آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح مبارک
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں گو وقار، سنجیدگی اور متانت کی فضا ہر وقت قائم رہتی۔ یہاں تک کہ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت میں ایسے باادب و باتمکین ہوکر بیٹھتے تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ادنٰی سی حرکت سے اڑجائیں گے۔مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی جھلک ان متبرک صحبتوں کو خوشگوار بناتی رہتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر ایک طرف نبی مرسل کی حیثیت سے احترام رسالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے وعظ و تلقین میں مصروف رہتے تو ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری طرف صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک بے تکلف دوست اور ایک خوش مزاج ساتھی کی حیثیت سے بھی میل جول رکھتے۔ اگر زیادہ اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس ایک دینی درسگاہ اور تعلیمی ادارہ بنی رہتی تو کچھ دیر کے لئے خوش طبع مہذب دوستوں کی بیٹھک بھی بن جاتی جس میں ظرافت کی باتیں بھی ہوتیں ،گھر بار کے روزانہ کے قصے بھی بیان ہوتے۔غرض بے تکلفی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں گفتگو کرتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت کس طرح کی تھی؟ اس تشریح کی یوں ضرورت ہے کہ بہت سے کاموں میں ہمارے غلط عمل سے ہمارے نظریات بدل چکے ہیں۔تخیل کہاں سے کہاں چلا گیا ہے؟ ہر معاملہ میں اعتدال کھو بیٹھے ہیں۔اگر ہم سنجیدہ اور متین بنتے ہیں تو اس قدر کہ تہذیب ہم سے کوسوں دور رہتی ہے۔اور اگر خوش طبع بنتے ہیں تو اس قدر کہ تہذیب ہم سے کوسوں دور رہتی ہے۔اسلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں ایک خاص معیار اپنے سامنے رکھنا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت کی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی زبان مبارک سے سن لیجئے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعجب سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مذاق کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں بے شک! میرا مزاح سراسر سچائی اور حق ہے۔ (شمائل۔ترمذی)
اس کے مقابلہ میں ہمارا آج کل کا مزاق وہ ہے جس میں جھوٹ، غیبت، بہتان، تعن و تشنیع اور بے جا مبالغوں سے پورا پورا کام لیا گیا ہو۔
اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت کے چند واقعات قلمبند کرتا ہوں کہ جن کے تحت ہم ظرافت کا صحیح تخیل قائم کرسکے ۔
1: ایک شخص نے خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر سواری کے لئے درخواست کی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم کو سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا۔وہ شخص حیران ہوا کیونکہ اونٹنی کا بچہ سواری کا کام کب دے سکتا ہے؟ عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اونٹی کے بچہ کا کیا کرونگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی اونٹ ایسا بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو۔(شمائل ترمذی)
2:ایک مرتبہ ایک بڑھیا خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالٰی مجھ کو جنت نصیب کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ اور بڑھیا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سنتے ہی زاروقطار رونا شروع کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب سے آپ نے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی تب سے یہ بڑھیا رورہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ بوڑھی عورتیں جنت میں جائیں گی مگر جوان ہوکر۔(شمائل۔ترمذی)
3: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دیہاتی زاہر نامی دوست تھے جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدئے بھیجا کرتے تھے۔ایک روز وہ بازار میں اپنی کوئی چیز بیچ رہے تھے۔اتفاق سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گذرے ان کو دیکھا تو بطور خوش طبعی چپکے سے پیچھے سے جاکر ان کو گود میں اٹھالیا اور بطور ظرافت آواز لگائی کہ اس غلام کو کون خریدتا ہے؟ زاہر نے کہا مجھے چھوڑ دو کون ہے؟ مڑ کر دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔حضرت زاہر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا:یارسول اللہ! مجھ جیسے غلام کو جو خریدے گا نقصان اٹھائے گا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم خدا کی نظر میں ناکارہ نہیں ہو ۔
4: ایک موقع پر مجلس میں کھجوریں کھائی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزاح کے طور پر گھٹلیاں نکال نکال کر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آگے ڈالتے رہے۔ آخر میں گھٹلیوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے ان سے کہا کہ تم نے تو بہت کھجوریں کھائیں ۔انہوں نے کہا کہ میں نے گھٹلیوں سمیت نہیں کھائیں۔
(از:محسن انسانیت،اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)