محمد شکیل خورشید
محفلین
رفاقتوں کے عذاب سارے ،گئی رتوں کے حساب سارے
تمہارے ناموں سے معنوَن ہیں مری کہانی کے باب سارے
بجز تمہارے جچا نہ کوئی، تمہی پہ جا کے نظر یہ ٹھہری
تمہارے در پر لٹا دیئے ہیں، اداس آنکھوں نے خواب سارے
نہ کچھ بھی کہنا، اداس رہنا، نظر نظر میں کلام کرنا
اسی خموشی سے مل رہے ہیں، سوال سارے، جواب سارے
چھٹا نہیں اس برس بھی میرے شہر سے موسم خزاؤں والا
کِھلے ہیں بے رنگ اس برس بھی مری فصل کے گلاب سارے
شکؔیل کیسے یہ دل کی بستی ہوئی ہے ویران بستے بستے
مرے شہر میں بدل گئے کیوں محبتوں کے نصاب سارے