فرخ منظور
لائبریرین
حرف حرف، لہو لہو
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عجلتوں میں لکھا ہوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو حسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ، کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں عصمتیں
مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
مرے جاں نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر
مرے عسکری، مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے
کبھی میرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا
وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو
انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جاں نثاروں کو حکم ہے
کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حکم ہے
بِنا اعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ
انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
انہیں زر کا سکہّ اچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
انہیں کال کوٹھی میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیاں کرے
وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں مرے شہر میں
انہیں بھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمیں میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے
انہیں نوکری سے نکال دو
جو ہیں بے خطا، وہی دربدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گنہ کریں، وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرِ عتاب ہے
’’کہیں پر شکستہ ہے فاختہ
کہیں زخم زخم گلاب ہے‘‘
مرے دشمنوں کو جواب ہے
نہیں غاصبوں پہ شفیق مَیں
مرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں آمروں کا رفیق مَیں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوفِ مرگ نہیں ذرا
مرا حرف حرف، لہو لہو
مرا لفظ لفظ ہے آبلہ
(ڈاکٹر سید صغیر صفیؔ)
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عجلتوں میں لکھا ہوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو حسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ، کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں عصمتیں
مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
مرے جاں نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر
مرے عسکری، مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے
کبھی میرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا
وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو
انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جاں نثاروں کو حکم ہے
کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حکم ہے
بِنا اعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ
انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
انہیں زر کا سکہّ اچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
انہیں کال کوٹھی میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیاں کرے
وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں مرے شہر میں
انہیں بھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمیں میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے
انہیں نوکری سے نکال دو
جو ہیں بے خطا، وہی دربدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گنہ کریں، وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرِ عتاب ہے
’’کہیں پر شکستہ ہے فاختہ
کہیں زخم زخم گلاب ہے‘‘
مرے دشمنوں کو جواب ہے
نہیں غاصبوں پہ شفیق مَیں
مرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں آمروں کا رفیق مَیں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوفِ مرگ نہیں ذرا
مرا حرف حرف، لہو لہو
مرا لفظ لفظ ہے آبلہ
(ڈاکٹر سید صغیر صفیؔ)
آخری تدوین: