حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ

نیلم

محفلین
‎..... * پھر اللہ کہاں ہے * .....

سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے وہاں سے ایک چروہے کا گزر ہو ا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو

پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو،، چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں. سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا. چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : "پھر اللہ کہاں ہے"..

ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے اللہ کہاں ہے اور روتے جارہے تھے. اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں اور اُسے کہا کہ تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے

(الراوي : زيد بن أسلم المحدث : الألباني - المصدر : السلسلة الصحيحة - لصفحة أو الرقم : 7/469)
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ کی لکھی ہوئی کتاب "الفاروق" اردو محفل میں یہاں موجود ہے۔
 
نیلم آپی فاروق بھائی نے آپ کے مراسلے پر’’ زبردست‘‘ نہیں کہا بلکہ شمشاد بھائی کے لیے کہا آپ مفت میں شکریے بانٹ رہی ہیں۔:)
کوئی بات نہیں،،،شمشاد بھائی کی طرف سے ہی شکریہ سہی:)
نیلم آپی فاروق بھائی نے آپ کے مراسلے پر’’ زبردست‘‘ نہیں کہا بلکہ شمشاد بھائی کے لیے کہا آپ مفت میں شکریے بانٹ رہی ہیں۔:)

شکریہ شکریہ ہوتا ہے، چاہے شمشاد بھائی کہیں یا نیلم آپی!
 

حسیب

محفلین
امیر المومنین عمر بن خطاب رض مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ان کے پاس سے ایک آدمی کا گزر ہوا- وہ کہ رہا تھا:

(( ویل لک یا عمر من النار))
" اے عمر! تمہارے لیے جہنم کا ویل ہے"

امیر المومنین نے حاضرین سے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ-
جب وہ آیا تو آپ نے پوچھا: تم نے یہ بات کیوں کہی ہے؟
وہ کہنے لگا: آپ اپنے حکام کو مقرر کرتے وقت ان سے شرائط قبول تو کرواتے ہیں مگر ان کا محاسبہ نہیں کرتے کہ انھوں نے شرائط پوری کی ہیں یا نہیں؟
امیر المومنین نے پوچھا: بات کیا ہے؟

وہ کہنے لگا: مصر میں آپ کا جو حاکم ہے، اس نے آپ کی شرائط کو فرموش کر کے ان باتوں کا ارتکاب کیا ہے جن سے آپ نے منع فرمایا ہے-
یہ شکایات سننے کے بعد امیر المومنین نے قبیلہ انصار کے دو آدمیوں کو بغرض تفتیش مصر روانہ کیا اور ان سے فرمایا: تم دونوں مصر جاؤ اور حاکم کے متعلق وہاں کے لوگوں سے استفسار کرو- اگر اس آدمی نے مجھے غلط رپورٹ دی ہو تو آگاہ کرنا، اور اگر اس کی رپورٹ صحیح ہے اور حاکم واقعی اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرتا ہے تو وقت ضائع کیے بغیر اسے لے کر میری خدمت میں پہنچو-
دونوں انصاری امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل میں مصر روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر لوگوں سے حاکم مصر کے متعلق حقیقت جاننی چاہی- انہیں وہان وہی رپوٹ ملی جیسے مذکورہ شخص نے امیرالمومنین سے شکایت کی تھی- چنانچہ ان دونوں نےحاکم کے گھر پر پہنچ کر دروازے پر دستک دی اور اندر آنے کی اجازت طلب کی- دربان نے جواب دیا:

(( انہ لیس علیہ الیوم اذن))
" آج حاکم سے ملنے کی اجازت نہیں ہے"
دونوں انصاریوں نے کہا:
(( لیخر جنّ الینا او لنحرقنّ بابہ))
" حاکم کو ہمارے سامنے ضرور نکلنا پڑے گا ورنہ ہم ابھی اس کا دروازہ پھونک دیں گے"

اتنے میں ایک انصاری جلدی سے کہیں سے آگ کا شعلہ بھی لے کر آگیا-
دربان اندر داخل ہوا اور حاکم مصر کو اس کی خبر دی- حاکم گھر سے باہر نکلا تو ان دونوں نے کہا: ہم امیرالمومنین کا پیغام لے کر آئے ہیں، تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا-
حاکم نے کہا : میری ایک ضرورت ہے، تھوڑی دیر کے لیے مہلت دو تاکہ تیاری کرلوں-
انھوں نے کہا: امیرالمومنین نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تمہیں ایک پل کی بھی مہلت نہ دی جائے-
جب وہ دونوں حاکم مصر کو لےکر مدینہ منورہ عمر رض کی خدمت میں پہنچے تو اس نے سلام کیا مگر امیرالمومنین نے اسے نہیں پہچانا کیونکہ اس کی ہیت پہلے سے بہت بدل چکی تھی- وہ مصر کا حاکم بن کر جانے سے قبل گندمی رنگ کا انسان تھا مگر جب مصر کی سر سبزی و شادابی اس کو راس آئی تو وہ گورا چٹا اور بھاری بھرکم انسان بن چکا تھا، اس لیے امیر المومنین نے تعجب سے پوچھا:تم کون ہو؟
اس نے عرض کیا: میں فلاں آدمی ہوں جس کو آپ نے مصر کا حاکم مقرر کیا تھا-
امیر المومنین نے فرمایا:

(( ویحک! رکبت ما نھیت عنہ وترکت ما امرت بہ، واللہ! لا عاقبنک عقو بۃ ابلغ الیک فیھا))
" تیرا ناس ہو! جس بات سے تجھے منع کیا گیا تھا اس کو تونے گلے لگالیا مگر جس بات کا حکم دیا تھا اس کو فراموش کر بیٹھا- اللہ کے قسم! میں تجھے ضرور عبرتناک سزا دوں گا"-

پھر امیرالمونین نے اون کا ایک پھٹا ہوا لباس، ایک لاٹھی، اور صدقے میں آئی ہوئی 300 بکریاں منگوائيں اور اس (حاکم مصر) سے فرمایا: یہ لباس زیب تن کرو، میں نے تمہارے باپ کو اس سے بھی ردی لباس پہنے ہوئے دیکھا- یہ لاٹھی اٹھاؤ جو تمہارے باپ کی لاٹھی سے کہیں بہتر ہے اور فلاں چرا گاہ میں جاکر ان بکریوں کو چراؤ- اس وقت سخت گرمی کا زمانہ تھا-
امیر المومنین نے مزید فرمایا:

(( ولا تمنع السّابلۃ من البانھا شیئا الا آل عمر، فانی لا اعلم احدا من ال عمر اصاب من البان غنم الصدقۃ ولحو مھا شیئا))
" اور تم راہ گزرنے والوں کو ان بکریوں کا دودھ پینے سے مت روکو، صرف عمر کے گھروالوں کو روکنا، کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ عمر کے گھروالوں نے کبھی صدقے کی بکریوں کے دودھ یا گوشت میں سے کچھ استعمال کیا ہو-"

جب وہ آدمی (حاکم مصر) واپس ہوا تو امیر المومنین نے اسے بلایا اور پوچھا:
جو کچھ میں نے کہا ہے، سمجھے یا نہیں؟ وہ فورا زمین پر گرگیا اور کہنے لگا:

(( یا امیرالمومنین! لا استطیع ھذا فان شئت فاصرب عنقی))
" اے امیرالمومنین! یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا، چاہے آپ میری گردن اڑادیں-"
امیر المومنین نے فرمایا:

(( فان رددتّک فایّ رجل تکون؟))
" اگر میں نے تمہیں گزشتہ منصب پر بحال کردیا تو پھر تم کس طرح کے آدمی ہوگے؟"

وہ کہنے لگا:

(( واللہ! لا یبلغک بعدھا الا ما تحبّ))
" اللہ کی قسم! اب اس کے بعد آپ کو وہی رپورٹ پہنچے گی جو آپ پسند کریں گے-"

پھر امیرالمومنین نے اسے اس کے سابقہ عہدے پر فائز کردیا؛ چنانچہ اس کے بعد وہ آدمی مصر کا ایک مثالی حاکم ہوگیا اور اپنی ذمہ داریاں خوف و تقوای اور اخلاص وللہیت کے ساتھ انجام دینے لگا-

(قصص العرب: 3/16-17، ابن ابی الحدید: 3/ 98)

جزاک اللہ خیر۔۔
میرے خیال میں حاکم مصر کا نام عیاض بن غنم تھا
 
Top