کعنان
محفلین
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کیا تھی؟
عظیم الرحمن عثمانی29/12/2016
ایک سوال جو اسلام کے حوالے سے اکثر پوچھا جاتا ہے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق ہے.
آپ کی عمر کو لے کر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام ایک ظالم اور غیرفطری دین ہے.
یہ پوچھا جاتا ہے کہ وقت کا نبی کیسے ایک کم عمر لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے؟
چلیں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ الزام واقعی درست ہے؟
اور اسے دیکھنے کے کیا ممکنہ پہلو ہوسکتے ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ جہاں علماء کی ایک بڑی تعداد کچھ صحیح احادیث کی بنیاد پر یہ رائے رکھتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت نکاح 9 برس تھی.
وہاں علماء کے ایک گروہ کی رائے دوسری احادیث کی بنیاد پر یہ بھی ہے کہ آپ کی عمر نکاح کے وقت 9 برس ہرگز نہیں بلکہ 21 برس تھی. یہ رائے انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی ثابت شدہ عمر اور وقت وفات سے اخذ کی ہے. مؤرخین کے حساب سے حضرت اسماء حضرت عائشہ سے پورے دس سال بڑی تھیں اور دونوں کی ولادت و وفات کی تاریخوں سے یہ لگتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کے وقت 21 سال کی تھیں.
اسی طرح سے کچھ محققین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 19 برس بیان کی ہے، وہ اپنی دلیل عربی زبان کے اسلوب سے پکڑتے ہیں جہاں کبھی 17 کو 7 اور 19 کو 9 کہا جاتا ہے. لہٰذا ان حضرات کے بقول جو احادیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 9 برس کہہ رہی ہیں، وہاں مراد 19 برس ہے.
سوال یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کون سی رائے زیادہ مستند ہے بلکہ سوچنا یہ ہے کہ اگر آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک میں ممکنہ اختلاف موجود ہے تو کیا اس بنیاد پر کوئی بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے؟
کیا یہ ٹھیک ہوگا کہ ایک تاریخ سے متعلق بات جو پوری طرح ثابت نہیں ہے، اسے موضوع بنایا جائے؟
مجھے امید ہے کہ آپ کا جواب بھی میری طرح نفی میں ہو گا. لیکن چلیں ہم اسے مزید کھوجتے ہیں.
کیا آپ جانتے ہیں کہ صحیح احادیث کے اعتبار سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے قبل ایک اور جگہ طے تھا؟
اب اس کی دو ہی توجیہات کی جاسکتی ہیں.
پہلی توجیح یہ کہ عرب میں کم عمری میں نکاح ہوجانا ہرگز بھی معیوب نہ تھا،
اور دوسری توجیح یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت اتنی تھی جس میں لڑکیوں کا نکاح کیا جا سکے.
دونوں صورتوں میں ہی رسول پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا.
یہ بھی سوچیں کہ وہ مشرکین مکہ جو نبی کریم صلی اللہ و سلم پر الزام لگانے کے معمولی مواقع بھی نہیں جانے دیتے تھے، وہ کیونکر اتنے بڑے واقعہ پر خاموشی سادھے رہے؟
اس سے تو یہی ظاہر ہے کہ جو ہوا، وہ معاشرے میں ہرگز معیوب نہ تھا.
پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول پاک صلی اللہ و سلم کے قریبی ترین ساتھ ہیں. کیا وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کسی غیر منصفانہ اقدام پر رنجیدہ نہ ہوتے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کیا اپنی ساری عمر میں اس پر ایک بار بھی احتجاج نہ کرتیں؟
یہاں اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ رضی اللہ عنہا کی عمر کیا تھی؟
میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ عمر میں اختلاف ہے اور وہ عمر جتنی بھی تھی، بہرحال حاضرین کے لیے معیوب یا قابل اعتراض ہرگز نہ تھی.
اس تمام تحقیق کے باوجود اگر ہم اس 9 برس والی رائے پر ہی اکتفا کرنا چاہتے ہیں تب بھی میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں. لیکن پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ ایسی اجازت کیوں دی گئی؟
اسی پہلو کا اب ہم مختصر جائزہ لیتے ہیں.
اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ اپنے نوزائیدہ بچے کو اٹھا کر ایک بہتے دریا میں پھینک دیں؟
تو آپ کی رائے میرے بارے میں کیا ہو گی؟
یا پھر اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر دیں، تو آپ میری اس بات کو کس طرح سے لیں گے؟
کیا آپ میری بات مان جائیں گے؟
ظاہر ہے کہ آپ کا جواب نفی میں ہوگا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس ظالمانہ بات پر آپ مجھ سے الجھ بھی پڑیں
مگر ذرا سوچیں جب یہی بات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں سے کہی گئی کہ اپنے نوزائیدہ بچے کو دریا میں ڈال دو!
اور جب یہی حکم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دو!
تو نہ صرف ان دونوں نے بلاجھجھک ایسا کیا بلکہ ہم آج تک ان کی اس بات کی تعریف کرتے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے. کیوں؟
اس لیے کہ وہ حکم اللہ رب العزت کی جانب سے تھا اور وہ بظاہر ظالمانہ حکم اللہ کی مشیت و حکمت میں ظالمانہ نہیں تھا، اور وقت نے یہ ثابت بھی کیا.، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان بچ گئی اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بھی بچا لیا گیا.
ثابت ہوا کہ اگر کوئی امر اللہ کی جانب سے ہو تو ہم اس عمل کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے غیر فطری ہونے کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ اللہ کے علم و مشیت پر بھروسہ کرتے ہیں.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا فیصلہ بھی اللہ ہی کی جانب سے تھا جو صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ویسے ہی خواب میں دیا گیا جیسے ابراہیم علیہ السلام کو قربانی کے متعلق دیا گیا تھا. یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند یا ناپسند نہ تھی بلکہ وحی الہی کا معاملہ تھا. وقت نے ثابت کیا کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں سب سے بڑی عالمہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ احادیث کو پہنچانے والی بنیں.
ح