الف نظامی
لائبریرین
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فصاحت و بلاغت
اہل عرب فصاحت و بلاغت میں تمام اقوام عالم سے برتر اور افضل تھے۔ انہیں اپنے اس وصف پر اتنا ناز تھا کہ وہ اپنے سوا تمام اقوام عالم کو عجمی (گونگا) کہتے تھے۔ ان فصحاء و بلغاء میں بھی حضور ﷺ کی شانِ فصاحت عدیم المثال تھی۔
حضور کی شانِ فصاحت کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ حضور کے کلام میں بلا کی سلاست و روانی تھی۔ یوں معلوم ہوتا کہ کلمات نور کے سانچے میں ڈھل کر زبان اقدس سے ادا ہو رہے ہیں۔ جو بات زبان مبارک سے نکلتی وہ ہر عیب سے پاک ہوتی ، اس میں تکلف کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو جوامع الکلم سے نوازا تھا ۔ یعنی الفاظ قلیل ہوتے لیکن لطائف اور معانی کا ایک سمندر ان میں موجزن ہوتا تھا۔حضور کی زبان مبارک سے ایسے حکیمانہ جملے صادر ہوتے جو حکمت و دانائی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔
عرب کے مختلف خطوں میں جو عربی بولی جاتی تھی اس میں بڑا تفاوت ہوتا تھا۔ سرکار دوعالم ﷺ کا وطن مبارک اگرچہ حجاز تھا لیکن حضور ﷺاہل حجاز کی لغت میں بھی جب گفتگو فرماتے تو فصاحت و بلاغت کے چمن آباد ہوجاتے اور عرب کے دیگر علاقوں کی علاقائی زبانوں میں بھی اس سلاست و قادرالکلامی سے گفتگو فرماتے کہ سننے والی حیران ہوجاتے۔ حضور ﷺجب بھی کسی کو مخاطب فرماتے تو اس کی علاقائی زبان میں خطاب فرماتے۔ اسی زبان کے محاورے استمعال فرماتے۔ انہیں کی شان فصاحت کا مقابلہ کرتے ، یہاں تک کہ صحابہ کرام جب کسی دوسرے علاقہ کی زبان میں حضور کو گفتگو کرتے سنتے تو کئی الفاظ کی تشریح و وضاحت کیلیے اپنے آقا کی طرف رجوع کرتے۔
ذوالمعشار ہمدانی سے اس وقت ملاقات ہوئی جب حضورﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تھے۔ بنی نہد کے خطیب طہفہ النہدی ، قطن بن حارثہ ، اشعت بن قیس ، وائل بن حجر الکندی اور حضرموت کے قبیلوں کے روسا اور یمن کے بادشاہوں سے گفتگو فرماتے تو انہیں کی زبان اور انہیں کے لہجہ سے۔
بطور مثال ہادی برحقﷺ کا ایک مکتوب یہاں پیش کررہا ہوں جو سرکار نے قبیلہ ہمدان کے سردار ذوالمعشار الہمدانی کی طرف اس کی زبان میں لکھا تھا۔
ان لکم فراعھا و وھاطھا و عزازھا۔ تاکلون علافھا و ترعون عفاءفھا لنا من دفئھم و صرامھم ما سلموا بالمیثاق والامانۃ و لھم من الصدقۃ الثلب والناب والفصیل۔ والفارض والداجن و الکبش الحوری و علیھم فیھا الصالغ و لقارح (الشفا،)
(اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں یہ سارے جملے اہل عرب کے لیے بھی غریب اور مشکل ہیں)
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر متعدد علاقائی زبانوں کے نمونے تقل کئے ہیں۔
بنی نہد قبیلہ کے سردار طہفہ کے لیے حضور کے ارشادات ، وائل بن حجر کے نام حضور ﷺ کاگرامی نامہ ، مختلف قبائل کے روسا اور سلاطین کے طرف حضور ﷺ کے مکتوبات اگرچہ ہم ان کلمات میں سے اکثر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ان میں جو روانی اور سلاست، جو جزالت اور فصاحت ہے ، پڑھنے والا سمجھے بغیر اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
جب عرب کی ان علاقائی زبانوں میں ،جو متداول نہ تھیں، حضور ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا سمندر یوں ٹھاٹھیں مار رہا ہو کہ پڑھنے اور سننے والے سمجھے بغیر ان کی فصاحت و جزالت سے لطف اندوز ہوتے تو روزمرہ زبان میں جو شیرینی اور دلکشی ہوگی اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔
کئی ادباء نے سرور عالم ﷺ کے جوامع الکلم اور حکیمانہ اقوال کے مجموعے تالیف کیے ہیں جو عربی زبان کا طرہ امتیاز ہیں اور اہل عرب کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہیں۔ جوامع الکلم اور اقوال حکمت کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ "المسلمین تتکافا دمآءھم" تمام مسلمانوں کا خون مساوی ہے
یعنی قصاص و دیت میں کسی شخص کو اس کی ثروت اور اس کے خاندان کے پیش نظر ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ سب کا قصاص یکساں ہوگا۔
2۔"یسعی بذمتھم ادناھم" اگر کوئی کم درجے والا مسلمان کسی قوم کو امان دے گا یا عہد کرئے گا تو سب مسلمانوں پر اس کی پابندی لازمی ہوگی۔
3۔"وھم ید علی من سواھم" تمام مسلمان دشمن کے مقابلہ میں یکجان ہوں گے۔
یہ تین چھوٹے چھوٹے جملے ہیں لیکن اگر ان میں غور کیا جائے تو ان میں علم و حکمت کے چشمے ابلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح میں بڑے بڑے دفاتر لکھے جاسکتے ہیں۔
حضور ﷺ کے متعدد ارشادات جو جوامع الکلم میں سے ہیں اور ان کا دامن حکمت کے انمول موتیوں سے معمور ہے ان میں سے چند یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
1۔ "الناس کاسنان المشط" تمام انسان اس طرح برابر ہیں جس طرح کنگھی کے دندانے
2۔"والمر مع من احب" ہر انسان کو اس کی معیت حاصل ہوگی جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے
3۔ "لاخیر فی صحبۃ من لایری لک ما تری لہ" اس شخص کی ہم نشینی میں کوئی فائدہ نہیں کہ تو اس کے بارے میں خیرکی تمنا کرے اور وہ تمہیں زک پہنچانے کے منصوبے بناتا رہے۔
4۔ "والناس معادن" لوگوں کے مزاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں جس طرح زمین میں مختلف قسم کی معدنیات ہوتی ہیں
5۔ "وما ھلک امرو عرف قدرہ" جو اپنی قدر پہچانتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا
6۔ "المستشار موتمن و ھو بالخیار مالم یتکلم" جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔ جب تک وہ اپنی رائے کا اظہار نہ کرے بلکہ خاموش رہے اسے اختیار ہے کہ وہ مشورہ دے یا نہ دے
7۔“رحم اللہ عبدا قال خیرا مغنم اوسکت فسلم اللہ تعالی“ اس شخص پر رحم فرمائے جو اچھی بات زبان سے نکالتا ہے اور اس سے فائدہ پہنچتا ہے یا سکوت اختیار کرتا ہے اور تمام لوگوں کی ایذارسانی سے محفوظ رہتا ہے۔
یہاں علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے حضور پرنور علیہ الصلوۃ والسلام کی جوامع الکلمات کی بہت سے نادر مثالیں درج کی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے یقینا نورِبصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اقتباس از ضیاالنبی جلد پنجم صفحہ 275 از جسٹس پیرمحمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
اہل عرب فصاحت و بلاغت میں تمام اقوام عالم سے برتر اور افضل تھے۔ انہیں اپنے اس وصف پر اتنا ناز تھا کہ وہ اپنے سوا تمام اقوام عالم کو عجمی (گونگا) کہتے تھے۔ ان فصحاء و بلغاء میں بھی حضور ﷺ کی شانِ فصاحت عدیم المثال تھی۔
حضور کی شانِ فصاحت کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ حضور کے کلام میں بلا کی سلاست و روانی تھی۔ یوں معلوم ہوتا کہ کلمات نور کے سانچے میں ڈھل کر زبان اقدس سے ادا ہو رہے ہیں۔ جو بات زبان مبارک سے نکلتی وہ ہر عیب سے پاک ہوتی ، اس میں تکلف کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو جوامع الکلم سے نوازا تھا ۔ یعنی الفاظ قلیل ہوتے لیکن لطائف اور معانی کا ایک سمندر ان میں موجزن ہوتا تھا۔حضور کی زبان مبارک سے ایسے حکیمانہ جملے صادر ہوتے جو حکمت و دانائی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔
عرب کے مختلف خطوں میں جو عربی بولی جاتی تھی اس میں بڑا تفاوت ہوتا تھا۔ سرکار دوعالم ﷺ کا وطن مبارک اگرچہ حجاز تھا لیکن حضور ﷺاہل حجاز کی لغت میں بھی جب گفتگو فرماتے تو فصاحت و بلاغت کے چمن آباد ہوجاتے اور عرب کے دیگر علاقوں کی علاقائی زبانوں میں بھی اس سلاست و قادرالکلامی سے گفتگو فرماتے کہ سننے والی حیران ہوجاتے۔ حضور ﷺجب بھی کسی کو مخاطب فرماتے تو اس کی علاقائی زبان میں خطاب فرماتے۔ اسی زبان کے محاورے استمعال فرماتے۔ انہیں کی شان فصاحت کا مقابلہ کرتے ، یہاں تک کہ صحابہ کرام جب کسی دوسرے علاقہ کی زبان میں حضور کو گفتگو کرتے سنتے تو کئی الفاظ کی تشریح و وضاحت کیلیے اپنے آقا کی طرف رجوع کرتے۔
ذوالمعشار ہمدانی سے اس وقت ملاقات ہوئی جب حضورﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تھے۔ بنی نہد کے خطیب طہفہ النہدی ، قطن بن حارثہ ، اشعت بن قیس ، وائل بن حجر الکندی اور حضرموت کے قبیلوں کے روسا اور یمن کے بادشاہوں سے گفتگو فرماتے تو انہیں کی زبان اور انہیں کے لہجہ سے۔
بطور مثال ہادی برحقﷺ کا ایک مکتوب یہاں پیش کررہا ہوں جو سرکار نے قبیلہ ہمدان کے سردار ذوالمعشار الہمدانی کی طرف اس کی زبان میں لکھا تھا۔
ان لکم فراعھا و وھاطھا و عزازھا۔ تاکلون علافھا و ترعون عفاءفھا لنا من دفئھم و صرامھم ما سلموا بالمیثاق والامانۃ و لھم من الصدقۃ الثلب والناب والفصیل۔ والفارض والداجن و الکبش الحوری و علیھم فیھا الصالغ و لقارح (الشفا،)
(اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں یہ سارے جملے اہل عرب کے لیے بھی غریب اور مشکل ہیں)
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر متعدد علاقائی زبانوں کے نمونے تقل کئے ہیں۔
بنی نہد قبیلہ کے سردار طہفہ کے لیے حضور کے ارشادات ، وائل بن حجر کے نام حضور ﷺ کاگرامی نامہ ، مختلف قبائل کے روسا اور سلاطین کے طرف حضور ﷺ کے مکتوبات اگرچہ ہم ان کلمات میں سے اکثر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ان میں جو روانی اور سلاست، جو جزالت اور فصاحت ہے ، پڑھنے والا سمجھے بغیر اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
جب عرب کی ان علاقائی زبانوں میں ،جو متداول نہ تھیں، حضور ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا سمندر یوں ٹھاٹھیں مار رہا ہو کہ پڑھنے اور سننے والے سمجھے بغیر ان کی فصاحت و جزالت سے لطف اندوز ہوتے تو روزمرہ زبان میں جو شیرینی اور دلکشی ہوگی اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔
کئی ادباء نے سرور عالم ﷺ کے جوامع الکلم اور حکیمانہ اقوال کے مجموعے تالیف کیے ہیں جو عربی زبان کا طرہ امتیاز ہیں اور اہل عرب کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہیں۔ جوامع الکلم اور اقوال حکمت کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ "المسلمین تتکافا دمآءھم" تمام مسلمانوں کا خون مساوی ہے
یعنی قصاص و دیت میں کسی شخص کو اس کی ثروت اور اس کے خاندان کے پیش نظر ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ سب کا قصاص یکساں ہوگا۔
2۔"یسعی بذمتھم ادناھم" اگر کوئی کم درجے والا مسلمان کسی قوم کو امان دے گا یا عہد کرئے گا تو سب مسلمانوں پر اس کی پابندی لازمی ہوگی۔
3۔"وھم ید علی من سواھم" تمام مسلمان دشمن کے مقابلہ میں یکجان ہوں گے۔
یہ تین چھوٹے چھوٹے جملے ہیں لیکن اگر ان میں غور کیا جائے تو ان میں علم و حکمت کے چشمے ابلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح میں بڑے بڑے دفاتر لکھے جاسکتے ہیں۔
حضور ﷺ کے متعدد ارشادات جو جوامع الکلم میں سے ہیں اور ان کا دامن حکمت کے انمول موتیوں سے معمور ہے ان میں سے چند یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
1۔ "الناس کاسنان المشط" تمام انسان اس طرح برابر ہیں جس طرح کنگھی کے دندانے
2۔"والمر مع من احب" ہر انسان کو اس کی معیت حاصل ہوگی جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے
3۔ "لاخیر فی صحبۃ من لایری لک ما تری لہ" اس شخص کی ہم نشینی میں کوئی فائدہ نہیں کہ تو اس کے بارے میں خیرکی تمنا کرے اور وہ تمہیں زک پہنچانے کے منصوبے بناتا رہے۔
4۔ "والناس معادن" لوگوں کے مزاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں جس طرح زمین میں مختلف قسم کی معدنیات ہوتی ہیں
5۔ "وما ھلک امرو عرف قدرہ" جو اپنی قدر پہچانتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا
6۔ "المستشار موتمن و ھو بالخیار مالم یتکلم" جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔ جب تک وہ اپنی رائے کا اظہار نہ کرے بلکہ خاموش رہے اسے اختیار ہے کہ وہ مشورہ دے یا نہ دے
7۔“رحم اللہ عبدا قال خیرا مغنم اوسکت فسلم اللہ تعالی“ اس شخص پر رحم فرمائے جو اچھی بات زبان سے نکالتا ہے اور اس سے فائدہ پہنچتا ہے یا سکوت اختیار کرتا ہے اور تمام لوگوں کی ایذارسانی سے محفوظ رہتا ہے۔
یہاں علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے حضور پرنور علیہ الصلوۃ والسلام کی جوامع الکلمات کی بہت سے نادر مثالیں درج کی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے یقینا نورِبصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اقتباس از ضیاالنبی جلد پنجم صفحہ 275 از جسٹس پیرمحمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ