افسوس حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے بارے میں اتنا لمبا چوڑا جھوٹ لکھ مارا۔ کتنی فرصت سے بیٹھ کر کہانیاں گھڑتے ہیں آپ۔ اور اپنی ہی بنائی ہوئی آئی ڈیز کے کمنٹس احمدیوں کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے احمدیت کا مقصد ہی اسلام، قران اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے اسے دنیا پر غالب لانا ہے۔ کوئی احمدی قران اور اسلام کے بارے میں ایسے جھوٹے ریمارکس پاس کر ہی نہیں سکتا۔اب آپ جیسے لوگوں سے بندہ کیا علمی بحث کرے۔
بار بار اس بات کاتاثر دیا جارہا ہے کہ فاروق درویش صاحب تو قرآن و حدیث سے بات کررہے ہیں لیکن میں ہی علمی بحث سے بھاگ رہا ہوں اور بلاوجہ ان کے متعلق سخت الفاظ استعمال کردیئے ہیں۔ بالکل امریکہ اسرائیل والی پالیسی چلائی جارہی ہے کہ جیسے اسرائیل جو مرضی کرتا رہے کوئی بات نہیں لیکن کبھی کسی دوسرے متاثرہ ملک نے اس کے خلاف کوئی معمولی سا ایکشن بھی لے لیا تو اسکے اقدام کو ظلم قرار دیتے ہوئے شور مچانا شروع کردیا۔ بات بہت واضع ہے لیکن اس کے باوجود اتنا تکرار کی جارہی ہے۔ اس لئے مناسب سمجھا کہ اس بات کی کچھ وضاحت کر دی جائے تا کہ ریکارڈ پر آجائے۔
فاروق درویش صاحب نے فورم پر
کچھ دھاگوں میں مسلسل جماعت احمدیہ پر اور جماعت کے بانی پر جھوٹے الزامات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ میں نے اس کے جواب میں ابھی ایک ہی پوسٹ کی تھی جس میں ارادہ ظاہر کیا تھا کہ میں ان اعتراضات میں سے جن کا بھی ہوسکا کچھ نہ کچھ جواب یہاں پوسٹ کرنا شروع کروں گا۔ اور ان کے ڈھیروں اعتراضات میں سے ابتدا ان کے اس اعتراض سے کی:
نمبر ١ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے حالانکہ مشہو رتھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔ (مکتوب مرزا غلام احمد قادیانی مندرجہ اخبار الفضل ٢٢فروری ١٩٢٤ )
اسکے جواب میں ایک 8 منٹ کی ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں امام جماعت احمدیہ کی زبان سے اس اعتراض کے جواب میں بتایا گیا تھا کہ مرزا صاحب سے کسی نے حلال و حرام کی بابت شک ہونے کے بارے میں ایک فتوی پوچھا تھا کہ بعض چیزوں کی نسبت کچھ مشہور ہوجاتا ہے کہ ان میں حرام چیز کی ملاوٹ ہے تو اسکا استعمال کیسا ہے؟ جواب میں حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ محض اس طرح کی باتوں کے مشہور ہوجانے کی بناء پر کسی چیز کو ترک نہیں کردینا چاہئے جب تک کہ کنفرم نہ ہوجائے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان روایتوں کا حوالہ دیا کہ جو حدیث کی کتابوں میں درج ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے جبکہ اس کے بارے میں بھی مشہور تھا کہ اس میں سور کی چربی پڑتی ہے۔ اور یہ صحابہ کی روایات ہیں جن کا ذکر اس ویڈیو میں حوالہ جات کے ساتھ کیا گیا ہے اور اسکرین پر حوالہ جات لکھے بھی دکھائے گئے ہیں۔
پھر ہندوستان کے چوٹی کے عالم دین جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں یعنی
مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب۔ ان کا بھی ایک فتوی بعنیہ اسی قسم کا اور اسی طرح کے سوال کے جواب میں حوالہ کے ساتھ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جس میں انہوں نے بھی بعنیہ یہی فتوی دیا جو حضرت مرزا صاحب نے دیا ہے اور نہ صرف یہ کہ یہی فتوی دیا بلکہ اس فتوی کے ساتھ بطور دلیل انہی روایات کا حوالہ دے کہ بعینہ یہی الفاظ روایات کے مولودی نذیر حسین صاحب دہلوی نے اپنے فتوی میں لکھے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے جبکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔ (حوالے کے لئے اس 8 منٹ کی ویڈیو کو دیکھ لیں)۔
اب اگر یہ توہین ہے تو مولوی نذیر حسین دہلوی پر بھی توہین کا الزام لگائیں۔ اور ان تمام صحابہ پر الزام لگائیں جن کی یہ روایات ہیں۔ پوری تفصیل کے لئے
اس ویڈیو کو اس لنک پر جاکر دیکھ لیں زیادہ بڑی ویڈیو نہیں صرف 8 منٹ کی ہے اور ہر روایت اور مولوی نذیر حسین دہلوی کے فتوی کا بھی حوالہ ساتھ دیا گیا ہے۔
لیکن میں اس وقت اس اعتراض اور اس کے جواب کی بحث ہی نہیں اٹھا رہا۔ میں اس وقت اس "علمی جواب" کی طرف احباب کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو فاروق درویش صاحب نے میری اس پوسٹ کے جواب میں کیا ہے۔ وہ درج ذیل ہے:
رانا صاحب کن اماموں اور کن خلیفوں کی بات کرتے ہیں ؟ جن میں اپنی ہی سگی بیٹی کی عصمت دری کرنے والے مرزا محمود جیسے خلیفے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ آپ دس دس سال تک فالج کا شکار ہو کر زندگی میں ہی عذاب الہی کا شکار اپنے خلیفوں کا دردناک انجام ہی غور سے پڑھ لیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں اور عاقبت سنور جائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
اب مجھے بتائیں کہ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ کس بنیاد پر ان سے مذید علمی بحث جاری رکھتا؟ اور ان کے اس جواب میں وہ کونسے دلائل ہیں جن کے ذریعے انہوں نے اوپر والے اپنے اعتراض کا دفاع کیا ہے؟ سراسر جھوٹے اور اتنا گھٹیا بازاری اور عامیانہ پن کے ساتھ دیئے گئے اس جواب کا میں کیا کرتا؟ کیا ذرا بھی ان کے جواب میں اس بات کا شائبہ ہوتا ہے کہ یہ علمی رنگ میں بات کرنا جانتے یا چاہتے ہیں؟ اس کے بعد یا تو میں بھی ایسی ہی زبان اختیار کرتا اور یا خاموشی اختیار کرتا۔ لہذا میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان کی پوسٹس کو نظر انداز کردیا۔ کیا میں نے غلط کیا؟ ان کی اس پوسٹ کے بعد دیکھ لیں کتنے دن تک میں خاموش رہا اور یہ مسلسل ایسی ہی غیر علمی پوسٹس کرتے رہے۔
پھر ایک اعتراض کا کیونکہ بہت ڈھندورا پیٹا گیا اس کے لئے میں نے علیحدہ دھاگے میں ایک تفصیلی پوسٹ کردی جو کہ یہی دھاگہ ہے۔ اس پوسٹ کو بھی پڑھ لیں اور بتائیں کہ کیا ان کے اوپر والے گھٹیا الفاظ کی طرح میں نے کوئی لفظ استعمال کیا ہے؟ پھر انہوں نے یہاں بھی مجھے مخاطب کرکے کہا کہ رانا صاحب آپ پوسٹ کرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں علمی رنگ میں بات کریں۔ کوئی مجھے بتائے گا کہ ان کو یہ بات کرتے ہوئے شرم کیوں نہ آئی؟ اور کیا ان کا حق تھا کہ یہ مجھ سے مطالبہ کرتے کہ میں ان کی پوسٹس کے جواب میں جوابی پوسٹس کیوں نہیں کرتا؟ اوپر جو ان کے ایک اعتراض کے جواب میں جو میں نے اپنی پہلی اور اکلوتی پوسٹ کا ذکر کیا ہے اور اسکے جواب میں جو ان کی طرف سے پوسٹ کی گئی اس کو سامنے رکھیں اور بتائیں کہ ان کے اس مطالبے کا کیا مقصد ہے؟ صرف یہی نا کہ میں بھی ان کی طرح ایسی ہی دشنام طرازی شروع کردوں؟ انہوں نے میری پوسٹ کے جواب میں اپنے اعتراض کے دفاع میں کونسی علمی دلیل دی ہے جس کے بعد یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ میں ان کو مذید کیوں جواب نہیں دے رہا؟ ان کے اس مطالبے کے جواب میں اگر میں نے ذرا سے سخت الفاظ استعمال کرڈالے جو ان کے میری پوسٹ کے جواب میں کئے گئے الفاظ کاہزارواں حصہ بھی نہیں تو بعض لوگوں کی طرف سے آسمان سر پر اٹھالیا گیا ہے۔ ان کے الفاظ پڑھیں اور پھر میرے بھی پڑھیں۔ کیا ان کو تو ایسے سخت الفاظ استعمال کرنے کا حق ہے اور مجھے اس سے کہیں زیادہ ہلکے الفاظ بھی جواب میں استعمال کرنے کا حق نہیں؟ جبکہ میں نے وہ الفاظ بھی فورا استعمال نہیں کئے کہ کوئی یہ کہے کہ شائد مجھے اس طرح کی عادت ہے! اگر عادت ہوتی تو ان کی اس پوسٹ کے جواب میں خاموش نہ ہوتا بلکہ وہیں جواب دے دیتا۔ جبکہ کئی دن بعد ان کے بار بار مخاطب کرنے کے بعد ان کے جواب میں ایک پوسٹ کی گئی ہے جس میں پھر بھی میرے الفاظ ان کے الفاظ کا پاسنگ بھی نہیں۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اصل جواب تو یہ تھا کہ وہی الفاظ ان کے متعلق اور ان کی بیٹی کے متعلق کہتا۔
ان کے اس رویئے سے جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اگر تو ان کی پوسٹس کا جواب نہ دیا جائے تو تب بھی یہ بازاری اور عامیانہ انداز میں پوسٹس کرتے رہیں گے اور ااگر جواب دوں تب بھی یہ علمی رنگ میں بات کرنے کی بجائے بازاری اور عامیانہ انداز میں جواب کو نظر انداز کرکے جھوٹ کی نجاست پر منہ مارتے ہوئے جھوٹی کہانیاں گھڑ گھڑ کر سناتے رہیں گے۔ میں نے ان کے اس رویئے پر جو الفاظ استعمال کئے اور ان کے مسلسل اصرار پر کئے وہ شائد انہیں اس لئے برے لگے کہ وہ میرے الفاظ تھے۔ لیکن امید ہے کہ نیچے درج کئے گئے قران شریف کے الفاظ انہیں برے نہیں لگیں گے:
"پس اس کیمثال کُتّے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر ہاتھ اٹھائے تو ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تب بھی ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا۔" (7:176 الاعراف)
اگر ان میں کچھ بھی شرم ہوگی تو کم از کم ان محفلین کے سامنے کسی کو دوبارہ علمی بحث کی دعوت دینے کی جرات نہیں کریں گے کہ ایک ہی پوسٹ انہیں ہضم نہ ہوسکی اور اپنے ہی پیش کئے ہوئے ایک اعتراض کے جواب کا جواب الجواب جو انہوں نے دیا اور جس انداز میں دیا وہ سب نے دیکھا ہے۔
یاد رہے کہ ایسے لوگ قطعا میرے مخاطب نہیں جو علمی رنگ میں جائز حدود میں رہ کر مہذب رنگ میں اختلاف کرتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کی اختلاف رائے کے باوجود عزت کرتا ہوں۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے غالبا عبد الماجد دریاآبادی کا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ وہ ایک مرتبہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی مجلس میں حاضر تھے۔ حاضرین میں سے ایک نے احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ان لوگوں کا بھی کوئی دین ہے۔ نہ قران کو مانیں اور نہ رسول کو۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے فورا ٹوکا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ ہمارا ان سے اختلاف صرف نبوت میں ہے اور اسکے بھی صرف ایک باب میں۔ دوسری باتوں میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں۔ بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہئے۔ اب دیکھیں ایسے علماء بھی تو ہیں جو فاروق درویش جیسے لوگوں سے کہیں زیادہ علم رکھتے تھے اور اللہ کے فضل سے مخالفت کرنے کا مہذب طریقہ بھی جانتے تھے۔ کاش آج کے درویش صاحبان مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے ہی اخلاق اپنا لیں۔
اختلاف کرنا کوئی بری بات نہیں۔ اگر کسی کو احمدیت سے اختلاف ہے تو شوق سے مہذب رنگ میں اپنے اعتراض کو پیش کرے اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر مجھے اس اعتراض کی بابت کچھ بھی علم ہوگا تو میں معلومات شیئیر کردوں گا ورنہ اپنی کم علمی کا اظہار کرکے معذرت کرلوں گا اور اپنی جماعت کے کسی عالم سے وقت نکال کر اس کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ معلومات کی خاطر مہذب رنگ میں پیش کیے گئے کسی بھی اعتراض کا میں کبھی بھی برا نہیں مانوں گا بشرطیکہ اعتراض صرف علم کی خاطر کیا جائے نا کہ ایک احمدی کو نیچا دکھانے کی خاطر اور بحث کو جیتنے کی نیت سے کہ اس طرز کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ اس بات کا اظہار کردوں کہ جن لوگوں نے اب تک اس رنگ میں احمدیت پر اعتراضات کئے ہیں جن سے اعتراض کرنے والے کا تعصب ظاہر و باہر ہے وہ آئندہ کبھی بھی میرے مخاطب نہیں ہوں گے اور نہ ہی میں ان کی کسی پوسٹ کا آئندہ نوٹس لوں گا کہ تعصب کی بنیاد پر کی گئی گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔