حقانی سے برتاؤ، امریکی سینٹروں کی تشویش

ساجد

محفلین
تین امریکی سینٹروں نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے ساتھ متنازع میمو کے حوالے سے جاری تحقیقات کے دوران روا رکھے جانے والے برتاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مکمل خبر یہاں پر۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی بات نہیں، چند دنوں کے بعد اس کا بھی وہی حال ہو گا جو امریکہ اپنے پرانے یاروں کا کرتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ محاورہ پولیس والوں کے لیے ہے کہ نہ ان کی دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی۔

امریکہ بھی تو اس خطے کے لیے پولیس والا ہی بنا ہوا ہے۔
 

ساجد

محفلین
حسین حقانی قصور وار ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن ان کا رویہ کچھ عجیب سا ہے۔ کبھی فرماتے ہیں کہ میں نے واپس جانا ہوتا تو

پاکستان کیوں آتا تو کبھی کہتے ہیں وزیراعظم ہاؤس میں اس لئیے مقیم ہوں کہ باہر نکلا تو ڈر ہے قتل کر دیا جاؤں گا۔ حالانکہ وہ اپنی مرضی سے وزیراعظم

ہاؤس میں رہ رہے ہیں اور کسی فرد یا گروپ نے انہیں ہرگز قتل کی دھمکی نہیں دی ۔ان کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی صاحبہ ، زرداری کے ساتھ ہی دبئی گئی

تھیں (حالانکہ بیمار صرف زرداری تھے) لیکن وہاں سے واپس نہ آئیں اور کہا گیا کہ وہ ایک اہم مشن پر امریکہ گئی ہیں۔ ان کا مشن کیا تھا اس کا کچھ

اندازہ حقانی کے معاملہ میں امریکی سینیٹروں کی پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلم کھلامنہ ماری سے ہو رہا ہے۔ حقانی کا معاملہ پاکستان کی کسی چھوٹی

عدالت میں نہیں بلکہ عدالت عظمی میں ہے اور یہ ایسی بات نہیں کہ جس پر داخلی یا خارجی عناصر چیں بہ چیں ہوں۔ جمہوریت کے ٹھیکے داروں کو تو

اس پر اعتماد کا اظہار کرنا چاہئیے کہ ایک ملکی اور سول ادارہ فعالیت سے اپنا کام کر رہا ہے لیکن وائے منافقت کہ الفاظ کی صورت پھوٹ پھوٹ کر باہر آ

رہی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں کسی اہم عدالتی معاملہ میں مطلوب اہم شخصیات کے بیرون ملک سفر پر عارضی عدالتی پابندی لگائی جاتی ہے اور یہی کام

جب سپریم کورٹ آف پاکستان کرتی ہے تو اس پر امریکی سینیٹرز بڑی ڈھٹائی سے ایک عجیب مؤقف اپنا رہے ہیں۔ اور تو اور عاصمہ جہانگیر ایک وکیل ہونے

کے باوجود یہی لب و لہجہ اس سے قبل ہی اپنا چکی ہیں۔ گویا کہ قانون اور انصاف کی باتیں صرف دکھلاوا ہیں اور اصل گیم پاکستانی آئین ، اداروں

اور عوام کی تضحیک ہے۔ کیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ ان میں اور طالبان میں ایک قدر مشترک ہے کہ پاکستان کے اداروں اور قانون کی خلاف ورزی کی

جائے اور اس کے لئیے بیرونی عناصر سے بھی مدد لی جائے۔
 
Top