محمد وارث
لائبریرین
حسن نثار جیسا بھی بڑبولا ہے اس کو ہم بالکل ہی غلط نہیں کہہ سکتے کم از کم وہ ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں کی بالکل ٹھیک ٹھیک اور صحیح صحیح نشاندہی کرتا ہے۔ میں نے اسے اس وقت پڑھنا شروع کیا تھا جب اسکی شہرت کا آغاز ابھی نہیں ہوا تھا اور اس وقت وہ منفرد محسوس ہوا تھا اور اب بھی ہے۔
اب رہی اسکی بات علامہ اقبال اور دیگر مشاہرین اور اکابرین پر تنقید بلکہ تنقیص کی تو میرے خیال میں یہ بالکل لغو ہے، مثلاً اوپر والا پروگرام اور کچھ پروگرام میں نے دیکھے جن میں وہ علامہ پر تنقید کر رہا ہے، مثلاً اقبال کے مصرعے لڑا دے ممولے کو شہباز سے پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ مبالغہ ہے اور یہ کہ شہباز کا ڈیزائن ہی علیحدہ اور ممولے کا علیحدہ، کیسے ان کو لڑایا جا سکتا ہے۔
یہ تنقید ظاہر کرتی ہے کہ اس شخص کو شاعری سے قطعاً کوئی واسطہ ہی نہیں بلکہ معمولی سا فہم بھی نہیں، یہ ممولا اور شہباز تو استعارے ہیں جب کہ یہ صاحب ان کو بعینہ ہی لفظی معنوں میں لے رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کو حسن نثار کے تعصب کی وجہ سے چھوڑیے جس میں مسلمانوں کی کمزور اور تھوڑی تعداد کئی بار اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور اور بڑی جماعت پر غالب آئی، کیا ایسے واقعات تاریخ۔ عالم میں موجود نہیں ہے۔ کیا یونانیوں کی مٹھی بھر اور چند سو کی جماعت نے ایرانیوں کے لاکھوں کے لشکر کو شکست نہیں دی؟ ایسی بات کر کے حسن نثار نہ صرف شاعری سے بلکہ تاریخ سے بھی عدم واقفیت کا ثبوت دے رہا ہے۔
علامہ پر ایک اور تنقید انکے مصرعے تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو قرضوں کے سائے میں پل کر جواں ہوئے ہیں۔ درست بات کہی حسن نثار نے لیکن اس میں علامہ پر تنقید کا کونسا پہلو نکلتا ہے۔ کیا علامہ اس قرضوں والے زمانے میں تھے؟ علامہ کے زمانے میں تو تمام مسلم امہ بالعموم اور ہندوستانی مسلمان بالخصوص غلامی کی زنجیروں میں بندھے تھے اور علامہ بات بھی اسی حوالے سے کرتے تھے، علامہ اگر آج زندہ ہوتے تو انکے قلم کی کاٹ کچھ اور طرح کی ہوتی، اس زمانے میں اور طرح کی تھی لہذا ایسی باتوں پر تنقید کرنا فقط اور فقط جہل ہے۔
مزید کہا کہ علامہ کا اصل کلام تو فارسی میں ہے لہذا علامہ کو سمجھنے کیلیے پہلے فارسی آنی چاہیے اور اس کو بطور طنز کہا۔ پھر درست بات ہے لیکن پھر اس میں علامہ کا کوئی قصور نہیں، اگر حسن نثار کو یا ہمیں فارسی نہیں آتی تو اس میں علامہ کا کیا قصور؟
میرے ذہن میں تو یہی بات آتی ہے کہ اسطرح کی یاوہ گوئی حسن نثار فقط ان لوگوں کی چڑ میں کرتا ہے جو علامہ کی بے جا توصیف بغیر انکے کلام اور پیغام پر عمل کیے، کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ سرکاری، اجتماعی اور انفرادی سطح پر علامہ کی شاعری کو اس طرح نہ سمجھا گیا نہ پڑھایا گیا جسطرح کے اسکا حق تھا بلکہ اپنے اپنے مقصد کیلیے علامہ کے انفرادی اشعار استعمال کیے گئے۔
کبھی کسی سطح پر علامہ کی وہ انقلابی شاعری پڑھائی گئی یا سمجھی گئی جس میں وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں، زمینوں اور آسمانوں کو الٹ پلٹ اور زیر و زبر کر دینے کی بات کرتے ہیں، ہر خوشہٴ گندم کو جلا دینے کی بات کرتے ہیں، نئے جہان کی بات کرتے ہیں، انسان کی شیطنت کی بات کرتے ہیں، حکمرانوں اور سرمایہ داروں اور جاگیر داروں اور برہمنوں اورملاؤں اور پیروں اور خانقاہ اور زاویہ نشینوں اور سادہ لوح مسلمانوں کے ظلم اور ستم اور حکومت اور استعبداد اور تعدی اور منافقت اور جہالت اور بے عملی اور توہمات کی بات کرتے ہیں۔
اور حسن نثار بھی کچھ اسی قسم کی باتیں اپنے رنگ میں کرتا ہے، علامہ اگر آج ہوتے یا حسن نثار علامہ کے دور میں تو ہوتا تو شاید حسن نثار علامہ کا سب سے بڑا متعقد ہوتا۔
اب رہی اسکی بات علامہ اقبال اور دیگر مشاہرین اور اکابرین پر تنقید بلکہ تنقیص کی تو میرے خیال میں یہ بالکل لغو ہے، مثلاً اوپر والا پروگرام اور کچھ پروگرام میں نے دیکھے جن میں وہ علامہ پر تنقید کر رہا ہے، مثلاً اقبال کے مصرعے لڑا دے ممولے کو شہباز سے پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ مبالغہ ہے اور یہ کہ شہباز کا ڈیزائن ہی علیحدہ اور ممولے کا علیحدہ، کیسے ان کو لڑایا جا سکتا ہے۔
یہ تنقید ظاہر کرتی ہے کہ اس شخص کو شاعری سے قطعاً کوئی واسطہ ہی نہیں بلکہ معمولی سا فہم بھی نہیں، یہ ممولا اور شہباز تو استعارے ہیں جب کہ یہ صاحب ان کو بعینہ ہی لفظی معنوں میں لے رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کو حسن نثار کے تعصب کی وجہ سے چھوڑیے جس میں مسلمانوں کی کمزور اور تھوڑی تعداد کئی بار اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور اور بڑی جماعت پر غالب آئی، کیا ایسے واقعات تاریخ۔ عالم میں موجود نہیں ہے۔ کیا یونانیوں کی مٹھی بھر اور چند سو کی جماعت نے ایرانیوں کے لاکھوں کے لشکر کو شکست نہیں دی؟ ایسی بات کر کے حسن نثار نہ صرف شاعری سے بلکہ تاریخ سے بھی عدم واقفیت کا ثبوت دے رہا ہے۔
علامہ پر ایک اور تنقید انکے مصرعے تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو قرضوں کے سائے میں پل کر جواں ہوئے ہیں۔ درست بات کہی حسن نثار نے لیکن اس میں علامہ پر تنقید کا کونسا پہلو نکلتا ہے۔ کیا علامہ اس قرضوں والے زمانے میں تھے؟ علامہ کے زمانے میں تو تمام مسلم امہ بالعموم اور ہندوستانی مسلمان بالخصوص غلامی کی زنجیروں میں بندھے تھے اور علامہ بات بھی اسی حوالے سے کرتے تھے، علامہ اگر آج زندہ ہوتے تو انکے قلم کی کاٹ کچھ اور طرح کی ہوتی، اس زمانے میں اور طرح کی تھی لہذا ایسی باتوں پر تنقید کرنا فقط اور فقط جہل ہے۔
مزید کہا کہ علامہ کا اصل کلام تو فارسی میں ہے لہذا علامہ کو سمجھنے کیلیے پہلے فارسی آنی چاہیے اور اس کو بطور طنز کہا۔ پھر درست بات ہے لیکن پھر اس میں علامہ کا کوئی قصور نہیں، اگر حسن نثار کو یا ہمیں فارسی نہیں آتی تو اس میں علامہ کا کیا قصور؟
میرے ذہن میں تو یہی بات آتی ہے کہ اسطرح کی یاوہ گوئی حسن نثار فقط ان لوگوں کی چڑ میں کرتا ہے جو علامہ کی بے جا توصیف بغیر انکے کلام اور پیغام پر عمل کیے، کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ سرکاری، اجتماعی اور انفرادی سطح پر علامہ کی شاعری کو اس طرح نہ سمجھا گیا نہ پڑھایا گیا جسطرح کے اسکا حق تھا بلکہ اپنے اپنے مقصد کیلیے علامہ کے انفرادی اشعار استعمال کیے گئے۔
کبھی کسی سطح پر علامہ کی وہ انقلابی شاعری پڑھائی گئی یا سمجھی گئی جس میں وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں، زمینوں اور آسمانوں کو الٹ پلٹ اور زیر و زبر کر دینے کی بات کرتے ہیں، ہر خوشہٴ گندم کو جلا دینے کی بات کرتے ہیں، نئے جہان کی بات کرتے ہیں، انسان کی شیطنت کی بات کرتے ہیں، حکمرانوں اور سرمایہ داروں اور جاگیر داروں اور برہمنوں اورملاؤں اور پیروں اور خانقاہ اور زاویہ نشینوں اور سادہ لوح مسلمانوں کے ظلم اور ستم اور حکومت اور استعبداد اور تعدی اور منافقت اور جہالت اور بے عملی اور توہمات کی بات کرتے ہیں۔
اور حسن نثار بھی کچھ اسی قسم کی باتیں اپنے رنگ میں کرتا ہے، علامہ اگر آج ہوتے یا حسن نثار علامہ کے دور میں تو ہوتا تو شاید حسن نثار علامہ کا سب سے بڑا متعقد ہوتا۔