حرم اور دیر کے کتبے وہ دیکھے جس کو فرصت ہے - سیماب اکبرآبادی

وہ کیا سجدہ؟ رہے احساس جس میں سر اُٹھانے کا
عبادت اور بقائدہِ ہوش، توہینِ عبادت ہے ۔
واہ بہت خوب جناب ۔ شئیرنگ کاشکریہ۔​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مگر پہلے انہیں دیوانہ بننے کی ضرورت ہے

واہ کیا بات ہے۔ پوری غزل کمال کی ہے لیکن اس شعر کی کیا ہی بات ہے اور اس مصرعہ کی تو کیا ہی بات ہے
 
قوالی شیئر کیجیئے اگر کر سکیں تو۔
میں لنک شیئر کرنے سے قاصر ہوں آفس مین یو ٹیوب اور فیس بک پر پابندی ہے۔آپ یوٹیوب پر بابا یحیی صاحب کی داتا صاحب ؒ کے2014 عرس کی شرکت کی ہائی لائٹ دیکھ لینے اس ویڈیو میں آڈیو پر یہی کلام ہے۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
کلام بہت ہی شستہ و شائستہ ہے۔واہ
لیکن ایک غلطی ہے ،حیرت ہے کسی نے توجہ نہ دی ۔یہ مصرع شاید اس طرح ہوگا۔
عبادت اور بقیدِ ہوش، توہینِ عبادت ہے


اچھا ہوا سید عاطف علی صاحب ! آپ کے مراسلے پر نظر پڑ گئی ورنہ ہم بھی اس کی اصلاح کرنے بیٹھ گئے تھے !
پہلے شعر کے پہلے مصرع میں بھی ایک غلطی ہے ، خبر تحیر سنئیے ! مجھے قطعا حیرت نہیں کہ کسی نے توجہ نہ دی ،

درست مصرع یوں ہے

حرم اور دیر کے کتبے وہ دیکھے جس کو فرصت ہے

پہلی صورت میں مصرع خارج از آہنگ ہوجاتا ہے نیز روانی بھی مجروح ہوتی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
مکمل غزل

حرم اور دیر کے کتبے وہ دیکھے جس کو فرصت ہے
یہاں حدِّ نظر تک صرف عنوانِ محبت ہے

پرستارِ محبت کی محبت ہی شریعت ہے
کسی کو یاد کرکے آہ کر لینا عبادت ہے

رئیسِ لامکاں ہوں، بے نیازی میری فطرت ہے
مذاقِ آرزو تو بر بنائے آدمیّت ہے

ہو اِک معمول تم بھی میرے کردارِ محبت کا
مجھے تم سے نہیں، اپنی محبت سے محبت ہے

بھڑک کر حُسنِ خاکستر بنا دے ساری دنیا کو
جو بھُولے سے کبھی کہہ دوں، مجھے کس سے محبت ہے

جہاں دل ہے، وہاں وہ ہیں، جہاں وہ ہیں وہاں سب کچھ
مگر پہلے مقامِ دل سمجھنے کی ضرورت ہے

یہ قوّت بھی شریکِ حُسن ہوجاتی تو کیا ہوتا
کر اس کی قدر دیوانے، تصوّر بھی غنیمت ہے

میں جسم و روح کو کُچلا ہوا محسوس کرتا ہوں
الٰہی بارِ غم سینے پہ ہے یا سنگِ تُربت ہے

جو تُو چاہے وہ ہوجائے، نہ لے تقدیر کا پردہ
خطِ قسمت ہمارا تیرے منشائے عبارت ہے

بگڑنا آدمی کا اور بننا، پھر بگڑ جانا
یہ کس کے ہاتھ میں نبضِ مزاجِ آدمیّت ہے

بہت مشکل ہے قیدِ زندگی میں مطمئن ہونا
چمن بھی اِک مصیبت تھا، قفس بھی اِک مصیبت ہے

کہاں تُو اور کہاں میں منزلِ ہستی میں اے منعم
کہ تُو ٹھوکر ہے دولت کی، مِری ٹھوکر میں دولت ہے

مِری دیوانگی پر ہوش والے بحث فرمائیں
مگر پہلے انھیں دیوانہ بننے کی ضورت ہے

اٹھایا تھا کبھی بارِ امانت ظرفِ انساں نے
اسی سے پوچھیے اب سر اٹھانے کی بھی مہلت ہے؟

حریمِ حُسن میں کیا بن کے سنگِ آئینہ بیٹھوں
میں پروانہ ہوں، مجھ کو رقص کرنے کی اجازت ہے

وہ سجدہ کیا، رہے احساس جس میں سر اٹھانے کا
عبادت اور بقیدِ ہوش، توہینِ عبادت ہے

نہ چھیڑ اے تنگیِ صحنِ چمن، پھر لَوٹ جاؤں گا
تصوّر کی نگاہوں میں ابھی صحرا سلامت ہے

شگفتِ دل کی مہلت عمر بھر مجھ کو نہ دی غم نے
کلی کو رات بھر میں پھول بن جانے کی فرصت ہے

مقامِ عشق کو ہر آدمی سیمابؔ کیا سمجھے
یہ ہے اِک مرتبہ جو ماورائے آدمیّت ہے

(سیمابؔ اکبر آبادی)
 
آخری تدوین:
Top