حساب سارے۔ غزل برائے اصلاح


رفاقتوں کے عذاب سارے ،گئی رتوں کے حساب سارے
تمہارے ناموں سے معنوَن ہیں مری کہانی کے باب سارے

بجز تمہارے جچا نہ کوئی، تمہی پہ جا کے نظر یہ ٹھہری
تمہارے در پر لٹا دیئے ہیں، اداس آنکھوں نے خواب سارے

نہ کچھ بھی کہنا، اداس رہنا، نظر نظر میں کلام کرنا
اسی خموشی سے مل رہے ہیں، سوال سارے، جواب سارے

چھٹا نہیں اس برس بھی میرے شہر سے موسم خزاؤں والا
کِھلے ہیں بے رنگ اس برس بھی مری فصل کے گلاب سارے

شکؔیل کیسے یہ دل کی بستی ہوئی ہے ویران بستے بستے
مرے شہر میں بدل گئے کیوں محبتوں کے نصاب سارے
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو اچھی ہے لیکن کئی الفاظ کے تلفظ غلط ہیں۔
تمہارے ناموں سے معنوَن ہیں مری کہانی کے باب سارے
معنون میں نون مفتوح ہے، واؤ ساکن۔ اس لیے وزن گڑبڑ ہو گئے مصرع کے۔


چھٹا نہیں اس برس بھی میرے شہر سے موسم خزاؤں والا
کِھلے ہیں بے رنگ اس برس بھی مری فصل کے گلاب سارے
شہر اور فصل، دونوں فعل کے وزن پر ہیں، فعو پر نہیں۔ یعنی درمیانی حرف پر جزم ہے۔

یہاں بھی ’شہر‘ کی غلطی ہے

مرے شہر میں بدل گئے کیوں محبتوں کے نصاب سارے

اس کے علاوہ یہ مصرع
بجز تمہارے جچا نہ کوئی، تمہی پہ جا کے نظر یہ ٹھہری
۔۔’نظریہ‘ واحد لفظ پر خیال جا سکتا ہے، اگر لکھا ہوا دیکھا جائے تو۔ اسے ’نگاہ‘ کر دیں تو کوئی کنفیوژن نہ ہو۔
 
جزاک اللہ محترم
معنون، لفظ مجھے نہیں آتا تھا، یہ شعر موزوں کرتے ہوئے مجھے لگا کہ یہاں یہ لفظ ہونا چاہیئے، پھر لغت میں دیکھا تو موجود تھا اور دونوں اعراب کے ساتھ، یعنی آخری نون حرف "نون" کے تلفظ میں بھی ہے اور آخری "ون" و پر زبر کے ساتھ بھی، عروض میں تقطیع بھی دونوں اعراب دکھاتی ہے، کیا ایسے پڑھنے سے وزن درست ہو جائے گا، شہر اور فصل کے بارے میں مجھےغلط تلفظ ہی معلوم تھا، اب تصحیح کے بعد ان پر دوبارا غور کروں گا
 
Top