نور وجدان
لائبریرین
صُبح کا تارا ظُلمت کا پردہ چاک کرکے، خود کو دوام بخش کے، اسلام کو زندہ کرکے ، قربانی کی تجدید کرکے شاہد و شہید ہوکے اپنی سرداری کی دلیل دے کر گئے ۔ہم آج ان کی یاد میں دو چار لفظ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے محرم کا پہلا عشرہ اس عظیم قربانی کی یاد میں گُزار دیا۔ قُربانی کی تمثیل یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے چلتی حضرت عبداللہ رض کو پُہنچی جن کے والد حضرت عبدالمطلب کے نو بیٹے تھے اور منت مانی تھی کہ دس بیٹے ہوئے تو دسواں قربانی کردیں گے ۔ جب حضرت عبداللہ رض پیدا ہوئے تو جناب عبدالمطلب کا دل نہیں کیا کہ اپنے دُلارے اور چھوٹے سے بیٹے کو قربان کردیں ۔ سردارانِ قریش و کاہنوں کے مشورے پر چلتے ہوئے سُو اونٹ قُربان کردیے گئے ۔حضرت ابراہیم کی نسل میں دو دفعہ قربانی ٹل گئی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس دنیا میں آنا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قُربانی کی یاد میں عید الضححٰی منائی جاتی ہے اور حضرت عبداللہ کی بیٹے جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آنا تھا ، ان کے آنے میں خُوشی میں عید میلاد النبی منائی جاتی ہے ۔ اس قربانی کی تکمیل نبوت کی تکمیل کی لیے ضروری تھی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ واسلم کو اس دنیا میں آنا تھا اور السلام کو پھیلانا تھا اس لیے حسنین کی قربانی نے نبوت کی تکمیل کرتے ہوئے اسلام کو زندہ کردیا ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام زہر دے کر شہید کردیئے گئے اور حضرت امام حسین نے پورے کنبہ ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی دے کر آسمان پر مکین روح الامین جبرائیل کو بھی بے چین کردیا۔
صدقء خلیل بھی ہے عشق،صبرء حُسین بھی ہےعشق
معرکہء وجود میں بدرو حُنین بھی ہے عشق
کچھ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کردیکھتے ہوئے میں نے تعصب کا چشمہ اتار پھینکا ہے ۔ میرا کوئی مسلک نہیں ہے : میں نہ شیعہ ہوں ، میں نہ سنی ہوں ، میں نہ اہل حدیث ہوں ، میں نہ بریلوی ہوں اور نہ ہی دیوبندی ہوں ۔ میں ایک ذلیل و عاجز ، سیہ کار و گُنہ گار مسلمان ہوں جس کا مقام اتنا گرا ہوا ہے کہ اس کو سفل سے نچلے درجہ کا بھی کہا جائے تو بجا ہوگا مگر کیا کروں کہ اسفل الاسافلین سے نچلا درجہ کوئی نہیں ہے ، یہ ہاتھ ، میرا دل ، میری زُبان اپنے تمام جُملہ شیطانی اوصاف رکھتے ہوئے بھی ان پاک ہستیوں کا نام لینے پر مجبور ہیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سعادت سے محروم نہیں رکھا ہے اس بات پر میرا سجدہء شُکر ہے کہ میں آج ان پاک ہستیوں کو لکھ کر اپنی سیہ کاری کو چُھپانا چاہ رہی ہوں ۔ جنگ ء جمل و صفین نے دینِ اسلام کی متحد صفیں بکھیر دیں تھیں ۔ اسلامی حکومت دو حصوں میں بٹ کر خلافت و بادشاہت میں بدل چکی تھی ۔ ایک طرف حضرت علی رض حکمران تھے جو کہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف حضرت معاویہ رض حُکمران تھے جو بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ بنو ہاشم و بنو امیہ کی لڑائی واقعہء کربلا کا شاخسانہ بنی ۔ عبدالمناف کے دو جُڑواں بیٹے پیدا ہوئے جن کے دھڑ ایک دوسرےکے ساتھ منسلک تھے ان کو تلوار سے علیحدہ کردیا گیا ۔نجومیوں نے پیشن گوئی کی کہ ان دو کے درمیان لڑائی جاری رہے گی حضرت امیر معاویہ نے کے دور ء حکومت کے تین کام جس نے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا : بیت المال کی ذاتی تصرف ، یزید کی ولی عہدی اور سب علی یعنی خطبہء جمعہ کے بعد حضرت علی رض کو گالیاں و برا بھلا کہنے کا رسم کی شُروعات ۔ اس صورت میں وہ ساتھی جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے ان کو شیعانء معاویہ اور جو حضرت علی رض کے ساتھ ان کو شیعانء علی کہا جاتا تھا۔حضرت علی رض کی شہادت کے بعد حضرت عمرو بن العاص نے امیر معاویہ کو یزید کی ولی عہدی کا مشورہ دیا اور اپنے وصیت نامے میں کچھ ہدایات لکھ گئے کہ اس وقت حجاز میں پانچ اشخاص ایسے ہیں اگر وہ تمھارے حق میں بیعت کرلیں تو پورے حجاز نے بیعت کرلی ۔ ان میں سے دو اشخاص بیعت کرلیں تو سمجھو سب افراد تمھارے تابع ہیں ۔ ایک حضرت امام حُسین رض ہیں ، جن کے بارے میں کہا کہ وہ قرابت دار ہیں ، جہاں ملیں حُسن سلوک کا مظاہرہ کرنا اور جو شخص تمھیں لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح بہادر نظر آئے وہ حضرت عبداللہ بن زبیررض ہیں ۔ وہ جہاں نظر آئیں ان کو فورا قتل کرنا۔ یزید نے اپنے افراد حجاز بھیجے تاکہ ان سے بیعت لی جاسکی ۔ دونوں نے مہلت مانگی اور حضرت عبداللہ رض حجاز سے فرار ہوگئے جبکہ حضرت امام حُسین رض کوفہ کی طرف کوچ کرچکے تھے ۔ یہیں پر واقعہء کربلا پیش آیا ۔ جس کی ساری رُوداد ہم سنتے ہیں تو دل موم ہوجاتے ہیں اور چشم نم ہوجاتی ہے ۔
شیعان علی رض وہ لوگ جو حضرت امام حُسین رض کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا چکے تھے مگر ان کو پورا نہیں کرسکے ۔ دوست نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت امام حُسین رض کی دوستی اللہ تعالیٰ سے کیسی تھی اور سوچوں میری دوستی کیسی ہے تو مجھے اپنا آپ انہی لوگوں کے کردار میں ملتا ہے جو دوست کی دوستی کا حق ادا نہیں کرتے ۔ دوست تو گواہی مانگتا ہے ۔ کُوفیوں کی گواہی ملاحظہ کیجئے اور امام عالی مقام رض کی گواہی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے اپنے خون سے کلمہء حق کو زندہ کرتے ہوئے دی کہ کربلا کی خاک تو بہت روئی تھی ، کاش میں وہ خاک ہی ہوتی جس پر اس پاک خون سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ شاہد ہوگیا کہ اللہ کا دین غالب ہوگیا کہ وہ غالب ہوکر رہے گا اور باطل کا نام مٹ گیا کہ وہ مٹنے کے لیے ہی ہے ۔ ان شہادتوں پر ماتم کرنا بذات خود امام عالی مقام کی توہین ہے ان کی قربانی کی توہین ہے ۔ شہید تو زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے
کہ دو غم حسین منانے والوں کو
مومن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے
ہے عشق اپنی جان سے بھی زیادہ آل رسول سے
یوں سر عام ہم انکا تماشہ نہیں کرتے
روئے وہ جو منکر ہے شہادت حسین کا
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس قربانی میں حکمت کیا تھی ، اسلام کیسے زندہ ہوا ۔ آپ اگر یزید کی اطاعت کرلیتے تو اسلام کی اصل شکل اور روح ہم تک نہیں پُہنچ پاتی ۔میرا مسلک تو وہی ہے جو مجھے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ہستی نے بتایا ۔ میں اس وقت موجود ہوتی تو خوش نصیبوں میں ہوتی ۔ مجھے دکھ ہے میں کسی طرح بھی ان کے ساتھ نہیں رہ سکی اور نہ کسی غزوہ و معرکہ میں شرکت کرسکی ، میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی اگر میں حضرت امام حسین رض کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیتی ۔ میں اس بات پر روتی ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں رکھا ۔ میرے دل میں خواہش رہی کہ ان بڑی ہستیوں کے طریقے پر چل سکوں مگر میں نہیں چل سکتی ۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکی ہوں ۔ میں سوچتی ہوں میں کسی مسلمان ہوں ِ؟ کیا واقعی ہی میں مسلمان ہوں ؟ یہ کیسا اسلام میرے دل میں ہے جو مجھے ایثار و بے لوث محبت نہیں کرنے دیتا جو مجھے نفسی نفسی کا سبق دیتا ہے ۔ میں تو اب سوچتی ہوں کہ میں انسان بھی ہوں؟ مجھے کوئی بتائے کہ میں انسان کہلائے جانے کے لائق ہوں ؟
صدقء خلیل بھی ہے عشق،صبرء حُسین بھی ہےعشق
معرکہء وجود میں بدرو حُنین بھی ہے عشق
کچھ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کردیکھتے ہوئے میں نے تعصب کا چشمہ اتار پھینکا ہے ۔ میرا کوئی مسلک نہیں ہے : میں نہ شیعہ ہوں ، میں نہ سنی ہوں ، میں نہ اہل حدیث ہوں ، میں نہ بریلوی ہوں اور نہ ہی دیوبندی ہوں ۔ میں ایک ذلیل و عاجز ، سیہ کار و گُنہ گار مسلمان ہوں جس کا مقام اتنا گرا ہوا ہے کہ اس کو سفل سے نچلے درجہ کا بھی کہا جائے تو بجا ہوگا مگر کیا کروں کہ اسفل الاسافلین سے نچلا درجہ کوئی نہیں ہے ، یہ ہاتھ ، میرا دل ، میری زُبان اپنے تمام جُملہ شیطانی اوصاف رکھتے ہوئے بھی ان پاک ہستیوں کا نام لینے پر مجبور ہیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سعادت سے محروم نہیں رکھا ہے اس بات پر میرا سجدہء شُکر ہے کہ میں آج ان پاک ہستیوں کو لکھ کر اپنی سیہ کاری کو چُھپانا چاہ رہی ہوں ۔ جنگ ء جمل و صفین نے دینِ اسلام کی متحد صفیں بکھیر دیں تھیں ۔ اسلامی حکومت دو حصوں میں بٹ کر خلافت و بادشاہت میں بدل چکی تھی ۔ ایک طرف حضرت علی رض حکمران تھے جو کہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف حضرت معاویہ رض حُکمران تھے جو بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ بنو ہاشم و بنو امیہ کی لڑائی واقعہء کربلا کا شاخسانہ بنی ۔ عبدالمناف کے دو جُڑواں بیٹے پیدا ہوئے جن کے دھڑ ایک دوسرےکے ساتھ منسلک تھے ان کو تلوار سے علیحدہ کردیا گیا ۔نجومیوں نے پیشن گوئی کی کہ ان دو کے درمیان لڑائی جاری رہے گی حضرت امیر معاویہ نے کے دور ء حکومت کے تین کام جس نے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا : بیت المال کی ذاتی تصرف ، یزید کی ولی عہدی اور سب علی یعنی خطبہء جمعہ کے بعد حضرت علی رض کو گالیاں و برا بھلا کہنے کا رسم کی شُروعات ۔ اس صورت میں وہ ساتھی جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے ان کو شیعانء معاویہ اور جو حضرت علی رض کے ساتھ ان کو شیعانء علی کہا جاتا تھا۔حضرت علی رض کی شہادت کے بعد حضرت عمرو بن العاص نے امیر معاویہ کو یزید کی ولی عہدی کا مشورہ دیا اور اپنے وصیت نامے میں کچھ ہدایات لکھ گئے کہ اس وقت حجاز میں پانچ اشخاص ایسے ہیں اگر وہ تمھارے حق میں بیعت کرلیں تو پورے حجاز نے بیعت کرلی ۔ ان میں سے دو اشخاص بیعت کرلیں تو سمجھو سب افراد تمھارے تابع ہیں ۔ ایک حضرت امام حُسین رض ہیں ، جن کے بارے میں کہا کہ وہ قرابت دار ہیں ، جہاں ملیں حُسن سلوک کا مظاہرہ کرنا اور جو شخص تمھیں لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح بہادر نظر آئے وہ حضرت عبداللہ بن زبیررض ہیں ۔ وہ جہاں نظر آئیں ان کو فورا قتل کرنا۔ یزید نے اپنے افراد حجاز بھیجے تاکہ ان سے بیعت لی جاسکی ۔ دونوں نے مہلت مانگی اور حضرت عبداللہ رض حجاز سے فرار ہوگئے جبکہ حضرت امام حُسین رض کوفہ کی طرف کوچ کرچکے تھے ۔ یہیں پر واقعہء کربلا پیش آیا ۔ جس کی ساری رُوداد ہم سنتے ہیں تو دل موم ہوجاتے ہیں اور چشم نم ہوجاتی ہے ۔
شیعان علی رض وہ لوگ جو حضرت امام حُسین رض کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا چکے تھے مگر ان کو پورا نہیں کرسکے ۔ دوست نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت امام حُسین رض کی دوستی اللہ تعالیٰ سے کیسی تھی اور سوچوں میری دوستی کیسی ہے تو مجھے اپنا آپ انہی لوگوں کے کردار میں ملتا ہے جو دوست کی دوستی کا حق ادا نہیں کرتے ۔ دوست تو گواہی مانگتا ہے ۔ کُوفیوں کی گواہی ملاحظہ کیجئے اور امام عالی مقام رض کی گواہی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے اپنے خون سے کلمہء حق کو زندہ کرتے ہوئے دی کہ کربلا کی خاک تو بہت روئی تھی ، کاش میں وہ خاک ہی ہوتی جس پر اس پاک خون سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ شاہد ہوگیا کہ اللہ کا دین غالب ہوگیا کہ وہ غالب ہوکر رہے گا اور باطل کا نام مٹ گیا کہ وہ مٹنے کے لیے ہی ہے ۔ ان شہادتوں پر ماتم کرنا بذات خود امام عالی مقام کی توہین ہے ان کی قربانی کی توہین ہے ۔ شہید تو زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے
کہ دو غم حسین منانے والوں کو
مومن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے
ہے عشق اپنی جان سے بھی زیادہ آل رسول سے
یوں سر عام ہم انکا تماشہ نہیں کرتے
روئے وہ جو منکر ہے شہادت حسین کا
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس قربانی میں حکمت کیا تھی ، اسلام کیسے زندہ ہوا ۔ آپ اگر یزید کی اطاعت کرلیتے تو اسلام کی اصل شکل اور روح ہم تک نہیں پُہنچ پاتی ۔میرا مسلک تو وہی ہے جو مجھے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ہستی نے بتایا ۔ میں اس وقت موجود ہوتی تو خوش نصیبوں میں ہوتی ۔ مجھے دکھ ہے میں کسی طرح بھی ان کے ساتھ نہیں رہ سکی اور نہ کسی غزوہ و معرکہ میں شرکت کرسکی ، میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی اگر میں حضرت امام حسین رض کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیتی ۔ میں اس بات پر روتی ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں رکھا ۔ میرے دل میں خواہش رہی کہ ان بڑی ہستیوں کے طریقے پر چل سکوں مگر میں نہیں چل سکتی ۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکی ہوں ۔ میں سوچتی ہوں میں کسی مسلمان ہوں ِ؟ کیا واقعی ہی میں مسلمان ہوں ؟ یہ کیسا اسلام میرے دل میں ہے جو مجھے ایثار و بے لوث محبت نہیں کرنے دیتا جو مجھے نفسی نفسی کا سبق دیتا ہے ۔ میں تو اب سوچتی ہوں کہ میں انسان بھی ہوں؟ مجھے کوئی بتائے کہ میں انسان کہلائے جانے کے لائق ہوں ؟