حزب التحریر

ساجداقبال

محفلین
1100242814-1.jpg

1100242814-2.gif
 

ساجداقبال

محفلین
کیا مجھے کوئی بھائی/بہن حزب التحریر کے بارے میں بتا سکتا ہے۔ کیا واقعی یہ خلافت کی احیاء کیلیے کوئی منظم کوشش کر رہے ہیں؟ میری معلومات ان کے بارے میں واجبی سی ہیں۔ حزب التحریر کی ویب سائٹ
 
اشارات

آفیشل ویب سائٹ
http://www.hizb-ut-tahrir.org/EN/

وکی
http://en.wikipedia.org/wiki/Hizb_ut-Tahrir

میڈیا نمائندے عمران وحید کا انٹرویو ۔ ۔ ۔
http://www.atimes.com/atimes/Central_Asia/GH11Ag02.html


"The fundamental aspect of our activities here in the UK and everywhere else is the dissemination of thought. We use various means to achieve that, including leafleting, publications, meetings, study circles, lectures, seminars, conferences and round-table and panel discussions. In short we utilize all methods that modern political parties use to convey their message to the people. "
 
بہت منظم جماعت ہے اور برطانیہ میں اس کی پرنٹنگ کی مضبوط اساس ہے اور کافی جانی پہچانی تنظیم ہے وہاں۔ عام مذہبی جماعتوں کی نسبت اس تنظیم کی اساس دانشورانہ ہے اور اس کے معتقدین جتنوں کو میں جانتا ہوں سب پڑھے لکھے اور اپنے مقصد کے حوالے سے بہت واضح اور پر عزم ہیں۔ زیادہ تر مواد انگلش میں ہے مگر اردو میں بھی تیزی سے کام کر رہے ہیں۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم برادران عزیز

حزب التحریر کی بنیاد اسلام ہے ۔سیاست اس کا کام اور اسلامی فکر اس کی اساس ہے۔یہ امت کے اندر اور امت کے ساتھ مل کر اس لئے کام کرتی ہے کہ امت اسلام کو اپنا مسلئہ سمجھے اور حزب التحریر خلافت کو دوبارہ قائم کرنے اور اللہ تعٰالی کے نازل کردہ احکامات کو نافذ کرنے کے لئے امت کی رہنمائی کرے۔
اسلامی فکر ہی اس کی روح ہے یہی اس کا نقطہ آغاز اس کی زندگی کا راز ہے۔

حزب التحریر کی بنیاد 1953 میں شیح تقی الدین النبہانی نے فلسطین کے شہر القدس میں رکھی۔حزب التحریر کے دوسرے امیر شیح عبدالقدیم الظلوم تھے حزب کے تیسرے اور موجودہ امیر شیح عطا بن حلیل ابو رُشتہ ہیں۔ ان کی قیادت میں حزب التحریر دنیا کے 40 سے زائد ممالک میں خلافت کے قیام کے لئے کام کر رہی ہے۔
ولسلام
 

عمر میرزا

محفلین
(یہ مضمون "خلافت میگزین " سے لیا گیا ہے۔)
1973ءکا مقدس سیکولر آئین


سیکولرزم کی نظر میں ریاست کی واحد ذمہ داری شہریوں کی آزادیوں کی حفاظت ہے۔ یہ آزادیاں چار ہیں۔ شخصی آزادی، آزادی belief، آزادی اظہار رائے اور آزادی ملکیت۔ شہری کی ان چاروں آزادیوں کو ہر قیمتپ پر مہیار کرنا ایک سیکولر ریاست کا سب سے بڑا کا م ہے۔ چونکہ کسی بھی ریاست کا آئین کا اس کا بنیادی documentہوتا ہے۔ اس لیے ایک سیکولر ریاست کے آئین کی سب سے بنیادی شق ان چاروں آزادیوں کی حفاظت ہے۔ ان آزادیوں کی حفاظت کے لیے ریاست وہ تمام قوانین بنائے گی جو ان آزادیوں کو مہیا کرنے کے لیے لازمی ہوں گے۔ ایک سیکولر آئین کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ریاست کوئی ایسے قوانین نہ بنا سکے جو ان حریتوں کو ریاست کے شہریوں سے چھین سکے۔

شخصی آزادی کا نظریہ:
شخصی آزادی سے مراد ہر فرد کی آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہے زندگی کا لطف اٹھائے۔ یعنی کہ سیکولرزم سے پھوٹتا ہے کہتاہے کہ ہر شحص آزاد ہے کہ جو کچھ چاہے پہنے، جو کچھ چاہے کھائے پیئے۔ جہاں جانا چاہے جائے ۔ جس سے ملنا چاہے ملے، بیٹھے، سوئے۔ چلے، دوڑے، جو کچھ چاہے کرے۔
جیسا کہ سیکولرزم کے باقی نظریات کا حال ہے۔ نظریہ شخصی آزادی بھی اندرونی نقائص کا شکار ہے اور اگر اس نظریے کو اس کے اصل مفہوم میں نافذ کردیا جائے تو یہ انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص دوسرے کو اینٹ مار کر اس کے سر کو پھوڑنے کے بعد کہہ سکتا ہے کہ یہ تو میری شخصی آزادی ہے۔ میں جو مرضی آئے کروں۔ ایک چور کہہ سکتا ہے کہ اس لکے لیے کسی کے مال کو غصب کرنا درست ہے کیونکہ اپنی مرضی کا حامل ایک آزاد شخص ہے۔
سیکولرزم کے نظر یا ت کے اندرونی نقائص کو چھپانے کے لیے اس عقیدے کے علمبرداروں نے ان نظریات کو کچھ ٹانکے لگائے اور ان کی کچھ کانٹ چھانٹ کی پس اس نظریے کو بھی ٹانکا لگایا گیا اور شخصی آزادی کی حدود متعین کر کے اسکو لگام دی گئی، اس نظریے کی تبدیل شدہ صورت یہ ہے۔
”ہر شخص کے پاس شخصی آزادی ہے اس جو تک جہاں تک دوسروں کی شخصی آزادیوں کو پر ضرب نہ لگے“
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب کوئی مجھے اینٹ اٹھا کر نہیں مار سکتا کیونکہ یہ میری شخصی آزادی پر ضرب تصور کی جائے گی۔ جیسا کہ ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کی ناک پر اپنی چھڑی ماری۔ دوسرے شخص نے شکایت درج کی تو پہنے شخص ندے جو اب دیا کہ وہ ایکا آزاد شخص ہے اور جو کرنا چاہے کرے گا کیونکہ یہ اس کا قانونی حق ہے۔ جس شخص کو چھڑی ماری گئی اس نے جواب دیا ”ٹھیک ہے کہ تمھارے پاس شخصی آزادی ہے اور تم آزاد ہو کہ جس طرح چاہو اپنی چھڑی کو استعمال کرو مگر تمھاری شخصی آزادی اس نقطے پر آکر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔

شخصی آزادی کا نظریہ اسلام سے متناقص ہے
اسلام کے مطابق ، تمام انسان اللہ سبحانہ تعالیٰ کے غلام (عبد) ہیں۔ غلام ہو تا ہے جو اپنے مالک کے احکام کی تعمیل پابند ہوتا ہے۔ ایک غلام اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوتا اور اس کو یہ اجازت نہیں ہوتی کہ جیسے خود چاہے کرلے۔ بلکہ اس کو اپنے ہر عمل مالک کی مرضی کے مطابق کرنا پڑتا ہے۔ بالکل اسی طرح اسلام کہتا ہے کہ ہر بندہ، خواہ مرد ہو یا عورت، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا غلام ہونے کے ناطے حکم شرعی (اللہ کے اوامرو نواہی) کا پابند ہے اور اس کے تمام اعمال میں اللہ بسحانہ وتعالیٰ کے اوامر و نواہی کو دیکھنا چاہیے اور اس کے مطابق اس عمل کی انجام دہی یا اجتناب کا فیصلہ کرنا چاہیے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں کے پاس اعمال کی انجام دہی کے نقطہ نظر سے کوئی آزادی نہیں۔ تمام لوگوں کے لیے حکم شرعی کو اعمال کا پیمانہ بنانا ضروری ہے۔ یعنی کہ کچھ پہننے سے پہلے، کچھ کھانے، پینے سے پہلے یا کسی بھی اور عمل سے پہلے ان کو دیکھنا چاہیے کہ اس عمل کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم کیا ہے۔ مثلاً کوئی شخص آزاد نہیں کہ سور کا گوشت کھائے، یا شراب پیئے یا سود کا لین دین کرے، کوئی عورت آزاد نہیں کہ بازار میں خمار اور جلباب کے بغیر نکل کھڑی ہو، کوئی مرد آزاد نہیں کہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت پر شہوت سے نظر ڈالے ، وغیرہ، پس مردو عورت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے غلام ہیں اور ان کے پاس کوئی شخصی آزادی نہیں کہ اپنی مرضی سے زندگی کا لطف اٹھائیں۔


اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَا لَہُ ال ±خَل ±قُ وَال ±اَم ±رُ ۔ تَبٰرَکَ اللّٰہ رَبُّ ال ±عٰلَمِی ±نَ۔
]الاعراف:45
اور
وَمَا کَانَ لِمُ ¶ ±مِنٍ وَّ لاَ مُ ¶ ±مِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُو ± لُہ، اَم ±راً اَ ن یَّکُونَ لَھُمُ ال ±خَیَرَ ةُ مِن اَم ±رِ ھِم ± ۔ وَمَن ±
یَّع ±صِ اللّٰہَ وَ رَ سُو ±لَہ، فَقَر ± ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِی ±ناً۔
”اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں
رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کر وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔ ]الاحزاب:63[

اور اللہ سبحانہ و تعلیٰ نے فرمایا
قُل ± اِنّی ± اَخَاف ± اِن ± عِصِی ±تُ رَبِّی ± عَِذَابَ یَو ±مٍ ع ±ظِی ±مٍ۔
”کہہ دیجئے !کہ مجھے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے بڑے دن کے عذاب کا خوف لگتا ہے۔“ ]الزمر:31[

اور
ثُمَّ جَعَلنٰکَ عَلیٰ شَرِی ±عِةٍ ال ±اَم ±رِ فَاتَّبِع ±ھَا وَلاَ تَتَّبِع ± اَھ ±وَ آئَ الَّذِی ±نَ لاَ یَع ±لَمُو ±نَ۔
”آزادی“ کا مطلب اپنی خواہشات کی پیروی کرنا ہے جس کی اسلام سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشادہے:
وَمَن ± اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰئہ بِغَی ±رِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہ۔
”اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا
ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے۔“ ]القصص:۰۵[

اور
وَلَاتَتَّبِعُ ال ±ھَوٰی فَیُضلَّکَ عَن ± سَبِی ±لِ اللّٰہِ۔
”اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکادے گی۔ ]ص: ۶۲[

کلمہ شہادت پر ایمان مسلمان سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ زندکی کے تمام پہلو ں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قوانین کو غیر مشروط طور پر مانے۔ یہ بات انسان کی زندگی کے مقصد سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔

وَماَخَلَق ±تُ ال ±جِنَّ وَال ±اِ ان ±سَ اِلاَّ لِیَ ±بُرُو ±ن ِ ۔
”میں نے جنات اور انسانوں گو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔ ]الذریٰت: ۶۵[

پس اپنے ہر عمل میں انسان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا غلام ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی رضا کو اپنی رضا پر فوقیت دے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمیں کچھ اعمال میں آزاد اختیار دیا گیا ہے ارو اس کا مطلب ہے کہ اسلام میں کسی حتد تک شخصی آزادی کا تصور موجود ہے۔ مثال کے طورپر میں آزاد ہوں کہ کہیں پر بھی بیٹھوں ، چلوں یا دوڑوں ، وغیرہ۔ یہ بات درست نہیں ۔ انسان کے اعمال سے متعلق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خطاب کی تین اقسام ہیں:
1۔ کسی عمل کے کرنے کا حکم (فرائض اور مندرجات)
2۔ کسی عمل سے رکنے کا حکم(حرام اور مکروہات)
3۔ کسی عمل کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار (مباحات)
اس تیسری قسم سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اچھ حد تک شخصی آزادی دی گئی ہے بلکہ اپنی آزادی کو مباحات تک محدود رکھنے کا مطلب ہی اپنے آپ کو شارع کے خطاب (حکم شرعی) کا پابند بنانا ہے۔ اس کو ایک غلام کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مالک غلام سے کہتا ہے کہ وہ اس کے درست کے گھر سے کوئی چیز لے کر آئے اور اس کو بتاتا ہے کہ فلاں دوراستوں میں سے ایک راستہ استعمال کرے اور تیسرا استعمال نہ رکے۔ اب اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ غلام کے پاس آزاد اختیار موجود ہے کہ وہ دو میں سے کوئی سا ایک راستہ استعمال کرے کیونکہ حقیقت میں غلام راستہ کے استعمال میں مالک کے حکم کا پابند ہے کہ ان دو راستوں کے علاوہ کوئی اور راستہ استعمال نہیں کرسکتا۔ اگر غلام انہی دوراستوں میں سے ایک کو استعمال کرتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ غلام نے اپنی مرضی کی بلکہ حقیقت میں اس نے ا پنے مالک کی مرضی کی تعمیل کی۔
اسی طرح اعمال کی یہ اقسام (فرائض، مندرجات، مباحات، مکروہات اور محرومات) اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی متعین کردہ حدود ہیں جس کی انسان کو ہر صورت میں پاسداری کرنی لازمی ہے خواہ وہ اس کی اپنی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

تِل ±کَ حُدُو ±د ± اللّٰہِ تَع ±تَدُو ±ھاَ ج وَمَن ± یَّتَعَرَّ حُدُو ±دَ اللّٰہِ فَاُ ولٰیِکَ ھ ±م ± الظّٰلِمُو ±نَ۔
”یہ اللہ کی حدود ہیں خبرداران سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں۔“
]البقرة:۹۲۲[
اور:
وَتِل ±کَ حُدُو ±دُاللّٰہِ۔ وَمَن ± یَّتَعَرَّ حُدُو ±دَاللّٰہِ فَقَد ± ظَلَمَ نَف ±سَہ‘۔
”یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہین، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا۔،،
]الطلاق:۱[
اور:
وَتِل ±کَ حُدُو ±دُاللّٰہِ۔ وَ لِل ±کُفِرِی ±نَ عَذَاب’‘ اَلِی ±م’‘۔
”یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“
]المجادلة:۴[



1973ءکا آئین شخصی آزادی کی حفاظت کے ذریعے سیکولرزم کو نافذ کرتا ہے
آئین کے آرٹیکل 9 میں درج ہے:

”کسی شخص کو زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا ماسوائے قانون کے مطابق۔“

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق آزادی کا مطلب ”ہر بندش سے آزاد رہنا “ہے ۔ پروفیسر گوڈ ہارڈ کے مطابق آزادی ”اپنی خواہش کے مطابق کام کرنے کے حق“ کا نام ہے ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے آزادی ”غلام ہونے“ یا ”پابند ہونے“ کی ضد ہے۔

پس پاکستان کے آئین کی یہ دفعہ کہتی ہے کہ ہر شہری آزاد ہے کہ جو کچھ چاہے کرے اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو اس بنیادی حق کو چھین لے۔ لہذا پاکستان کا آئین شہریوں کو شخصی آزادی کی ضمانت مہیار کرتا ہے اور اس کی حفاظت کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتا ہے اور عدلیہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے قانون کو جو اس شحصی آزادی کو چھین لے آئین کے خلاف قرار دے کر اے کو منسوخ کردے۔

یہ بات عین سیکولرزم کے مطابق ہے کہ تمام شہریوں کی چاروں آزادیوں بشمول شخصی آزادی کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ پس پاکستانی آئین کا یہ اصول کسی بھی اسلامی قانون کے نفاذ کو روکے گا۔ کیوکنہ حکم شرعی کے نفاذ کاملطب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کو بالاتر بنانا اور انسان کو اپنی خواہش اور آزادی سے محروم رکھنا ہوگا۔ یہ عین ”آزادی“ کا الٹ ہوگا۔کیونکہ آزادی کا مطلب ”ہر بندش سے آزادی “ ہے۔

اس کی حقیقت ایک مثال سے سمجھی جاسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ریاست ایک قانون بنا دے کہ جو بھی عورت پبلک میں نکلتی ہے اس کے لیے خمار اور جلباب پہننا لازمی ہوگا جیسا کہ شریعت حکم دیتی ہے ۔ ہمارے معاشرے کی آزاد خیال خواتین جو خالق کے متعین کردہ لباس کا اہتمام نہیں کرتی اس قانون کو آرٹیکل ۹ کی بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر سکتی ہیں یہ کہہ کہ کہ یہ قانون عورتوں کو ان کے بنیادی حق یعنی شخصی آزادی سے محروم کرتا ہے کیونکہ یہ خواتین کو ان کی خواہش کے مطابق لباس پہننے سے روکتا ہے۔ عدلیہ اس قانون کو آئین کے خلاف قرار دینے پر مجبور ہوجائے گی اور یوں یہ قانون منسوخ قرار دے دیا جائےگا۔ کیونکہ آئین کے مطابق ”آزادی“ ایک بنیادی حق ہے جو ہر صورت میں شہریوں کو فراہم ہونا چاہیے اور کوئی قانون ایسا نہیں بنیا جاسکتا جو آئین کے ”بنیادی حقوق“ کے بب میں دیے گئے حقوق سے متناقص ہو۔
بنیادی ”حقوق کے باب“ آرٹیکل 8کہتا ہے:

”(1) کوئی بھی قانون جو اس باب میں دیے گئے حقوق سے متناقص ہوگا، جس حد تک متناقص پایا جائے گا
منسوخ قرار پائے گا۔“
”(2) ریاست کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو ان حقوق کو چھین لے اور کوئی بھی قانون جو اس شق کے
خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیا اس خلاف ورزی کی حد تک منسوخ قرار پائے گا۔“


(یہ مضمون "خلافت میگزین " سے لیا گیا ہے۔)
 
یہ جماعت 1953 سے قائم ہے اور اس کا ایک مقصد ہے ایک امۃ‌ ایک سٹیٹ۔
بہت بنیادی سے سوال ہیں عمر۔
ایک امۃ ایک سٹیٹ‌کے نعرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے ان کی ویب سائیٹ پر یہ ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ ان کے ذہن میں‌ "اسلامی حکومت " کا کیا تصور ہے۔ اور وہ اسلامی حکومت کیا ہوگی؟ مجھے ایسا کوئی مضمون نہیں مل سکا کہ ان کی مجوزہ اسلامی حکومت کیا ہوگی یا وہ اسلامی حکومت جس کی یہ بات کر رہے ہیں‌کیا ہوگی۔ آپ کوئی لنک فراہم کر سکیں تو عنائت ہوگی۔

دوسرا سوال: اگر کسی مجوزہ اسلامی حکومت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے تو اس پر کتنے لوگوں نے اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے؟ اور اس کے لئے ویب سائیٹ کے کسے صفحے پر ووٹ یا کمنٹس دئے جاسکتے ہیں؟

تیسرا سوال: کیا اس مجوزہ حکومت کے قوانین "باہمی مشورہ "‌ سے قرآن کی روشنی میں بنائے جائیں‌گے؟ اس کے قانون ساز اداروں کے نمائیندوں کو کس طرح منتخب کیا جائے گا؟

والسلام۔
 
شخصی آزادی کا نظریہ اسلام سے متناقص ہے
یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن ایک اجتماعی فلاحی مسلم ریاست کے تصور میں، شخصی آزادی کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ اجتماعی قانون سازی سے یہ مظلب لیا جائے گا کہ کوئی قانون قرآن کے کسی اصول کے مخالف نہ ہو۔ لیکن اس معروضہ کا تعلق شخصی آزادی سے قطعاَ‌نہیں ہے۔ شخصی آزادی کا تصور یہ ہے کہ ہر انسان آزاد ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے جب تک کہ وہ دوسرے اشخاص کی آزادی کو متاثر نہ کرتا ہو اور اجتماعی قوانین کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ یہ کہنا کہ ایک قرآنی قوانین پر مبنی معاشرہ میں ایک شخص کی شخصی آزادی ختم ہو جائے گی بالکل غلط ہے۔ ایسے معاشرہ میں‌ہر شخص کی ذاتی یا شخصی آزادی ملکی قوانین کے تحت ہوگی جو کہ قرآن کے مطابق ہونگے اور قرآن کے خلاف نہ ہوں۔

آپس میں برابری کو قرآن بہت اہمیت دیتا ہے۔ دیکھئے کہ آپ کے زیر دست لوگ بھی آپ کے مال میں شراکت دار ہیں۔
[AYAH]30:28[/AYAH] اُس نے تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ کیا جو تمہارے زیردست میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے شراکت دار ہیں، کہ تم (سب) اس (ملکیت) میں برابر ہو جاؤ۔ (مزید یہ کہ کیا) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے (نہیں) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں (کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے)

قرآن ہدایت کو واضح کرتا ہے اور دین میں زبردستی کسی کا قائل نہیں:
[AYAH]2:256[/AYAH] دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے

قرآن ایک عام آدمی کو مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے۔ قران آپ پر چھوڑ دیتا ہے کہ چاہو تو اس پیغام کو مانو اور چاہو تو نہ مانو۔ ایمان لانے کے لئے آپ کو مناسب موقع دیتا ہے تاکہ ہم ہدائت پا جائیں۔ لیکن زبردستی کوئی نہیں۔ یہ ہوئی شخصی آزادی۔
:
[AYAH]18:29[/AYAH] اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے

اللہ تعالی فرماتے ہیں‌کے وہ خانقاہوں گرجوں کلیسوں اور مسجدوں کی حفاظت فرماتے ہیں جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔
[AYAH]22:40[/AYAH]
(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔


قرآن رنگ و نسل کے فرق کو اہمیت نہیں دیتا:
[AYAH]30:22[/AYAH] اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں

قرآن ہم کو دوسری قوموں پر ہنسنے اور ان کا مذاق اڑانے سے منع فرماتا ہے۔ اس طرح قران قوم یعنی Ethnicity کی بنیاد پر لوگوں کو استحصال یعنی Discrimination سے منع فرماتا ہے۔
[AYAH]49:11[/AYAH] اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں

اللہ تعالی، قرآن میں رسول پاک (ص) کو حکم دیتا ہے کہ وضاحت فرمادیں کے تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین:
[AYAH]109:4[/AYAH] اور نہ میں ان کی عبادت کرتا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو
[AYAH]109:5[/AYAH] اور نہ تم اس کی عبادت کرو جس کی میں عبادت کرتا ہوں
[AYAH]109:6[/AYAH] تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین

قران اس طرح مسلم معاشرہ میں اقلیتی مذہبی آزادی قائم کرتا ہے تاکہ مسلم معاشرہ استحکام پذیر رہے۔

اللہ تعالی بذریعہ قرآن آپ کے مال، آپ کی پراپرٹی اور آپ کی زندگی کی ضمانت دیتا ہے اور ایک دوسرے کے مال، پراپرٹی یا زندگی کو بنا اجازت استعمال کرنے کو منع فرماتا ہے۔

آپ کی شخصی آزادی، آپ کا مال محفوظ۔ دوسرا کھا نہیں سکتا۔
[AYAH]4:29[/AYAH]
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے

آپ کی شخصی آزادی، آپ کا گھر محفوظ۔ دوسرا استعمال نہیں کر سکتا۔
[AYAH]24:27[/AYAH]
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو

آپ کی جان محفوظ کنے کی ذمے داری حکومت پر۔ ملکیت کی شناخت اور اس دنیوی ضروریات کا احترام
[ayah]3:14[/ayah] لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَا لَہُ ال ±خَل ±قُ وَال ±اَم ±رُ ۔ تَبٰرَکَ اللّٰہ رَبُّ ال ±عٰلَمِی ±نَ۔
]الاعراف:45
]الاعراف:45 کا کوئی تعلق شخصی آزادی سے نہیں نظر آتا۔ اس کا تعلق یا کونٹیکسٹ تو بے جا خرچ کے بارے میں ہے۔ اللہ کی راہ سے روکنا ضرور برا ہے لیکن اس سے مجھے ژخصی آزادی صلب ہوتی نہیں نظر آتی؟

[AYAH]7:45[/AYAH] (یہ وہی ہیں) جو (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے تھے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے تھے

اور
وَمَا کَانَ لِمُ ¶ ±مِنٍ وَّ لاَ مُ ¶ ±مِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُو ± لُہ، اَم ±راً اَ ن یَّکُونَ لَھُمُ ال ±خَیَرَ ةُ مِن اَم ±رِ ھِم ± ۔ وَمَن ±
یَّع ±صِ اللّٰہَ وَ رَ سُو ±لَہ، فَقَر ± ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِی ±ناً۔
”اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں
رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کر وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔ ]الاحزاب:63[
ایک تو اس کا ریفرنس غلط ہے۔ ممکن ہے اعداد الٹے چھپ گئے ہوں اردو انگریزی کی وجہ سے۔ 33:63 کچھ اور کہتی ہے۔
[AYAH]33:63[/AYAH] لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو

درست آیت نمبر [AYAH]33:36[/AYAH] ہے۔
[AYAH]33:36[/AYAH] اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیا

درست، اللہ کے قانون اور رسول کے فیصلے سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ آیت اس سے اگلی آیت سے پیوستہ ہے جہاں اس شوہر کی بات ہورہی ہے۔ جس کو اللہ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی زوجہ کو زوجیت میں رکھے (مراد حضرت زینب)‌ہیں۔
[AYAH]33:37[/AYAH] اور (اے حبیب!) یاد کیجئے جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا کہ تُو اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں روکے رکھ اور اللہ سے ڈر، اور آپ اپنے دل میں وہ بات٭ پوشیدہ رکھ رہے تھے جِسے اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اور آپ (دل میں حیاءً) لوگوں (کی طعنہ زنی) کا خوف رکھتے تھے۔ (اے حبیب! لوگوں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی) اور فقط اللہ ہی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس کا خوف رکھیں (اور وہ آپ سے بڑھ کر کس میں ہے؟)، پھر جب (آپ کے متبنٰی) زید نے اسے طلاق دینے کی غرض پوری کرلی، تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح) کے بارے میں کوئی حَرج نہ رہے جبکہ (طلاق دے کر) وہ ان سے بے غَرض ہو گئے ہوں، اور اللہ کا حکم تو پورا کیا جانے والا ہی تھا

اگر آپ اس آیت سے کوئی اصول یا قانون بناناچاہیں تو اس کا مطلب آپ یہ لیں گے کہ کوئی قانون ایسا نہ بنایا جائے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے خلاف ہو۔ لیکن اس سے آپ شخصی آزادی نہیں صلب کرسکتے۔ کیا خیال ہے؟
omer meerza;186983 اور اللہ سبحانہ و تعلیٰ نے فرمایا قُل ± اِنّی ± اَخَاف ± اِن ± عِصِی ±تُ رَبِّی ± عَِذَابَ یَو ±مٍ ع ±ظِی ±مٍ۔ ”کہہ دیجئے !کہ مجھے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے بڑے دن کے عذاب کا خوف لگتا ہے۔“ نے کہا:
[AYAH]39:12[/AYAH] اور مجھے یہ (بھی) حکم دیا گیا تھا کہ میں (اُس کی مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان بنوں
[AYAH]39:13[/AYAH] فرما دیجئے: اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں زبردست دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں

رب کی نافرمانی ضرور غلط ہے یعنی اسلامی ریاست کا کوئی قانون اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں بنے گا۔ لیکن درج ذیل آیات کسی طور شخصی آزادی نہیں ختم کرتی ہیں۔ لگتا ہے کہ اس آرٹیکل کا لکھنے والا شخصی اور اجتماعی آیات و احکامات کا تعین ہی نہیں کرپایا ہے۔ باقی سارے آرٹیکل کا یہی حال ہے کہ اس لکھنے والے کو یہی نہیں پتہ کہ اجتماعی احکامات کیا ہیں اور شخصی احکامات کیا ہیں۔ طوالت کے خوف سے مزید تبصرہ بس یہیں موقوف کرتا ہوں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن کی روشنی میں فیصلے کرنے کے لئے باہمی مشوری یا ایک قانون ساز ادارے کا حکم ہے۔

قرآن حکیم صرف انفرادی ہدایات و احکامات اور اصولوں پر ہی مبنی نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرہ کے لئے اجتماعی احکامات کا ایک واضح فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ جس میں قانون ساز ادارے کا قیام بھی شامل ہے۔ دیکھئے

[AYAH]3:104[/AYAH]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

عموما اس سے مراد یہ لی جاتی رہی ہے کہ کچھ لوگ جمع ہوکر کبھی کبھار تبلیغ کرلیں یا لوگوں کو نصیحت کردی جائے۔ لیکن ایک آرگنائیزڈ یعنی منظم معاشرے میں آپ اس طرح کی Hobby Style مشغولیت سے باقاعدہ قوانین کا کام نہیں لے سکتے ۔ لہذا اس کے لئے ایک منظم ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مومنین کے فیصلہ باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اس بنیادی اصول کو قران ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

[AYAH]42:38[/AYAH]
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

والسلام
 

عمر میرزا

محفلین
یہ جماعت 1953 سے قائم ہے اور اس کا ایک مقصد ہے ایک امۃ‌ ایک سٹیٹ۔
بہت بنیادی سے سوال ہیں عمر۔
ایک امۃ ایک سٹیٹ‌کے نعرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے ان کی ویب سائیٹ پر یہ ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ ان کے ذہن میں‌ "اسلامی حکومت " کا کیا تصور ہے۔ اور وہ اسلامی حکومت کیا ہوگی؟ مجھے ایسا کوئی مضمون نہیں مل سکا کہ ان کی مجوزہ اسلامی حکومت کیا ہوگی یا وہ اسلامی حکومت جس کی یہ بات کر رہے ہیں‌کیا ہوگی۔ آپ کوئی لنک فراہم کر سکیں تو عنائت ہوگی۔

دوسرا سوال: اگر کسی مجوزہ اسلامی حکومت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے تو اس پر کتنے لوگوں نے اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے؟ اور اس کے لئے ویب سائیٹ کے کسے صفحے پر ووٹ یا کمنٹس دئے جاسکتے ہیں؟

تیسرا سوال: کیا اس مجوزہ حکومت کے قوانین "باہمی مشورہ "‌ سے قرآن کی روشنی میں بنائے جائیں‌گے؟ اس کے قانون ساز اداروں کے نمائیندوں کو کس طرح منتخب کیا جائے گا؟


ٍفاروق بھائی
ذیل میں آپ کو حزب کی ایک کتاب کا لنک ارسال کر رہا ہوں
http://khilafat.dk/index.php?view=boger
آپ نے جتنے بھی سوال پوچھے ہیں ان کا جواب آپ کو اس کتاب " اسلام کا نظام حکومت " میں تفصیلا مل جائیں کے یہ اس سلسلے کی پہلی کتاب ہے اس کے علاواسی موضوع پر اور بھی کتب اور مضامین بکژت موجود ہیں۔جو ھارڈ کاپی میں دستیاب ہیں جن میں اسلام کے دیگر نطام جن میں معاشی نظام ،نطام عدل ،نطام ،سماجی نطام ، تعلیمی نظام اور خارجہ پالیسی وغیرہ بھی شامل ہیں۔میرے پاس ویڈیو پریزینٹیشنز بھی ہیں مگر انٹرنیٹ سے بھیجنا محال ہے۔ہے۔اگر آپ پاکستان میں ہوتے تو آپ کو ارسال کئے جاسکتے تھے۔1ummah 1 stateاور khilafah.dk تو بلکل نئی ویب سائٹ ہے جس پر اپلوڈ کیا گیا مواد ابھی واجبی سا ہے۔

یہاں آپ کے سوالوں کا جواب بھی دیاجاسکتا ہے مگرشائد یہ زیادہ بہتر ہو گا کہ پھلے آپ اس کتاب کا مطالعہ کریں تاکہ آپ ھمارے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ ہم فروعی اور سطحی باتوں پر الجھے بغیر کوئی سود مند بات کر سکیں گے۔

اس کے لئے ویب سائیٹ کے کسے صفحے پر ووٹ یا کمنٹس دئے جاسکتے ہیں؟

یہاں حزب کے شباب کی دیگر ویب سا ئٹس اور فورمکے ایڈریس ہیں جھاں آپ کومنٹس دے سکتے ہیں۔
http://www.1ummah1state.com/home/Links.html


یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن ایک اجتماعی فلاحی مسلم ریاست کے تصور میں، شخصی آزادی کی مکمل اجازت دیتا ہے۔

اس سلسلے میں آ پ سے درخواست کروں گا کہ اپنے سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مضون کا دوبارہ سے مطالعہ کیجئے ۔

والسلام۔
 
عمر، آپ کے فرا ہم کئے ہوئے لنکس کا بہت شکریہ۔ میں یہ معلومات پڑھ رہا ہوں۔ تھوڑا وقت لگے گا۔ آپ اس دوران اگر ممکن ہو تو میرا مضمون "قرآن کیا کہتا ہے" پڑھئے، اس کا لنک میرے دستخط میں موجود ہے۔ امید ہے کہ یہ نکات اپ کے اور دوسرے بھائیوں کے لئے مزید غور و فکر کی راہ ہموار کریں گے۔

والسلام
 
Top