کاشفی
محفلین
غزل
حصارِ ذات سے نکلوں تو تجھ سے بات کروں
تری صفات کو سمجھوں تو تجھ سے بات کروں
تو کوہسار میں، وادی میں، دشت و صحرا میں
میں تجھ کو ڈھونڈ نکالوں تو تجھ سے بات کروں!
تو شاخ شاخ پہ بیٹھا ہے، پھول کی صورت،
میں خار خار سے اُلجھوں تو تجھ سے بات کروں!
ترے اشاروں سے بڑھ کر ترا بیاں مبہم
میں تیری بات کو سمجھوں تو تجھ سے بات کروں!
تو اتنا دور کہ پہچاننا بھی مشکل ہے
تجھے قریب سے دیکھوں تو تجھ سے بات کروں!
جھجک جھجک کے اگر ہو تو بات بات نہیں!
میں تیری آنکھ میں جھانکوں تو تجھ سے بات کروں!
تو میرا دوست ہے، دشمن ہے یا کہ کچھ بھی نہیں؟
میں تیرے دل کو ٹٹولوں تو تجھ سے بات کروں
مری خموش لبی پر شکائتیں کیسی؟
میں اپنے آپ سے بولوں تو تجھ سے بات کروں!!!
یہ وہ مقام ہے، یا میں ہوں یا مری خلوت
میں اس مقام سے گزروں تو تجھ سے بات کروں!!!
یہ موج موج تلاطم، یہ ڈوبنا میرا
میں اتفاق سے ابھروں تو تجھ سے بات کروں!
زبانِ قیس پہ ہر وقت تیری باتیں ہیں
زبانِ قیس جو سیکھوں تو تجھ سے بات کروں!
(راج کمار قیس)
حصارِ ذات سے نکلوں تو تجھ سے بات کروں
تری صفات کو سمجھوں تو تجھ سے بات کروں
تو کوہسار میں، وادی میں، دشت و صحرا میں
میں تجھ کو ڈھونڈ نکالوں تو تجھ سے بات کروں!
تو شاخ شاخ پہ بیٹھا ہے، پھول کی صورت،
میں خار خار سے اُلجھوں تو تجھ سے بات کروں!
ترے اشاروں سے بڑھ کر ترا بیاں مبہم
میں تیری بات کو سمجھوں تو تجھ سے بات کروں!
تو اتنا دور کہ پہچاننا بھی مشکل ہے
تجھے قریب سے دیکھوں تو تجھ سے بات کروں!
جھجک جھجک کے اگر ہو تو بات بات نہیں!
میں تیری آنکھ میں جھانکوں تو تجھ سے بات کروں!
تو میرا دوست ہے، دشمن ہے یا کہ کچھ بھی نہیں؟
میں تیرے دل کو ٹٹولوں تو تجھ سے بات کروں
مری خموش لبی پر شکائتیں کیسی؟
میں اپنے آپ سے بولوں تو تجھ سے بات کروں!!!
یہ وہ مقام ہے، یا میں ہوں یا مری خلوت
میں اس مقام سے گزروں تو تجھ سے بات کروں!!!
یہ موج موج تلاطم، یہ ڈوبنا میرا
میں اتفاق سے ابھروں تو تجھ سے بات کروں!
زبانِ قیس پہ ہر وقت تیری باتیں ہیں
زبانِ قیس جو سیکھوں تو تجھ سے بات کروں!
(راج کمار قیس)