راحیل فاروق
محفلین
ان دنوں کچھ تعلیمی مصروفیات کے باعث کلاسیک کی گرد جھاڑنے کا اتفاق ہوا ہے۔ مصحفیؔ کی ایک شہرۂِ آفاق غزل نظر سے گزری تو ذہن سے چپک کر ہی رہ گئی۔ اسے اتارنے کے لیے ہم نے بھی اس زمین میں کچھ لوٹنیاں کھانی مناسب سمجھیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
حسن تھا یا کمال تھا، کیا تھا؟
عشق تھا یا زوال تھا، کیا تھا؟
کیا سنائیں جو حال تھا، کیا تھا؟
کون کافر جمال تھا، کیا تھا؟
کیا ہوا رات دل کی گلیوں میں
چور تھا، کوتوال تھا، کیا تھا؟
کھو دیے پر ملال ہے، کیوں ہے؟
دل تمھارا ہی مال تھا، کیا تھا؟
کوئی منزل نہ تھی اگر غم کی
رستہ کیوں پائمال تھا، کیا تھا؟
جو صدا اس کے در پہ کر آئے
آہ تھی یا سوال تھا، کیا تھا؟
میں سخن ور ہوں یا شکاری ہوں
وہ غزل تھا، غزال تھا، کیا تھا؟
عشق تھا یا زوال تھا، کیا تھا؟
کیا سنائیں جو حال تھا، کیا تھا؟
کون کافر جمال تھا، کیا تھا؟
کیا ہوا رات دل کی گلیوں میں
چور تھا، کوتوال تھا، کیا تھا؟
کھو دیے پر ملال ہے، کیوں ہے؟
دل تمھارا ہی مال تھا، کیا تھا؟
کوئی منزل نہ تھی اگر غم کی
رستہ کیوں پائمال تھا، کیا تھا؟
جو صدا اس کے در پہ کر آئے
آہ تھی یا سوال تھا، کیا تھا؟
میں سخن ور ہوں یا شکاری ہوں
وہ غزل تھا، غزال تھا، کیا تھا؟
عمر کس دھن میں کاٹ دی راحیلؔ
تھا بھی کچھ یا خیال تھا، کیا تھا؟
راحیلؔ فاروق
۲۵ اکتوبر ۲۰۱۶ء
تھا بھی کچھ یا خیال تھا، کیا تھا؟
راحیلؔ فاروق
۲۵ اکتوبر ۲۰۱۶ء