نگار ف
محفلین
مولانا جلال الدين روم کو خدا تعالي سے بےحد محبت تھي اور ان کا عشق الہي ايک شعلہ فشاں ولولہ تھا جو اللہ تعالي کي معرفت کے حصول کے ليئے دن رات کوشاں رہتا تھا - رومي عشق ا لہي کے اس روحاني جذبے کو اپني خلوت نشيني اور اپنے زہد اور تقوي کو معاشرتي زندگي ميں بروئے کار لاتے تھے -
انہوں نے خدا سے وصل کے ليئے تنہائي اور خلوت اختيار کي تاکہ اللہ تعالي کا قرب ممکن ہو - اس کام ميں وہ بےحد مستقل مزاج رہے - انہوں نے کبھي بھي بے صبري کا مظاہرہ نہ کيا - رومي کے مطابق جولوگ اللہ تعالي سے حقيقي عشق کرنے کي تعليم ديتے ہيں وہ ہميشہ اپنايہ عہد ياد رکھيں کہ وہ شعلہ فشان جذبات کے ساتھ اللہ سے محبت کرتے ہيں - يہ وہ گراں قيمت ہے جو ہر باوفا عاشق اللہ کے عشق ميں فنا حاصل کرنے کے ليے ضرور ادا کرتا ہے - مزيد انہيں ايسے بلند پايہ اخلاق اور روحاني رويوں ميں سرمست رہنا چاہيے کہ وہ کم خور و کم خواب ہوں اور اپني گفتگو ميں ہميشہ رب تعالي کي طرف مکمل طور پر متوجہ رہيں -اورجب ايسا مرد کامل خدا کے عشق ميں فنا ہو کر لازوال نعمت عشق حاصل کرتا ہے تو وہ لازمي طور پر حيران کن روحاني تجربات سے گزرتا ہے-
رومي کي نظر ميں ايک عاشق کو غفلت کي نيند نہيں سونا چاہيں کيونکہ اس کي يہ نيند محبوب کو ناگواز گزر سکتي ہے اس ليئے محبوب سے ملاقات کے وقت عاشق کو ہمہ وقت بيدار رہنا چاہيئے - جيسا کہ خدا تعالي نے حضرت داود کو ہدايت فرمائي -
" اے داود جولوگ ميرے دائمي ذکر سے غافل ہو کر سوتے ہيں اور پھر مجھ سے محبت کا دعوي کرتے ہيں ، وہ جھوٹے ہيں -"
مولانا رومي کا کہنا ہے کہ
" جب رات شروع ہوتي ہے عاشق اللہ سے بہت ہي شديد محبت کي وجہ سے بيدار اور ہوشيار ہو جاتا ہے -"
رومي کے دعوے زباني نہيں تھے بلکہ اس نے اپنے اعمال سے اپنے دعوğ کي تائيد کرکے دکھائي -
ان کے مندجہ ذيل اشعار کا ترجمہ اس بات کي مزيد وضاحت کرتا ہے -
* ميراٹوٹا ہوا غريب وناتواں دل دشت محبت ميں مجنوں کي طرح ہے -
جس کے جسم کا انگ انگ فنا ہو چکا ہے-
مجھ ميں خدا کي محبت کا حق ادا کرنے کي طاقت نہيں ہے
ہر صبح وشام ميں نے محبت کي زنجيروں کي گرفت سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کي کوشش جاري رکھي ہے-
وہ زنجير جس نے مجھے قيد ميں ڈال رکھا ہے-
جب محبوب کے خواب شروع ہوتے ہيں،ميں اپنے آپ کو لہو لہو پاتا ہوں -
کيونکہ ميں مکمل طور پرہوش وحواس ميں نہيں ہوں-
مجھے خدشہ ہے کہ ميں اپنے محبوب کو اپنے خون دل سے رنگين کردوں-
حقيقت ميں اے محبوب حقيقي!توحوروں کو لازمي حکم دے کہ وہ ضرورجان سکيں کہ ميں تمام رات کيسے جلتا ہوں-
ہرکوئي آرام کي نيند سو چکا ہے -
مگر ميں وہ ہوں جس نے اپنا دل تيرے حضور پيش کيا ہے-
غافلوں کي طرح سونا پسند نہيں کيا-
تمام رات ميري آنکھيں آسمان کي طرف تکتي ہيں-
ستاروں کوگنتي ہيں -
محبوب کي شديد محبت نے ميري نيند کو مکمل طور پر اپني گرفت ميں لے رکھا ہے- ميں يقين نہيں کرتا کہ وہ دوبارہ کبھي آئے گي-''
رومي کے کلام سے عشق ومستي ،محبت شديد اورعقيدہ وحدت الوجود کي توانائي معصوم و منتظر آہيں اورسسکياں ،تمنائے ديدارمحبوب اورملاقات رب ودود کے سچے جذبات ظاہر ہوتے دکھائي ديتے ہيں -
رومي کو اپنے جذبہ عشق پر يقين کامل تھا اور انہوں نے تمام عمر عشق و مستي کا اظہار کيا - انہيں يقين تھا کہ وہ خدا کو محبوب ہيں - ان کي قربت ميں بہت سي پاک ہستياں بھي موجود ہوا کرتي تھيں - وہ يقين رکھتے تھے کہ وفا کي حساسيت کے ليے ناگرير ہے کہ وہ جام محبت جو ان کو رب کي جانب سے انہيں پيش کيا جاتا تھا -وہ جام محبت اپنے تمام حلقہ احباب کو پيش کريں
بشکریہ، خواھر سکینہ از تبیان
انہوں نے خدا سے وصل کے ليئے تنہائي اور خلوت اختيار کي تاکہ اللہ تعالي کا قرب ممکن ہو - اس کام ميں وہ بےحد مستقل مزاج رہے - انہوں نے کبھي بھي بے صبري کا مظاہرہ نہ کيا - رومي کے مطابق جولوگ اللہ تعالي سے حقيقي عشق کرنے کي تعليم ديتے ہيں وہ ہميشہ اپنايہ عہد ياد رکھيں کہ وہ شعلہ فشان جذبات کے ساتھ اللہ سے محبت کرتے ہيں - يہ وہ گراں قيمت ہے جو ہر باوفا عاشق اللہ کے عشق ميں فنا حاصل کرنے کے ليے ضرور ادا کرتا ہے - مزيد انہيں ايسے بلند پايہ اخلاق اور روحاني رويوں ميں سرمست رہنا چاہيے کہ وہ کم خور و کم خواب ہوں اور اپني گفتگو ميں ہميشہ رب تعالي کي طرف مکمل طور پر متوجہ رہيں -اورجب ايسا مرد کامل خدا کے عشق ميں فنا ہو کر لازوال نعمت عشق حاصل کرتا ہے تو وہ لازمي طور پر حيران کن روحاني تجربات سے گزرتا ہے-
رومي کي نظر ميں ايک عاشق کو غفلت کي نيند نہيں سونا چاہيں کيونکہ اس کي يہ نيند محبوب کو ناگواز گزر سکتي ہے اس ليئے محبوب سے ملاقات کے وقت عاشق کو ہمہ وقت بيدار رہنا چاہيئے - جيسا کہ خدا تعالي نے حضرت داود کو ہدايت فرمائي -
" اے داود جولوگ ميرے دائمي ذکر سے غافل ہو کر سوتے ہيں اور پھر مجھ سے محبت کا دعوي کرتے ہيں ، وہ جھوٹے ہيں -"
مولانا رومي کا کہنا ہے کہ
" جب رات شروع ہوتي ہے عاشق اللہ سے بہت ہي شديد محبت کي وجہ سے بيدار اور ہوشيار ہو جاتا ہے -"
رومي کے دعوے زباني نہيں تھے بلکہ اس نے اپنے اعمال سے اپنے دعوğ کي تائيد کرکے دکھائي -
ان کے مندجہ ذيل اشعار کا ترجمہ اس بات کي مزيد وضاحت کرتا ہے -
* ميراٹوٹا ہوا غريب وناتواں دل دشت محبت ميں مجنوں کي طرح ہے -
جس کے جسم کا انگ انگ فنا ہو چکا ہے-
مجھ ميں خدا کي محبت کا حق ادا کرنے کي طاقت نہيں ہے
ہر صبح وشام ميں نے محبت کي زنجيروں کي گرفت سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کي کوشش جاري رکھي ہے-
وہ زنجير جس نے مجھے قيد ميں ڈال رکھا ہے-
جب محبوب کے خواب شروع ہوتے ہيں،ميں اپنے آپ کو لہو لہو پاتا ہوں -
کيونکہ ميں مکمل طور پرہوش وحواس ميں نہيں ہوں-
مجھے خدشہ ہے کہ ميں اپنے محبوب کو اپنے خون دل سے رنگين کردوں-
حقيقت ميں اے محبوب حقيقي!توحوروں کو لازمي حکم دے کہ وہ ضرورجان سکيں کہ ميں تمام رات کيسے جلتا ہوں-
ہرکوئي آرام کي نيند سو چکا ہے -
مگر ميں وہ ہوں جس نے اپنا دل تيرے حضور پيش کيا ہے-
غافلوں کي طرح سونا پسند نہيں کيا-
تمام رات ميري آنکھيں آسمان کي طرف تکتي ہيں-
ستاروں کوگنتي ہيں -
محبوب کي شديد محبت نے ميري نيند کو مکمل طور پر اپني گرفت ميں لے رکھا ہے- ميں يقين نہيں کرتا کہ وہ دوبارہ کبھي آئے گي-''
رومي کے کلام سے عشق ومستي ،محبت شديد اورعقيدہ وحدت الوجود کي توانائي معصوم و منتظر آہيں اورسسکياں ،تمنائے ديدارمحبوب اورملاقات رب ودود کے سچے جذبات ظاہر ہوتے دکھائي ديتے ہيں -
رومي کو اپنے جذبہ عشق پر يقين کامل تھا اور انہوں نے تمام عمر عشق و مستي کا اظہار کيا - انہيں يقين تھا کہ وہ خدا کو محبوب ہيں - ان کي قربت ميں بہت سي پاک ہستياں بھي موجود ہوا کرتي تھيں - وہ يقين رکھتے تھے کہ وفا کي حساسيت کے ليے ناگرير ہے کہ وہ جام محبت جو ان کو رب کي جانب سے انہيں پيش کيا جاتا تھا -وہ جام محبت اپنے تمام حلقہ احباب کو پيش کريں
بشکریہ، خواھر سکینہ از تبیان