حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کا عجیب واقعہ

عدیل منا

محفلین
اس واقعہ میں بہت سی ہدایات ہیں۔ مثلاََ یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جن کو ایسی بے مثل حکومت و سلطنت حاصل تھی کہ صرف ساری دنیا پر ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی ان کی حکومت تھی، مگر ان سب سامانوں کے باوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی اور یہ کہ موت تو مقررہ وقت پر آنی تھی۔ بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داؤد علیہ السلام نے شروع کی، پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل فرمائی، اس میں کچھ کام تعمیر کا باقی تھا اور یہ تعمیر کا کام جنات کے سپرد تھا، جن کی طبیعت میں سر کشی غالب تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خوف سے جنات کام کرتے تھے، ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجائے تو فوراََ کام چھوڑ بیٹھیں اور تعمیر رہ جائے۔ اس کا انتظام حضرت سلیمان علیہ السلام نے باِذنِ ربانی یہ کیا کہ جب موت کا وقت آیا تو موت کی تیاری کرکے اپنی محراب میں داخل ہوگئے، جو شفاف شیشے سے بنی ہوئی تھی۔ باہر سے اندر کی سب چیزیں نظر آتی تھیں اور اپنے معمول کے مطابق عبادت کیلئے ایک سہارا لے کر کھڑے ہوگئے کہ روح پرواز کرنے کے بعد بھی جسم اس عصاء کے سہارے اپنی جگہ جما رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی روح وقت مقرر پر قبض کرلی گئی، مگر وہ اپنے عصاء کے سہارے اپنی جگہ جمے ہوئے باہر سے ایسے نظر آتے کہ عبادت میں مشغول ہیں۔ جنات کی یہ مجال نہ تھی کہ پاس آکر دیکھ سکتے، وہ سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھ کر کام میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سال بھر گزر گیا اور تعمیر بیت المقدس کا بقیہ کام پورا ہوگیا تو اللہ تعالٰی نے گھن کے کیڑے کو جس کو اردو میں دیمک کہا جاتا ہے اور قرآن کریم نے اس کو دابتہ الارض کے نام سے موسوم کیا ہے، عصائے سلیمانی پر مسلط کردیا۔ دیمک نے عصاء کی لکڑی کو اندر سے کھا کر کمزور کردیا۔ عصاء کا سہارا ختم ہوا تو سلیمان علیہ السلام گرگئے۔ اس وقت جنات کو ان کی موت کی خبر ہوئی۔​
جنات کو اللہ تعالٰی نے دور دراز کی مسافت چند لمحات میں قطع کر لینے کی قوت عطا فرمائی ہے، وہ بہت سے ایسے حالات و واقعات سے واقف ہوتے تھے جن کو انسان نہیں جانتے، جب وہ انسانوں کو ان واقعات کی خبر دیتے تو انسان یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیب کی خبر ہے اور جنات کو بھی علم غیب حاصل ہے۔( خود جنات کو بھی علم غیب کا دعوٰی ہوتو بعید نہیں۔) موت کے اس عجیب واقعہ نے اس کی بھی حقیقت کھول دی۔ خود جنات کو بھی پتہ چل گیا اور سب انسانوں کو بھی کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کو غیب کا علم ہوتا تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت سے ایک سال پہلےہی باخبر ہوجاتے۔​
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت
جزاک اللہ خیراء محترم بھائی
اس قصے کوعلماء نے بہت سی حکمتوں کو بیان کرنے کی بنیاد بنایا ہے ۔
 

x boy

محفلین
اس واقعہ میں بہت سی ہدایات ہیں۔ مثلاََ یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جن کو ایسی بے مثل حکومت و سلطنت حاصل تھی کہ صرف ساری دنیا پر ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی ان کی حکومت تھی، مگر ان سب سامانوں کے باوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی اور یہ کہ موت تو مقررہ وقت پر آنی تھی۔ بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داؤد علیہ السلام نے شروع کی، پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل فرمائی، اس میں کچھ کام تعمیر کا باقی تھا اور یہ تعمیر کا کام جنات کے سپرد تھا، جن کی طبیعت میں سر کشی غالب تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خوف سے جنات کام کرتے تھے، ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجائے تو فوراََ کام چھوڑ بیٹھیں اور تعمیر رہ جائے۔ اس کا انتظام حضرت سلیمان علیہ السلام نے باِذنِ ربانی یہ کیا کہ جب موت کا وقت آیا تو موت کی تیاری کرکے اپنی محراب میں داخل ہوگئے، جو شفاف شیشے سے بنی ہوئی تھی۔ باہر سے اندر کی سب چیزیں نظر آتی تھیں اور اپنے معمول کے مطابق عبادت کیلئے ایک سہارا لے کر کھڑے ہوگئے کہ روح پرواز کرنے کے بعد بھی جسم اس عصاء کے سہارے اپنی جگہ جما رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی روح وقت مقرر پر قبض کرلی گئی، مگر وہ اپنے عصاء کے سہارے اپنی جگہ جمے ہوئے باہر سے ایسے نظر آتے کہ عبادت میں مشغول ہیں۔ جنات کی یہ مجال نہ تھی کہ پاس آکر دیکھ سکتے، وہ سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھ کر کام میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سال بھر گزر گیا اور تعمیر بیت المقدس کا بقیہ کام پورا ہوگیا تو اللہ تعالٰی نے گھن کے کیڑے کو جس کو اردو میں دیمک کہا جاتا ہے اور قرآن کریم نے اس کو دابتہ الارض کے نام سے موسوم کیا ہے، عصائے سلیمانی پر مسلط کردیا۔ دیمک نے عصاء کی لکڑی کو اندر سے کھا کر کمزور کردیا۔ عصاء کا سہارا ختم ہوا تو سلیمان علیہ السلام گرگئے۔ اس وقت جنات کو ان کی موت کی خبر ہوئی۔
جنات کو اللہ تعالٰی نے دور دراز کی مسافت چند لمحات میں قطع کر لینے کی قوت عطا فرمائی ہے، وہ بہت سے ایسے حالات و واقعات سے واقف ہوتے تھے جن کو انسان نہیں جانتے، جب وہ انسانوں کو ان واقعات کی خبر دیتے تو انسان یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیب کی خبر ہے اور جنات کو بھی علم غیب حاصل ہے۔( خود جنات کو بھی علم غیب کا دعوٰی ہوتو بعید نہیں۔) موت کے اس عجیب واقعہ نے اس کی بھی حقیقت کھول دی۔ خود جنات کو بھی پتہ چل گیا اور سب انسانوں کو بھی کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کو غیب کا علم ہوتا تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت سے ایک سال پہلےہی باخبر ہوجاتے۔



بالکل صحیح
۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر۔

اس واقعہ سے ایک حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ جنات کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔
 
مجھے ایک چیز کنفیوز کر رہی ہے کہ وہ تعمیر کتنی نادر اور اعلی ہونی چاہئے جس کو جنات نے کئی سال میں تعمیر کیا۔ کوئی بھائی اس بارے میں تفصیل بتا سکتا ہے؟
 

زیک

مسافر
مجھے ایک چیز کنفیوز کر رہی ہے کہ وہ تعمیر کتنی نادر اور اعلی ہونی چاہئے جس کو جنات نے کئی سال میں تعمیر کیا۔ کوئی بھائی اس بارے میں تفصیل بتا سکتا ہے؟
مسجد اقصی کے ساتھ کھدائی کرنی چاہیئے تاکہ ہیکل سلیمانی کا صحیح پتا چل سکے۔
 
مسجد اقصی کے ساتھ کھدائی کرنی چاہیئے تاکہ ہیکل سلیمانی کا صحیح پتا چل سکے۔
کیا پچھلے تین ہزار سال میں اس علاقے میں ایسی جغرافیائی تبدیلیاں آئی ہیں کہ جن سے کسی عظیم شان عمارت یا بستی کے زمین کے اندر دھنس جانے کا اندیشہ ہو۔
 

زیک

مسافر
کیا پچھلے تین ہزار سال میں اس علاقے میں ایسی جغرافیائی تبدیلیاں آئی ہیں کہ جن سے کسی عظیم شان عمارت یا بستی کے زمین کے اندر دھنس جانے کا اندیشہ ہو۔
کیا آپ کے علم میں نہیں کہ پرانے کھنڈرات کھود کر ہی دریافت ہوتے ہیں؟
 
Top