حسن والوں کے نام ہو جائیں
ہم خود اپنا پیام ہو جائیں
چار ہونے پہ ان کی آنکھوں نے
طے کیا، ہم کلام ہو جائیں
حد تو یہ ہے کہ ان کے جلوے بھی
احتراماً حرام ہو جائیں
خاص لوگوں کے خاص ہونے کی
انتہا ہے کہ عام ہو جائیں
اس کی محنت حلال ہو جائے
جس کی نیندیں حرام ہو جائیں
ان کو سجدے تو کیا کریں، راحیلؔ
تذکرے صبح و شام ہو جائیں
راحیلؔ فاروق
18 ستمبر 2013ء
چار ہونے پہ ان کی آنکھوں نے
طے کیا، ہم کلام ہو جائیں
حد تو یہ ہے کہ ان کے جلوے بھی
احتراماً حرام ہو جائیں
کس کس کا نام لے لے کر شکریہ ادا کروں؟
عرصہ ہوا کہ شاعری تقریباً چھٹ گئی۔ ان دنوں تو صرف محفل میں زندہ نظر آنے کے لیے پرانی غزلیں اٹھا اٹھا کے چپکاتا رہتا ہوں۔
مگر سچی بات بتاؤں؟ اتنی محبتیں پا کر جی چاہتا ہے کاش میں اب بھی شعر کہہ سکتا۔ کتنا آسان راستہ ہے یہ پیار پانے کا۔ میٹھا بولا، میٹھا سن لیا۔ بہرحال، ہمارے حال سے کوئی اور سیکھ لے تو بھی رائیگانی کا غم تو نہ رہے گا۔
دیکھو مجھے جو دیدۂِ عبرت نگاہ ہو---جہاں تک تعلق ہے بابائے تحریف جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب دامت برکاتہ کی پیروڈی کا، تو مجھے بے شک کوئی مریض سمجھے مگر حق یہ ہے کہ حسرت رہتی ہے کہ یہ ہماری غزلوں کو چیرا پھاڑا کریں۔ میں اتنا اذیت پسند تھا نہیں، خلیل صاحب کی جفاؤں کا مزا اور ہے۔ جس تن لگیاں اوہ تن جانے۔ بہت بہت شکریہ، مشفقی!
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو!
ابن رضا بھائی نے جو تیور پچھلے کچھ عرصے میں دکھانے شروع کیے ہیں، لگتا نہیں کہ دم لیں گے یا لینے دیں گے۔ سچ کہوں تو غزل گئی بھاڑ میں۔ پیروڈی پڑھا کرے بیٹھ کے کوئی رضا بھائی کی۔ جی خوش ہو گیا، واللہ!
پھر عباد اللہ کیسے پیچھے رہتا۔ غلو تو انتہا درجے کا فرمایا مگر کوئی دیکھے کہ کل کے بچہ شعر کیسے کیسے نکالتا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
رہے مزمل حسین صاحب، تو ان کا شکریہ ممکن نہیں۔ محبتیں جب ایک حد سے بڑھ جائیں تو ظاہر کی آنکھ سے تماشا ہوتا ہی نہیں۔ کیا کریں؟
نمکین جی آپ غالباََ نئے ممبر ہیں تعارف کی لڑی میں اپنا تعارف تو پیش کیجئےکیا عمدہ غزل ہے راحیل صاحب ، بھئی واہ
کیا اچھا لکھتے ہیں آپ بہت خوب ۔ میں تو فین ہو گیا ہوں آپ کا ۔
کیوں نہیں جناب ، ضرورنمکین جی آپ غالباََ نئے ممبر ہیں تعارف کی لڑی میں اپنا تعارف تو پیش کیجئے
واہ جناب ...کیا بات ہے ...حق ہےاس کی محنت حلال ہو جائے
جس کی نیندیں حرام ہو جائیں
کچھ بھی کیجیے صاحب؛ غسل، شیو اور طعام جیسے ذہنی فراغت کے اوقات سے استفادہ کیجیے یا کام پر آتے جاتے ہوئے کچھ کہیے، بس کسی طور ہمیں اپنی تازہ غزلیات سے محروم ہونے سے بچا لیجے۔کاش میں اب بھی شعر کہہ سکتا
آپ غالباً مذہبی نکتۂِ نظر سے بات کر رہے ہیں؟ممکن ہے میری سمجھ میں نہ آیا ہو لیکن مقطع اچھا نہیں لگا
یعنی محبوب کو سجدے تو ہم نے کیا کرنے ہیں البتہ اس کا تذکرہ بہت رہتا ہے۔ گویا یہ ایک ایسی صورت ہے کہ عشق محبوب کی جفاؤں کے باعث پرستش کی حدوں سے تو پیچھے ہٹ گیا ہے مگر اعصاب پر بدستور سوار ہے۔ان کو سجدے تو کیا کریں، راحیلؔ
تذکرے صبح و شام ہو جائیں
زار کے بعد کی ہے، مکرمی۔یہ ’زار‘ میں شامل تھی یا نئی غزل ہے (بے زار غزل؟)
نئی تو نہ ہونے کے برابر ہیں، قبلہ و کعبہ۔ البتہ زار کے بعد کا کلام کچھ ہے جو پچھلے چھ برسوں میں کہا گیا ہے۔ محفل پر موجود پس زار غزلیات میں سے مشتے نمونہ:دو ایک مزید نئی بھیجو یا یہاں شامل کرو۔
مزمل بھائی، مصروف ہم کبھی رہے ہی نہیں۔ شان کے خلاف ہے۔ اور اب تو فراغت اتنی ہو گئی ہے کہ خیالات بھی ادھر کا رخ نہیں کرتے۔کچھ بھی کیجیے صاحب؛ غسل، شیو اور طعام جیسے ذہنی فراغت کے اوقات سے استفادہ کیجیے یا کام پر آتے جاتے ہوئے کچھ کہیے، بس کسی طور ہمیں اپنی تازہ غزلیات سے محروم ہونے سے بچا لیجے۔
ثم آمین۔دعا ہے اللہ آپ کے وقت، رزق اور صحت میں ڈھیروں برکات نازل فرمائے اور
آپ کی رگِ شاعرانہ پھر سے پھڑک اٹھے۔
آمین!
حقیقی معنوں میں، جو دراصل میرا مدعا تھا، یوں ہے کہ ہم خدا کو سجدے کرنے سے تو اپنی گناہگاری کے باعث عاجز ہیں مگر اتنا ہے کہ زبان پہ اس کا ذکر روز و شب رہتا ہے۔ یہ میرا اور مجھ ایسے بہت سوں کا ذاتی المیہ ہے۔ مذہب نے ہمارے ذہنوں کو تو مسخر کر لیا ہے مگر کردار میں ابھی تک نہیں رچ سکا۔