حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

میاں شاہد

محفلین
کاتب وحی امیر المؤمنین حضرت سید نا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ

نام ونسب :
ابو عبد الرحمن معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی۔
پیدائش :
حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل پیدا ہوئے ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے
: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سردار قریش ابو سفیان کے صاحبزادے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 ِافرا دمیں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ کی والدہ ہندؓ بنت عتبہ ،والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ایک قیافہ شناس کے اقوال نقل کئے ہیں فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ جبکہ آپ رضی اللہ نوعمر ہی تھے آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ کی طرف دیکھ کہ کہا : میرا بیٹا بڑے سروالا ہے اور اس قابل ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے “۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اپنے شوہر کے یہ الفاظ سنے تو کہنے لگیں : آپ صرف اپنی قوم کی سرداری کی بات کررہے ہیں ۔ اس کی ماں اس کو روئے اگر یہ پورے عالم عرب کا قائد اور سردار نہ بنے ۔ ایک قیافہ شناس نے آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے ہی تھے تو کہنے لگا ” یہ اپنی قوم کا سردار بنے گا “ ۔
اسلام کے دامن رحمت میں:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں حصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہر تھے نیز آپ رضی اللہ عنہ کے والد ان معرکوں میں قریش کے صف اول کے قائدین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ فتح مکہ میں چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے ،اس لئے حالات سازگار دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قبول اسلام کاا علان کردیا ۔ اس سے پہلے قبول اسلام کا اعلان نہ کرنے کی وجہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: ” میں عمرة القضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا ، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا ، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہوکر مدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے “ ( طبقات ابن سعد ؒ)
خدمت نبوی ﷺ میں:
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی ﷺ میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہءنسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتاتھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کے تعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دوستانہ تھے ، یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دار ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دار الامن قراردے دیا تھا ، نیز حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضرت معاویہؓ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے حرم میں داخل تھیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ دربار رسالت ﷺ سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ، ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی دربار نبوی میں حاضری کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”حضور اکرم ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ شب وروز کتابت وحی کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی شغل نہ تھا “ ( جامع السیر )
کتا بت وحی کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے دور نبوی ﷺمیں ہونے والے حنین اور طائف کے معرکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : ” وہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں سے لڑتا تھا ، اب آپ ﷺ مجھے حکم دیجئے کہ میں کفار سے جہاد کروں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ضرور ، جہاد کرو،“
دور خلافت راشدہ رضی اللہ عنہم میں آپ رضی اللہ عنہ کے جہادی کارنامے:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کی طرف جو لشکر بھیجے گئے آپ رضی اللہ عنہ اس کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں گورنر شام کی حیثیت سے آپ رضی اللہ عنہ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہرا یا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا ایک اہم جہادی کارمانہ قبرص کی فتح ہے ۔ شام کے قریب واقع یہ حسین وزرخیز جزیرہ اس حیثیت سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ یورپ اور روم کی جانب سے یہی جزیزہ مصر وشام کی فتح کا دروازہ تھا ۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سمندری مشکلات کے پیش نظر آپ رضی اللہ عنہ کو لشکر کشی کی اجازت نہیں دی تھی ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے عزم کامل اور شدید اصرار کو دیکھتے ہوئے اجازت مرحمت فرمادی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہاں حملہ کرنے کی غرض سے 500 جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ تیار فرمایا ۔ جب اہل قبرص نے اتنے عظیم بحری بیڑے کو قبرص میں لنگر انداز دیکھا تو ابتدا میں کچھ شرائط پر مسلمانوں سے صلح کرلی، لیکن موقع پاکر عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف رومیوں کومدد فراہم کی چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حملہ کردیا اور اس اہم جزیرے کو مسخر کرلیا ۔
یہ اسلام کا پہلا بحری بیڑہ تھا اور باتفاق محدثین آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اس بیڑے میں شامل مجاہدین ہی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں حضور اکرم ﷺ نے بحری جہاد کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے ، علاوہ ازیں افرنطیہ ،ملطیہ ،روم کے متعدد قلعے بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فتح کئے ۔
عہدے ومناصب اور خلافت:
آپ رضی اللہ عنہ 18 ھ سے 41 ھ تک تقریباً 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ 18 ھ میں آپ رضی اللہ عنہ کے برادراکبر حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ طاعون کے باعث شہید ہوگئے ،چنانچہ ان کی جگہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا گورنر مقرر فرمایا ۔ بعد ازاں حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو ہٹاکر حمص کی اور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ہٹا کر جابیہ کی گورنری پر بھی آپ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فلسطین ،اردن اور لبنان بھی آپ رضی اللہ عنہ کی گورنری میں دےدئیے ۔ اس طرح شام کا صوبہ اور اس کے مضافات کے تمام علاقے آپ رضی اللہ عنہ کی عملداری میں آگئے ۔ 41 ھ میں حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری پر آپ رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین بنے ، تمام مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے دست حق پر ست پر بیعت کی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تقریباً 20 سال پر محیط ہے ۔
بطور خلیفہ خدمات جلیلہ:
ہم انتہائی اختصار کے ساتھ چند اہم کارناموں کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں :۔
1۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ،ترمذ ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔
2۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
3۔ مردم شماری کےلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔
4۔ بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔
5۔ تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔
6۔ نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔
7۔ نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔
8 ۔ ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔
9 ۔ عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔
10۔ مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔
11۔ بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی ) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔
12 ۔ جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے ۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔
13 ۔ قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور ” دارالضرب “ کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔
14 ۔ امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔
15۔ دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔
الغرض آپ رضی اللہ عنہ کا دو ر ایک مثالی دور تھا ۔ ابو اسحق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بلاشبہ وہ مہد ی زماں تھے
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ احادیث وآثار کے آئینے میں :
1۔اے اللہ ! اسے ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ اوروں کو ہدایت دے ( حدیث مبارکہ )
2۔اے اللہ ! معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب وحساب کا علم دے اور اسے عذاب سے محفوظ رکھ ( حدیث مبارکہ )
3۔ اے اللہ ! اس کے سینے کو علم سے بھر دے ۔ ( حدیث مبارکہ )
4۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلائی کےساتھ کرو۔ ( اسے حدیث سمجھنا غلط فہمی ہے ) ( حضرت عمر فاروق ؓ)
5۔ لوگو ! فرقہ بندی سے بچو ۔ اگر تم نے فرقہ بندی اختیار کی تو یاد رکھو معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں موجود ہیں ۔ ( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ )
6۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو برا نہ سمجھو کیونکہ جب وہ نہیں ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا دیکھو گے ( حضر ت علی رضی اللہ عنہ )
7۔ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امو ر سلطنت وبادشاہت کے لائق کسی کو نہیں پایا۔ ( حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ )
8۔ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والا نہیں پایا ۔ ( حضرت سعدؓبن ابی وقاص)
9۔میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر برد بار ،سیادت کے لائق ، باوقار اور نرم دل کسی کو نہیں پایا ۔( حضرت قبیصہؓ بن جابر )
10۔اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پاتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ عدل وانصاف کیا ہے ؟ ( امام اعمش ؒ)
جنگ صفین کی آڑلیکر اس عظیم صحابیؓ رسول ﷺکی شان میں زبان درازی کرنے والے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں ۔ ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی بھی صحابی کے خلاف زبان طعن وتنقید دراز کرے ۔صحابہ رضی اللہ عنہم کے کردار کو تاریخ کے آئینے میںدیکھنا ایسا ہے جیسے ہیرے جواہرا ت کا وزن لکڑی تولنے والے سے کرایاجائے ۔
وفات:
یہ آفتاب رشد وہدایت ،فاتح بحر وبر اور امام سیاست 22 رجب المرجب 60 ھ میں دمشق میں راہی ملک بقا ہو ا ۔
[font=mcs Hijaz S_u Adorn.]رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ[/font]
 
امیر شام کے حوالے سے اگر مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت پاس ہو تو وہاں سے بھی اقتباس پیش کریں تو تعارف مکمل ہو جائے گا۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
شکریہ ظہور ۔۔

خلافت و ملوکیت کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔۔ جو کہ مولانا مودودی کی ہے ۔
اس کے بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو کہ تقی عثمانی صاحب کی ہے
اور اس کے بھی بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات اور ان کا جواب اس کا مطالعہ بھی از حد ضروری ہے جو کہ ملک غلام علی کی ہے ۔۔
 

میاں شاہد

محفلین
امیر شام کے حوالے سے اگر مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت پاس ہو تو وہاں سے بھی اقتباس پیش کریں تو تعارف مکمل ہو جائے گا۔

شکریہ ظہور ۔۔

خلافت و ملوکیت کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔۔ جو کہ مولانا مودودی کی ہے ۔
اس کے بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو کہ تقی عثمانی صاحب کی ہے
اور اس کے بھی بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات اور ان کا جواب اس کا مطالعہ بھی از حد ضروری ہے جو کہ ملک غلام علی کی ہے ۔۔
برادران محترم ! میری حتیٰ الامکان کوشش رہتی ہے کہ بحث بازی سے گریز کروں اور کسی بحث میں نہ الجھوں اس لئے میرے خیال میں اتنا ہی کافی ہے ورنہ اگر ہم چاہیں تو ہر ہر چیز کو متنازعہ بناسکتے ہیں سو جو بات تنازعے سے بچی رہے بہتر ہے


والسلام
 
برادران محترم ! میری حتیٰ الامکان کوشش رہتی ہے کہ بحث بازی سے گریز کروں اور کسی بحث میں نہ الجھوں اس لئے میرے خیال میں اتنا ہی کافی ہے ورنہ اگر ہم چاہیں تو ہر ہر چیز کو متنازعہ بناسکتے ہیں سو جو بات تنازعے سے بچی رہے بہتر ہے


والسلام

بھائی بحث کو متنازعہ بنانے کا کون کہ رہا ہے بس تصویر کے دونوں رخ سامنے آجائیں تو بہتر رہے گا، جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے اس کو جھٹلایا تو نہیں جا سکتا ہے، جناب امیر شام نے جتنی جنگیں کیں ان کا بھی ذکر ضروری ہے اگر آپ سمجھتے ہیں یہ متنازعہ ہو جائے گا تو آپ صرف یہ حقائق لکھ کر بحث کو بند کردیں باقی قارئین خود ہی فیصلہ کریں گے۔ ابھی یہ تعارف آدھا ہے۔
 

میاں شاہد

محفلین
بھائی بحث کو متنازعہ بنانے کا کون کہ رہا ہے بس تصویر کے دونوں رخ سامنے آجائیں تو بہتر رہے گا، جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے اس کو جھٹلایا تو نہیں جا سکتا ہے، جناب امیر شام نے جتنی جنگیں کیں ان کا بھی ذکر ضروری ہے اگر آپ سمجھتے ہیں یہ متنازعہ ہو جائے گا تو آپ صرف یہ حقائق لکھ کر بحث کو بند کردیں باقی قارئین خود ہی فیصلہ کریں گے۔ ابھی یہ تعارف آدھا ہے۔
چلیں ٹھیک ہے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
 
شکریہ ظہور ۔۔

خلافت و ملوکیت کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔۔ جو کہ مولانا مودودی کی ہے ۔
اس کے بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو کہ تقی عثمانی صاحب کی ہے
اور اس کے بھی بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات اور ان کا جواب اس کا مطالعہ بھی از حد ضروری ہے جو کہ ملک غلام علی کی ہے ۔۔
یوسف صلاح الدین نے خلافت و ملوکیت کی بہت سی باتوں کی اصلاح کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس کا بھی جواب دیا گیا ہے یا نہیں۔ سن اشاعت معلوم نہیں البتہ میں نے تین چار سال قبل خریدی تھی۔ ملک صاحب البلاغ میں چھپنے والے اعتراضات کا جواب ترجمان القرآن رسالے میں دیا کرتے تھے۔ نانا جان (اللہ ان کی قبر کو رحمت سے بھر دے( ترجمان القرآن کی جلدیں تیار کر کے محفوظ کرتے تھے۔ اب میری لائبریری میں موجود ہیں۔ جناب تقی عثمانی، صلاح الدین یوسف اور ملک صاحب کے مناقشات پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مودودی صاحب نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر ٹھوکر کھائی ہے۔
یہ میری ذاتی رائے ہے جس سے کسی دوسرے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ لہٰذا براہ مہربانی میری گزارشات کو کسی بحث کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ :|
 

حسن نظامی

لائبریرین
جی عبداللہ حیدر صاحب بجا فرمایا آپ نے ۔۔

اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مودودی صاحب نے ٹھوکر کھائی ہو گی ۔
لیکن ان کی تمام باتوں میں سے 40 فیصد تو ضرور درست ہیں ۔
دراصل یہ مسئلہ متنازعہ ہے ۔۔
اور ازل سے رہا ہے ۔
 
غالبا یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ "امیر شام" کے ہاتھ پر حضرت حسن نے بیعت کر کہ ان کو خلیفہ و امیر المومنین بنا دیا تھا۔
دراصل یہ مسئلہ متنازعہ ہے ۔۔
جناب حسن نظامی صاحب میرے خیال میں صحابہ کرام کی عظمت اور ان کی عفت کوئی متنازعہ مسئلہ نہیں ہے۔
 
خلافت و ملوکیت کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔۔ جو کہ مولانا مودودی کی ہے ۔
اس کے بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو کہ تقی عثمانی صاحب کی ہے
اور اس کے بھی بعد خلافت و ملوکیت پر اعتراضات اور ان کا جواب اس کا مطالعہ بھی از حد ضروری ہے جو کہ ملک غلام علی کی ہے
مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب "حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق" محض مولانا مودودی صاحب کی خلافت و ملوکیت ہی کاجواب نہیں بلکہ غلام علی صاحب کا بھی جواب الجواب ہے۔نیز مولانا مودودی کی اس کتاب کا اور حضرات نے بھی جواب لکھا ہے۔ مولانا مودودی علیہ رحمہ کی جلالت علمی اپنی جگہ تاہم اس کتاب میں لا ریب انہوں نے متعدد مقامات پر ٹھوکریں کھائی ہیں۔
حضرت معاویہ صحابی رسول اللہ ہیں‌ اور یہ بات ان کی عظمت و عفت اور رفعت کے لیے کافی ہے۔
 
غالبا یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ "امیر شام" کے ہاتھ پر حضرت حسن نے بیعت کر کہ ان کو خلیفہ و امیر المومنین بنا دیا تھا۔

جناب حسن نظامی صاحب میرے خیال میں صحابہ کرام کی عظمت اور ان کی عفت کوئی متنازعہ مسئلہ نہیں ہے۔
ذرا اس بیعت پر تفصیلی روشنی ڈالیں اور تقی عثمانی کی کتاب کا ربط بھی پیش کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جناب حسن نظامی صاحب میرے خیال میں صحابہ کرام کی عظمت اور ان کی عفت کوئی متنازعہ مسئلہ نہیں ہے۔

میری ناقص رائے میں یہ کوئی متفقہ اور اجماعی عقیدہ نہیں ہے اور اسی لیے امت میں اختلاف ہے، بلکہ مختلف گروہ مختلف قرانی آیات استعمال کرتے ہوئے اپنا اپنا عقیدہ بنائے ہوئے ہیں۔ مثلا:

  • ایک گروہ صرف صحابیت کو فلاح و نجات پا جانے کے لیے کافی جانتا ہے اور باقی اعمال کو عظمت و عفت کے نام پر پرکھنے کا قائل نہیں اور دلیل قران سے لاتا ہے کہ اللہ نے "ہجرت کرنے والوں" اور "غزوہ بدر" میں حصہ لینے والوں اور "بیت رضوان" میں سب صحابہ سے راضی ہونے کا وعدہ کر لیا ہے۔ [القران 48:18: بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے]
    اور [القران 9:100
    ] اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے

  • جبکہ دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ فلاح و نجات کا دارومدار صحابیت پر نہیں بلکہ "انسان کے اپنے اچھے برے اعمال" پر ہے۔ اگر کسی نے اچھا کام کیا ہے [چاہے وہ صحابہ میں سے ہو یا غیر صحابہ سے] اسے اللہ کی طرف سے اسکا اجر و ثواب ملے گا اور صحابہ کا درجہ اس لیے بلند ہوا کیونکہ انہوں نے رسول کی نصرت کر کے بہت اچھا اور بلند پایہ کام کیا ۔۔۔۔ مگر اسی طرح برے کام کا گناہ اور عذاب بھی ملے گا اور صرف "صحابیت" اسے اس گناہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گی۔ اور یہ گروہ بھی قران سے اپنی دلیل لاتا ہے [القران 9:38تا9:39] اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین کی طرف جھک جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے). اگر تم (جہاد کے لئے) نہ نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا فرمائے گا اور تمہاری جگہ (کسی) اور قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے،
    نوٹ: یہ آیت رسول [ص] کی وفات سے صرف ایک سال قبل سن 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئی ہے [یعنی بیت رضوان، ہجرت اور غزوہ بدر کے بہت بعد]۔ چنانچہ یہی اللہ، اسی قران میں انہیں صحابہ کو غلط کام کرنے پر بخشنے کی بجائے شدید دھمکی دے رہا ہے۔ چنانچہ اس گروہ کا کہنا ہے کہ رسول ص کی وفات کے بعد کسی کی بھی مدح و ذم صرف اور صرف اُس کے افعال پر منحصر ہے اور یہ کہ فلاح و نجات کا دارومدار صرف اعمال پر ہے۔

یہ دونوں گروہ اپنے اپنے عقائد کے ہمراہ ہم سب کے سامنے ہیں۔

مگر ان دونوں گروہ کے علاوہ بھی ایک تیسرا گروہ ہے جس کا بنیادی تعلق تو شاید انہی دو گروہوں سے ہے،۔۔۔۔۔مگر پھر بھی وہ اس لپٹی لپٹائی عقائد کی روش پر چلنے کی بجائے عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے اور تاریخ کو بجائے عقائد کے آئینے میں پڑھنے کے غیرجانبدار ہو کر پڑھتا ہے تا کہ تاریخ میں موجود غلطیوں سے سبق سیکھ سکے اور اپنی اصلاح کر سکے۔

مودودی صاحب کی کتاب اسی چیز کی مظہر تھی اور اسکا ٹاپک ہرگز "امیر معاویہ" نہیں تھا [بلکہ پوری کتاب میں شاید صرف 12 صفحات پر امیر معاویہ کے دور حکومت پر گفتگو کی گئی تھی ۔۔۔۔۔ اور کتاب کا اصل مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ خلافت راشدہ کیونکر ملوکیت میں تبدیل ہوئی [ مودودی صاحب کے نزدیک جب بھی یہ اصلاح خلافت راشدہ استعمال ہوتی ہے تو ہر تاریخ کے طالبعلم بلکہ ہر بچے کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس راشدہ خلافت اور عام خلافت میں کیا فرق ہے اور کیونکر یہ راشدہ خلافت ملوکیتی خلافت میں تبدیل ہوئی]

پھر گفتگو ملک غلام علی صاحب اور مفتی تقی عثمانی کے مابین چلی۔۔۔

اس گفتگو کے بعد بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تمام دلائل پیش ہو گئے ہیں۔ ۔۔۔۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔

کیا آپ کو پتا ہے کہ اگرچہ کہ مودودی صاحب اور ملک غلام علی کی پیش کردہ دلائل بظاہر اوپر بیان کردہ دوسرے گروہ [ہل تشیع] کی موقف کے قریب تر ہیں، مگر اس دوسرے گروہ کی جانب سے ان حضرات [مودودی صاحب اور ملک غلام علی] پر بھی بھرپور طریقے سے تنقید ہوئی ہے کہ انہوں نے صرف "جزوی" ثبوت پیش کیے ہیں اور بہت سے ثبوت انہیں نے اپنی وجوہات اور مصلحتوں کی بنا پر پیش ہی نہیں کیے ہیں۔
بلکہ میں نے سنا ہے کہ مودودی صاحب کی کتاب خلافت و ملوکیت کا تو جواب بھی اس دوسرے گروہ کی جانب پاکستان میں شائع ہو گیا ہے اور اس میں امیر معاویہ کے متعلق وہ روایات نقل کی گئی ہیں جنہیں مودودی صاحب اور ملک غلام علی صاحب نے ذکر نہیں کیا تھا]

///////////////////////////////////////

از ابن حسن:
غالبا یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ "امیر شام" کے ہاتھ پر حضرت حسن نے بیعت کر کہ ان کو خلیفہ و امیر المومنین بنا دیا تھا۔
کیا اس بیعت سے آپ کا اشارہ اس طرف ہے:

امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تحے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دارابجرد کا خراج انہیں دیا جائے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب کو سب و شتم نہ کیا جائے۔ امیر معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہ کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں کہ جب وہ سنتے ہوں۔ اسکو امیر معاویہ نے منظور کیا مگر بعد میں یہ شرط بھی پوری نہ کی۔
حوالے:

  • امام الذھبی [ابن سعد سے دو مختلف اسناد سے]، کتاب سير أعلام النبلاء [آنلائن لنک]
  • امام جمال الدین المزی اپنی کتاب تہذیب الکمال میں ابن سعد سے تین مختلف اسناد سے [آنلائن لنک ]
  • ابن عساکر اپنی کتاب تاریخ الدمشق میں تین مکمل مختلف اسناد سے [آنلائن لنک]
  • ابن خلدون اپنی تاریخ میں [آنلائن لنک]
مسئلہ یہ ہے کہ :

1۔ اب ایک گروہ کے نزدیک یہ الحسن ابن علی کی جانب سے امیر معاویہ کی "بیعت" تھی۔
2۔ مگر دوسرے گروہ کے نزدیک یہ "بیعت" نہیں بلکہ ایک "معاہدہ" تھا۔

میں نے مولانا مودودی نے اور جسٹس ملک غلام علی صاحب کی کتب مکمل پڑھی ہیں۔
اور یہ کتب پڑھنے کے بعد میں آپ لوگوں کو مطلع کرنا چاہتی ہوں کہ ان دونوں حضرات نے کتاب کے مضمون کے تقاضوں کی وجہ سے، یا پھر شاید نہ جاننے کی وجہ سے، یا پھر شاید کسی مصلحت کے تحت بہت سے حوالے اور دلائل اپنی کتب میں نقل نہیں کیے ہیں۔

اس معاہدے والی روایت کے متعلق اور بھی بہت سے حوالے ہیں جو یہ دونوں حضرات پہلے ہی اپنی کتب میں پیش کر چکے ہیں جیسے البدایہ و النہایہ از ابن کثیر [آنلائن لنک]، امام جریر تاریخ طبری میں، تاریخ ابو الفداء، تاریخ الوردی اور تاریخ ابن کامل وغیرہ وغیرہ]۔

اس اوپر والے حوالوں کے علاوہ اس معاہدے والے معاملے میں ایسی دیگر صاف اور واضح روایات ہیں کہ مجھے کچھ حد تک [بلکہ کافی حد تک] حیرت بھی ہے کہ مودودی صاحب اور ملک غلام علی صاحب نے انہیں کیوں نقل نہیں کیا۔

میرے نزدیک یہ بہت اہم روایات تھیں اور اتنی مستند، صاف و روشن روایات تھیں کہ جس کے بعد بحث بہت جلد نپٹ جاتی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ کیا واقعی اس تھریڈ میں ہمیں خلافت و ملوکیت وغیرہ پر بحث کرنی چاہیے؟
وجہ یہ ہے کہ اس فورم پر ہماری عموما پالیسی یہ ہے کہ صرف مدحت کی جا سکتی ہے مگر تنقید کا سلسلہ یہاں نہ شروع کیا جائے، بلکہ تنقید و بحث کے لیے دیگر فورمز کا رخ کیا جائے۔ تو اس پالیسی کے تحت کیا بہتر نہ ہو گا کہ شاہد صاحب کو اپنے ممدوح کے متعلق یہاں لکھنے دیا جائے اور اگر بحث کرنی بھی ہو تو اسے کہیں اور منتقل کر دیا جائے۔
 

میاں شاہد

محفلین
میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو کچھ لکھنا تھا وہ مکمل ہے اب اس کے بعد اسے زبردستی کھینچ کھانچ کر طویل کیا جارہا ہے یا اس مضمون کو اختلافات کی نذر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور میں فی الوقت خاموشی سے یہ تمام منظر دیکھ رہا ہوں، جیسا کہ کہا گیا کہ یہ مقام اس قسم کی بحث کے لئے نہیں ہے تو جو احباب اس بارے میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع کرنے کے خواہش مند ہیں وہ اگر کسی بحث کے سیکشن میں اپنا ایک الگ مضمون بنالیں تو زیادہ بہتر ہے
 
ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ کیا واقعی اس تھریڈ میں ہمیں خلافت و ملوکیت وغیرہ پر بحث کرنی چاہیے؟
وجہ یہ ہے کہ اس فورم پر ہماری عموما پالیسی یہ ہے کہ صرف مدحت کی جا سکتی ہے مگر تنقید کا سلسلہ یہاں نہ شروع کیا جائے، بلکہ تنقید و بحث کے لیے دیگر فورمز کا رخ کیا جائے۔ تو اس پالیسی کے تحت کیا بہتر نہ ہو گا کہ شاہد صاحب کو اپنے ممدوح کے متعلق یہاں لکھنے دیا جائے اور اگر بحث کرنی بھی ہو تو اسے کہیں اور منتقل کر دیا جائے۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ لیکن یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ آپ کچھ سوالات اٹھانے سے پیشتر یہ پالیسی بیان کر تیں اور پھر اس پر عمل کرتیں۔چونکہ صحابہ کرام کے بارے میں کچھ سوالات اسی تھریڈ میں اٹھائے گئے ہیں لہذا ان کا ایک مختصر جواب میں یہیں دے رہا ہوں (جناب میاں شاہد صاحب آپ سے بے حد معذرت کے ساتھ) اب اگر کچھ نئے سوالات بھی میری اس پوسٹ کے بعد ہوں تو ان کو کسی نئ جگہ یا کسی اور فورم پر شروع کیا جائے۔
میری ناقص رائے میں یہ کوئی متفقہ اور اجماعی عقیدہ نہیں ہے اور اسی لیے امت میں اختلاف ہے، بلکہ مختلف گروہ مختلف قرانی آیات استعمال کرتے ہوئے اپنا اپنا عقیدہ بنائے ہوئے ہیں۔
میرے خیال میں یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے اہل سنت کا سواد اعظم صحابہ کی عفت و پاکیزگی اور ان کی عظمت پر متفق ہے۔ اس میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی شامل ہیں۔رہے اہل تشیع تو ان سے اور بھی بہت سے معاملات پر بنیادی اختلافات ہیں ان کا عقیدہ ان کو مبارک۔ اور اگر بات کو اسی تناظر میں دیکھنا ہے تو پھر تو کلمہ، اذان، نماز، قران سب ہی ان ہی اختلافات کی نظر ہوجائیں گئے۔
جبکہ دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ فلاح و نجات کا دارومدار صحابیت پر نہیں بلکہ "انسان کے اپنے اچھے برے اعمال" پر ہے۔ اگر کسی نے اچھا کام کیا ہے [چاہے وہ صحابہ میں سے ہو یا غیر صحابہ سے] اسے اللہ کی طرف سے اسکا اجر و ثواب ملے گا اور صحابہ کا درجہ اس لیے بلند ہوا کیونکہ انہوں نے رسول کی نصرت کر کے بہت اچھا اور بلند پایہ کام کیا ۔۔۔۔ مگر اسی طرح برے کام کا گناہ اور عذاب بھی ملے گا اور صرف "صحابیت" اسے اس گناہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گی۔ اور یہ گروہ بھی قران سے اپنی دلیل لاتا ہے [القران 9:38تا9:39] اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین کی طرف جھک جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے). اگر تم (جہاد کے لئے) نہ نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا فرمائے گا اور تمہاری جگہ (کسی) اور قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے،
نوٹ: یہ آیت رسول [ص] کی وفات سے صرف ایک سال قبل سن 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئی ہے [یعنی بیت رضوان، ہجرت اور غزوہ بدر کے بہت بعد]۔ چنانچہ یہی اللہ، اسی قران میں انہیں صحابہ کو غلط کام کرنے پر بخشنے کی بجائے شدید دھمکی دے رہا ہے۔ چنانچہ اس گروہ کا کہنا ہے کہ رسول ص کی وفات کے بعد کسی کی بھی مدح و ذم صرف اور صرف اُس کے افعال پر منحصر ہے اور یہ کہ فلاح و نجات کا دارومدار صرف اعمال پر ہے۔
یہ گروہ اہل تشیع کا تو ہو سکتا ہے لیکن اہل تسنن میں ایسا کوئی گروہ نہیں جو یہ کہتا ہوں کہ صحابہ کو بھی "برے کاموں" کا گناہ و عذاب ہو گا۔
یہاں کچھ باتیں آپ ذہن میں رکھیں تو بہتر ہے
1۔ مسلمانوں کے نزدیک صحابہ کرام انبیا کی طرح معصوم نہیں ہیں اور نہ ہی ایک گروہ کے ائمہ کی طرح منصوص من اللہ ہیں۔
2۔صحابہ کرام محفوظ ہیں ۔ یعنی تقاضہ بشریت سے ان سے گناہ کا صدور ممکن تھا اور جب کبھی ایسا ہوا (اور اس کی بہت شاذ مثالیں ہیں) تو اللہ یا اللہ کے نبی کی طرف سے ان کی معافی اور بخشش کی خوشخبری بھی فورا سنا دی گئی۔
3۔صحابہ کرام کی تو شان قرآن میں یہ بیان کی گئی ہے۔

[ARABIC]وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌO[/ARABIC]
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہےo (انفال 74)


[ARABIC]وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO][/ARABIC] (توبہ 100)
اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہء احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہےo



[ARABIC]وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَO [/ARABIC]](حجرات 7)
7. اور جان لو کہ تم میں رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہنا مان لیں تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا اور کفر اور نافرمانی اور گناہ سے تمہیں متنفر کر دیا، ایسے ہی لوگ دین کی راہ پر ثابت اور گامزن ہیںo

4۔اوپر جو آپ نے آیات مقتبس کی ہیں وہ سورہ توبہ کی ہیں اور غزوہ تبوک کے موقع پر نازل ہوئیں۔ غزوہ تبوک کے بارے میں اگر آپ علم رکھتیں تو شاید یہ آیات مبارکہ آپ اس ذیل میں آپ بیان نہ کرتیں یہاں میں مختصرا کچھ باتیں کرنا چاہوں گا
1۔غزوہ تبوک جو 9 ھ میں ہوا اس کو غزوہ جیش عسرت بھی کہا جاتا ہے اس میں صحابہ کرام نے باوجود سخت گرمی اور نامساعد حالات کے نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان جہاد پر لبیک کہا اور اس غزوہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت عثمان حضرت عبد الرحمن بن عوف اور دیگر صحابہ نے اپنے مال سے بھرپور تعاون فرمایا صحابہ کی کثرت ایسی تھی جو اس غزوہ میں شمولیت کے لیے بے قرار تھی اور حالات یہ تھے کہ جس کا ذکر قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے۔
[ARABIC]وَلاَ عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّواْ وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلاَّ يَجِدُواْ مَا يُنفِقُونَO [/ARABIC] اور نہ ایسے لوگوں پر (طعنہ و الزام کی راہ ہے) جبکہ وہ آپ کی خدمت میں (اس لئے) حاضر ہوئے کہ آپ انہیں (جہاد کے لئے) سوار کریں (کیونکہ ان کے پاس اپنی کوئی سواری نہ تھی تو) آپ نے فرمایا: میں (بھی) کوئی (زائد سواری) نہیں پاتا ہوں جس پر تمہیں سوار کر سکوں، (تو) وہ (آپ کے اذن سے) اس حالت میں لوٹے کہ ان کی آنکھیں (جہاد سے محرومی کے) غم میں اشکبار تھیں کہ (افسوس) وہ (اس قدر) زادِ راہ نہیں پاتے جسے وہ خرچ کر سکیں (اور شریک جہاد ہو سکیں)o (سورہ توبہ 92)
اب رہا سوال کہ جس آیت کی بابت آپ نے نکتہ اٹھا یا اس کی حقیقت امام ابن کثیر نے یہ فرمائی ہے" کہ کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے" تو اس سے یہ حقیت کھل جاتی ہے کہ صحابہ کرام میں سے صرف کچھ لوگ (درحقیقت ان میں سے بھی صرف تین افراد ایسے تھے جو اس غزوہ میں تشریف نہ لے جاسکے باقی یہ ثابت ہے کہ بیماروں یا جن کو رخصت ملی کہ سوا سب اس غزوہ میں شامل ہوئےاور بڑھ چڑھ کر شامل ہوئے) ہی اس آیت کا مصداق ہیں۔ اور یہ تین افراد بھی وہ تھے کہ جن کی برات بعدازاں قرآن نے ہی خود فرمادی دیکھیے سورہ توبہ 118۔


جہاں تک حضرت حسن کی حضرت معاویہ کے ساتھ صلح کا سوال آپ نے اٹھایا ہے اس میں اختصار کے ساتھ چند باتیں کہنا چاہوں گا۔
1۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہو گا اور امید ہے کہ اللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں ملاپ کرادے۔
2 حضرت حسن کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گرہوں میں صلح ہو گئی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے
3۔ یہ معاہدہ تھا یا کہ اس میں بیعت بھی شامل تھی تو اس بارے میں محقیقن کا کہنا ہے کہ یہ صلح اور بیعت دونوں تھی اس بارے میں اہل تشیع کی ایک معتبر کتاب کا حوال پیش خدمت ہے
پس معاویہ نے انہیں (حضرت حسن و حسین اور کچھ اور افراد) آنے کی اجازت دی اور ان کے اعزاز میں خطیب بلائے اور حضرت حسن سے کہا کھڑے ہو کر بیعت فرمائیں حضرت حسن کھڑے ہوئے اور معاویہ کی بیعت کی پھر حضرت حسین سے کہا کہ آپ کھڑے ہوں اور بیعت فرمائیں حضرت حسین کھڑے ہوئے اور حضرت معاویہ کی بیعت فرمائی۔ (بحار الانوار جلد 10 ص 124)
حضرت باقر اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
حسن بن علی نے جو کچھ کیا وہ وہ اس امت کے لیے ہر اس چیز سے بہتر تھا جس پر کبھی سورج طلوع ہوا (بحار الانوار جلد 10 ص 164)
اب جو کچھ تاریخی کتابوں میں رطب و یابس کی صورت میں جمع ہے جس سے کہیں حضرت علی کی تنقیص ہوتی ہے اور سب و شتم کو ان سے منسوب کیا جاتا ہے(اس کا حوالہ محفوظ) کبھی حضرت حسن کو لالچی ثابت کیا جاتا ہے کبھی حضرت معاویہ کی توہین کی جاتی ہے تو میرے خیال میں اس میں تحقیق اور نقد و نظر کی بہت گنجائیش ہے اور اس پر آئندہ گفتگو بھی کی جاسکتی ہے۔
اس سلسلے میں میرا یہی خیال ہے کہ بہت سارے اس قسم کے معاملات کو نہ اچھالا جائے تو بہتر ہو گا کیونکہ اگر اس قسم کا دفتر کھل گیاتو شاید اس سےطرفین کی شدید دل آزاری کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا آگے احباب کی مرضی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ میاں شاہد صاحب نے جس مقصد کے لیے دھاگہ شروع کیا تھا وہ تو ان کے پہلے پیغام میں ہی پورا ہو گیا تھا۔ یہاں بحث مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے اس دھاگے کو مقفل کیا جا رہا ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہم سبکو سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top