اقتباسات حضرت امام غزالی ؒ کی کتاب " کیمیائے سعادت "

کیمیاء سعادت ، احیاء العلوم الدین کا ہی اختصار ہے
دستورِ حیات میں ابوالحسن علی ندوی ؒ نے تلخیص قرار دیا ہے، دوسرا احتمال یہ قرار دیاہے کہ یہ بھی احیاء کی طرح مستقل کتاب ہے جوکہ عجمیوں کےلیے لکھی گئی ہے۔ واللہ اعلم
 

محمد فہد

محفلین
کیمیائے سعادت تصنیف حُجتہ الاسلام امام ابوُ حامد محمدغزالی رحمتہ اللہ علیہ ۔۔۔

امام غزالی کی دوسری اہم تصنیف ،،اکسیر ہدایت ،،ہے جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی لیکن بعد میں اس کا ترجمعہ فارسی میں “کیمیائے سعادت”کے نام سے کیا ۔
“احیائ العلوم الدین”
کا فارسی زبان میں ترجمعہ و خلاصہ ہے۔ سلجوقی دور کی ایک زندہ جاوید کتاب ”کیمیائے سعادت”ہے جس کے مصنف محمد غزالی ہیں۔ اور ترجمعہ فخر الدین کا ہے۔ ۔ اور باقی کسی کو تحقیق کی رغبت اور شوق ہو تو اسے دوسری کتابوں کا مطالہ کرنا چاپیے جو عربی میں ہیں۔
احیاء العوم، جواہر القرآن، یا دوسری تصانیف جو اس سے متعلق ہیں ۔۔۔۔


 

محمد فہد

محفلین
تمام احباب کا بہت مشکور ہوں ، اللہ کریم آپ سب کے علم میں مذید اضافہ فرمائے۔۔۔۔۔۔ آمین
نایاب بھائی ، اللہ آپ کو سدا خوش رکھے۔۔۔ ۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر صحت و ایمان والی لمبی زندگی عطاء فرمائے ۔۔۔آمین
بہت عمدہ تحریر ۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔
 

محمد فہد

محفلین
روحانی بابا بھائی، دعا کردیا کریں اور ان شا ء اللہ فراغت پاتے ہی مطالہ کرتا رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کریم ، آپ کو دین و دینا کی فلاح نصیب فرمائے ۔۔۔۔آمین۔۔۔
 

محمد فہد

محفلین
کیمیائے سعادت از امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ
اپنے آپ کو پہچاننے کا بیان، (صفحہ نمبر بیس تا اکیس)



اے عزیز اس حقیقت کو اچھی طرح جان لے کہ اپنے آپ کو پہچاننا ہی معرفت حق کی کنجی ہے۔۔۔
(من عرف نفسه فقد عرف ربه) اور اللہ تعالی نے فرمایا
( سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ )

اے پیارے! ساری دینا میں کوئی بھی چیز تیرے مقابلہ میں تجھ سے زیادہ قریب نہیں۔۔۔
اگر تو اپنے آپ کو نہیں پہچانے گا اور کس کو جانےگا۔۔۔۔؟؟؟
اگر تو یہ کہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانتے ہیں، تو غلطی کرگیا کیونکہ ایسی پہچان اللہ تعالی کی معرفت کی کنجی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس طرح تو جانور بھی اپنے آپ کو پہچانتے ہیں جیسے تو اپنے ظاہری اعضاء، سر، منہ، ہاتھ اور گوشت کو پہچانتا ہے۔۔۔اور اپنے باطن سے اتنا واقف ہے، کہ بھوک کے وقت روٹی کھاتا ہے، غصہ میں ہوتا ہے تو کسی سے الجھ پڑتا ہے اور شہوت کا غلبہ ہوتا ہے تو نکاح کر گزرتا ہے اس بات میں جانوروں اور تجھ میں کوئی فرق نہیں اصل میں تجھے جاننا یہ چاہے کہ تو "کون" ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟"کہاں" سے آیا ہیے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟"کہاں" جائے گا۔۔۔۔۔؟؟؟"یہاں" آیا کیوں ہے۔۔۔۔۔؟؟؟اللہ تعالی نے تجھے" کیوں پیدا" کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟تیری نیک بختی کس میں ہے اور بد بختی کس میں۔۔۔۔؟؟؟جو صفات و عادات تیرے اندر ہے ان میں سے بعض چرندوں اور پرندوں، میں بھی ہے۔۔۔۔اور بعض شیاطین میں ہیں اور بعض میں تو فرشتے برابر ہیں۔۔۔۔تیری اصل کیا ہے، اور کونسی صفات تیرے اندر عاریۃ ہیں۔۔۔جب تک تو یہ نہیں پہچانے گا سعادت حاصل نہیں کرسکے گا۔۔۔۔۔ان میں سے ہر ایک کی غزا جدا جدا ہے اور سعادت و نیک بختی کے اسباب و عوامل بھی جدا جدا ہیں۔۔۔کھانا، پینا، سونا، موٹا، اور قوی ہونا چار پایوں کی غزا اور سعادت اگر تو بھی چار پایہ ہے تو رات دن تیری یہی خواہش و کوشیش ہوگی کہ تیرے پیٹ اور شرمگاہ کا کام بنے، مارنا اور مارڈالنا جیسی چیزں درندون سے متعلق ہیں یہی ان کی غزا اور سعادت ہے۔۔۔جبکہ شرط اور حلیہ اور مکروفریب شیطان کاکام ہے۔۔اگر تیرا تعلق شیاطین سے ہے اور تو بھی انہی کاموں میں مشغول رہ تاکہ تجھے آرام ملے اور نیک بختی تیرے ہاتھ آئے۔۔۔۔اللہ تعالی کا جمال دیکھنا فروشتوں کی غزا اور سعادت ہے۔۔۔چار پایوں اور درندوں کی صفات کاان میں دخل نہیں پس اگر تو فروشتوں سے ہے۔۔۔۔تو تو بھی کوشیش کر کہ اللہ تعالی کو پہچانے اور تجھے اسکے جمال کا مشاہدہ نصیب ہو اور تجھے شہوت و غصہ سے چھٹکارا نصیب ہو اور اس بات کی تلاش و جستجو میں اتنا منہک ہوجا کہ تجھے معلوم ہوجائے اللہ تعالی نے چرندوں اور درندوں کی صفات تیرے اندر پیدا کیوں کی !
اس لیے کہ وہ تجھے اپنا قیدی بنائیں اور دن رات تجھ سے بیگار لیں یا اس واسطے کہ تو انہیں اپنا قیدی بنائے اور تجھ کو جو سفر پیش ہو تو اس میں تو انہیں تابع بنائے اور ایک کو بطور سواری اور دوسرے کو بطور ہتھیار اور استعمال کرے اور دینا کی چند روزہ زندگی میں ان کو اپنے کام میں لائے تاکہ ان میں مدد سے سعادت کا بیج تیرے ہاتھ لگے اور تو انہیں ماتحت و مغلوب رکھ کر مقام سعادت کی طرف متوجہ ہو جائے۔۔۔۔۔خاص لوگ اس مقام کو جناب الہیت اور عوام جنت کہتے ہیں۔۔۔۔۔اور تیرا فرض ہے کہ تو یہ سب باتیں جانے تاکہ تجھے اپنی معرفت نصیب ہو اور جس نے ان حقائق کو نہ جانا دین سے خبالت اسکا مقدر رہا اور وہ دین کی حقیقت سے محروم رہا۔۔۔۔۔

فضل
اے پیارے ! اگر تو اپنے آپ کو جاننا چاہتا ہے۔ تو تجھے یہ بات سمجھنی چاہے کہ اللہ تعالی نے تجھے دو چیزوں سے پیدا کیا ہے۔۔۔ ایک ظاہری ڈھانچہ جسے بدن کہتے ہیں۔ اور ظاہری آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہیے۔۔ دوسرے باطنی حقیقت جسے "نفس، دل،" اور جان کہا جاتا ہے اور اسے فقط باطن کی آنکھ سے پہچان سکتے ہیں۔۔۔۔۔ظاہر کی آنکھ سے اسکو نہیں دیکھ سکتے۔۔۔۔۔یہی باطنی معنی تیری حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔اس کہ سوا جو چیزیں ہیں، وہ اس کہ تابع اور خدمتگار ہیں۔۔۔اور ہم اس حقیقت کو دل کہتے ہیں۔۔ہم جب دل کی بات کہیں گے تو اس سے انسان کی حقیقت مراد ہوگی اس حقیقت کو کبھی روح کہتے ہیں۔۔۔کبھی نفس اور دل سے وہ گوشت کا لوتھڑا مراد نہیں جو سینہ میں بائیں طرف موجود ہے۔۔ کیونکہ وہ تو جانوروں اور مردوں کے بھی ہوتا ہے۔۔۔اس دل کو جو حقیقت انسان ہے ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے جو چیز ظاہری آنکھ سے دکھائی دے اس کا تعلق اس عالم سے ہے جس کو عالمِ شہادت کہا جاتا ہے۔۔۔۔اور دل کی حقیقت کا اس عالم سے کوئی تعلق نہیں ہاں اس عالم کا مسافرانہ طور پر آیا ہے بس۔۔۔۔۔۔۔
ظاہری گوشت کا لوتھڑا اس دل کی سواری اور ہتھیا ر بدن کے سب اعضاء اس کا لشکر ہیں۔۔۔وہ تمام بدن کا بادشاہ اور اور افسر ہے، اللہ تعالی کی معرفت اور اس کے جمال کا مشاہدہ اسی دل کی صفت ہے۔۔۔ اور یہی عبادت کا مکلف ہے۔۔خطاب اسی کو ہوتا ہے۔۔۔اور ثواب و عذاب کا تعلق بھی اسی سے ہے۔۔۔ سعادت و شفاقت اسی سے متعلق ہیں۔۔اور ان تمام باتوں میں بدن اس کا تابع ہے۔۔
اس حقیقت اور صفات کا پہچاننا اللہ تعالی کی معرفت کی کنجی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top