کباڑی اشیاء ‘اپنا ذہن بدل لیجئے
میں نے نیا کوٹ اُس وقت سِلایا جب مجھے ایف ایس سی میں ایڈورڈز کالج میں داخلہ ملا۔ اُس سے قبل ہمیشہ کباڑی بازار سے غیرملکی اُترن جسے لنڈے کا مال کہتے تھے، کوٹ، جیکٹ وغیرہ خرید کر اور پھر اسمیں درزی سے کچھ تبدیلیاں کرواکے استعمال کرتا تھا‘ چنانچہ میں گھر میں اِتراتا ہوا آیا اور سب کو اپنا نیا کوٹ دکھایا۔ اتنے میں میرے ایک ماموں گھر میں داخل ہوئے۔ میرے کوٹ کو دیکھ کر کہا ’زبردست دانہ مارا ہے‘ جس کا مطلب تھا کہ کباڑی بازار سے اچھا پیس ملا ہے‘مجھے اس ایک فقرے سے اتنا دکھ پہنچا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
امریکہ میں جب صنعتی انقلاب آیا تو تمام مشینوں کی ساخت پائیداری کیلئے مشہور ہوا کرتی تھی‘ تاہم جب جاپانی ٹیکنالوجی دنیا میں متعارف ہوئی تو اسکا اصول تھا کہ نئی چیز، بہتر کارکردگی اور قیمت میں کم ہو‘ اس کی بدولت کم قیمت میں لوگ زیادہ کارکردگی والی اشیاء خریدنے لگے جن کو ہر دو تین سال کے بعد بدلنا آسان تھا۔
ترقی یافتہ ممالک میں آسانی سے دستیاب ہونے والی اشیاء کیلئے عوام میں قوت خرید بھی تھی اس لئے ایک نئی روایت پڑی جسے کنزیومرازم کہتے ہیں۔ یعنی عوام کو خریداری کی طرف راغب کرنا خواہ اُسے کسی شے کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس سے ترقی یافتہ ممالک میں عموماً اور ہماری طرف طبقہ اشرافیہ میں بالخصوص ایک وبا پھوٹ پڑی کہ روزانہ نت نئے کپڑے، موبائل فون، گاڑیاں اور دوسری پُر تعش اشیاء خریدی جانے لگیں۔
میرے ایک دوست ہیں جو انگلینڈ میں رہتے ہیں، ان کی بیٹی میڈیکل کالج میں اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد ہاسٹل سے گھر آنے لگی تو ابّو سے کہنے لگی کہ اُسکے پاس سامان زیادہ ہے اس لئے لے جانے کیلئے بڑی گاڑی کی ضرورت پڑے گی۔ تاہم جب اس کے والد نے سامان جاکر دیکھا تو یہی نت نئے کپڑے، کتابیں، سی ڈیز، وغیرہ تھیں۔ انہوں نے سوچا کہ گیراج تو پہلے ہی سے ایسی فضول اشیاء سے بھری ہوئی ہے تو یہ کہاں رکھیں گے اسلئے بیٹی سے کہا کہ یہ سارا سامان پھینک دے اور اسکے بدلے ان کی قیمت اُن سے لے لے۔ ان اشیاء میں ایسے کپڑے بھی تھے جو سال دوسال قبل خریدے گئے تھے لیکن اُسی طرح پیک رکھے ہوئے تھے۔ اب ظاہر ہے اگر کوئی چیز شوق سے خریدی جائے اور سال دو سال اسکے استعمال کی نوبت ہی نہ آئے تو اسکا مطلب یہی ہے نا کہ ان کا خریدنا ہی پیسے ، وقت اور جگہ کا ضیاع ہے۔
اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک اور امیر ایشیائی ممالک میں پُرانی اشیاء کا ڈھیر لگنا شروع ہوگیا‘ اس ڈھیر میں جس چیز نے سب سے زیادہ جگہ گھیری وہ الیکٹرانک سامان تھا جسمیں کمپیوٹر، ڈی وی ڈی پلیئرز، ٹی وی، کیمرے، فریج، ائر کنڈیشنرزوغیرہ شامل تھے شروع شروع میں تو انہیں سمندر کے کنارے لاکر پھینک دیا گیا‘ یا ہر شہر میں کوڑے کے ذخیرے میں ڈال دیا گیا۔ تاہم ہمارے کچھ شہری جو پہلے ہی سے لنڈے کے کپڑوں سے آشنا تھے، ان ڈھیروں سے کچھ نہ کچھ کام کی چیزیں اکٹھی کرکے پاکستان لانے لگے۔
سب سے پہلے گاڑیوں کا چسکہ پڑا جسے انہوں نے احتیاطاً ’ری کنڈیشنڈ‘ کا نام دیا اور ظاہر یوں کیا گویا یہ گاڑیاں تھوڑی بہت استعمال کرنے کے بعد کمپنی نے دوبارہ استعمال کے قابل بنائی ہیں۔اس سے سلسلہ اب ’ری فریشڈ‘ کمپیوٹروں اور ٹی وی تک پہنچ گیا ہے۔ وہ تمام پرانے موبائل فون، لیپ ٹاپ، سی ڈی پلیئرز وغیرہ وغیرہ جو ان کے مالکوں نے فضول جان کر پھینک دیئے تھے وہاں سے اُٹھا کر ہمارے تاجروں نے ہمیں بیچ کر چاندی بنانی شروع کردی۔ بلکہ اب تو کارخانوں کی باڑہ مارکیٹ اور اسکے پیچھے بڑے بڑے گودام ہیں جہاں پرانے ٹی وی سیٹوں، فریجوں اور مائکرو ویو مشینوں پر سپرے کرکے کبھی دھوکے سے نئے کے نام پر اور کبھی ’ری فریشڈ‘ اشیاء کے نام سے فروخت کئے جاتے ہیں۔
شروع شروع میں تو ترقی یافتہ ممالک کو اسی کی خوشی ہوتی تھی کہ کوئی یہ کباڑ وہاں سے اُٹھاکر لے جائے۔یہاں تک کہ مجھے یاد ہے جب انگلینڈ میں ہمارے ہسپتال میں کوئی نئی مشین لگتی تو پُرانی مشین اکثر ہم مفت میں اُٹھاکر بعد میں پاکستان لے آتے تاہم جب ان ممالک کو احساس ہوا کہ یہ پُرانی مشینیں غریب ملکوں میں بکتی ہیں تو انہوں نے بھی ایک نیا کاروبار سائنسی بنیادوں پر شروع کیا‘ ان کے لئے بڑے بڑے ادارے بنائے گئے۔ مثلاً برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس نے اپنی پُرانی مشینوں کی نیلامی کیلئے ایک مستقل محکمہ قائم کردیا۔
یہیں سے وہ تمام خرابیاں شروع ہوئیں جن کی بدولت آج پاکستان کباڑستان بنا ہوا ہے اور ہم مغرب اور امیر ممالک کے ’فضلے ‘ کو وہاں سے اُٹھاکر اس سے اپنا ملک بھر رہے ہیں اور وہ بھی پیسے دے کر۔ اس ’جمعداری‘ میں بڑے بڑے تاجر شامل ہوگئے ہیں اور عوام تو چھوڑیں خواص نے بھی ان مسترد کردہ اشیاء کااستعمال شروع کردیا۔ پھر پرائیویٹ ہسپتال بننے شروع ہوئے تو پورے جہاز کے جہاز پرانی میڈیکل اور سرجیکل اشیاء کو لیکر آنے شروع ہوئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سوائے چند ایک ہسپتالوں کے، پاکستان کے تقریباً تمام پرائیویٹ ہسپتالوں میں استعمال شدہ مشینری لگی ہوئی ہے خواہ وہ ایکسرے ہوں یا آپریشن تھیٹر کی مشینیں۔ایک زمانہ تھا کہ پاکستان سے آپریشن ٹیبل ، آٹوکلیو وغیرہ نئے بن کر برآمد ہوتے تھے اور اب رد کردہ یہی آپریشن ٹیبل اور آٹو کلیو باہر سے آرہے ہیں۔
اردو کی مشہور مثل ہے کہ ’سستا روئے بار بار، مہنگا روئے ایک بار‘۔یہ تمام استعمال شدہ مشینیں یا دوسری اشیاء کبھی بھی قابل اعتبار نہیں ہوسکتیں کیوں کہ وہ اپنی عمرِطبعی گزار چکی ہوتی ہیں۔ خواہ وہ نام نہاد ری کنڈیشنڈ گاڑی ہو یا ہسپتال میں نشہ دینے والی مشین ہو۔ لیکن من حیث القوم ہم بڑے بہادر ہیں۔ نہ تو ایک ناقابلِ اعتبار گاڑی موٹروے پر ایک سو چالیس کلومیٹر کے حساب سے چلانے سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ایسی مشینوں پر مریضوں کا آپریشن کرنے سے جھجکتے ہیں۔
یہ کباڑ کی اشیاء پوری کی پوری انڈسٹریوں کو جنم دیتی ہیں جن میں ان میں روز بروز پیداہونے والے نقائص کی مرمت سے لے کران کو چمکا کر نئے کی قیمت پر بیچنے والے شامل ہیں ۔ تاہم سب سے زیادہ منافع یہ کباڑ امیر ممالک سے اُٹھانے والے کماتے ہیں ہمارے ورک شاپ اور مستری خانے انہی کی بدولت آباد ہیں۔ ان کی اتنی بڑی لابی ہے کہ جب بھی پرانی اشیاء کی درآمد پر پابندی لگتی ہے تو پریس میں ایک ہنگامہ بپا ہوجاتا ہے اور یہ جواز ڈھونڈا جاتا ہے کہ کیا کریں غریب عوام کو سستی اشیاء فراہم کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں یا یہ کہ اس پابندی سے خزانے کو اتنا ٹیکس کا خسارہ ہوگا۔
میری گزارش یہ ہے کہ خدارا یہ کباڑی ذہن بد ل لیجئے۔پُرانی ٹویوٹا کی بجائے نئی سوزوکی چھوٹی سہی لیکن وہ زیادہ پائیدار ہوگی۔ اب تو اعلیٰ پائے کے چائنیز آلات بھی یورپی اور امریکی آلات سے دس گنا کم قیمت پر ملتے ہیں لیکن اگر ہمارے اپنے تاجر چین جاکر یہی آلات سستے کرنے کیلئے ان کے معیار پر سمجھوتہ نہ کریں۔
یاد رہے کہ سستی لیکن غیر معیاری چینی اشیاء ہمیں سستی نہیں پڑتیں صرف تاجر کے حصے کا منافع بڑھ جاتا ہے۔ اگر صرف اس حرص سے گریز کریں تو اللہ انکی روزی میں برکت ڈالے گا۔ خصوصاً پختونخوا میں منافع کا معیار پچاس فیصد سے لے کر ہزار فیصد تک پایا جاتا ہے جبکہ اکثر پنجابی تاجر کم منافع لیکن زیادہ فروخت پر توجہ دیتے ہیں۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہے اور ہاں کنزیومرازم کی رو میں بہتے ہوئے فضول خریداری سے گریز کریں۔
چلیں خواتین کا تو معمول ہے کہ ہر تقریب کیلئے نیا جوڑا ہونا چاہئے لیکن مردوں کو کیا ہوا ہے۔ یہ ہمارے وزراء جو روزانہ ٹی وی پر نئے نئے سوٹوں میں نظر آتے ہیں کبھی آپ نے ان کے ڈیزائن یاد رکھے ہیں۔ مردوں کے کپڑوں پر کون نظر ڈالتا ہے‘ میں کبھی کبھار ایک ہی شرٹ اور پتلون سے پورا ہفتہ کام چلالیتا ہوں لیکن مجال ہے جو کسی نے یہ کہا ہو کہ ’آپ نے تو کئی دن سے کپڑے نہیں بدلے‘۔
Dated : 2010-07-14 00:00:00
میں نے نیا کوٹ اُس وقت سِلایا جب مجھے ایف ایس سی میں ایڈورڈز کالج میں داخلہ ملا۔ اُس سے قبل ہمیشہ کباڑی بازار سے غیرملکی اُترن جسے لنڈے کا مال کہتے تھے، کوٹ، جیکٹ وغیرہ خرید کر اور پھر اسمیں درزی سے کچھ تبدیلیاں کرواکے استعمال کرتا تھا‘ چنانچہ میں گھر میں اِتراتا ہوا آیا اور سب کو اپنا نیا کوٹ دکھایا۔ اتنے میں میرے ایک ماموں گھر میں داخل ہوئے۔ میرے کوٹ کو دیکھ کر کہا ’زبردست دانہ مارا ہے‘ جس کا مطلب تھا کہ کباڑی بازار سے اچھا پیس ملا ہے‘مجھے اس ایک فقرے سے اتنا دکھ پہنچا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
امریکہ میں جب صنعتی انقلاب آیا تو تمام مشینوں کی ساخت پائیداری کیلئے مشہور ہوا کرتی تھی‘ تاہم جب جاپانی ٹیکنالوجی دنیا میں متعارف ہوئی تو اسکا اصول تھا کہ نئی چیز، بہتر کارکردگی اور قیمت میں کم ہو‘ اس کی بدولت کم قیمت میں لوگ زیادہ کارکردگی والی اشیاء خریدنے لگے جن کو ہر دو تین سال کے بعد بدلنا آسان تھا۔
ترقی یافتہ ممالک میں آسانی سے دستیاب ہونے والی اشیاء کیلئے عوام میں قوت خرید بھی تھی اس لئے ایک نئی روایت پڑی جسے کنزیومرازم کہتے ہیں۔ یعنی عوام کو خریداری کی طرف راغب کرنا خواہ اُسے کسی شے کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس سے ترقی یافتہ ممالک میں عموماً اور ہماری طرف طبقہ اشرافیہ میں بالخصوص ایک وبا پھوٹ پڑی کہ روزانہ نت نئے کپڑے، موبائل فون، گاڑیاں اور دوسری پُر تعش اشیاء خریدی جانے لگیں۔
میرے ایک دوست ہیں جو انگلینڈ میں رہتے ہیں، ان کی بیٹی میڈیکل کالج میں اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد ہاسٹل سے گھر آنے لگی تو ابّو سے کہنے لگی کہ اُسکے پاس سامان زیادہ ہے اس لئے لے جانے کیلئے بڑی گاڑی کی ضرورت پڑے گی۔ تاہم جب اس کے والد نے سامان جاکر دیکھا تو یہی نت نئے کپڑے، کتابیں، سی ڈیز، وغیرہ تھیں۔ انہوں نے سوچا کہ گیراج تو پہلے ہی سے ایسی فضول اشیاء سے بھری ہوئی ہے تو یہ کہاں رکھیں گے اسلئے بیٹی سے کہا کہ یہ سارا سامان پھینک دے اور اسکے بدلے ان کی قیمت اُن سے لے لے۔ ان اشیاء میں ایسے کپڑے بھی تھے جو سال دوسال قبل خریدے گئے تھے لیکن اُسی طرح پیک رکھے ہوئے تھے۔ اب ظاہر ہے اگر کوئی چیز شوق سے خریدی جائے اور سال دو سال اسکے استعمال کی نوبت ہی نہ آئے تو اسکا مطلب یہی ہے نا کہ ان کا خریدنا ہی پیسے ، وقت اور جگہ کا ضیاع ہے۔
اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک اور امیر ایشیائی ممالک میں پُرانی اشیاء کا ڈھیر لگنا شروع ہوگیا‘ اس ڈھیر میں جس چیز نے سب سے زیادہ جگہ گھیری وہ الیکٹرانک سامان تھا جسمیں کمپیوٹر، ڈی وی ڈی پلیئرز، ٹی وی، کیمرے، فریج، ائر کنڈیشنرزوغیرہ شامل تھے شروع شروع میں تو انہیں سمندر کے کنارے لاکر پھینک دیا گیا‘ یا ہر شہر میں کوڑے کے ذخیرے میں ڈال دیا گیا۔ تاہم ہمارے کچھ شہری جو پہلے ہی سے لنڈے کے کپڑوں سے آشنا تھے، ان ڈھیروں سے کچھ نہ کچھ کام کی چیزیں اکٹھی کرکے پاکستان لانے لگے۔
سب سے پہلے گاڑیوں کا چسکہ پڑا جسے انہوں نے احتیاطاً ’ری کنڈیشنڈ‘ کا نام دیا اور ظاہر یوں کیا گویا یہ گاڑیاں تھوڑی بہت استعمال کرنے کے بعد کمپنی نے دوبارہ استعمال کے قابل بنائی ہیں۔اس سے سلسلہ اب ’ری فریشڈ‘ کمپیوٹروں اور ٹی وی تک پہنچ گیا ہے۔ وہ تمام پرانے موبائل فون، لیپ ٹاپ، سی ڈی پلیئرز وغیرہ وغیرہ جو ان کے مالکوں نے فضول جان کر پھینک دیئے تھے وہاں سے اُٹھا کر ہمارے تاجروں نے ہمیں بیچ کر چاندی بنانی شروع کردی۔ بلکہ اب تو کارخانوں کی باڑہ مارکیٹ اور اسکے پیچھے بڑے بڑے گودام ہیں جہاں پرانے ٹی وی سیٹوں، فریجوں اور مائکرو ویو مشینوں پر سپرے کرکے کبھی دھوکے سے نئے کے نام پر اور کبھی ’ری فریشڈ‘ اشیاء کے نام سے فروخت کئے جاتے ہیں۔
شروع شروع میں تو ترقی یافتہ ممالک کو اسی کی خوشی ہوتی تھی کہ کوئی یہ کباڑ وہاں سے اُٹھاکر لے جائے۔یہاں تک کہ مجھے یاد ہے جب انگلینڈ میں ہمارے ہسپتال میں کوئی نئی مشین لگتی تو پُرانی مشین اکثر ہم مفت میں اُٹھاکر بعد میں پاکستان لے آتے تاہم جب ان ممالک کو احساس ہوا کہ یہ پُرانی مشینیں غریب ملکوں میں بکتی ہیں تو انہوں نے بھی ایک نیا کاروبار سائنسی بنیادوں پر شروع کیا‘ ان کے لئے بڑے بڑے ادارے بنائے گئے۔ مثلاً برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس نے اپنی پُرانی مشینوں کی نیلامی کیلئے ایک مستقل محکمہ قائم کردیا۔
یہیں سے وہ تمام خرابیاں شروع ہوئیں جن کی بدولت آج پاکستان کباڑستان بنا ہوا ہے اور ہم مغرب اور امیر ممالک کے ’فضلے ‘ کو وہاں سے اُٹھاکر اس سے اپنا ملک بھر رہے ہیں اور وہ بھی پیسے دے کر۔ اس ’جمعداری‘ میں بڑے بڑے تاجر شامل ہوگئے ہیں اور عوام تو چھوڑیں خواص نے بھی ان مسترد کردہ اشیاء کااستعمال شروع کردیا۔ پھر پرائیویٹ ہسپتال بننے شروع ہوئے تو پورے جہاز کے جہاز پرانی میڈیکل اور سرجیکل اشیاء کو لیکر آنے شروع ہوئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سوائے چند ایک ہسپتالوں کے، پاکستان کے تقریباً تمام پرائیویٹ ہسپتالوں میں استعمال شدہ مشینری لگی ہوئی ہے خواہ وہ ایکسرے ہوں یا آپریشن تھیٹر کی مشینیں۔ایک زمانہ تھا کہ پاکستان سے آپریشن ٹیبل ، آٹوکلیو وغیرہ نئے بن کر برآمد ہوتے تھے اور اب رد کردہ یہی آپریشن ٹیبل اور آٹو کلیو باہر سے آرہے ہیں۔
اردو کی مشہور مثل ہے کہ ’سستا روئے بار بار، مہنگا روئے ایک بار‘۔یہ تمام استعمال شدہ مشینیں یا دوسری اشیاء کبھی بھی قابل اعتبار نہیں ہوسکتیں کیوں کہ وہ اپنی عمرِطبعی گزار چکی ہوتی ہیں۔ خواہ وہ نام نہاد ری کنڈیشنڈ گاڑی ہو یا ہسپتال میں نشہ دینے والی مشین ہو۔ لیکن من حیث القوم ہم بڑے بہادر ہیں۔ نہ تو ایک ناقابلِ اعتبار گاڑی موٹروے پر ایک سو چالیس کلومیٹر کے حساب سے چلانے سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ایسی مشینوں پر مریضوں کا آپریشن کرنے سے جھجکتے ہیں۔
یہ کباڑ کی اشیاء پوری کی پوری انڈسٹریوں کو جنم دیتی ہیں جن میں ان میں روز بروز پیداہونے والے نقائص کی مرمت سے لے کران کو چمکا کر نئے کی قیمت پر بیچنے والے شامل ہیں ۔ تاہم سب سے زیادہ منافع یہ کباڑ امیر ممالک سے اُٹھانے والے کماتے ہیں ہمارے ورک شاپ اور مستری خانے انہی کی بدولت آباد ہیں۔ ان کی اتنی بڑی لابی ہے کہ جب بھی پرانی اشیاء کی درآمد پر پابندی لگتی ہے تو پریس میں ایک ہنگامہ بپا ہوجاتا ہے اور یہ جواز ڈھونڈا جاتا ہے کہ کیا کریں غریب عوام کو سستی اشیاء فراہم کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں یا یہ کہ اس پابندی سے خزانے کو اتنا ٹیکس کا خسارہ ہوگا۔
میری گزارش یہ ہے کہ خدارا یہ کباڑی ذہن بد ل لیجئے۔پُرانی ٹویوٹا کی بجائے نئی سوزوکی چھوٹی سہی لیکن وہ زیادہ پائیدار ہوگی۔ اب تو اعلیٰ پائے کے چائنیز آلات بھی یورپی اور امریکی آلات سے دس گنا کم قیمت پر ملتے ہیں لیکن اگر ہمارے اپنے تاجر چین جاکر یہی آلات سستے کرنے کیلئے ان کے معیار پر سمجھوتہ نہ کریں۔
یاد رہے کہ سستی لیکن غیر معیاری چینی اشیاء ہمیں سستی نہیں پڑتیں صرف تاجر کے حصے کا منافع بڑھ جاتا ہے۔ اگر صرف اس حرص سے گریز کریں تو اللہ انکی روزی میں برکت ڈالے گا۔ خصوصاً پختونخوا میں منافع کا معیار پچاس فیصد سے لے کر ہزار فیصد تک پایا جاتا ہے جبکہ اکثر پنجابی تاجر کم منافع لیکن زیادہ فروخت پر توجہ دیتے ہیں۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہے اور ہاں کنزیومرازم کی رو میں بہتے ہوئے فضول خریداری سے گریز کریں۔
چلیں خواتین کا تو معمول ہے کہ ہر تقریب کیلئے نیا جوڑا ہونا چاہئے لیکن مردوں کو کیا ہوا ہے۔ یہ ہمارے وزراء جو روزانہ ٹی وی پر نئے نئے سوٹوں میں نظر آتے ہیں کبھی آپ نے ان کے ڈیزائن یاد رکھے ہیں۔ مردوں کے کپڑوں پر کون نظر ڈالتا ہے‘ میں کبھی کبھار ایک ہی شرٹ اور پتلون سے پورا ہفتہ کام چلالیتا ہوں لیکن مجال ہے جو کسی نے یہ کہا ہو کہ ’آپ نے تو کئی دن سے کپڑے نہیں بدلے‘۔
Dated : 2010-07-14 00:00:00