حقوقِ نسواں بل

محترمہ مہوش صاحبہ شاید آپ میری بات کو سمجھ نہیں پائیں یا شاید میں ہی صحیح طور سے لکھ نہیں پایا۔ دراصل یہ وہ تجاویز ہیں جو کہ حکومتی علما اور ایم ایم اے دونوں کے درمیان مذاکرات کے بعد طے کی گئیں تھیں۔ وہ عورت کا حق جائیداد ، قرآن سے شادی وغیرہ۔ اس کے بعد مجھے نظر نہیں آتا کہ یہ تجاویز اگر اس بل کا حصہ بن گئیں تو یہ بل پاس ہوگا۔ اس لیے تو اس مسئلے کو ٹال دیا گیا ہے۔
 

نعمان

محفلین
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے ٹیلیویژن پر ایک پروگرام خواجہ کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا جس میں ایک خاتون کے شوہر اچھی خاصی جائیداد چھوڑ کر مرچکے تھے۔ مرحوم کا اپنے بھائیوں کے ساتھ نہ کاروبار تھا نہ ہی وہ انہیں پسند کرتے تھے اور ان سے لاتعلق تھے۔ مگر مرنے کے بعد ان کے بھائیوں نے بھاوج سے جائیداد کا مطالبہ کردیا۔ خواجہ کی عدالت نے بھائیوں کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اور یقینا یہی اس خاتون کے ساتھ کسی بھی پاکستانی عدالت میں ہوتا۔ خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے۔

میرے خیال میں حدود آرڈینینس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی تاوقتیکہ اسلامی انتہاپسند پاکستان پر اعلانیہ قبضہ جمالیں۔ تب تک اسٹیٹس کیو کی حالت رہے گی۔ مغرب کو پاکستان میں عورتوں کی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔ ہمیں اب یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنے مسئلے کس طرح حل کرنا چاہتے ہیں۔ معاف کیجیے گا مگر عورتوں کے حقوق کے علاوہ بھی موجودہ دور کے کئی ایسے مسائل ہیں جن کو ہم شریعت کی رو سے طے کرنے سے قاصر ہیں۔

انسانی تہذیب کے تمدن اور ارتقا کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان اپنے پیشروؤں اور ہم عصروں کے قدمچوں پر ترقی کی بنیاد رکھے۔ مغرب کی ترقی، خصوصا قانون وضع کرنے، مجودہ دور کے پیچیدہ مسائل سے نبٹنے کی اہلیت، اور معقول طرز فکر کی ایک عظیم روایت کو نظر انداز کرکے اسلامی دور عروج کی تحقیقات کو بنیاد بنانا کسی بھی طور فائدہ مند نہیں۔ ایسا کوئی بھی قانون جو مغرب کی برتری اور اچھائی کو نظر انداز کرتے ہوئے بنایا جائے گا وہ مسلمانی تمدن کو مزید پیچھے تو لے جائیگا آگے نہیں۔

حیرت یہ ہے کہ ہم لوگوں میں تشکیک کی صلاحیت کس قدر مقفود ہے۔ بغیر تشکیک کے فکر ایسی ہی ہے جیسے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا۔ اس لئیے میں حدود کو بیکار قانون سمجھتا ہوں۔ اور اس کی مکمل تنسیخ کے حق میں ہوں۔
 

آصف

محفلین
نعمان نے کہا:
حیرت یہ ہے کہ ہم لوگوں میں تشکیک کی صلاحیت کس قدر مقفود ہے۔ بغیر تشکیک کے فکر ایسی ہی ہے جیسے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا۔ اس لئیے میں حدود کو بیکار قانون سمجھتا ہوں۔ اور اس کی مکمل تنسیخ کے حق میں ہوں۔

میرا خیال تھا کہ تشکیک، شک سے مشتق ہے لیکن یہاں اس سیاق میں استعمال نہیں ہوا۔ کیا آپ اس اقتباس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے؟
 

زیک

مسافر
اس بل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں میں بہت عجیب محسوس کر رہا ہوں۔ اصل بل کا مسودہ کہیں سے نہیں ملا اور جس سے بھی بات کرو یا جس کی اس موضوع پر گفتگو پڑھو تو احساس ہوتا ہے کہ اس کی دانست میں اس بل کی شقیں وہ نہیں جو دوسرے لوگ کہہ رہے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ جب ایسے بنیادی حقائق ہی پر اختلاف ہو تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ مختلف universes میں رہتے ہوں۔
 

آصف

محفلین
سب ہی بہت گھٹیا کھیل کھیل رہے ہیں اور بوجوہ نہیں چاہتے کہ عوام کو علم ہو۔

میں نے جنگ میں کچھ مباحث پڑھے تھے اور محسوس کیا تھا کہ موجودہ قانون میں بہت سے سقم ہیں مثلا زنابالجبر میں چار گواہان، عورت کو مقدمے کی سماعت سے پہلے جیل میں رکھنا وغیرہ۔

لیکن جب سے (بغیر مسودہ پڑھے) یہ سنا ہے کہ حکومت زنا بالرضاء کو حدود سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے عجیب شک میں پڑ گیا ہوں۔

ایم ایم اے حکومتی سیاست میں انتہائی منفی کردار ادا کر رہی ہے اسلئے میں ان کے موقف کو تفصیلی طور پر جانے بغیر، ان کی تائید نہیں کر سکتا البتہ حدود قوانین کو مطلقا ختم کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔

حکومت نے البتہ بہت شاطرانہ انداز میں اس بل کے ذریعے حزب اختلاف کے مزعومہ اتحاد کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
 

دوست

محفلین
جی اخبارات میں اسی قسم کے تبصرے میرے زیر مطالعہ بھی آئے ہیں۔
حکومت وقت ضائع کررہی ہے۔ اگر کچھ کرنا ہوتا تو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کافی تھیں۔
 

نعمان

محفلین
تشکیک یعنی سوچنے کا ایسا انداز فکر جس میں ہم دستیاب معلومات کو شک کی نظر سے دیکھتے ہوئے ان پر فکر کرتے ہیں یعنی انہیں اپنے ذہن میں عملی انداز میں اپنائے جانے کی صورت حال کا جائزہ لینے کی صلاحیت جو ہمارے یہاں مفقود ہوتی جارہی ہے۔ اور عقیدے تو ویسے ہی شک سے بالاتر ہوتے ہیں۔ تو کیا قانون سازی کی بنیاد ایسے رویوں پر رکھی جانی چاہئیے جن کے بارے میں فکری مباحث تشکیک سے عاری ہوتے ہیں؟ یا جن کے بارے میں شک کرنے ہی کی ممانعت ہو۔

مثلا حدود کی حمایت کچھ لوگ اس لئیے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا قانون ہے اور وہ اس کی حمایت کسی طرح کا جہاد سمجھ کر کرتے ہیں۔ دیگر لوگ اس کی مخالفت کسی نام نہاد روشن خیالی سے وابستہ کرتے ہیں۔ حدود سے غرض نہیں ہمارے اندرونی تعصبات ہی ہماری سوچ کو کافی ہیں والا رویہ کئی معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔

میں نے حقوق نسواں بل المعروف حدود ترمیمی بل کا ربط دیا تو تھا۔ مگر اس ترمیمی بل میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ اور درحقیقت نیا ترمیم شدہ مسودہ اس سے بھی زیادہ عجیب گورکھ دھندہ ہے جیسا کہ حدود آرڈینینس پہلے سے ہے۔ کیا اسلامی مملکت میں یہ ضروری ہے کہ انصاف کے تقاضے بروئے شریعت ہی پورے کئیے جائیں۔ اگر انصاف کی فراہمی شریعت کے لیبل کے بغیر ہو تو کیا وہ انصاف انصاف نہیں ہوگا یا وہ غیر اسلامی ہوجائے گا؟

میں حدود آرڈینینس کے اسلئیے خلاف نہیں ہوں کہ یہ اسلامی قانون ہے بلکہ میری مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ حدود جیسی قانون (سازی کا لفظ استعمال کرنا یہاں غیر مناسب ہے) بازی سے آئندہ قانون سازی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں۔ قانون سازی کا تقاضہ معاشرتی مسائل سے نمٹنا، انصاف اور عدل کا بول بالا کرنا ہونا چاہئیے یا آسمانی صحیفوں پر مبنی تجربات؟ میرے خیال میں یہ ہماری فکر کا زاویہ ہونا چاہئیے۔ اور ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس سے اتفاق کرے ہر کسی کو اختلاف کا پورا حق حاصل ہے۔
 

دوست

محفلین
جب ایک چیز موجود ہے اور واضح طور پر بتا دی گئی ہے تو انسانی قانون بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ زنا اور اس کے ذیل میں آنے والے تمام معاملات کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ اس لیے انھیں استعمال کرنا ہی بہتر ہوگا۔ اب یہ ہماری بدقسمتی کہ ان کی تشریح کرنے والے غلط ہیں۔ وہ احکامات غلط نہیں۔
 

دوست

محفلین
بات بالکل ٹھیک ہے۔
حدود آرڈینینس میں بہت سی خامیاں موجود ہیں۔ ہمارا تو یہ موقف ہے کہ اس کو قرآنی تعلیمات کے مطابق کیا جائے۔لیکن یہ لوگ تو آپس میں لڑ رہے ہیں۔ بل کا مسودہ امریکہ بہادر کو لے جا کر دکھایا جارہا ہے۔
 
اچھا لنک ہے زکریا گو پورا نہیں پڑھ سکا مگر جتنا پڑھا اتنا اچھا لگا۔ میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ قانون کا غلط استعمال قانون کے ماخذ کی بدنامی کا باعث‌ بن جاتا ہے۔ حدود اسلام میں عورت کی ناموس کو محفوظ بنانے کے لیے ہیں اور یہ آرڈینس بہت غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے اور اسے استعمال کرنے والی ہماری مشہور زمانہ کرپٹ‌ پولیس ہے جو بہترین قانون میں سے بھی اپنے لیے جواز نکال لیتی ہے یہاں تو کئی جگہ اسے مواقع میسر ہے۔ افسوسناک کردار عدلیہ کا ہے جس نے چند جانبدرانہ فیصلوں سے اسے اور سبو تاژ کیا اور جو بہتری اپنے اختیارات سے لا سکتی تھی وہ نہیں لائی اور اسے اور بدتر بنا دیا۔
 
مولانامحمد تقی عثمانی کا مضمون

مولانامحمد تقی عثمانی، سابق رکن شریعت اپیلٹ بنچ۔سپریم کورٹ کا ایک مضمون روزنامہ جنگ میں‌شائع ہوا ہے، وقت ملے تو پڑھیں۔ اس کا ایک ٹکڑا:

“سوال یہ ہے کہ پھر کس وجہ سے زنا بالجبر کی شرعی سزا کو ختم کرنے پر اتنا اصرار کیا گیا ہے؟ اس کی وجہ دراصل ایک انتہائی غیر منصفانہ پروپیگنڈا ہے جو حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے وقت سے بعض حلقے کرتے چلے آرہے ہیں، پروپیگنڈا یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کے تحت اگر کوئی مظلوم عورت کسی مرد کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرائے تو اُس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ زنا بالجبر پر چار گواہ پیش کرے اور جب وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکتی تو الٹا اسی کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو عرصہٴ دراز سے بے تکان دہرائی جارہی ہے اور اس شدت کے ساتھ دہرائی جارہی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں اور یہی وہ بات ہے جسے صدر مملکت نے بھی اپنی نشری تقریر میں اس بل کی واحد وجہ جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔ جب کوئی بات پروپیگنڈے کے زور پر گلی گلی اتنی مشہور کردی جائے کہ وہ بچہ بچہ کی زبان پر ہوتو اس کے خلاف کوئی بات کہنے والا عام نظروں میں دیوانہ معلوم ہوتا ہے لیکن جو حضرات انصاف کے ساتھ مسائل کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، میں انہیں دلسوزی کے ساتھ دعوت دیتا ہوں کہ وہ براہ کرم پروپیگنڈے سے ہٹ کر میری آئندہ معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں خود پہلے وفاقی شریعت عدالت کے جج کی حیثیت سے اور پھر سترہ سال تک سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ بنچ کے رکن کی حیثیت سے حدود آرڈی ننس کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی براہِ راست سماعت کرتا رہا ہوں۔اتنے طویل عرصے میں میرے علم میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں آیا جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سزا دی گئی ہو کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکی اور حدود آرڈی ننس کے تحت ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کے تحت چار گواہوں یا ملزم کے اقرارکی شرط صرف زنا بالجبر موجب حد کے لئے تھی، لیکن اسی کے ساتھ دفعہ۱۰(۳) زنا بالجبر موجب تعزیر کے لئے رکھی گئی تھی جس میں چار گواہوں کی شرط نہیں تھی بلکہ اس میں جرم کا ثبوت کسی ایک گواہ ، طبی معائنے اور کیمیاوی تجزیہ کار کی رپورٹ سے بھی ہوجاتا تھا چنانچہ زنا بالجبر کے بیشتر مجرم اسی دفعہ کے تحت ہمیشہ سزا یاب ہوتے رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو مظلومہ چار گواہ نہیں لا سکی ، اگر اُسے کبھی سزا دی گئی ہو تو حدود آرڈی ننس کی کون سی دفعہ کے تحت دی گئی ہوگی؟ اگر یہ کہا جائے کہ اُسے قذف(یعنی زنا کی جھوٹی تہمت لگانے) پر سزا دی گئی تو قذف آرڈی ننس کی دفعہ۳ استثنا نمبر۲ میں صاف صاف یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ جو شخص قانونی اتھارٹیز کے پاس زنا بالجبر کی شکایت لے کر جائے اُسے صرف اس بنا پر قذف میں سزا نہیں دی جاسکتی کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکا/کرسکی۔کوئی عدالت ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ایسی عورت کو سزا دے ہی نہیں سکتی، دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُسی عورت کو رضامندی سے زنا کرنے کی سزا دی جائے، لیکن اگر کسی عدالت نے ایسا کیا ہو تو اس کی یہ وجہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خاتون چار گواہ نہیں لا سکی بلکہ واحد ممکن وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عدالت شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ عورت کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد پر یہ الزام عائد کرے کہ اس نے زبر دستی اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور بعد میں شہادتوں سے ثابت ہو کہ اس کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے اور وہ رضامندی کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوئی تو اسے سزا یاب کرنا انصاف کے کسی تقاضے کے خلاف نہیں ہے لیکن چونکہ عورت کو یقینی طور پر جھوٹا قرار دینے کے لئے کافی ثبوت عموماً موجود نہیں ہوتا ، اس لئے ایسی مثالیں بھی اکّا دکّا ہیں ، ورنہ ۹۹ فیصد مقدمات میں یہ ہوتا ہے کہ اگر چہ عدالت کو اس بات پر اطمینان نہیں ہوتا کہ مرد کی طرف سے جبر ہوا ہے لیکن چونکہ عورت کی رضامندی کا کافی ثبوت بھی موجود نہیں ہوتا ، اس لئے ایسی صورت میں بھی عورت کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔حدود آرڈی ننس کے تحت پچھلے ۷۲ سال میں جو مقدمات ہوئے ہیں، ان کا جائزہ لے کر اس بات کی تصدیق آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔ میرے علاوہ جن جج صاحبان نے یہ مقدمات سنے ہیں اُن سب کا تاثر بھی میں نے ہمیشہ یہی پایا کہ اس قسم کے مقدمات میں جہاں عورت کا کردار مشکوک ہو،تب بھی عورتوں کو سزا نہیں ہوتی، صرف مرد کو سزا ہوتی ہے۔ چونکہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے وقت ہی سے یہ شور بکثرت مچتا رہا ہے کہ اس کے ذریعے بے گناہ عورتوں کو سزا ہورہی ہے، اس لئے ایک امریکی اسکالر چارلس کینیڈی یہ شور سن کر ان مقدمات کا سروے کرنے کے لئے پاکستان آیا، اس نے حدود آرڈی ننس کے مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار جمع کئے اور اپنی تحقیق کے نتائج ایک رپورٹ میں پیش کئے جو شائع ہوچکی ہے۔۔۔“


http://209.41.165.188/urdu/details.asp?nid=145665
http://209.41.165.188/urdu/details.asp?nid=146111
 

زیک

مسافر
مولانامحمد تقی عثمانی کا مضمون

شارق مستقیم نے کہا:
مولانامحمد تقی عثمانی، سابق رکن شریعت اپیلٹ بنچ۔سپریم کورٹ کا ایک مضمون روزنامہ جنگ میں‌شائع ہوا ہے، وقت ملے تو پڑھیں۔ اس کا ایک ٹکڑا:

“سوال یہ ہے کہ پھر کس وجہ سے زنا بالجبر کی شرعی سزا کو ختم کرنے پر اتنا اصرار کیا گیا ہے؟ اس کی وجہ دراصل ایک انتہائی غیر منصفانہ پروپیگنڈا ہے جو حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے وقت سے بعض حلقے کرتے چلے آرہے ہیں، پروپیگنڈا یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کے تحت اگر کوئی مظلوم عورت کسی مرد کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرائے تو اُس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ زنا بالجبر پر چار گواہ پیش کرے اور جب وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکتی تو الٹا اسی کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو عرصہٴ دراز سے بے تکان دہرائی جارہی ہے اور اس شدت کے ساتھ دہرائی جارہی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں اور یہی وہ بات ہے جسے صدر مملکت نے بھی اپنی نشری تقریر میں اس بل کی واحد وجہ جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔ جب کوئی بات پروپیگنڈے کے زور پر گلی گلی اتنی مشہور کردی جائے کہ وہ بچہ بچہ کی زبان پر ہوتو اس کے خلاف کوئی بات کہنے والا عام نظروں میں دیوانہ معلوم ہوتا ہے لیکن جو حضرات انصاف کے ساتھ مسائل کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، میں انہیں دلسوزی کے ساتھ دعوت دیتا ہوں کہ وہ براہ کرم پروپیگنڈے سے ہٹ کر میری آئندہ معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں خود پہلے وفاقی شریعت عدالت کے جج کی حیثیت سے اور پھر سترہ سال تک سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ بنچ کے رکن کی حیثیت سے حدود آرڈی ننس کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی براہِ راست سماعت کرتا رہا ہوں۔اتنے طویل عرصے میں میرے علم میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں آیا جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سزا دی گئی ہو کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکی اور حدود آرڈی ننس کے تحت ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔

شارق: یہ تقی عثمانی صاحب صرف جج ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں۔ ملاحظہ ہو:

[align=left:715d069cdb]A few cases will disturbingly illustrate the concern. In 1982, fifteen-year-old Jehan Mina became pregnant as a result of a reported rape. Lacking the testimony of four eye-witnesses that the intercourse was in fact rape, Jehan was convicted of zina on the evidence of her illegitimate pregnancy (Mina v. State, 1983 P.L.D. Fed. Shariat Ct 183). Her child was born in prison (Mehdi 1990, 25). Later, a similar case caused public outcry and drew public attention to the new law. In 1985, Safia Bibi, a sixteen-year-old nearly blind domestic servant reported that she was repeatedly raped by her landlord/employer and his son, and became pregnant as a result. When she charged the men with rape, the case was dismissed for lack of evidence, as she was the only witness against them. Safia, however, being unmarried and pregnant, was charged with zina and convicted on this evidence (Bibi v. State, 1985 P.L.D. Fed. Shariat Ct. 120).5

Short of conviction, women have also been held for extended lengths of time on charges of zina when they allege rape (Asia Watch 1992, 41-60). For example, in July, 1992, Shamim, a twenty-one-year-old mother of two charged that she was kidnaped and raped by three men in Karachi. When a rape complaint was lodged against the perpetrators, the police instead arrested Shamim, and charged her with zina when her family could not post the fee set for her release. The police held her in custody for six days, during which she reports that she was repeatedly raped by two police officers and a third unnamed person (Amnesty International 1993, 11-12). There have been numerous reports of such custodial rapes in Pakistan.[/align:715d069cdb]
 

قیصرانی

لائبریرین
زکریا بھائی سے میں اتفاق کروں گا۔ ایک چھوٹا سا واقعہ میرے علم میں ہے۔ وہ میں شیئر کرتاہوں

میرے ماموں زاد بھائی نے الدعوٰی جائن کرنے سے قبل ایک بار ان سے ملاقات کی تھی۔ کزن نے مولانا سے پوچھا تھا کہ آپ کے فتوٰی کے مطابق ہر وہ چیز حرام ھے جو جسم کو نقصان دے۔ جیسا کہ تمباکو نوشی۔ مولانا نے تصدیق کی۔ کزن نے پوچھا کہ اگر یہ ایسا ہے تو آپ تمباکو والا پان کیوں‌کھاتے ہیں؟ وہ بھی تو جسم کو نقصان ھے۔ وہ بھی تو حرام شمار ھوگا۔ اس بات پر وہ برافروختہ ہو گئے اور کزن کو کان سے پکڑ کر نکال دیا :(
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

زکریا صاحب
السلام علیکم
(۱) آپ کے انقلابی جواب پڑھتا رہتا ہوں۔ اب اس پوسٹ پر سے گزر ہوا تو باندیں اور غلام کے بارے میں آپ کی رائے پڑھی۔
اس بارے صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلام کے فقہی معاملات پر نظر ڈال لیں۔
نیز اس بات کی حلت وحرمت کا مصدر بھی آپ دیکھیں۔ اول تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر ایک بات فرمادیں تو اسکا انکار نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ خدا تعالی کے حکم کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بات نہیں فرماتے تھے۔ سو باندیوں اور غلاموں کے احکامات اسلام میں پڑھیں تو آپ حیران پریشان رہ جائیں۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام اور باندیاں موجود تھیں ۔ اس حقیقت پر آپ کیا کہیں گے؟ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بیٹا (القاسم رضی اللہ عنہ ) حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باندی تھیں مصر کے بادشاہ (مقوقس) نے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو بھیجی تھی۔
نیز اسلام نے جو حقوق باندی اور غلام کے لئے رکھیں ہیں ان پر نظر ڈالئے ۔ پھر اپنا نقطہ نظر ضرور پیش کیجئے گا۔

(۲) مفتی تقی عثمانی صاحب کے بارے میں آپ کا مجروح لفظ پڑھنے کو ملا۔ نقد کرتے وقت کسی بھی شخص کے بارے میں معتدل الفاظ کا انتخاب کرنا اخلاقی ذوق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر عالم ہو تو بات مزید گھمبیر ہوجاتی ہے۔ اختلاف رائے کا حق ہر کسی کو ہے ہر کوئی اپنے فہم اور معلومات کے مطابق تنقید کرنے کا حق رکھتا ہے۔ میری انگلش چونکہ اس درجہ کی نہیں کہ میں یہ مضمون پڑھکر آپ کی بات کا دقیق جواب دوں اس لئے میں اس بابت کوئی بات عرض نہیں کروں گا۔ ہاں عبارت اگر عربی یا اردو میں ہوتی تو شاید مناسب جواب لکھ پاتا۔ مفتی تقی صاحب کی اگر مذکورہ بات پر انہیں جھوٹا کہا جا سکتا ہے تو انکی اسلام اور مسلمانوں کی لئے خدمات کو دیکھ کر آپ انہیں کیا کہیں گے ؟
تقی صاحب چوٹی کے علماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں کئی مناصب پر علمی وجاہت کی بناء پر فائز ہیں۔ دنیابھر کے بنوک ان سے شرعی بینکنگ کے معاملہ میں رابطہ رکھتے اور بلاتے ہیں۔
الغرض انکی علمی خدمات بے بہا ہیں۔ اور انکا شمار متنازعہ شخصیات میں کبھی نہیں ہوا۔ اس شہرت اور قدر ومنزلت کے باوجود اگر آپ ان کو حقیقت میں دیکھیں تو کبھی بھی نہ کہیں کہ یہ تقی صاحب ہی ہیں۔ متواضع شخصیت کے حامل ہیں۔
کاش کہ انکے بارے میں کہ گیا یہ لفظ آپ واپس لے لیں۔

نوٹ: میری ان باتوں کا برادرانہ شفقت اور وسعتِ قلب کا ثبوت دیتے ہوئے برا نہ منائیے گا۔
والسلام
راسخ
 
Top