خواجہ طلحہ
محفلین
سوسائٹی اور مذہب لازم و ملزوم ہیں۔ مذہب کسی منجمد تصور کا نام نہیں، بلکہ مذہب اور سوسائٹی دونوں ایک ادارے یا جسم نامی یا ایک درخت کی طرح ارتقاء اور انحطاط سے اثر پذیر ہیں، جس طرح شجر کا بیج لگائیں تو وہ پھوٹ نکلتا ہے،پھر بڑھنے لگتا ہے، پھر جوان ہوکر پھلتا پھولتا ہے،کئی سال اس سلسلہ برگ و بار کا پر بہار منظر پیش کرتے کرتے پھر بتدریج کمزور ہوتا چلا جاتا ہے،حتٰی کہ ایک زور دار جھکڑ میں اسکی جڑیں زمینی پیوند سے دامن چھڑا چکی ہوتی ہیں۔ پچاس فٹ کی بلندی پر فضا میں جھومنے والی شاخیں سطح زمین پر افسردہ و پژمردہ پڑی ہوتی ہیں اور ننھے بچے اس مرحوم پیٹر کے ساتھ کھیل رچا رہے ہوتے ہیں، اسی طرح ہر مذہب اور سوسائٹی اپنے آغاز ،ارتقاء عروج او کہولت اور پھر کہنگی و مردنی کی طرف افلاس حیات یا منازل زوال و انحاط کا مرحلہ بہ مرحلہ سفر، ایک زور دار قانون طبیعت کے تحت لا شعوری طور پر خود بخود انجام دے رہی ہے۔، یکساں اور ہموار رفتار کے ساتھ بالاستقلال اور بلا ستمرار اگر کوئی حقیقت پائیدار و استوار ہے تو فقط مشیت ربانی کا بہتا ہوا دھارا ہے اور ہر چیز قطعا زوال پذیر ہے۔
"دیباچہ ہو المعظم ﴿ص30- 31﴾" نگارش سے اقتباس
"دیباچہ ہو المعظم ﴿ص30- 31﴾" نگارش سے اقتباس