شخصی آزادی کا نظریہ اسلام سے متناقص ہے
یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن ایک اجتماعی فلاحی مسلم ریاست کے تصور میں، شخصی آزادی کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ اجتماعی قانون سازی سے یہ مظلب لیا جائے گا کہ کوئی قانون قرآن کے کسی اصول کے مخالف نہ ہو۔ لیکن اس معروضہ کا تعلق شخصی آزادی سے قطعاَنہیں ہے۔ شخصی آزادی کا تصور یہ ہے کہ ہر انسان آزاد ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے جب تک کہ وہ دوسرے اشخاص کی آزادی کو متاثر نہ کرتا ہو اور اجتماعی قوانین کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ یہ کہنا کہ ایک قرآنی قوانین پر مبنی معاشرہ میں ایک شخص کی شخصی آزادی ختم ہو جائے گی بالکل غلط ہے۔ ایسے معاشرہ میںہر شخص کی ذاتی یا شخصی آزادی ملکی قوانین کے تحت ہوگی جو کہ قرآن کے مطابق ہونگے اور قرآن کے خلاف نہ ہوں۔
آپس میں برابری کو قرآن بہت اہمیت دیتا ہے۔ دیکھئے کہ آپ کے زیر دست لوگ بھی آپ کے مال میں شراکت دار ہیں۔
[AYAH]30:28[/AYAH] اُس نے تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ کیا جو تمہارے زیردست میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے شراکت دار ہیں، کہ تم (سب) اس (ملکیت) میں برابر ہو جاؤ۔ (مزید یہ کہ کیا) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے (نہیں) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں (کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے)
قرآن ہدایت کو واضح کرتا ہے اور دین میں زبردستی کسی کا قائل نہیں:
[AYAH]2:256[/AYAH]
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے
قرآن ایک عام آدمی کو مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے۔ قران آپ پر چھوڑ دیتا ہے کہ چاہو تو اس پیغام کو مانو اور چاہو تو نہ مانو۔ ایمان لانے کے لئے آپ کو مناسب موقع دیتا ہے تاکہ ہم ہدائت پا جائیں۔ لیکن زبردستی کوئی نہیں۔ یہ ہوئی شخصی آزادی۔
:
[AYAH]18:29[/AYAH]
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے
اللہ تعالی فرماتے ہیںکے وہ خانقاہوں گرجوں کلیسوں اور مسجدوں کی حفاظت فرماتے ہیں جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔
[AYAH]22:40[/AYAH]
(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔
قرآن رنگ و نسل کے فرق کو اہمیت نہیں دیتا:
[AYAH]30:22[/AYAH] اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں
قرآن ہم کو دوسری قوموں پر ہنسنے اور ان کا مذاق اڑانے سے منع فرماتا ہے۔ اس طرح قران قوم یعنی Ethnicity کی بنیاد پر لوگوں کو استحصال یعنی Discrimination سے منع فرماتا ہے۔
[AYAH]49:11[/AYAH] اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں
اللہ تعالی، قرآن میں رسول پاک (ص) کو حکم دیتا ہے کہ وضاحت فرمادیں کے تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین:
[AYAH]109:4[/AYAH] اور نہ میں ان کی عبادت کرتا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو
[AYAH]109:5[/AYAH] اور نہ تم اس کی عبادت کرو جس کی میں عبادت کرتا ہوں
[AYAH]109:6[/AYAH] تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین
قران اس طرح مسلم معاشرہ میں اقلیتی مذہبی آزادی قائم کرتا ہے تاکہ مسلم معاشرہ استحکام پذیر رہے۔
اللہ تعالی بذریعہ قرآن آپ کے مال، آپ کی پراپرٹی اور آپ کی زندگی کی ضمانت دیتا ہے اور ایک دوسرے کے مال، پراپرٹی یا زندگی کو بنا اجازت استعمال کرنے کو منع فرماتا ہے۔
آپ کی شخصی آزادی، آپ کا مال محفوظ۔ دوسرا کھا نہیں سکتا۔
[AYAH]4:29[/AYAH]
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے
آپ کی شخصی آزادی، آپ کا گھر محفوظ۔ دوسرا استعمال نہیں کر سکتا۔
[AYAH]24:27[/AYAH]
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو
آپ کی جان محفوظ کنے کی ذمے داری حکومت پر۔ ملکیت کی شناخت اور اس دنیوی ضروریات کا احترام
[ayah]3:14[/ayah] لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَا لَہُ ال ±خَل ±قُ وَال ±اَم ±رُ ۔ تَبٰرَکَ اللّٰہ رَبُّ ال ±عٰلَمِی ±نَ۔
]الاعراف:45
]الاعراف:45 کا کوئی تعلق شخصی آزادی سے نہیں نظر آتا۔ اس کا تعلق یا کونٹیکسٹ تو بے جا خرچ کے بارے میں ہے۔ اللہ کی راہ سے روکنا ضرور برا ہے لیکن اس سے مجھے ژخصی آزادی صلب ہوتی نہیں نظر آتی؟
[AYAH]7:45[/AYAH] (یہ وہی ہیں) جو (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے تھے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے تھے
اور
وَمَا کَانَ لِمُ ¶ ±مِنٍ وَّ لاَ مُ ¶ ±مِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُو ± لُہ، اَم ±راً اَ ن یَّکُونَ لَھُمُ ال ±خَیَرَ ةُ مِن اَم ±رِ ھِم ± ۔ وَمَن ±
یَّع ±صِ اللّٰہَ وَ رَ سُو ±لَہ، فَقَر ± ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِی ±ناً۔
”اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں
رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کر وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔ ]الاحزاب:63[
ایک تو اس کا ریفرنس غلط ہے۔ ممکن ہے اعداد الٹے چھپ گئے ہوں اردو انگریزی کی وجہ سے۔ 33:63 کچھ اور کہتی ہے۔
[AYAH]33:63[/AYAH] لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو
درست آیت نمبر [AYAH]33:36[/AYAH] ہے۔
[AYAH]33:36[/AYAH] اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیا
درست، اللہ کے قانون اور رسول کے فیصلے سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ آیت اس سے اگلی آیت سے پیوستہ ہے جہاں اس شوہر کی بات ہورہی ہے۔ جس کو اللہ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی زوجہ کو زوجیت میں رکھے (مراد حضرت زینب)ہیں۔
[AYAH]33:37[/AYAH] اور (اے حبیب!) یاد کیجئے جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا کہ تُو اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں روکے رکھ اور اللہ سے ڈر، اور آپ اپنے دل میں وہ بات٭ پوشیدہ رکھ رہے تھے جِسے اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اور آپ (دل میں حیاءً) لوگوں (کی طعنہ زنی) کا خوف رکھتے تھے۔ (اے حبیب! لوگوں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی) اور فقط اللہ ہی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس کا خوف رکھیں (اور وہ آپ سے بڑھ کر کس میں ہے؟)، پھر جب (آپ کے متبنٰی) زید نے اسے طلاق دینے کی غرض پوری کرلی، تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح) کے بارے میں کوئی حَرج نہ رہے جبکہ (طلاق دے کر) وہ ان سے بے غَرض ہو گئے ہوں، اور اللہ کا حکم تو پورا کیا جانے والا ہی تھا
اگر آپ اس آیت سے کوئی اصول یا قانون بناناچاہیں تو اس کا مطلب آپ یہ لیں گے کہ کوئی قانون ایسا نہ بنایا جائے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے خلاف ہو۔ لیکن اس سے آپ شخصی آزادی نہیں صلب کرسکتے۔ کیا خیال ہے؟
omer meerza;186983
اور اللہ سبحانہ و تعلیٰ نے فرمایا
قُل ± اِنّی ± اَخَاف ± اِن ± عِصِی ±تُ رَبِّی ± عَِذَابَ یَو ±مٍ ع ±ظِی ±مٍ۔
”کہہ دیجئے !کہ مجھے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے بڑے دن کے عذاب کا خوف لگتا ہے۔“ نے کہا:
[AYAH]39:12[/AYAH] اور مجھے یہ (بھی) حکم دیا گیا تھا کہ میں (اُس کی مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان بنوں
[AYAH]39:13[/AYAH] فرما دیجئے: اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں زبردست دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
رب کی نافرمانی ضرور غلط ہے یعنی اسلامی ریاست کا کوئی قانون اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں بنے گا۔ لیکن درج ذیل آیات کسی طور شخصی آزادی نہیں ختم کرتی ہیں۔ لگتا ہے کہ اس آرٹیکل کا لکھنے والا شخصی اور اجتماعی آیات و احکامات کا تعین ہی نہیں کرپایا ہے۔ باقی سارے آرٹیکل کا یہی حال ہے کہ اس لکھنے والے کو یہی نہیں پتہ کہ اجتماعی احکامات کیا ہیں اور شخصی احکامات کیا ہیں۔ طوالت کے خوف سے مزید تبصرہ بس یہیں موقوف کرتا ہوں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن کی روشنی میں فیصلے کرنے کے لئے باہمی مشوری یا ایک قانون ساز ادارے کا حکم ہے۔
قرآن حکیم صرف انفرادی ہدایات و احکامات اور اصولوں پر ہی مبنی نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرہ کے لئے اجتماعی احکامات کا ایک واضح فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ جس میں قانون ساز ادارے کا قیام بھی شامل ہے۔ دیکھئے
[AYAH]3:104[/AYAH]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں
عموما اس سے مراد یہ لی جاتی رہی ہے کہ کچھ لوگ جمع ہوکر کبھی کبھار تبلیغ کرلیں یا لوگوں کو نصیحت کردی جائے۔ لیکن ایک آرگنائیزڈ یعنی منظم معاشرے میں آپ اس طرح کی Hobby Style مشغولیت سے باقاعدہ قوانین کا کام نہیں لے سکتے ۔ لہذا اس کے لئے ایک منظم ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مومنین کے فیصلہ باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اس بنیادی اصول کو قران ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
[AYAH]42:38[/AYAH]
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
والسلام