نیلم
محفلین
حضرت خواجہ حسن بصری رحمته الله علیه
( حصہ اول )
آپکی والده محترمه ، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنها کی کنیز تھیں . جب بچپن میں آپکی والده کسی کام میں مصروف ہوتیں اور آپ بهوک سے روتے تو ام المومنین آپ کو اپنا دودھ پلاتیں .
بچپن میں ایک دن آپ نے حضور اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے پیالے سے پانی پی لیا . جب حضور اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا که میرے پیالے کا پانی کس نے پیا هے تو حضرت ام سلمہ رضی الله عنھا نے کہا که حسن نے . یه سنکر نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا اسنے جس قدر پانی پیا اسی قدر میرا علم اس میں اثر کر گیا .
اسی طرح ایک دن نبی اقدس صلی الله علیه وآله وسلم حضرت ام سلمہ رضی الله عنھا کے مکان پر تشریف لائے تو انھوں نے حضرت حسن کو آپ صلی الله علیه وآله وسلم کی گود میں ڈال دیا . تب نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم نے آپکے لئے دعا فرمائی اور اس دعا کا فیضان ہی تها که حضرت حسن کو ایسے اعلی مراتب عطا ہوئے .
حضرت ام سلمہ رضی الله عنھا بھی آپکے لئے دعا فرمایا کرتیں که یا الله حسن کو مخلوق کا رہنما بنا دے .
ولادت کے بعد آپکو حضرت عمر رضی الله عنه کی خدمت میں پیش کیا گیا تو انھوں نے فرمایا اسکا نام حسن رکهو کیونکہ یه بہت ہی خوبرو ہے . لہذا آپکا نام حسن رکها گیا .
آپکو ایک سو بیس صحابه سے شرف _ نیاز حاصل هوا جن میں ستر شھدائے بدر شامل هیں . آپ حضرت حسن بن علی رضی الله عنه اور بعض روایات کے مطابق حضرت علی رضی الله عنه سے بیعت تھے .
ابتدائی دور میں موتیوں کی تجارت کرتے تهے جسکی وجه سے آپکا نام حسن موتیوں والا پڑ گیا . ایک مرتبہ آپ اپنے گهر کی چھت پر اسطرح گریه کناں تهے که آنسو چھت کے پرنالے سے بہہ نکلے . اور گلی سے گزرتے ایک شخص کے کپڑوں پر کچھ چھینٹے پڑ گئے . اس نے آواز دیکر پوچھا کیا یه پانی پاک ہے ؟
آپ نے جواب دیا اپنے کپڑے پاک کر لینا کیونکہ یه ایک گناه گار کے آنسو هیں .
بچپن میں آپ سے ایک گناه سرزد هو گیا . جب کوئی نیا لباس تیار کراتے تو وه گناه اسکے گریبان پر درج کر دیتے اور جب اسے دیکھتے تو اسقدر روتے که غشی طاری هو جاتی .
شمعون نامی ایک آتش پرست آپکا ہمسایه تها جب وه مرض الموت میں مبتلا ہوا تو آپ نے دیکھا که اسکا جسم سیاه ہو گیا . آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی . اسنے کہا میں اسلام سے تین باتوں کی وجه سے بر گشته هوں ،
اول : جب دنیا بری چیز هے تو تم لوگ اسکی جستجو کیوں کرتے هو ؟
دوم : موت کو یقینی تصور کرتے هو پهر اسکا سامان کیوں نہیں کرتے ؟
سوم : اگر خدا کے دیدار کو اچھا سمجھتے هو تو دنیا میں اسکی مرضی کے خلاف کام کیوں کرتے هو ؟
آپ نے فرمایا یه مسلمانوں کے افعال هیں ، اسلام کے عقائد نہیں . مگر مسلمان کم از کم واحدانیت کو تو تسلیم کرتے هیں . اگر هم دونوں آگ میں پڑیں تو کیا آگ هم دونوں کو برابر جلائے گی یا تیری ستر سال کی عبادت کا خیال کریگی ؟
لیکن میرے الله کے پاس یه طاقت هے که وه چاهے تو آگ مجھے نه جلائے . یه کہه کر آپ نے اپنا هاتھ آگ میں ڈال دیا لیکن آپکے هاتھ کو کوئی نقصان نه پہنچا .
شمعون نے پوچھا میں ستر سال سے آتش پرستی میں مبتلا هوں اب آخری وقت میں کیا مسلمان هوں گا ؟
آپ نے دوبارہ مسلمان هونے کیلئے اصرار کیا تو اسنے کہا میں اس شرط پر مسلمان هو سکتا هوں که اگر آپ مجھے عہد نامه تحریر کر کے دیں که میرے مسلمان هو جانے سے الله میری مغفرت فرما دیگا .
آپ نے اسے عہد نامه تحریر کر دیا لیکن اسنے کہا که اس پر بصرہ کے صاحب _ عدل لوگوں کی گواہی بهی دلوائیں . آپ نے شہادتیں بهی تحریر کروا دیں جس پر شمعون کلمہ پڑھ کر مسلمان هو گیا اور درخواست کی که میرے مرنے کے بعد آپ هی مجهے اپنے هاتھوں سے غسل و کفن دیں اور یه عہد نامه میرے هاتھ میں رکھ دیں تاکہ روز حشر میرے پاس ثبوت هو .
اسکے بعد کلمہ پڑهتا هوا دنیا سے رخصت هو گیا .
آپ نے اسکی پوری وصیت پر عمل کیا .
اسی رات خواب میں شمعون کو اعلی لباس اور تاج _ زریں میں ملبوس جنت کی سیر کرتے دیکھا اور پوچھا که کیا گزری ؟
اسنے کہا الله نے اپنے فضل سے میری مغفرت فرما دی هے . اب مجهے آپکے عہد نامے کی ضرورت نہیں لہذا آپ اپنا عہد نامه واپس لے لیں .
جب صبح بیدار ہوئے تو وه عہد نامه آپکے ہاتھ میں تها .آپ نے الله کا شکر ادا کیا اور فرمایا اے الله ! تیرا فضل کسی سبب کا محتاج نہیں . اگر ستر سال آتش پرستی کرنے والے کو محض کلمہ پڑھنے سے بخش دیتا ہے تو وه تیرے فضل سے کیسے محروم ره سکتا هے جس نے ستر سال تیری عبادت میں گزارے ہوں ؟
( جاری هے )
( حصہ اول )
آپکی والده محترمه ، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنها کی کنیز تھیں . جب بچپن میں آپکی والده کسی کام میں مصروف ہوتیں اور آپ بهوک سے روتے تو ام المومنین آپ کو اپنا دودھ پلاتیں .
بچپن میں ایک دن آپ نے حضور اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے پیالے سے پانی پی لیا . جب حضور اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا که میرے پیالے کا پانی کس نے پیا هے تو حضرت ام سلمہ رضی الله عنھا نے کہا که حسن نے . یه سنکر نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا اسنے جس قدر پانی پیا اسی قدر میرا علم اس میں اثر کر گیا .
اسی طرح ایک دن نبی اقدس صلی الله علیه وآله وسلم حضرت ام سلمہ رضی الله عنھا کے مکان پر تشریف لائے تو انھوں نے حضرت حسن کو آپ صلی الله علیه وآله وسلم کی گود میں ڈال دیا . تب نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم نے آپکے لئے دعا فرمائی اور اس دعا کا فیضان ہی تها که حضرت حسن کو ایسے اعلی مراتب عطا ہوئے .
حضرت ام سلمہ رضی الله عنھا بھی آپکے لئے دعا فرمایا کرتیں که یا الله حسن کو مخلوق کا رہنما بنا دے .
ولادت کے بعد آپکو حضرت عمر رضی الله عنه کی خدمت میں پیش کیا گیا تو انھوں نے فرمایا اسکا نام حسن رکهو کیونکہ یه بہت ہی خوبرو ہے . لہذا آپکا نام حسن رکها گیا .
آپکو ایک سو بیس صحابه سے شرف _ نیاز حاصل هوا جن میں ستر شھدائے بدر شامل هیں . آپ حضرت حسن بن علی رضی الله عنه اور بعض روایات کے مطابق حضرت علی رضی الله عنه سے بیعت تھے .
ابتدائی دور میں موتیوں کی تجارت کرتے تهے جسکی وجه سے آپکا نام حسن موتیوں والا پڑ گیا . ایک مرتبہ آپ اپنے گهر کی چھت پر اسطرح گریه کناں تهے که آنسو چھت کے پرنالے سے بہہ نکلے . اور گلی سے گزرتے ایک شخص کے کپڑوں پر کچھ چھینٹے پڑ گئے . اس نے آواز دیکر پوچھا کیا یه پانی پاک ہے ؟
آپ نے جواب دیا اپنے کپڑے پاک کر لینا کیونکہ یه ایک گناه گار کے آنسو هیں .
بچپن میں آپ سے ایک گناه سرزد هو گیا . جب کوئی نیا لباس تیار کراتے تو وه گناه اسکے گریبان پر درج کر دیتے اور جب اسے دیکھتے تو اسقدر روتے که غشی طاری هو جاتی .
شمعون نامی ایک آتش پرست آپکا ہمسایه تها جب وه مرض الموت میں مبتلا ہوا تو آپ نے دیکھا که اسکا جسم سیاه ہو گیا . آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی . اسنے کہا میں اسلام سے تین باتوں کی وجه سے بر گشته هوں ،
اول : جب دنیا بری چیز هے تو تم لوگ اسکی جستجو کیوں کرتے هو ؟
دوم : موت کو یقینی تصور کرتے هو پهر اسکا سامان کیوں نہیں کرتے ؟
سوم : اگر خدا کے دیدار کو اچھا سمجھتے هو تو دنیا میں اسکی مرضی کے خلاف کام کیوں کرتے هو ؟
آپ نے فرمایا یه مسلمانوں کے افعال هیں ، اسلام کے عقائد نہیں . مگر مسلمان کم از کم واحدانیت کو تو تسلیم کرتے هیں . اگر هم دونوں آگ میں پڑیں تو کیا آگ هم دونوں کو برابر جلائے گی یا تیری ستر سال کی عبادت کا خیال کریگی ؟
لیکن میرے الله کے پاس یه طاقت هے که وه چاهے تو آگ مجھے نه جلائے . یه کہه کر آپ نے اپنا هاتھ آگ میں ڈال دیا لیکن آپکے هاتھ کو کوئی نقصان نه پہنچا .
شمعون نے پوچھا میں ستر سال سے آتش پرستی میں مبتلا هوں اب آخری وقت میں کیا مسلمان هوں گا ؟
آپ نے دوبارہ مسلمان هونے کیلئے اصرار کیا تو اسنے کہا میں اس شرط پر مسلمان هو سکتا هوں که اگر آپ مجھے عہد نامه تحریر کر کے دیں که میرے مسلمان هو جانے سے الله میری مغفرت فرما دیگا .
آپ نے اسے عہد نامه تحریر کر دیا لیکن اسنے کہا که اس پر بصرہ کے صاحب _ عدل لوگوں کی گواہی بهی دلوائیں . آپ نے شہادتیں بهی تحریر کروا دیں جس پر شمعون کلمہ پڑھ کر مسلمان هو گیا اور درخواست کی که میرے مرنے کے بعد آپ هی مجهے اپنے هاتھوں سے غسل و کفن دیں اور یه عہد نامه میرے هاتھ میں رکھ دیں تاکہ روز حشر میرے پاس ثبوت هو .
اسکے بعد کلمہ پڑهتا هوا دنیا سے رخصت هو گیا .
آپ نے اسکی پوری وصیت پر عمل کیا .
اسی رات خواب میں شمعون کو اعلی لباس اور تاج _ زریں میں ملبوس جنت کی سیر کرتے دیکھا اور پوچھا که کیا گزری ؟
اسنے کہا الله نے اپنے فضل سے میری مغفرت فرما دی هے . اب مجهے آپکے عہد نامے کی ضرورت نہیں لہذا آپ اپنا عہد نامه واپس لے لیں .
جب صبح بیدار ہوئے تو وه عہد نامه آپکے ہاتھ میں تها .آپ نے الله کا شکر ادا کیا اور فرمایا اے الله ! تیرا فضل کسی سبب کا محتاج نہیں . اگر ستر سال آتش پرستی کرنے والے کو محض کلمہ پڑھنے سے بخش دیتا ہے تو وه تیرے فضل سے کیسے محروم ره سکتا هے جس نے ستر سال تیری عبادت میں گزارے ہوں ؟
( جاری هے )