حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ اور تصوف سلوک

ابن محمد جی

محفلین
حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ موسس وبانی مسلک اہلحدیث کے متعلق بہت کم احباب یہ جانتے ہیں کہ آپ کا تصوف سے بھی گہرا تعلق تھا زیر نظر تحریر میں آپ کی زندگی کو اس پہلو سے بے نقاب کیا گیا ہے۔
حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ اور احسان وسلوک
تعارف :۔حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ ہندوستان کےصوبہ بہار میں واقع ایک گاؤں موضع’’بلتھوا‘‘ میں ۱۸۰۵ ؁میں پیدا ہوئے۔آپکا تعلق سادات خاندان سے تھا۔برصغیر پاک وہند میں آئمہ اربعہ ؒ سے امتیازی فقہ کاوجود قائم کرنےمیں آپکا اہم اور بنیادی کردارہے۔آپکے مسلک ومشرب سے منسوب لوگوں کی پہچان ’’ مسلک اہلحدیث ،وہابی ّغیرمقلدین‘‘کے نام سے کی جاتی ہے۔آپکے مسلک کے پیروکار اس عہد میں اپناا متیاز ’’ سلفی ‘‘ نام سے بھی قائم کرتے ہیں۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سید جواد علی سے حاصل کی ۔قرآن مجید اور کتب حدیث میں مشکوٰۃ شریف آپ ؒ نے صوبہ بہار کے دارلحکومت پٹنہ(عظیم آباد)کے محلہ تموہیاں میں شاہ محمد حسین صاحب ؒ کے مدرسہ سے حاصل کی پٹنہ میں ہی آپکو امام الصوفیاء ومجاھدین سید شاہ محمد اسماعیل شہدؒ کا واعظ سننے کی سعادت حاصل ہوئی ا س واعظ کے متعلق آپ خود فرماتے ہیں:۔
’’ہم اس واعظ میں شریک تھے،سارا ’’لین ‘‘کا میدان آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔پہلی ملاقات سید صاحبؒ اور مولانا شہیدؒ سے یہی پٹنہ میں ہوئی تھی‘‘۔(الحیات بعد الممات ص ۲۶)
مولانا محمد اسحاق بھٹی فرماتے ہیں:۔
’’ معلوم ہوتا ہے سید صاحب ؒ اور مولانا شہیدؒ کی اس محبت اور واعظ کی برکت سے میاں صاحبؒ کے دل میں دہلی جانے اور وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کا خیال پیدا ہوا ۔میں صاحب کا عازم دہلی ہونے کااصل مقصد حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے حضور زانوئے شاگردی تہ کرنا تھا۔‘‘ (تفصیل دیکھے تذکرہ مولانا غلام رسول قلعویؒ ص)
یہ واقعہ ۸۱۲۱ء ؁کا ہے۔اس وقت شاہ عبدالعزیز ؒ مسند شاہ ولی اللہؒ پر متمکن تھے۔شاہ عبدالعزیزؒ مفسرو محدث اور اپنے وقت کے صوفیاء کاملین میں سے تھے،
آپکے ہاں تصوف و سلوک کی تربیت کاوہ سلسلہ جاری وساری تھا،جو شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور انکے پیش رو سے چلا آ رہا تھا۔حضرت سید نذیر حسین ؒ اپنے زمانے کے عظیم صوفی و مجاھدشاہ اسماعیل شہیدؒ کے واعظ سے متاثر ہوکر تحصیل علم کیلئے ۱۸۲۲ء ؁کو دہلی روانہ ہوئے۔غازی پور مولانا محمد علی چڑیا کوٹی کے درس سے مستفید ہوئے۔آپؒ نے پٹنہ سے دہلی کا سفر چھ ماہ میں طے کیا۔اور مختلف جگہوں سے تحصیل علم کرتے ہوئے ۱۸۲۸ء ؁ کو دہلی پہنچے۔آپکی آمد سے تقریباً چار برس قبل ۵جنوری ۱۸۲۴ء ؁ کو حضرت شاہ عبد العزیز ؒ وفات پا چکے تھے ۔حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ نے پنجابی کٹڑہ کی مسجد اورنگ آباد میں تحصیل علم کا آغاز کیا ،اور مختلف حضرات سے مختلف علوم و فنون کی درسی کتب پڑھیں۔حضرت شاہ عبد العزیزمحدث دہلویؒ کی وفات کے بعد انکی مند پر انکے لائق ترین نواسے حضرت شاہ اسحاقؒ متمکن تھے ۔حضرت سید نذیرحسین ؒ نے ان سے صحاح ستہ کی تکمیل کی ،اور ان سے سند واجازت حاصل کی۔آپکو صیح بحاری اور صیح مسلم پڑھنے کا شرف مولانا عبد الخالق صاحب سے بھی حاصل ہوا۔۱۸۳۳ ؁ء میں آپکی شادی آپکے رفیق ترین استاد مولانا عبد الخالق صاحب ؒ کی صاحبزادی سے ہوئی۔یہ انکے دہلی تشریف لانے کے چار سال بعد ۱۸۳۲ ؁ء کا واقعہ ہے۔اس شادی کے کفیل خود شاہ اسحاقؒ اوربرادر صغیر شاہ یعقوبؒ تھے۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ نے مسند درس کو زینت بخشی۔آپکا علم حدیث پڑھانے کا اسلوب کچھ ایسا تھا،کہ آپکی شہرت ہندوستانسے نکل کر اقطار عالم میں پھیل گئی۔ہندوستان کے علاوہ کئی ممالک کے طلبہء نے آپ سے کتب حدیث پڑھی۔۱۸۶۳ ؁ء میں آپکو برٹش گورنمنٹ نے مقدمہ بغاوت میں گرفتار کرلیا۔بعد ازاں ایک سال کے بعد آپکی بے گناہی ثابت ہونے پر آپکو رہائی ملی۔۱۳۰۰ ؁ھ کو آپ حج کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں بھی آپکو مخالفین کی جانب سے کافی تکالیف کا سامنا رہا ۔۱۸۹۸؁ء میں برٹش گورنمنٹ نے آپکو شمس العلماء کا خطاب دیا ۔
حضرت سید نذیر حسین دہلوی ؒ کم وپیش ستر برس درسِ حدیث دیااور ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۲ ؁ء کو وفات پائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپؒ کی زندگی پر سب سے مستند کتاب ’’الحیات بعد الممات ‘‘آپکے شاگرد مولانا فضل الدین بہاریؒ نے ۱۹۰۸ ؁ء میں تالیف فرمائی۔آپکے تلامذہ آپکو شیخ الکلؒ ،الکلؒ اور فی الکل ؒ جیسے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
تعلق احسان وسلوک:۔صاحب شمس العلماء لکھتے ہیں:۔
’’جن حضرات نے میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کے علمی فضل وکمال کی تصویریں دیکھی ہیں وہ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ میاں صاحبؒ نہایت بلند مقام رکھنے والے صوفی بھی تھے‘‘۔(شمس العلماء )
مولانا فضل الدین بہاریؒ حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کے کمالات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’کہ حضرت کو جس نے دیکھا،وہ ایک خدا رسیدہ عاشق مزاج صوفی اور سچا درویش یا پیر طریقت خیال کرنے پرمجبور ہے‘‘۔
’’صیح بخاری وغیرہ کتب صحاح میں آپ جس وقت کتاب الرقاق اور نکات تصوف فرماتے تو خود کہتے،صاحبوہم تو احیاء العلوم کو یہاں دیکھتے ہیں‘‘۔(الحیات بعد الممات ص۱۲۳)
مولانا بہاریؒ مسمیریزم اورتصوف میں فرق کرتے ہوئے آپ ؒ کے حالات میں لکھتے ہیں:۔
’’میاں صاحب ؒ کو اس مسمیریزم کی خبر بھی نہ ہوگئی،مگر تصوف نبویﷺنے آپکو دلایا تھاکہ سب امور لاشئے ہیں،اسلام کو اس سے کسی طرح کا تعلق نہیں۔(ص۱۴۲)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
’’میاں صاحب کا علم شریعت وطریقت تو مسلمات قطعیہ یقینیہ سے تھا،نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیائے اسلام جس پر شاہد ہے۔‘‘(ص۱۲۳)
اظہار وعبودیت اور احسان وسلوک:۔تصوف کا حصول کثرت ذکر ہے اور سکا حاصل درجہ احسان ہے ۔مولانا بہاری ؒ فرماتے ہیں:۔
’’طہارت کے بعد ہی عبادت ہے،اور طہارت ہے بھی عبادت کیلئے۔جس نے آپکی اقتداء کی ہے،یاساتھ نماز پڑھی ہے،یا پڑھتے ہوئےدیکھا ہے،اگر اسکےسینہ میں دل ہے،اورد ل میں کچھ مذاق تصوف ہے،تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسی عبادت تطلع الی لجبروت کے نئے بلند مینار کا کام دے سکتی ہے۔قرات میں خشیعت،مرعوبیت،گریہ تعدیل اور قرۃ العین یہ سب باتیں ایسی تھیں جس سے نعبد اللہ کا انک تراہ کے معنی اچھی طرح سمجھ میں آ جاتے تھے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کی مثال ٹھیک روح اور جسد کی مثال ہے۔اسکے ظاہری صورت بمنزلہ جسد کے ہے،اور کفیت قلبی بمنزلہ جسد کے ہے ،اور کفیت روحانی عبادت (جسکو ہم بالفظ دیگر مراقبہ کہتے ہیں)کا پتہ بھی ہیت ظاہری سے اچھی طرح لگ جاتا ہے،جس کا نام اصطلاح میں خشوع وخصوع ہے‘‘
۔(ایضاً۱۲۵)
آپکے ذوق عبادت ،گریہ تعدیل ارکان جس کو مولانا بہاریؒ نے تطلع الجبروت کا نام دیا ہے،آپ نے یہ درجہ احسان مسلک اہلحدیث کے مشہور صوفی حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ سے حاصل کیا تھا۔اور حضرت سید عبداللہ غزنویؒ علم حدیث میں آپکے شاگرد بھی ہیں۔اور یہ ممکن ہے کہ آپ ؒ نےسید عبداللہ ؒ سے باقاعدہ تصوف وسلوک کی تربیت بھی حاصل کی ہو کیونکہ آپ خود فرماتے ہیں:۔
’’عبداللہ نے مجھ سے حدیث پڑھی اور میں نے عبداللہ سے نماز سیکھی‘‘
قارہین !ایک شیخ الحد یث کا یہ اعتراف حقیقت میں اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ علم تصوف وسلوک کے بغیرحقیقی معنوں میں نماز بھی نصیب نہیں ہو سکتی۔اللہ اکبر۔
عقید ت و احترام صوفیاء عظامؒ:۔حضرت سید نذیر حسین دہلوی ؒ صوفیاء عظام سے بے حد عقیدت ومحبت اور احترام کیا کرتے تھے خاص الخاص شیخ اکبرعلامہ ابن عربیؒ سے تو بہت زیادہ عقیدت تھی۔مولانا بہاریؒ لکھتے ہیں:۔
’’طبقہ علماء اکرام میں شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی بڑی تعظیم کرتے ،اور خاتم الولایہ المحمدیہ فرماتے۔اور بات بھی یہی ہے،کہ علم ظاہر وباطن کی ایسی جامعیت ندرت سے خالی نہیں ہے۔مولانا قاضی بشیر الدین قنوج علیہ الرحمۃ جو شیخ اکبر کے سخت مخالف تھے۔ایک مرتبہ دہلی سے اس غرض تشریف لائے کہ انکے بارے میں میاں صاحبؒ سے مناظرہ کریں ،اور دو مہینے دہلی میں رہے،اور روزانہ مجلس مناظرہ گرم رہی،مگر میاں صاحبؒ اپنی عقیدت سابقہ سے جو شیخ اکبر ؒ کی نسبت رکھتے تھے،ایک تل کے برابربھی پیچھے نہ ہٹے،آخرممدوح جن کو میاں صاحب ؒ سے کمال عقیدت تھی،دومہینے کے بعد واپس تشریف لے گئے ۔
مولانا مغفور اکثر طلباء کو کتب درسیہ پڑھا کر حدیث پڑھنے کے لئے دہلی بھیج دیتے ،چنانچہ پیشتر شاگرد مولانا مغفور کے میاں صاحبؒ کے بھی شاگرد ہیں۔مگر چونکہ ان لوگوں کے خیالات شیخ اکبر کی طرف سے مولانا مغفور کے سنیچے ہوئے تھے،ان میں بہت کم ایسے تھے جو شیخ اکبر کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوں۔
مولانا ابوالطیب محمد شمس الحق (جو مولانا مغفور کے تلمیذ خاص اور میاں صاحب ؒ کے شاگرد رشید ہیں)نے بھی میاں صاحب ؒ سے کئی دن متواتر شیخ اکبر کی نسبت بحث کی ،اور فصوص الحکم شیخ اکبر پر اعتراض جمائے۔میاں صاحب نے پہلے سمجھایا ،مگر جب دیکھا کہ ابھی لا تسلم ہی کے کو چہ میں یہ ہیں تو فرمایاکہ:۔
’’ فتوحات مکیہ‘‘ آخری تصنیف شیخ اکبر کی ہے ،اور اسی لیے اپنی سب تصانیف ما سبق کی یہ ناسخ ہے‘‘



اس جملہ پر یہ بھی سمجھ گئے(الحیات بعد الممات ص ۱۲۳،۱۲۴)
مرزا مظہر جانجاناں ؒ سے عقیدت:۔مرزامظہر جانجاناںؒ ؒ صوفیاء نقشبدیہ میں سے بلند ترین مراتب صوفی گزرے ہیں،قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ مصنف تفسیر مظہری آپ ہی کے شاگرد تھے۔قاضی صاحبؒ نے اپنی شیخ کی عقیدت میں اپنی مایہ ناز تفسیرکا نام ہی’’ تفسیر مظہری‘‘ رکھا۔
’’حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کھانے کی تمیز کے خصوص میں حضرت مرزا جانجا ناںؒ علیہ الرحمۃ کی بہت تعریف کرتے،ایک حکایت بیان کی ہے کہ ’’ عبدالاحد خان وزیر نے ایک روز لوزیں نہایت اہتمام سے تیار کر کے میرزا مظہر جان جاناں قدس سرہ کی خدمت میں بھیجی،میرزا صاحب نے ایک لوزیں ذرا سا توڑ کر چبا کر تھوک دیا اور فرمایا ’’ کیا بیلوں کی سانی بھیجی ہے‘‘۔( الحیات بعد لمات۱۵۱)
خاندان شاہ ولی اللہؒ سے عقیدت ونسبت:۔مولانا بہاریؒ فرماتے کہ :۔
’’ میاں صاحبؒ اپنے اساتذہ جناب مولانا شاہ ولی اللہؒ جناب مولانا شاہ عبد العزیزؒ ،مولانا شاہ محمد اسحاق قدس سر ہم اور انکے خاندان کا بہت ادب کرتے تھے ،اکثر قرآن وحدیث کے ترجمعے کے موقعہ پر فرماتے:۔
’’مجھ سے اسکا مقراضی ترجمعہ سنو جو ہمارے بزرگوں سے سینہ بسینہ چلا آتا ہے‘‘
اور بیان مسائل میں بھی انہیں بزرگوں کے اقوال سے سند لاتے اور فرماتے’’ ہمارے حضرت یوں فرماتے ہیں‘‘
اس پر کوئی آزاد طبع طالب علم اگر کہہ دیتا حضرت کا کہنا سند نہیں ہو سکتا ،جب تک قرآن وحدیث سے سند نہ دی جائے تو بہت خفا ہو کر فرماتے:۔
’’ مردود کیا یہ حضرت گھس کٹے تھے،ایسی ہی اڑان گھائی اڑاتے تھے‘‘۔
مولانا بہاریؒ مزید لکھتے ہیں:۔
’’ یوں تو خاندان والی اللّہی کے ساتھ نہایت ہی شغف تھا ،اور نسبت بھی نہایت زبر دست رکھتے تھے ،مگر شاہ ولی اللہؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ کی نسبت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ:۔
’’ میں ان دادا پوتوں کا قائل ہوں جو صرف قرآن و حدیث سے استنباط مسائل کرتے ،اور اپنی رائے پر اعتماد رکھتے تھے۔زید و عمر کسی مصنف سے یا عالم کی پیروی نہیں کرتے۔انکی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ فیضان الٰہی جوش مار رہا ہے‘‘۔
جناب شاہ عبد لعزیز صاحبؒ کے بارے میں فرماتے :۔
’’ افسوس ہے کہ زمانہ شباب ہی میں آپکی بصارت جاتی رہی،ورنہ ذہانت تو اس بلا کی تھی کہ اس حالت میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے تھے‘‘۔(ایضاص ۱۶۶ تا ۱۶۸)
مولانا شاہ رفیع الدین قدس اللہ سرہٗ کے ایک صاحبزادے تھےء ،جو خورجہ میں رہتے تھے ہر چند علم کی درسگاہ ان میں بہت کم تھی،مگر دہلیاکثر آتے ،اور میاں صاحب سے ملاقات کرتے ۔مولانا بہاریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے تو میاں صاحب انکے استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے( ایضاص ۱۶۳)
سید عبد اللہ غزنویؒ او ر د یگر صوفیاء اہلحدیث ؒ سے تعلق و تکریم:۔ عبد اللہ غزنوی ؒ اور مولانا غلام رسول قلعویؒ اور حافظ محمد لکھویؒ مسلک اہلحدیث کے اوّلیں حضرات میں شمار کیے جاتے ہیں،یہ حضرات اس پائے کے لوگ تھے ،کہ جن جگہوں سے گزرے یا قیام کیا تو بستیوں کی بستیاں شرک وبدعت سے پاک کی۔اوربے شمار مخلوق خدا کیلئے ہدایت کا موجب بنے۔ اسکی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ حضرات علم ظاہر وباطن میں کامل واکمل تھے ۔زبر دست روحانی توجہ کے مالک تھے۔ علم حدیث کی سند ان صوفیاء ثلاثہ نے حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ سے حاصل کی ۔حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ سے علم حدیث حاصل کرنے کا فیصلہ بھی سید عبد اللہ غزنویؒ کے ایک الہام پر کیا گیا تھا ۔اس واقعہ کی تٖصیل کچھ یوں ہے کہ اللہ کہ ولیوں کا رنگ بھی عجیب ہوتا ہے ،بعض اولیاء اللہ قوت باطنی اور کشف و مشاھدہ کی بدولت اپنے ہم مزاج کو فوری پہچان لیتے ہیں ،بلکہ حلال و حرام حتی کہ موضوع اور صیح حدیث کی پرکھ بھی حدیث مبارکہ کے انوارات کی وجہ سے کر لیتے ہیں ،واقعہ سیر
سوانح کی کتب کچھ اسطرح ملتا ہے کہ:۔
’’ جب مولانا سید عبداللہ غزنویؒ اور مولانا غلام رسول قلعویؒ ’ ’ کوٹھہ‘‘ سے واپسی پرگجرات کے قریب پہنچے تو حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ نے فرمایا’’ مجھے یہاں ایک مجذوب کی خو شبو آتی ہے جو ملنے کے قابل ہے‘‘
سید عبد اللہ غزنوی ؒ بہت تیز کشف ومشاھدات کے مالک تھے ،اکثر فیصلے کشف والہام کی بنیاد پر کیا کرتے تھے اور وہ عموماً درست ثابت ہوتے تھے ۔
’’ رستے میں ہی دونوں حضرات ؒ نے ارادہ حدیث پڑھنے کا بھی کر لیا تھا،اور یہ بھی قصد کیا تھا کہ دہلی جا کر حدیث پڑھی جائے۔سو اسی خیال کو دل میں لئے ہوئے مجذوب کی طرف روانہ ہوئے،تا کہ اس سے دریافت کر لیں کہ حدیث کا علم کہاں سے پرھیں،اس مجذوب بزرگ کا نام جگنو شاہ تھا۔جب آپ اس کی طرف روانہ ہوئے،تو وہ اپنے حاشیہ نشینوں سے کہنے لگا،دیکھو دو شخص محمدیﷺ نمونہ صحابہ اکرام چلے آ رہے ہیں،مجھے کوئی کپڑا پہنا دو،اور ان دونوں کے لئے فرش کرو،جب آپ اس بزرگ کے قریب پہنچے،تو سائیں جگنو شاہ نے اٹھ کر استقبال کیااور بٹھا لیا،دہلی کی طرف اشارہ کر کے کہا،جنت اس طرف ہے۔یہ سن کر اس کے پاس کے لوگ بھی حیران تھے،کہ یہ کبھی کسی مخاطب نہیں ہوا ہے،آج ہوش و ہواس کی باتیں کر تا ہے،جب حضرت سیدعبداللہ صاحبؒ اور مولانا غلام رسول واپس آنے لگے ،تو کہنے لگے کہ لباس دیکھ کر بھول نہ جانا ،وہ شخص مسکین صورت ہے،اور اسکا نام سید نذیر حسین دہلویؒ ہے اس سے پڑھنا۔یہ سن کر ان کو تسلی ہو گئی۔پھر وہاں سے چل کر قلعہ میاں سنگھ پہنچے اور آتے ہی مولوی صاحب عبد اللہ صاحبؒ نے فرمایاکہ مجھ کو اللہ کی طرف سے معلوم ہو ا ہے کہ
چند ماہ ٹھہر کر پڑھنے کو جاؤں‘‘۔(سوانح حیات مولانا غلام رسول قلعویؒ ص۵۲)
اسطرح کے مجذوب لوگوں کے متعلق معاشرے میں طرح طرح کی باتیں پائی جاتی ہیں ۔بعض ان کو بڑا کامل و اکمل سمجھتے ہیں،اور بعض انکی تو ہین تنقیص کرتے ہیں،لیکن ضروری ہے کہ مجذوب کی پہچان کے لئے ان لوگوں سے رائے لی جائے ،جو علم ظاہر و باطن میں کامل اکمل ہیں صاحب دلائل السلوک فرماتے ہیں:۔
’’ مجذوب سالک ظاہراً متبع شریعت نہیں ہوتا،اسکے قوی باطنی جل چکے ہوتے ہیں،اسکی مثال ایسی ہے جیسے کسی نابینا کو یابینا کو اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر موٹر میں بٹھا کر پشاور سے لاہور لے جائیں،پھر اس سے راستے کی تفصیلات یا نشان راہ پوچھے جائیں تو وہ کچھ نہ بتاسکے گا۔اس لئے مجذوب سالک سے کسی کو فیض نہیں مل سکتا،کیونکہ وہ راستہ سے واقف نہیں ہوتا،مگر سالک المجذوب منازل منازل طے کر کے جاتا ہے،اسے رستے کی تفصیل معلوم ہوتی ہیں ،یہ منازل بہت اونچے ہیں ،مگر عوام جہلا تو ہر مجنون اور پاگل کو مجذوب ہی خیال کرتے ہیں،اور کامل واکمل سمجھتے ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اس سے بعد عجیب باتیں صادر ہوتی ہیں۔حلانکہ ایسی باتیں مجنون سے صادر ہو سکتی ہیں،کیونکہ اسے یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ایسے آدمی کے متعلق احتیاط لازم ہے،نہ تو اسے برا کہا جائے نہ ولی سمجھ لیا جائے۔قرآن کریم نے اصول بتایا ہے ۔ولاتقف ما لیس لک بہ علم۔اس لئے ہر مجذوب نما آدمی کے بارے میں توقف مطابق قرآن ہو گا۔اگر عارفین میں سے کوئی صاحب نظر بتا دے کہ وہ بد کار ہے ،تو مردود سمجھا جائے گا۔کامل اکمل سمجھ تصور کر کے شریعت کی تو ہین نہ کی جائے۔(ص۸۰)
کنز الطالبین میں ہے:۔
’’(مجذوب ہونا) کمزوری کی دلیل ہے،کوئی نبی مجذوب نہیں ہوا۔اگر یہ کمال ہوتا،تو انبیاء کو ملتا۔ ہاں جو سالک جس قدر طاقتور ہوگا۔اسکی زندگی حال دل کیساتھ اسی قدر عام انسانوں کی زندگی ہو گی۔یہ مشکل کام ہے،اوریہ طاقت انبیاء کو عطا ہوتی ہے،جبھی تو ہرآدمی انکی اطاعت کا مکلف ہے ۔کہ انکی زندگی کا طریقہ بہت ہی عام سا ہوتا ہے ،مشکل زندگی نہیں ہوتی‘‘۔ (ص ۲۲)
دہلی جانے سے پیشتر سید عبد اللہ غزنوی ؒ خواب بھی دیکھا تھا، جس میں حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ سے علم حدیث حاصل کرنے کی طرف اشارہ تھا۔اللہ کی شان دیکھے کہ وہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا ،اور کیسے کیسے رہنمائی فرماتا ہے۔کیو نکہ اسکا وعدہ ہے ۔یھدی الیہ مینیب ۔ تبرکاً وہ خواب بھی یہاں نقل کر دیتا ہوں ۔فرماتے ہیں:۔
’’ یعنی میں نے دیکھا کہ میں ایک سیڑھیوں والے مکان کے نیچے اترا ہوں اسکے صحن میں پہنچا ہوں تو ایک چراغ جل رہا تھا ۔اس وقت میری بغل میں کتاب صیح بخاری تھی ۔چراغ کے سامنے بیٹھ کرمیں نے یہ کتاب کھولی تو دیکھتا ہوں کہ کتاب شروع سے آخر تک سیاہ ہو گئی ،اور اس پرقدر دھوئیں کی تہہ جمی ہوئی ہے کہ حرف نظر نہیں آتے ۔بالآخر میں نے رومال پکڑ ا اور صفحہ اوّل سے کتا ب صا ف کرنا شروع کی ،اور ایک ایک صفحہ صاف کرتا ہوا ،آخرکتاب کے قریب پہنچ گیا ۔کچھ اوراق ابھی باقی تھے ،بہت خراب تھے،ٹھنڈی آہ بھر کر میں نے کہاں ،اللہ اکبر۔ میں نے کتنی تکالیف برداشت کی ہے ۔ اس خواب میں مجھے اپنا چہرہ نظر آ رہا تھا،اور میں دیکھ رہا تھا کہ کتاب کی گرد میرے دانتوں پر نمودار ہو ئی ہے۔
اس خواب کی تعبیر کے لئے میں حیران تھاکہ اچانک دہلی کا سفر پیش آیا،اور یہ وہ شہر تھا جو ہمارے شہروں کی نسبت بہت نشیب میں ہے۔ وہاں خاتم المحد ثین شیخ سیّد نذیر حسین دہلویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا،اور ان سے کتاب صیح بخاری پڑھنی شروع کی ،اسی اثناء میں دہلی
۱۸۵۷ ء کا ہنگامہ شروع ہو گیا ،شدید ہنگامے کے دوران میں،جب کے ہر شخص کو اپنی جان کا خطرہ تھا،میں صیح بخاری پرھنے میں مشغول تھا۔
پھر صورتحال یہ پیدا ہو گئی کہ اس ملک پر انگریز غالب آ گئے،اور باشند گان دہلی ادھر ادھر منتشر ہو گئے۔ان دنوں کتاب صیح بخاری ختم ہونے کے قریب تھی،مگر اہل شہر کے انتشار اور پراگندگی کی وجہ سے میرے اور سید نذیر حسین دہلویؒ کے درمیان بھی جدائی ہو گئی،اور کتاب پوری پڑھی نہ جا سکی۔میرے اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ ’’زیر خانہ‘‘ سے مراد شہر دہلی تھا۔’’چراغ روشن‘‘ سید نذیر حسین دہلویؒ تھے‘‘۔
ان صوفیاء ثلاثہ ؒ نے دہلی کا سفر کیسے کیا ،اور سیدنذیر حسین دہلویؒ کی نظر میں ان حضرات کا کیا مقام اور رتبہ تھا،اسکا کچھ اندازہ اس واقعہ سےہو تا ہے۔ان اصحاب ثلاثہ ؒ کا دہلی کا سفر مولانا محی الدین احمد قصوری ؒ اس طرح بیان فرماتے ہیں:۔
’’ شیخ عبد اللہ غزنوی ؒ کے روابط مولانا غلام رسولؒ قلعہ والوں اور حافظ محمد صاحب لکھوکی والوں کیساتھ بہت بڑھ گئے تھے،اور تینوں بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ حدیث کی سند حضرت میاں نذیر حسین دہلویؒ سے لی جائے،چنانچہ تینوں نے لکھ کر حضرت میاں صاحب سے اجازت مانگی۔اور اجازت ملنے پر فوراًروانہ ہو گئے۔اس وقت تک ابھی ریل جاری نہیں ہوئی تھی،لوگ گاڑیوں کے اڈہ پر پڑاؤ ہوتے ہوئے دہلی پہنچتے تھے۔جس وقت تینوں بزرگ دہلی گا ڑیوں کے اڈہ پر پہنچے،تو ایک بزرگ آدمی کو موجودپایا،جس نے ان سے پوچھ کر کہ کہاں کا مقصد ہے،انکا سباب اٹھا لیااور کہا میں آپ لوگوں کو وہاں پہنچا دوں گا۔وہ بزرگ ان تینوں بزرگوں کا سامان اٹھا کر میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کی مسجد میں لے گیا،انکا اسباب وہاں رکھا،اور خود غائب ہو گیا۔یہ حیران کے اس مزدور نے پیسے بھی نہیں لئے،اور کہاں چلا گیا۔ جب کافی وقت گزر گیا،تو انہوں نے کسی صاحب سے دریافت کیا کہ میاں صاحب کہاں ہیں ،اور کب آئے گے،تو اسنے جواب دیا کہ یہ میاں صاحب ہی تھے،جو آپکا ساما ن لا ئے ہیں۔اب وہ غالباً گھر تمھارے کھانے کا کہنے گئے ہونگے۔یہ تینوں بزرگ دل ہی دل میں بڑے نادم ہوئے،چنانچہ جب حضرت میاں صاحبؒ واپس تشریف لائے،اور کھانا بھی لے آئے،تو انہوں نے بہت معذرت شروع کی،تو میاں صاحب نے فرمایا،آپ تحصیل حدیث کے لئے تشریف لائے ہیں،تو حدیث بجز اسکے کیا ہے کہ خدمت خلق۔پہلی حدیث کا پہلا سبق
ہے‘‘۔
حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ نے نہ صرف خود بلکہ ٓپکی نسبی اولاد نے بھی میاں صاحب ؒ سے علم احادیث میں سند وا جازت حاصل کی ،خودسید عبد اللہ غزنویؒ کو اپنی زندگی میں اس بات کی بشارت مل گئی تھی،فرماتے ہیں:۔
’’میں نے خواب دیکھا ہمارے شیخ محترم سید نذیر حسین دہلویؒ کے دہن مبارک سے شریں شربت کا چشمہ جاری ہے،اور وہ شربت میرے دونوں ہاتھوں پر گر رہا ہے،اور میں اسے پی رہا ہوں ،جسکا مطلب یہ ہے کہ اس شربت کا چشمہ ہمارے شیخ کا دہن مبارک ہے۔میرے دونوں ہاتھ اسکے جاری ہونے کی جگہ اور اسکا مدخل میرا منہ ہے،میں اس خواب کی تعبیر میں حیران تھا۔کہ اتفاق سے میرا بیٹا عبد الجبار شیخ مذکورہ کی خدمت میں پہنچا،اور ان سے اس نے علم حدیث کی تحصیل کی۔تو گویا وہ چشمہ شریں علم حدیث ہے ،جو ان احباب سے جاری ہوااور میرے فرزندکا ان سے علم حدیث حاصل کرنا ،میرا اس چشمہ شریں سے شربت پینا ہے اسلئے میرا مذکورہ فرزند میرا ہی ایک حصہ ہے۔
اور میری باقیات صالح سے ہو گا‘‘۔؂۱
سید عبد اللہ غزنوی ؒ اور میاں سید نذیر حسینؒ کے درمیان تا حیات گہرے روابط رہے۔جب سید عبد اللہ غزنویؒ نے دارفانی سے کوچ فرمایا تومیاں صاحب کے تعزیتی خط کا تذکرہ الحیات بعد الممات میں یو ں ملتا ہے:۔ ’’مولانا عبد اللہ قدس سرہ چونکہ متشرع صوفی تھی انکی تعزیت میں خط انکے بیٹوں کو لکھا وہ یہ ہے :۔
از عاجز محمدسید نذیر حسین بامطالعہ گرامی مولوی عبد اللہ ،مولوی احمد ،مولوی عبد الجبار سلمہم ا للہ تعالیٰ با لخیر۔بعد ازا سلام علیکم و رحمۃ اللہ برکا تہ واضح باد کہ از خبر انتقال جامع خیر و برکات موجب تاسف و الم کمال روداد انا للہ وا نا الیہ راجعون۔اللھم اغفر لہ وا رحم وادخلہ جنت
الفردوس
دا عبد اللہ فنا فی اللٰہ شد از جناب باریش تسلیم باد
چشمہ فی کرامت شان او رونق افزا چشمہ تکریم باد
الرحم الراحمین آں صاحبان را بر جادہٗ شریعت بمیراث پدری فائز کناد وا یں عاجز و بدعا عافیت
دارین شما بدر گاہ کبریا مستد عی می باشد قبول فرما یند زیادہ سلام خیر الختام‘‘؂۲
مکتوب میں دئے گئے اشعار کے متعلق مولانا بہاری فرماتے ہیں:۔
’’یقینی طور پر یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ آپ شعر بھی کہتے تھے،مگر حضرت عبد اللہ غزنوی ؒ کی تعزیت پرجو خط انکے صاحبزادوں کے نام بھیجا تھا،اس میں غالباً یہ قلم برداشتہ تھا۔ ‘ ‘ ؂۳
سید عبد اللہ غزنوی ؒ اور سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے درمیان بہت محبت وعقیدت تھی،اس لیے میاں صاحب فرمایا کرتے تھے :۔
’’ہزاروں شا گردوں میں بس دو عبد اللہ ملے جو اپنی نظیر آپ تھے،ایک عبد اللہ غزنوی اور دوسرے عبد اللہ غازی پوری‘‘۔ ؂۴
قارہین !صوفیاء عظام پر ؒ اللہ کی کس قدر خصوصی رحمت ہوتی ہے۔ حضرت میاں صاحبؒ حافظ محمد لکھویؒ کی ذہانت اور قابلیت کے بے حد
مداح تھے۔فرمایا کرتے تھے:۔
میرے حلقہ درس میں ایک طالب علم حافط محمد پنجابی ہے،جو میرے منہ سے بات نکلنے سے پہلے ہی سمجھ جاتا ہے۔قوت حافظہ کا یہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ جو کتاب دیکھ لیتے،اسکے حوالہ جات اور صفحوں کے صفحے عبارتیں زبانی یاد ہوجاتی۔اس بناء پر حضرت میاں صاحب ؒ ازراہ تفنن طبع آپکو مہتمہم کتب خانہ کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔‘‘
ھ ؁میں مولانا حافظ عبد المنان محد ث وزیر ٓبادی ؒ حضرت مولانا شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلویؒ سے ملاقات کیلئے دہلی تشریف لے گئے۔حا فط عبد المنان صاحبؒ میاں صاحبؒ کے پاس السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گئے،اور میاں صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے پہچانا ہے،میاں صاحب ؒ نے فرمایا،ہاں پہچان لیا ہے،،تم عبد المنان وزیرآبادی ہو،اسکے بعد میاں صاحب نے حافظ عبد المنان ؒ سے فرمایا:۔
’’ عبد الجبار غزنویؒ ،حافط محمد لکھویؒ اورتم پنجاب میں توحید و سنت کی اشاعت کر کے میرے دل کو ٹھنڈک پہنچائی ہے،اور مجھے اللہ کی جانب
سے امید ہو گئی ہے کہ وہ مجھے نجات دے گا‘‘’(ص)
قارہین!سید نذیر حسین دہلویؒ جسی عظیم اقامت لوگوں کا ان صوفیاء کے کاموں سے خوش ہونا،اور اپنے لئے توشہ آخرت قرار دینا کوئی
معمولی بات نہیں۔
شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ اور بیعت و ارشاد:۔مولانا غلام رسول ؒ قلعوی اور سید عبد اللہؒ غزنوی علم حدیث میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ سے فیض یافتہ تھے۔حضرت سیدنذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی مبارک سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ آپ سے اقتباسِ علم کے بعد سید عبداللہ غزنویؒ سے بیعت ہوا کرتے تھے اس ضمن میں ایک واقعہ بھی ملتا ہے کہ :۔
’’مولوی شاہ ممتاز الحق صاحب مرحوم صاحب جب حضرت مولانا عبداللہ صاحب غزنوی کے حضور میں بغرضِ بیعت و ارشاد حاضر ہوئے تو عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ تم دہلی جاکر وہاں رہو اور شرفِ صحبت شیخ سے مستفید ہوکر ان سے اجازت لیکر یہاں آؤ،چانچہ ایسا ہی ہوا،وہ دہلی آئے اور یہاں بہت دنوں تک رہئے،پھر جب میاں صاحب کے حظ کے ساتھ امر تسر پہنچے،تب عبداللہ صاحب نے ان سے بیعت لی اور مسترشدین میں اپنے داخل کیا‘‘
( الحیات بعد الممات ص۱۳)
مولانا فضل الدین بہاری ؒ جو کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے شاگر د رشید تھے ،اور ٓپ کے ساتھ سفر وحضر میں رہے ،آپ نے شیخ الکلؒ کی سوانح حیات ’’ الحیات بعد الممات ‘‘ میں بیعت اور اقسام بیعت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ، جو کہ کئی صفحات پر مشتمل ہے ،پھر بیعتِ تصوف سلوک کو مشروع ثابت کرکے حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے متعلق لکھتے ہیں
’’ حضرات ناطرین جب آپ شریعت وطریقت کی حقیقت پڑھ چکے ہیں ،تو اب ہم کو یہ دکھانا ہے کہ ہمارے میاں
صاحب کیسے بیعت لیتے تھے،سوائے بیعت خلافت ا وربیعت جہاد ،بیعت ثبات فی القتال ،بیعت ہجرت کے آپ باقی جملہ اقسام بیعت میں سے مناسب حال بیعت مریدوں سے لیتے تھے،مولوی ابومحمد حفاظت اللہ امرتسری آپکے سفر بنگالہ تشریف فرماہوئے تو ہم اورآپکے پوتے حافظ عبداللہ السلام اور حاجی محمد حسین صاحب ساکن میرٹھ آپکے ہمراہ تھے ۔جس راز آپ بمقام دیپ کنڈ رونق افراز تھےآپکی شہرت سن کر اس قدر لوگ جھک پڑے ،جنکی گنتی ناممکن تھی،سب کے سب نے ٓآپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔
ایک صاحب اپنی بیعت کی کفیت لکھتے ہیں کہ رحیم آباد میں بعد المغرب ہم میاں صاحب ؒ کے حضور بیعت کیلئے حاضر ہوئے
اس وقت تین چار آدمی قریب بیٹھے ہوئے تھے،لیٹے،لیٹے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا ،سورہ احزاب کے پانچویں رکوع کو ان المسلمین والمسلمات سے اجراً عظیما۔تک تلاوت فرما کر انکے معنی اور مطالب بووضاحت تمام سمجھاتے رہے،اسکے بعد فرمایا اگر تم ان سب اعمال کے ہمیشہ عامل رہو گے تو میں تمھاری گواہی دوں گا ،ورنہ میں کہاں اور تم کہاں۔‘‘
(الحیات بعدلممات س۴۶)
سفر پنجاب میں لوگوں نے آپکے دست مبارک پر بیعت کی ،مداہنت سے آپکو سخت نفرت تھی،مریدوں اور طلبہ کو اکثر اسکی نصحیت کرتے ،کوئی شاگرد اگر اپنا ارادہ بیعت کا ظاہر کرتا تو فرماتے کہ ’’تم شاگرد ہی کافی ہو ‘‘اسکے بعد اگر اصرار کرتا تو ٓپ بیعت لے لیتے ،جس مجمع میں
آپ کسی سے بیعت لیتے تقریباً جملہ حاضرین شریک بیعت ہو جاتے ( الحیات ص ۱۴۸)






 

نایاب

لائبریرین
ابن آدم ہزار دائروں کا اسیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور " انسان " صرف " اسیر انس "
اک " مرد حق " کے بارے اچھی معلوماتی شراکت
 
مولانا فضل الدین بہاری کی تصنیف اور ان کی تحقیق سے موجودہ غیر مقلدین بالکل متفق نہیں ہیں
 

ابن محمد جی

محفلین
مولانا فضل الدین بہاری کی تصنیف اور ان کی تحقیق سے موجودہ غیر مقلدین بالکل متفق نہیں ہیں
انعام جی ،محدث لائبریری نے جو کہ اہلحدیث کی ہے،وہاں کتاب موجود ہے ،دوسرا بہاری صاحب بالواسطہ انکے شاگرد ہیں،اگر کوئی انکا ر کرتا ہے تو یہ جہالت ہے،یہ مقالہ میری ذاتی تحقیق ہے اور انکے فورم پر موجود ہے مگر انکار نہیں کر سکے ،بس کہہ دیتے کہ ہمارے دو چار علماء صوفئ تھے۔میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ جس طرح حناف میں تصوف تھا بالکل اسی طرح اہلحدیث میں بھی تھا،لیکن اہلحدیث علماء کمزور نکلے اور اس نعمت کی قدر نہ کر سکے۔
 

ابن محمد جی

محفلین
میری انتظامیہ سے گذارش ہے کہ اگر کوئی نام نہاد اہل حدیث( یاد رکھیں اصل اہلحدیث تصوف کے انکاری نہیں۔ میرے اس مضمون پر کوئی جرح پیش کرنا چا ہتا ہے،تو اسے کھل کر بات کرنے کی اجازت دی جائے ۔
 
برصغیر کے مشہور صوفی سلسلے جہانگیریہ کے شیخ مولانا عبدالحئی چاٹگامی المعروف فخرالعارفین کے ملفوظات پر مبنی مشہور کتاب "سیرتِ فخرالعارفین" (جو انڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش میں کافی تعداد میں چھپ چکی ہے اور لاہور کی تصوف فاؤنڈیشن والوں نے بھی اسے حال ہی میں چھاپا ہے) میں میاں نذیر حسین دہلوی کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر ہے۔
مولانا صاحب صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ ایک علمی شخصیت تھے اور ایک مدرسے کے انچارچ بھی تھے ۔ تو جب انکا گذر دہلی سے ہوا تو علمِ حدیث کے اتنے بڑے عالم یعنی نذیر حسین دہلوی صاحب کی زیارت کیلئے انکے پاس تشریف لے گئے۔مرتبِ ملفوظات وہاں کی مجلس کا حال کچھ یوں لکھتے ہیں کہ:
"ان سے ملاقات ہوئی اور کچھ دیر ان کے پاس ہم بیٹھے رہے۔ وہاں پر موجود انکے شاگردوں میں سے کچھ صاحبان نے واقعہ کربلا کے حوالے سے گفتگو شروع کردی۔ اور ان میں سے کچھ صاحبان کی آراء کے مطابق حضرت امام عالی مقام کا سفر خلیفہ وقت کے خلاف خروج اور بغاوت کی ذیل میں آتا تھا اور انکے کہنے کے مطابق امام عالی مقام بغاوت اور خروج کے مرتکب ہوئے تھے۔ ان لوگوں کی اس گفتگو پر میاں نذیر حسین دہلوی نے کوئی نکیر نہ کی اور سکوت اختیار کیا۔ قبلہ عالم نے فرمایا کہ "میاں صاحب کا یہ سکوت اور خاموشی ہم سے برداشت نہ ہوئی اور بے اختیار اس محفل سے اٹھ کر چلے آئے۔ قبلہ عالم امام عالی مقام کی محبت میں مجذوب ہیں ۔جب بھی اس واقعے کا ذکر فرماتے تو اپنے گریے پر قابو نہ رکھ پاتے ۔"
(سیرتِ فخر العارفین)
 
Top