فاروق درویش
معطل
اس شہر ِ صدآشوب میں اتری ہے قضا دیکھ
فرعون بنے بیٹھے ہیں مسند کے خدا دیکھ
بیٹھا ہے ہما رہزن و غدار کے سر پر
معصوم پرندے کی ہے معصوم ادا دیکھ
سوئی ہے کفن اوڑھے جو مزدور کی بیٹی
افلاس کے ہاتھوں پہ جلا رنگِ حنا دیکھ
ہر لحظہ بدلتے ہوئے دستور یہ منشور
قاتل کی شہیدوں کے مزاروں پہ دعا دیکھ
ابلیس ِ زماں تخت نشیں ہیں کہ گداگر
دنیائے سیاست کے یہ کشکول و گدا دیکھ
ہر جرم کی تعزیر و سزا لکھتے ہیں اغیار
مشرق کے اسیروں کو یہ مغرب کی عطا دیکھ
جو بحر ِ طلاطم تھے، جزیروں کے ہیں قیدی
زندان ِ صدف، موج ِ بلا، رقص ِ قضا دیکھ
درویش کی غزلوں میں ہے اقبال کا پیغام
،، کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ،،
فاروق درویش
فرعون بنے بیٹھے ہیں مسند کے خدا دیکھ
بیٹھا ہے ہما رہزن و غدار کے سر پر
معصوم پرندے کی ہے معصوم ادا دیکھ
سوئی ہے کفن اوڑھے جو مزدور کی بیٹی
افلاس کے ہاتھوں پہ جلا رنگِ حنا دیکھ
ہر لحظہ بدلتے ہوئے دستور یہ منشور
قاتل کی شہیدوں کے مزاروں پہ دعا دیکھ
ابلیس ِ زماں تخت نشیں ہیں کہ گداگر
دنیائے سیاست کے یہ کشکول و گدا دیکھ
ہر جرم کی تعزیر و سزا لکھتے ہیں اغیار
مشرق کے اسیروں کو یہ مغرب کی عطا دیکھ
جو بحر ِ طلاطم تھے، جزیروں کے ہیں قیدی
زندان ِ صدف، موج ِ بلا، رقص ِ قضا دیکھ
درویش کی غزلوں میں ہے اقبال کا پیغام
،، کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ،،
فاروق درویش