امن وسیم
محفلین
حصہ اول
( مولانا امین احسن اصلاحی )
حروف مقطعات کو مقطعات کیوں کہتے ہیں؟ چونکہ ان حرفوں کی قراء ت عام حروف کے خلاف ہے، یعنی یہ حروف ہمیشہ الگ الگ کر کے ساکنۃ الاواخر پڑھے جاتے ہیں۔ مثلا
ً ’الٓم‘ کو الف، لام، میم پڑھیں گے۔
اس لیے ان کو ’’مقطعات‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ حروف قرآن مجید میں جہاں جہاں آئے ہیں، سورتوں کے بالکل شروع میں آئے ہیں۔ ان کے مواقع پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حروف جن سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، ان سورتوں کے نام ہیں۔
قرآن مجید میں اکثر جگہ ان حرفوں کے بعد
’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں۔
مثلاً سورۂ لقمان میں فرمایا گیا ہے:
الٓمّٓ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ.(۳۱: ۱)
’’’ا ل م‘ یہ کتاب حکیم کی آیتیں ہیں۔‘‘
سورۂ شعراء میں آیا ہے:
طٓسٓمّٓ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ.(۲۶: ۱۔۲)
’’’طٓسٓمٓ‘ یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں۔‘‘
سورۂ حجر میں ہے:
الٓرٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ.(۱۵: ۱)
’’’ا ل رٰ‘ یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیتیں ہیں۔‘‘
سورۂ بقرہ میں ہے:
الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ.(۲: ۱)
’’’ا ل م‘ یہ آسمانی کتاب ہے جس میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘
اس قسم کی آیتیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔
ان تمام آیتوں میں حروف مقطعات کے بعد ہی فرمایا گیا ہے کہ
’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘ (یہ کتاب آسمانی کی آیتیں ہیں)،
’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘ (یہ کتاب ہے)۔
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اسم اشارہ کا مشارٌ الیہ کون ہے؟ یہ تو معلوم ہے کہ قرآن نے ان تمام مقامات میں اسماء اشارہ میں سے صرف ’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ استعمال کیے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ ’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ عام طور پر ماسبق ہی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے خاص ہیں اور اہل نحو جو یہ کہتے ہیں کہ یہ اشارہ بعید کے لیے ہے تو اس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے۔ ارباب تفسیر جو ’ذٰلِکَ‘ کو ’ھذا‘ کے معنی میں لیتے ہیں تو محض تقریب فہم کے لیے یہ کہتے ہیں، ورنہ مطلب ان کا بھی یہی ہوتا ہے۔ اس لیے انھی حروف مقطعات کو جو ان کے پہلے مذکور ہیں، ان اسماء اشارہ کا مشارٌ الیہ ماننا پڑے گا۔ اگر ان حرفوں کو مشارٌ الیہ نہ مانیے تو پھر ’ذٰلِکَ‘ کو ’ھذا‘ کے معنی میں لینا پڑے گا۔ اور ان دونوں میں جو عظیم فرق ہے، وہ زبان کے جاننے والوں سے مخفی نہیں، خود قرآن مجید میں اس فرق کی متعدد واضح مثالیں موجود ہیں۔ پس جب یہی حروف ان اسماء اشارہ کے مشارٌ الیہ ہیں، تو پھر آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ یہ
’’(یعنی ’الٓم‘) کتاب حکیم کی آیتیں ہیں‘‘۔
جس کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں
کہ یہ سورہ جس کا نام ’الٓم‘ ہے کتاب حکیم کی آیتیں ہیں۔
غور کیجیے، آیتوں کے سیاق اور لفظوں کے اشارہ سے یہ بات کس قدر واضح ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔
اس موقع پر ایک اہم مغالطہ کو رفع کر دینا ضروری ہے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ جب یہ سورتوں کے نام ہیں تو ان کو قرآن سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ حروف گو سورتوں کے نام ہیں، لیکن پھر بھی من جملۂ قرآن ہیں، دو وجہوں سے،
ایک تو یہ کہ جیسا اوپر گزر چکا، قرآن نے انھی حروف کو مشارٌ الیہ قرار دیا ہے۔ پس قرآن جب خود ان کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو وہ حروف بھی قرآن ہی میں داخل ہیں۔
دوسرے یہ کہ یہ حروف بھی قرآن ہی کے ساتھ نازل ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کو کسی طرح ترک نہیں کیا جا سکتا۔ ’ما بین الدفتین‘ جو صحیفہ ہمارے پاس موجود ہے، وہ عہدرسالت سے حرف بہ حرف محفوظ و مصون چلا آتا ہے اور ہم کو اسی کی قراء ت و تلاوت کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے ان حروف مقطعات کو کسی طرح بھی قرآن سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض سورتوں کے نام ایسے حروف سے رکھنا جن کے معنی عمیق و مستور ہیں، قرآن کے عربی مبین ہونے کے منافی ہے، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ تمام حروف ہجا عربوں کو معلوم تھے اور ان کی عام بول چال میں ان کا رواج تھا، اس لیے تمام مفرد اسماء سورہ، مثلاً صؔ ، قؔ ، نؔ عربی مبین کے حکم میں ہیں۔ باقی رہے مرکبات مثلاً ’حم‘، ’الٓم‘، ’المص‘، ’حمعسق‘ تو جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کے شروع میں یہ واقع ہیں تب بھی عربی مبین کے حکم میں داخل ہو گئے، اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اہل عرب ان کلمات سے بالکل ناواقف تھے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ عرب اس طرح کے مرکبات سے نام رکھتے تھے اور ان کے معنی بالکل ایسے مخصوص اصطلاحی قرار دے لیتے تھے جو ان کے مفردات سے نہیں سمجھے جا سکتے تھے۔ ان کے اشخاص، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں کے اسماء میں اس کی مثالیں تلاش سے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ اسماء اس وضع جدید کے لیے متعارف ہو جاتے تھے اور سامع ان کو سن کر ان سے اس جدید معنی کو سمجھ جاتا تھا۔ اس لیے یہ مرکب اسماء بھی عربی مبین کے حکم سے خارج نہیں ہوئے،
لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی سورہ کا نام ’الٓم‘ کسی کا ’الٓر‘، کسی کا ’طٓسٓم‘ کیوں رکھا گیا؟ ان ناموں میں اور ان سورتوں میں جن کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں، کوئی معنوی ربط اور مناسبت بھی ہے یا نہیں؟
اگلے علما نے بھی اس حقیقت کے کھوج میں بڑی بڑی محنتیں کی ہیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے، اس بارے میں ان کے ۲۹ اقوال ہیں، لیکن ان تمام اقوال میں سے کسی قول میں بھی قرآن سے تمسک نہیں کیا گیا ہے، اس لیے ہم ان اقوال سے کوئی بحث نہیں کریں گے۔ قرآن کی روشنی میں ہم نے جو معنوی مناسبت سمجھی ہے، صرف اسی کے بیان پر اکتفا کریں گے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر اس حقیقت مستور کی طرف قرآن کے اشاروں کی روشنی رہنمائی نہ کرتی تو ہم اس بحث کو ہاتھ نہ لگاتے۔ ’اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِقَبَسٍ‘ (طٰہٰ ۲۰: ۱۰)۔
عربوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ کسی چیز کا نیا نام رکھتے تو اس چیز کا خاص خیال رکھتے کہ اسم اپنے مسمیٰ کی مخصوص خصوصیات کا حامل ضرور ہو۔ عربوں کے القاب پر نگاہ ڈالو تو یہ حقیقت آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی ’اَلْمَلِکُ الضِّلِّیْلُ‘ امرء القیس کا لقب ہے۔ دیکھو، یہ مختصر لقب صاحب لقب کی مخصوص خصوصیات کا کس درجہ حامل ہے؟ اور ہونا بھی یہی چاہیے، کیونکہ ’اسم‘ دراصل ’وسم‘ سے مشتق ہے۔ پس اہمیت کے لیے وہی چیز صالح اور مناسب ہو سکتی ہے جو علامت کا کام دے سکے، اس لیے ضروری ہے کہ جب کسی چیز کا کوئی نام رکھا جائے تو اس میں اتنی صلاحیت تو ضرور ہو کہ اگر سب نہیں تو مسمیٰ کی بعض ابھری ہوئی اور نمایاں خصوصیتوں کو واضح کر سکے۔ قرآن مجید میں جو سورتوں کے نام رکھے گئے ہیں، ان میں اسی طرح کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے۔ ان ناموں سے کم از کم ان سورتوں کی کوئی نمایاں علامت ضرور سامنے آجاتی ہے۔ پس جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حروف مقطعات بھی سورتوں کے نام ہیں تو ضروری ہے کہ یہ حروف بھی بامعانی ہوں اور ان حروف سے جو مرکبات بنائے گئے ہیں، وہ بھی عربی زبان کے عام مرکب ناموں کی طرح بامعانی ہوں۔
( جاری ہے )
( مولانا امین احسن اصلاحی )
حروف مقطعات کو مقطعات کیوں کہتے ہیں؟ چونکہ ان حرفوں کی قراء ت عام حروف کے خلاف ہے، یعنی یہ حروف ہمیشہ الگ الگ کر کے ساکنۃ الاواخر پڑھے جاتے ہیں۔ مثلا
ً ’الٓم‘ کو الف، لام، میم پڑھیں گے۔
اس لیے ان کو ’’مقطعات‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ حروف قرآن مجید میں جہاں جہاں آئے ہیں، سورتوں کے بالکل شروع میں آئے ہیں۔ ان کے مواقع پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حروف جن سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، ان سورتوں کے نام ہیں۔
قرآن مجید میں اکثر جگہ ان حرفوں کے بعد
’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں۔
مثلاً سورۂ لقمان میں فرمایا گیا ہے:
الٓمّٓ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ.(۳۱: ۱)
’’’ا ل م‘ یہ کتاب حکیم کی آیتیں ہیں۔‘‘
سورۂ شعراء میں آیا ہے:
طٓسٓمّٓ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ.(۲۶: ۱۔۲)
’’’طٓسٓمٓ‘ یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں۔‘‘
سورۂ حجر میں ہے:
الٓرٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ.(۱۵: ۱)
’’’ا ل رٰ‘ یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیتیں ہیں۔‘‘
سورۂ بقرہ میں ہے:
الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ.(۲: ۱)
’’’ا ل م‘ یہ آسمانی کتاب ہے جس میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘
اس قسم کی آیتیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔
ان تمام آیتوں میں حروف مقطعات کے بعد ہی فرمایا گیا ہے کہ
’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘ (یہ کتاب آسمانی کی آیتیں ہیں)،
’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘ (یہ کتاب ہے)۔
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اسم اشارہ کا مشارٌ الیہ کون ہے؟ یہ تو معلوم ہے کہ قرآن نے ان تمام مقامات میں اسماء اشارہ میں سے صرف ’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ استعمال کیے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ ’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ عام طور پر ماسبق ہی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے خاص ہیں اور اہل نحو جو یہ کہتے ہیں کہ یہ اشارہ بعید کے لیے ہے تو اس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے۔ ارباب تفسیر جو ’ذٰلِکَ‘ کو ’ھذا‘ کے معنی میں لیتے ہیں تو محض تقریب فہم کے لیے یہ کہتے ہیں، ورنہ مطلب ان کا بھی یہی ہوتا ہے۔ اس لیے انھی حروف مقطعات کو جو ان کے پہلے مذکور ہیں، ان اسماء اشارہ کا مشارٌ الیہ ماننا پڑے گا۔ اگر ان حرفوں کو مشارٌ الیہ نہ مانیے تو پھر ’ذٰلِکَ‘ کو ’ھذا‘ کے معنی میں لینا پڑے گا۔ اور ان دونوں میں جو عظیم فرق ہے، وہ زبان کے جاننے والوں سے مخفی نہیں، خود قرآن مجید میں اس فرق کی متعدد واضح مثالیں موجود ہیں۔ پس جب یہی حروف ان اسماء اشارہ کے مشارٌ الیہ ہیں، تو پھر آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ یہ
’’(یعنی ’الٓم‘) کتاب حکیم کی آیتیں ہیں‘‘۔
جس کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں
کہ یہ سورہ جس کا نام ’الٓم‘ ہے کتاب حکیم کی آیتیں ہیں۔
غور کیجیے، آیتوں کے سیاق اور لفظوں کے اشارہ سے یہ بات کس قدر واضح ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔
اس موقع پر ایک اہم مغالطہ کو رفع کر دینا ضروری ہے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ جب یہ سورتوں کے نام ہیں تو ان کو قرآن سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ حروف گو سورتوں کے نام ہیں، لیکن پھر بھی من جملۂ قرآن ہیں، دو وجہوں سے،
ایک تو یہ کہ جیسا اوپر گزر چکا، قرآن نے انھی حروف کو مشارٌ الیہ قرار دیا ہے۔ پس قرآن جب خود ان کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو وہ حروف بھی قرآن ہی میں داخل ہیں۔
دوسرے یہ کہ یہ حروف بھی قرآن ہی کے ساتھ نازل ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کو کسی طرح ترک نہیں کیا جا سکتا۔ ’ما بین الدفتین‘ جو صحیفہ ہمارے پاس موجود ہے، وہ عہدرسالت سے حرف بہ حرف محفوظ و مصون چلا آتا ہے اور ہم کو اسی کی قراء ت و تلاوت کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے ان حروف مقطعات کو کسی طرح بھی قرآن سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض سورتوں کے نام ایسے حروف سے رکھنا جن کے معنی عمیق و مستور ہیں، قرآن کے عربی مبین ہونے کے منافی ہے، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ تمام حروف ہجا عربوں کو معلوم تھے اور ان کی عام بول چال میں ان کا رواج تھا، اس لیے تمام مفرد اسماء سورہ، مثلاً صؔ ، قؔ ، نؔ عربی مبین کے حکم میں ہیں۔ باقی رہے مرکبات مثلاً ’حم‘، ’الٓم‘، ’المص‘، ’حمعسق‘ تو جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کے شروع میں یہ واقع ہیں تب بھی عربی مبین کے حکم میں داخل ہو گئے، اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اہل عرب ان کلمات سے بالکل ناواقف تھے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ عرب اس طرح کے مرکبات سے نام رکھتے تھے اور ان کے معنی بالکل ایسے مخصوص اصطلاحی قرار دے لیتے تھے جو ان کے مفردات سے نہیں سمجھے جا سکتے تھے۔ ان کے اشخاص، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں کے اسماء میں اس کی مثالیں تلاش سے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ اسماء اس وضع جدید کے لیے متعارف ہو جاتے تھے اور سامع ان کو سن کر ان سے اس جدید معنی کو سمجھ جاتا تھا۔ اس لیے یہ مرکب اسماء بھی عربی مبین کے حکم سے خارج نہیں ہوئے،
لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی سورہ کا نام ’الٓم‘ کسی کا ’الٓر‘، کسی کا ’طٓسٓم‘ کیوں رکھا گیا؟ ان ناموں میں اور ان سورتوں میں جن کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں، کوئی معنوی ربط اور مناسبت بھی ہے یا نہیں؟
اگلے علما نے بھی اس حقیقت کے کھوج میں بڑی بڑی محنتیں کی ہیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے، اس بارے میں ان کے ۲۹ اقوال ہیں، لیکن ان تمام اقوال میں سے کسی قول میں بھی قرآن سے تمسک نہیں کیا گیا ہے، اس لیے ہم ان اقوال سے کوئی بحث نہیں کریں گے۔ قرآن کی روشنی میں ہم نے جو معنوی مناسبت سمجھی ہے، صرف اسی کے بیان پر اکتفا کریں گے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر اس حقیقت مستور کی طرف قرآن کے اشاروں کی روشنی رہنمائی نہ کرتی تو ہم اس بحث کو ہاتھ نہ لگاتے۔ ’اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِقَبَسٍ‘ (طٰہٰ ۲۰: ۱۰)۔
عربوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ کسی چیز کا نیا نام رکھتے تو اس چیز کا خاص خیال رکھتے کہ اسم اپنے مسمیٰ کی مخصوص خصوصیات کا حامل ضرور ہو۔ عربوں کے القاب پر نگاہ ڈالو تو یہ حقیقت آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی ’اَلْمَلِکُ الضِّلِّیْلُ‘ امرء القیس کا لقب ہے۔ دیکھو، یہ مختصر لقب صاحب لقب کی مخصوص خصوصیات کا کس درجہ حامل ہے؟ اور ہونا بھی یہی چاہیے، کیونکہ ’اسم‘ دراصل ’وسم‘ سے مشتق ہے۔ پس اہمیت کے لیے وہی چیز صالح اور مناسب ہو سکتی ہے جو علامت کا کام دے سکے، اس لیے ضروری ہے کہ جب کسی چیز کا کوئی نام رکھا جائے تو اس میں اتنی صلاحیت تو ضرور ہو کہ اگر سب نہیں تو مسمیٰ کی بعض ابھری ہوئی اور نمایاں خصوصیتوں کو واضح کر سکے۔ قرآن مجید میں جو سورتوں کے نام رکھے گئے ہیں، ان میں اسی طرح کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے۔ ان ناموں سے کم از کم ان سورتوں کی کوئی نمایاں علامت ضرور سامنے آجاتی ہے۔ پس جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حروف مقطعات بھی سورتوں کے نام ہیں تو ضروری ہے کہ یہ حروف بھی بامعانی ہوں اور ان حروف سے جو مرکبات بنائے گئے ہیں، وہ بھی عربی زبان کے عام مرکب ناموں کی طرح بامعانی ہوں۔
( جاری ہے )
آخری تدوین: