***حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس***

ف۔قدوسی

محفلین
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس خیر و برکت:۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس حلم و علم،حیا و صبر اور متانت و سکون کی مجلس ہوتی تھی۔ اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھی اور کسی کی حرمت پر کوئی داغ نہ لگایاجاتاتھا۔اور کسی کی غلطیوں کی تشہیر نہ کی جاتی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل مجلس ایک دوسرے کی طرف تقوٰی کے سبب متواضعانہ طور پر مائل ہوتے تھے،اس میں بڑوں کی توقیر کرتے تھے اور چھوٹوں پر مہربانی کرتے تھے اور صاحب حاجت کی اعانت کرتے تھے اور بے وطن پر رحم کرتے تھے۔(نشرالطیب)
حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمسایہ تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بلا بھجتے۔میں حاضرہوکر اس کو لکھ لیتا (حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ حد درجہ دلداری اور بے تکلفی فرماتے تھے)جس قسم کا تزکرہ ہم لوگ کیا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی قسم کا تذکرہ فرماتے تھے(یہ نہیں کہ بس آخرت کا ہی ذکر کیا کرتے ہوں اور دنیا کا ذکر بھی گوارہ نہ کریں اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخرت کے تذکرے فرماتے،یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہوجاتا تو اسی کے حالات و تفصیلات حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے اور جب کھانے پینے کا کچھ ذکر ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے۔کھانے کے آداب و فوائد،لذیذ کھانوں کا ذکر، مضر کھانوں کا تذکرہ وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حالات کا ہی تذکرہ کررہا ہوں۔(فضائل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تو اپنے زانوئے مبارک کو اپنے ہم جلیسوں سے آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے کہ امتیاز پیدا نہ ہوجائے۔(زادالمعاد)
اگر کوئی شخص کھڑے کھڑے کسی بات کے معتلق سوال کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ناپسند فرماتے اور تعجب سے اس کی طرف دیکھتے۔
اگر کسی مسئلہ کے بیان میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم مصروف ہوتے اور قبل اس کے کہ سلسلہ بیان ختم ہو کوئی شخص دوسرا سوال پیش کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سلسلہ تقریر کو بدستور جاری رکھتے،معلوم ہوتا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ہی نہیں۔جب گفتگو ختم کرلیتے تو سائل سے اس کا سوال معلوم کرتے اور اس کا جواب دیتے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں ہوتے تو درمیان میں تشریف رکھتے اور صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد حلقے پر حلقہ لگائے بیٹھے ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ وقت گفتگو کبھی ادھر رخ کرکے تخاطب فرماتے اور کبھی ادھر ۔گویا حلقہ میں سے ہر شخص بہ وقت گفتگوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھ لیتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مجلس میں بیٹھتے تو دونوں پائوں کھڑے کرکے ان کے گرد ہاتھوں کا حلقہ بناکر بیٹھتے۔اور ویسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نشست اسی ہئیت سے ہوا کرتی تھی اور یہ سادگی اور تواضع کے صورت ہے۔بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارزانو بھی بیٹھے تھے۔ اور بعض اوقات بغل میں ہاتھ دے کر اکڑوں بھی بیٹھے تھے۔(نشر الطیب)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹھنا اور اٹھنا سب ذکراللہ کے ساتھ ہوتا اور اپنے لئے کوئی جگہ بیٹھنے کی ایسی معین نہ فرماتے کہ خواہ مخواہ اسی جگہ بیٹھیں اور اگر کوئی بیٹھ جائے تو اس کو اٹھا دیں اور دوسروں کو بھی جگہ معین کرنے سے منع فرماتے تھے۔اور جب کسی مجمع میں تشریف لے جاتے تو جس جگہ مجلس ختم ہوتی وہاں ہی بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی یہی حکم فرماتے اور اپنے تمام جلوسوں میں سے ہر شخص اس کا حصہ اپنے خطاب و توجہ سے دیتے۔یعنی سب سے جدا جدا متوجہ ہوکر خطاب فرماتے۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر جلیس یوں سمجھتا کہ مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی خاطر عزیز نہیں۔
جو شخص کسی ضرورت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر بیٹھ جاتا یا کھڑا رکھتا تو جب تک وہی شخص نہ اٹھ جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ مقید رہتے۔
جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ حاجت چاہتا تو بغیر اس کے کہ اس کی حاجت پوری فرماتے یا نرمی سے جواب دیتے اس کو واپس نہ کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کشادہ روئی اور خوش روئی تمام مسلمانون کے لئے عام تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے روحانی باپ تھے اور تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حق میں فی نفسہ مساوی تھے البتہ تقوٰی کی وجہ سے متفاوت تھے یعنی تقوٰی کی زیادتی سے تو ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے تھے دیگر امور میں سب باہم مساوی تھے اور حق میں سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک برابر تھے۔(روایات از حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ)


اہل مجلس کے ساتھ سلوک:۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ وقت کشادہ رو رہتے،نرم اخلاق تھے،آسانی سے موافق ہوجاتے تھے،نہ سخت گو تھے ،نہ درشت گو تھے،نہ چلا کر بولتے تھے ،اور نہ نامناسب بات فرماتے،جو بات (یعنی خواہش)کسی شخص کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طبیعت کے خلاف ہوتی تو اس سے تغافل فرماجاتے(یعنی اس پر گرفت نہ فرماتے اور تصریحا) اس سے بازپرس بھی نہ فرماتے بلکہ خاموش ہوجاتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں سے اپنے کو بچا رکھاتھا:

۱: ریا سے۔
۲: کثرت کلام سے۔
۳: بے سود بات سے۔


اور تین چیزوں سے دوسروں آدمیوں کو بچا رکھاتھا:

۱: کسی کی مذمت نہ فرماتے۔
۲:کسی کو عار نہ دلاتے اور
۳: نہ کسی کا عیب تلاش کرتے۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی کلام فرماتے جس میں ثواب کی امید ہوتی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلام فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام جلیس اس طرح سر جھکاکر بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے آکر بیٹھ گئے ہو،اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساکت ہوتے توتب وہ بولتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات پر نزاع نہ کرتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو شخص بولتا اس کے فارغ ہونے تک سب خاموش رہتے(یعنی بات کے بیچ میں کوئی نہیں بولتا)۔
اہل مجلس میں ہر شخص کی بات رغبت کے ساتھ سنے جانے میں ایسی ہوتی جیسے سب سے پہلے شخص کی بات تھی(یعنی کسی کے کلام کی بے قدری نہ کی جاتی)جس بات سے سب ہنستے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنستے،جس سے سب تعجب کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تعجب فرماتے یعنی حد اباحد تک اپنے جلیسوں کے ساتھ شریک رہتے،پردیسی آدمی کی بے تمیزی کی گفتگو پر تحمل فرماتے اور فرمایا کرتے کہ جب کسی صاحب حاجت کو طلب حاجت میں دیکھو تو اس کی اعانت کرو۔
جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جائز نہ رکھتے البتہ اگر کوئی احسان کے مکافات کے طور پر کرتا تو خیر(بوجہ مشروع ہونے کے اس ثنا کو بشرط عدم تجاویز حد کے ) گوارہ فرمالیتے اور کسی کی بات نہ کاٹتے یہاں تک کہ وہ حد سے بڑھنے لگتا اس وقت اس کو ختم کرادینے سے یا اٹھ کر کھڑے ہوجانے سے منقطع فرمادیتے۔(نشرالطیب)

(از: محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم)
 

خرم

محفلین
آخری جملہ میں چند سقم محسوس ہوتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمائش کرکے نعت سُننا مسنون ثابت ہے۔
 
Top