کی طرح دوستانہ بھی سنتے
مصاحبوں نے بہت کچھ جنہیں بتایا ہے
زبانِ خلقِ خداغائبانہ بھی سنتے
غرورِ عشق کو خوئے نیاز سے ملتے
تعّلیوں کو مِری شاعرانہ بھی سنتے