ن م راشد حسن کوزہ گر- 1 -- از ن م راشد

فرخ منظور

لائبریرین
حسن کوزہ گر- 1 -- از ن م راشد

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاھوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ھوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رھا ھوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ھے روئے گرداں!"
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ھوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے

میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برھنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جسے سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رھگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ھے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
حسن کوزہ گر ھوش میں آ"
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
"حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!

جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ھوں
سرد مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاھیں
مجھے آج پھر جھانکتی ھیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ھے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ھوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ھے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ھے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ھے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے!

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ھر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب فرخ صاحب، آپ تو لگتا ہے راشد کے کلیات ڈال دیں گے۔;)

زبردست نظم ہے یہ بھی، بقیہ کا انتظار رہے گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ وارث اور فاتح! ویسے تو مجھے اقبال، غالب، فیض اور راشد سے عشق ہے لیکن راشد کا کلام بہت کم انٹرنیٹ پر دستیاب ہے اس لیے میری زیادہ توجہ راشد کی طرف ہے- اور ایک بات کہ کسی صاحب نے لکھا کہ انکے کلام میں ایک ردھم ہے، بالکل درست لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزاد نظم کے باوجود راشد کا ایک مصرعہ بھی وزن سے خارج نہیں، کوئی بھی صاحب کسی بھی مصرعے کی تقطیع کر کے دیکھ سکتے ہیں-
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔
چلیے آپ ہی تقطیع بھی سکھانا شروع کر دیجیے، اسی بہانے ہمیں تقطیع بھی آ جائے گی۔ (میں انتہائی سنجیدہ ہوں)

اسی نظم سے آغاز کرتے ہیں۔ پہلا شعر یوں ہے:

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
جہازا ۔ د نیچے ۔ گلی مے ۔ ترے در ۔ کِ آگے
فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن

یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں
یِ مے سو ۔ ختہ سر ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ زَگر ہو
فعولن ۔ فعولن ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ فعولن !

جہاں یہ ۔۔۔۔۔۔ نقاط ڈالے ہیں میں یہاں اٹک گیا ہوں۔ اس کی تقطیع کیسے کریں گے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
جناب مجھے عروض کا علم بالکل نہیں ہے اگر ہوتا تو راشد کی بجائے آپ میرا کلام پڑھ رہے ہوتے میں نے تو ایک استاد (جناب خورشید رضوی، گورنمنٹ کالج کے شعبہ عربی سے منسلک اور اب رٹائرڈ) جنہیں میں عروض میں سند مانتا ہوں انکا قول نقل کر دیا -
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔
چلیے آپ ہی تقطیع بھی سکھانا شروع کر دیجیے، اسی بہانے ہمیں تقطیع بھی آ جائے گی۔ (میں انتہائی سنجیدہ ہوں)

اسی نظم سے آغاز کرتے ہیں۔ پہلا شعر یوں ہے:

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
جہازا ۔ د نیچے ۔ گلی مے ۔ ترے در ۔ کِ آگے
فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن

یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں
یِ مے سو ۔ ختہ سر ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ زَگر ہو
فعولن ۔ فعولن ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ فعولن !

جہاں یہ ۔۔۔۔۔۔ نقاط ڈالے ہیں میں یہاں اٹک گیا ہوں۔ اس کی تقطیع کیسے کریں گے؟


فاتح بھائی اس مصرعے میں کیا اشکال ہے، موزوں تو ہے۔

یہ میں سوختہ سر حَسَن کوزہ گر ہوں

ی مے سو ۔ فعولن
ختہ سر ۔ فعولن
حَسَن کو ۔ فعولن
ز گر ہو ۔ فعولن

۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب! میرا بھی یہی خیال تھا کہ فاتح صاحب کسی لفظ کا تلفظ صحیح نہیں کر رہے اسی لیے انہیں ایسا محسوس ہوا - عروض میں تو میں بالکل کورا ہوں لیکن موسیقییت اور ردھم سے کافی واقفیت رکھتا ہوں -
 
حسن کوزہ گر ایک خوبصورت کرداری نظم ہے جس میں شعور کی رو کی تکینیک کا استعمال کیا ہے۔ میرے خیال میں جس طرح ناول میں پوری زندگی کا بیان ہوتا ہے راشد کی اس نظم میں بھی پوری زندگی کو قید کر دیا گیا۔ نظم کے اس حصہ میں محبت اور فن کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ اور آخر میں حسن محبت اور فن کے امتزاج سے ایسے شرارے نکالنے کی بات کرتا ہے جن سے دلوں‌کے خرابے روشن ہو سکیں۔ نظم کی فضا ماضی کے بغداد کی یاد دلاتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ویلکم بیک وہاب۔ آتے رہا کریں یہاں۔
سخمور۔ آپ یہ چھوٹی ہ کی جگہ دو چشمی کیوں استع،ال کرتے ہیں۔
یہاں یہ ہ ’او‘ کی کنجی پر ہے، اور ’ھ‘ ایچ پر۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اعجاز صاحب بہت شکریہ نشاندہی کا- مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب کوئی میری غلطی کی نشاندہی کرئے لیکن میں یہ ھ اس لئے زیادہ استعمال کرتا ہوں کیونکہ یونیکوڈ کے اس فونٹ میں یہ "ہ" کہیں گم ہو جاتی ہے یعنی واضح نہیں ہوتی اس لیے دو چشمی ھ کا استعمال زیادہ کرتا ہوں -
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک اور بات جسکی مجھے کافی کوفت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس اتنے بڑے اردو ادب کے فورم پر سب جگہ "برائے مہربانی" لکھا نظر آتا ہے، جبکہ یہ غلط العام ہے اور صحیح لفظ براہ ہے یعنی "براہِ مہربانی" اگر کوئی صاحب یہ تصحیح کر سکیں تو بہت نوازش ہوگی-
 

فاتح

لائبریرین
ایک اور بات جسکی مجھے کافی کوفت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس اتنے بڑے اردو ادب کے فورم پر سب جگہ "برائے مہربانی" لکھا نظر آتا ہے، جبکہ یہ غلط العام ہے اور صحیح لفظ براہ ہے یعنی "براہِ مہربانی" اگر کوئی صاحب یہ تصحیح کر سکیں تو بہت نوازش ہوگی-

واقعی اگر کہیں ایسا ہے تو اسے درست ہونا چاہیے۔
اور یہ غلط العام نہیں بلکہ "غلط العوام" ہے یعنی صریحاً غلط۔
 
حسن کوزہ گر

حسن کوزہ گر- 1 -- از ن م راشد

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاھوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ھوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رھا ھوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ھے روئے گرداں!"
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ھوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے

میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برھنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رھگزر بن گئے تھے
 
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّلاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ھے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
حسن کوزہ گر ھوش میں آ"
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
"حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
 
جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ھوں
سرد مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاھیں
مجھے آج پھر جھانکتی ھیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ھے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ھوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ھے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ھے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ھے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے!

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ھر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!


راشد صاحب کی اس نظم نے مجھے جکڑ لیا ہے، خدا جانے کیا بات ہے اس میں کہ میں‌اس کے اثر سے باہر ہی نہیں آپا رہا ہوں۔ اس میں‌شک نہیں کہ راشد کے کلام میں‌جو گہرائی و معنویت ہے وہ شاذ ہی جدید اردو شعراء میں کسی کو نصیب ہوئی ہو۔


شیراز
 

فرخ منظور

لائبریرین
شیراز صاحب! بہت اچھا انتخاب ہے - آپ مزید انتخابِ راشد کے لیے میرے دستخطوں میں‌موجود لکھے گئے لنک پر دیکھ سکتے ہیں - آپ وہاں اسی نظم کو اور مزید نظموں کو وہاں دیکھ سکتے ہیں- بہت شکریہ!
 
Top