شرقی احمد ٹیپو
محفلین
تو بھی دکھلاتا رہا خاموشیوں کے شعبدے
میں بھی مچھلی کی طرح پلٹا ہوں پتھر چاٹ کے
زندگی بھر نارسائی کے جہنم میں جلے
ہم سے قائم ہیں روایاتِ کُہن کے سلسلے
جب نہ تھا کچھ بھی تو دل کے آئینہ خانے میں ہم
دیدہءبینا اگر رکھتے بھی تو کیا دیکھتے
ہو ہی نہ جائے کہیں بیگانگی کا راز فاش
ہم کسی صورت بھی اپنے دل کو بہلاتے رہے
روح کی شبنم فنا کے راستے میں گم ہوئی
جسم کے آتش فشاں جب آگ برسانے لگے
کتنی آوازیں غبارِ راہ بن کر اُڑ گئیں
کتنے چہرے پتھروں سے نقش بن کر جڑ گئے
میں بھی مچھلی کی طرح پلٹا ہوں پتھر چاٹ کے
زندگی بھر نارسائی کے جہنم میں جلے
ہم سے قائم ہیں روایاتِ کُہن کے سلسلے
جب نہ تھا کچھ بھی تو دل کے آئینہ خانے میں ہم
دیدہءبینا اگر رکھتے بھی تو کیا دیکھتے
ہو ہی نہ جائے کہیں بیگانگی کا راز فاش
ہم کسی صورت بھی اپنے دل کو بہلاتے رہے
روح کی شبنم فنا کے راستے میں گم ہوئی
جسم کے آتش فشاں جب آگ برسانے لگے
کتنی آوازیں غبارِ راہ بن کر اُڑ گئیں
کتنے چہرے پتھروں سے نقش بن کر جڑ گئے