عبدالرزاق قادری
معطل
آپ رحمۃ اللہ علیہ سلطان شریعت و طریقت اور برہان حقیقت و محبت مفتی اسرار الہٰی اورمہدی انوار ناتناہی وارث دین نبوی ہیں۔ اگرچہ آ پ کے حالات بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ ایک عالم آپ کے مقلدین میں سے ہے۔ فراست میں آپ یگانہ روزگار تھے۔ چاروں اماموں سے ایک امام ہیں۔ آپ کی ریاضات و کرامات بیشمار ہیں۔ ابھی آپ کی عمر تیرہ ۱۳سال ہی کی تھی ۔ کہ آپ نے کہا کہ جو مسئلہ مجھ سے چاہو ۔ پوچھ لو۔ اور جوفتویٰ چاہو طلب کرو ۔ امام احمد جنبل رحمۃ اللہ علیہ جوکہ امام جہاں تھے ۔ اور کئی ہزار حدیثیں از بر تھیں۔ آپ کی شاگردی کو آتے تھے۔ اور فرماتے تھے ۔ کہ فقہ کادروازہ خلقت پر بندتھا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ کسی اور شخص کا احساس اسلام پر ہے۔اور پھر فرمایا کہ حدیث نبوی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ہر دو سو سال کے بعد ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔جس سے لوگ دین سیکھتے ہیں اس سے مراد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بلال رحمۃ اللہ علیہ خواص فرماتے ہیں کہ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اوتاد میں سے ہیں۔ عبداللہ انصار اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اگرچہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مقلد نہیں ہوں ۔ لیکن ان کو دوست رکھتا ہوں۔ امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں جناب رسالت مآ ب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کا ایک امتی ہوں تب آپ نے فرمایا کہ قریب آؤ ۔ تو آپ اپنا لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا اور فرمایا کہ جاؤ ۔ اب اللہ تعالیٰ تم کو برکت دیگا ۔اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی انگشتری اتار کر میرے حوالے کی۔
نقل ہے کہ ابھی آپرحمۃ اللہ علیہ کی عمر چھ سال کی تھی کہ ایک دفعہ دو شخص آپ کی والدہ کے پاس کچھ امانت رکھ گئے کچھ دنوں کے بعد ان میں سے ایک شخص واپس آیا۔ اوراپنی امانت لے کر واپس چلا گیا۔ اس وقت آپ کی والدہ موجود نہ تھیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کی والدہ کی تشریف لے آئیں۔ تو دوسرا آدمی بھی آگیا۔ اور اپنی امانت طلب کی آپ نے کہا کہ تمہار اساتھی امانت لے گیاہے۔ اس نے کہا کہ یہ اقرار نہ تھا۔ آپ کی والدہ بہت ملول ہوئیں۔ تو آپ نے کہا ۔ کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پھر دوسرے آدمی کو کہا ۔ کہ تم اپنے ساتھی کو بلاکرلے آؤ ۔ اور اپنی امانت لے جاؤ ۔یہ لفظ سن کروہ تحسین کرتا ہوا چلا گیا۔
آپ عام طور پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر کھڑے رہتے ۔ جو شخص کوئی فتوی لے کر آتا ۔ اس کو دیکھتے اگروہ درست نہ ہوتا۔ تو کہتے کہ واپس لے جاؤ ۔ اور درست کروا کر لاؤ ۔ وہ شخص واپس جا کر فتوی کی صحت طلب کرتا۔ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس فتوی کو دوبارہ ملاحظہ کرتے ۔ تو حق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف پاتے۔ اور امام مالک اس پر ناز کرتے۔
نقل ہے کہ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید اپنی بیوی زبیدہ سے مناظرہ کررہا تھا۔ اثنائے گفتگو میں زبیدہ نے ہارون الرشید کو دوزخی کہہ دیا ۔ ہارون نے کہا اگر میں دوزخی ہوں تو تم کو طلاق ۔غرض دونوں جدا ہو گئے ۔ چو نکہ خلیفہ کوزبیدہ سے بہت محبت تھی۔ اور زبیدہ بھی خلیفہ کو نہایت محبوب رکھتی تھی۔ اس لئے دونوں بے قرار ہوئے ۔ تما م علمائے کرام کو جمع کرکے فتوی طلب کیا ۔مگر سب چپ رہے اور کہنے لگے کہ سوائے خدا و ند کریم کے کوئی نہیں جانتا ۔ کہ خلیفہ دوزخی ہے یا بہشتی ۔ اس وقت آپ مجلس میں موجود تھے اور عمر بھی ابھی گیارہ سال کی تھی۔آپ نے کھڑے ہو کر کہا کہ اس مسئلہ کا جواب میں دیتا ہوں ۔ سب لوگ حیران رہ گئے ۔ کہ ایک بچہ کیا جواب دے سکتا ہے۔ تب ہارون نے آپ کے نزدیک سے پوچھا ۔تو آپ نے کہا ۔ کہ چونکہ آپ سائل ہیں ۔ اس لئے تخت سے نیچے اتر جائیں ۔ اور مجھ کو تخت پر جگہ دیں۔ تب میں جواب دوں خلیفہ نے ایسا ہی کیا ۔ جب آپ تخت پر بیٹھ گئے ۔ تو فرمایا تمہارے سوال کا جواب بعد میں دونگا ۔ پہلے تم میری بات کا جواب دو پوچھا کیا سوال ہے ۔ فرمایا کہ کیا کبھی کسی گنا ہ کے کرسکنے کی ہمت ہوتے ہوئے تم نے خو ف خدا سے اس گناہ کو ترک کیا۔ ہارون نے کہا کہ ہاں ۔ تب آپ نے فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں۔کہ تم بہشتی ہو۔تمام علمائے نے یہ سن کر کہا ۔کہ کس طرح اورکس حکم سے آپ نے فرمایا کہ قرآن کہتا ہے ۔
واما من خاف مقام ربہ ونہی النفس عن الھویO فان الجنۃ ھی الماو ی
آیت سن کر تما م علماء آفرین کہتے ہوئے کہنے لگے ۔کہ جب بچپن میں یہ حال ہے تو جوانی میں کیا ہوگا۔
نقل ہے کہ ایک دفعہ دوران درس آپ دس بار کھڑے ہوئے شاگردوں نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ فرمایا کہ ایک سید زادہ باہر کھیل رہا تھا۔ جب وہ میرے سامنے آتا تھا تو تعظیم کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا۔ کیونکہ فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے آئیں ۔ اور میں نہ اٹھوں ۔ یہ ادب اور تعظیم کے خلاف ہے ۔
نقل ہے کہ خلیفہ کے دربار میں روم سے ہر سال خراج آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ قیصر روم نے مال کے ساتھ کچھ اپنی قوم کے مذہبی عالموں کو بھیجا اور پیغام دیا ۔ کہ تم مسلمانوں سے بحث کرو۔ اگر مسلمان غالب آئے توخراج بھیج دیا جایا کریگا۔ اور اگر تم غالب آگئے ۔تو مال خراج بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ حسب خواہش قیصرروم خلیفہ نے تما م علماء کو جمع کیا سب نے بالا تفاق کہا ۔کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بحث کرینگے ۔ پھر خلیفہ کے حکم سے سب لوگ دریائے دجلہ کے کنارے جمع ہوئے امام شافعیؒ نے اپنا جائے نماز پانی کی اوپر یعنی دریا کے درمیان بچھا دیا اور بیٹھ گئے۔ اور کہا کہ جس شخص کو بحث کرنا ہو وہ میرے پاس آجائے۔ یہ حال دیکھ کروہ سب لوگ مسلمان ہو گئے۔
آپ کی قوت حافظہ اس قدر زبردست تھی کہ جو بات غور سے ایک دفعہ دیکھ لیتے وہ کبھی نہ بھولتے۔چنانچہ آپ کو قرآن حفظ نہ تھا۔ خلیفہ نے بغرض امتحان آپ کو امام بنا دیا ۔آپ روز ایک پارہ دیکھ لیتے اور رات کو پڑھ دیتے ۔ اس طر ح ایک ماہ میں قرآن شریف زبانی یاد کرلیا۔
کسی نے آپ سے نصیحت چاہی۔ آپ نے فرمایا اطاعت میں اس قدر رشک کر جس قدرلوگ مردو ں پر کرتے ہیں یعنی جس قدر اطاعت الہیٰ اس نے کی ہے۔میں اس سے زیادہ کروں ۔مگر کسی پر حد نہ کرنا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کی وفات کے پیشتر خواب دیکھا۔ کہ حضر ت آدم علیہ السلا م کا انتقال ہوگیاہے۔اور لو گ ان کا جنازہ لےجا رہے ہیں۔ میں نے اس خواب کی تعبیر ایک معتبر سے دریافت کی۔ تو اس نے کہا کہ موجودہ وقت کاسب سے بڑا عالم وفات پائیگا۔کیونکہ علم حضرت آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔اس کے بعدآپکی وفات ہوئی۔
وفات کے وقت آپ نے وصیت کی ۔کہ مجھ کو فلاں شخص غسل دے لیکن اس وقت وہ شخص مصر میں تھا۔وصیت کی تعمیل نہ ہو سکی ۔جب وہ شخص واپس آیا ۔ تو لوگوں نے اس سے یہ بات بیان کی۔اس نے کہا کہ آپ کے کاغذات لاؤ جب آپ کے کاغذ دیکھے گئے تو معلو م ہوا کہ ستر ہزار درہم قرض تھے۔ چنانچہ اس نے معاف کر دئیے اورکہا میرا ان کو غسل دینا یہی تھا۔
رفیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا اور پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ فرمایا کہ کرسی پر بٹھا کر زر و جواہر نثار کئے۔ اور چند دینا ر کے بدلے میں ستر ہزار دے کر رحمت فرمائی ۔
نقل ہے کہ ابھی آپرحمۃ اللہ علیہ کی عمر چھ سال کی تھی کہ ایک دفعہ دو شخص آپ کی والدہ کے پاس کچھ امانت رکھ گئے کچھ دنوں کے بعد ان میں سے ایک شخص واپس آیا۔ اوراپنی امانت لے کر واپس چلا گیا۔ اس وقت آپ کی والدہ موجود نہ تھیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کی والدہ کی تشریف لے آئیں۔ تو دوسرا آدمی بھی آگیا۔ اور اپنی امانت طلب کی آپ نے کہا کہ تمہار اساتھی امانت لے گیاہے۔ اس نے کہا کہ یہ اقرار نہ تھا۔ آپ کی والدہ بہت ملول ہوئیں۔ تو آپ نے کہا ۔ کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پھر دوسرے آدمی کو کہا ۔ کہ تم اپنے ساتھی کو بلاکرلے آؤ ۔ اور اپنی امانت لے جاؤ ۔یہ لفظ سن کروہ تحسین کرتا ہوا چلا گیا۔
آپ عام طور پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر کھڑے رہتے ۔ جو شخص کوئی فتوی لے کر آتا ۔ اس کو دیکھتے اگروہ درست نہ ہوتا۔ تو کہتے کہ واپس لے جاؤ ۔ اور درست کروا کر لاؤ ۔ وہ شخص واپس جا کر فتوی کی صحت طلب کرتا۔ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس فتوی کو دوبارہ ملاحظہ کرتے ۔ تو حق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف پاتے۔ اور امام مالک اس پر ناز کرتے۔
نقل ہے کہ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید اپنی بیوی زبیدہ سے مناظرہ کررہا تھا۔ اثنائے گفتگو میں زبیدہ نے ہارون الرشید کو دوزخی کہہ دیا ۔ ہارون نے کہا اگر میں دوزخی ہوں تو تم کو طلاق ۔غرض دونوں جدا ہو گئے ۔ چو نکہ خلیفہ کوزبیدہ سے بہت محبت تھی۔ اور زبیدہ بھی خلیفہ کو نہایت محبوب رکھتی تھی۔ اس لئے دونوں بے قرار ہوئے ۔ تما م علمائے کرام کو جمع کرکے فتوی طلب کیا ۔مگر سب چپ رہے اور کہنے لگے کہ سوائے خدا و ند کریم کے کوئی نہیں جانتا ۔ کہ خلیفہ دوزخی ہے یا بہشتی ۔ اس وقت آپ مجلس میں موجود تھے اور عمر بھی ابھی گیارہ سال کی تھی۔آپ نے کھڑے ہو کر کہا کہ اس مسئلہ کا جواب میں دیتا ہوں ۔ سب لوگ حیران رہ گئے ۔ کہ ایک بچہ کیا جواب دے سکتا ہے۔ تب ہارون نے آپ کے نزدیک سے پوچھا ۔تو آپ نے کہا ۔ کہ چونکہ آپ سائل ہیں ۔ اس لئے تخت سے نیچے اتر جائیں ۔ اور مجھ کو تخت پر جگہ دیں۔ تب میں جواب دوں خلیفہ نے ایسا ہی کیا ۔ جب آپ تخت پر بیٹھ گئے ۔ تو فرمایا تمہارے سوال کا جواب بعد میں دونگا ۔ پہلے تم میری بات کا جواب دو پوچھا کیا سوال ہے ۔ فرمایا کہ کیا کبھی کسی گنا ہ کے کرسکنے کی ہمت ہوتے ہوئے تم نے خو ف خدا سے اس گناہ کو ترک کیا۔ ہارون نے کہا کہ ہاں ۔ تب آپ نے فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں۔کہ تم بہشتی ہو۔تمام علمائے نے یہ سن کر کہا ۔کہ کس طرح اورکس حکم سے آپ نے فرمایا کہ قرآن کہتا ہے ۔
واما من خاف مقام ربہ ونہی النفس عن الھویO فان الجنۃ ھی الماو ی
آیت سن کر تما م علماء آفرین کہتے ہوئے کہنے لگے ۔کہ جب بچپن میں یہ حال ہے تو جوانی میں کیا ہوگا۔
نقل ہے کہ ایک دفعہ دوران درس آپ دس بار کھڑے ہوئے شاگردوں نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ فرمایا کہ ایک سید زادہ باہر کھیل رہا تھا۔ جب وہ میرے سامنے آتا تھا تو تعظیم کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا۔ کیونکہ فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے آئیں ۔ اور میں نہ اٹھوں ۔ یہ ادب اور تعظیم کے خلاف ہے ۔
نقل ہے کہ خلیفہ کے دربار میں روم سے ہر سال خراج آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ قیصر روم نے مال کے ساتھ کچھ اپنی قوم کے مذہبی عالموں کو بھیجا اور پیغام دیا ۔ کہ تم مسلمانوں سے بحث کرو۔ اگر مسلمان غالب آئے توخراج بھیج دیا جایا کریگا۔ اور اگر تم غالب آگئے ۔تو مال خراج بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ حسب خواہش قیصرروم خلیفہ نے تما م علماء کو جمع کیا سب نے بالا تفاق کہا ۔کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بحث کرینگے ۔ پھر خلیفہ کے حکم سے سب لوگ دریائے دجلہ کے کنارے جمع ہوئے امام شافعیؒ نے اپنا جائے نماز پانی کی اوپر یعنی دریا کے درمیان بچھا دیا اور بیٹھ گئے۔ اور کہا کہ جس شخص کو بحث کرنا ہو وہ میرے پاس آجائے۔ یہ حال دیکھ کروہ سب لوگ مسلمان ہو گئے۔
آپ کی قوت حافظہ اس قدر زبردست تھی کہ جو بات غور سے ایک دفعہ دیکھ لیتے وہ کبھی نہ بھولتے۔چنانچہ آپ کو قرآن حفظ نہ تھا۔ خلیفہ نے بغرض امتحان آپ کو امام بنا دیا ۔آپ روز ایک پارہ دیکھ لیتے اور رات کو پڑھ دیتے ۔ اس طر ح ایک ماہ میں قرآن شریف زبانی یاد کرلیا۔
کسی نے آپ سے نصیحت چاہی۔ آپ نے فرمایا اطاعت میں اس قدر رشک کر جس قدرلوگ مردو ں پر کرتے ہیں یعنی جس قدر اطاعت الہیٰ اس نے کی ہے۔میں اس سے زیادہ کروں ۔مگر کسی پر حد نہ کرنا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کی وفات کے پیشتر خواب دیکھا۔ کہ حضر ت آدم علیہ السلا م کا انتقال ہوگیاہے۔اور لو گ ان کا جنازہ لےجا رہے ہیں۔ میں نے اس خواب کی تعبیر ایک معتبر سے دریافت کی۔ تو اس نے کہا کہ موجودہ وقت کاسب سے بڑا عالم وفات پائیگا۔کیونکہ علم حضرت آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔اس کے بعدآپکی وفات ہوئی۔
وفات کے وقت آپ نے وصیت کی ۔کہ مجھ کو فلاں شخص غسل دے لیکن اس وقت وہ شخص مصر میں تھا۔وصیت کی تعمیل نہ ہو سکی ۔جب وہ شخص واپس آیا ۔ تو لوگوں نے اس سے یہ بات بیان کی۔اس نے کہا کہ آپ کے کاغذات لاؤ جب آپ کے کاغذ دیکھے گئے تو معلو م ہوا کہ ستر ہزار درہم قرض تھے۔ چنانچہ اس نے معاف کر دئیے اورکہا میرا ان کو غسل دینا یہی تھا۔
رفیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا اور پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ فرمایا کہ کرسی پر بٹھا کر زر و جواہر نثار کئے۔ اور چند دینا ر کے بدلے میں ستر ہزار دے کر رحمت فرمائی ۔