فرخ منظور
لائبریرین
حساب غرق ہوا، آفتاب غرق ہوا
وہ چاند نکلا تو اپنا عذاب غرق ہوا
کتابِ عشق سے نخچیر سازی سیکھے تھے
ملے ہیں تم سے تو سارا نصاب غرق ہوا
بیاں کریں نہ کریں اس سے ماجرائے عشق
ادھیڑ بُن میں ہمارا شباب غرق ہوا
رفاقتوں کے مہ و سال بن گئے لمحہ
وہ ایک لمحہ بھی بن کر حباب غرق ہوا
عبث ہے ڈھونڈنا امواجِ بحرِ عشق میں اب
وہ جس کا نام تھا فرّخ، جناب غرق ہوا
(فرخ منظور)
وہ چاند نکلا تو اپنا عذاب غرق ہوا
کتابِ عشق سے نخچیر سازی سیکھے تھے
ملے ہیں تم سے تو سارا نصاب غرق ہوا
بیاں کریں نہ کریں اس سے ماجرائے عشق
ادھیڑ بُن میں ہمارا شباب غرق ہوا
رفاقتوں کے مہ و سال بن گئے لمحہ
وہ ایک لمحہ بھی بن کر حباب غرق ہوا
عبث ہے ڈھونڈنا امواجِ بحرِ عشق میں اب
وہ جس کا نام تھا فرّخ، جناب غرق ہوا
(فرخ منظور)