کاشفی
محفلین
غزل
(پنڈت بشن نراین صاحب در المتخلص بہ ابر لکھنوی)
حضورِ داورِ محشر ، گناہ گار آئے
ظہورِ عفووکرم کے، اُمیدوار آئے
جو چاہے جور خزاں ہوں یقین رکھ بلبل
بہار آئے، پھر آئے، ہزار بار آئے
کریم دیتا ہے گھر بیٹھے یوں فقیروں کو
چمن میں جس طرح دریا سے ،جونبار آئے
نہ جانے مررہی بلبل کس آشیانے میں
ہر اک شجر کے تلے جاکے ہم پکار آئے
ملا جواب نہ اپنے سوال کا اُن کو
درِ کریم پہ جاکر گدا پکار آئے
گدائے حُسن کے حق میں یہ حکم صادر ہے
گھر اور دیکھے میرے گھر نہ بار بار آئے
ادب سے کہیو یہ اُس گل سے اے نسیمِ چمن
حضور دیں جو اجازت تو ، خاکسار آئے
الہٰی وہ بھی دن آئے کہ ہم سنیں مژدہ
چلو بُلانے کو ڈیوڑھی پہ چوبدار آئے
اُٹھا کے لے گئے ناگور دوش پر احباب
گئے وہ مست یہاں سے جو ہوشیار آئے
اسیرِکنج قفس کو چمن سے کیا مطلب
مری بلا سے خزاں آئے یا بہار آئے
نگاہِ لطف جو ہے آپ کی رقیبوں پر
اُسی نگاہ کے ہم بھی اُمیدوار آئے
ہیں جتنے لوگ جہاں میں زبانیں اُتنی ہیں
کسی کی بات کا کیا ہم کو اعتبار آئے
تھے بزمِ دہر میں ہم ابر مثلِ شعلہء شمع
ہوا کی طرح گئے ، صورتِ شرار آئے