سید عمران
محفلین
عورت اپنی فطرت میں صنف نازک کے بجائے،، صنف نا جھک ،، ہے ۔وہ صرف ایک موقع پر جھکتی ہے .....جب اسے نکاح کے رجسٹر پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ پھر اسی لمحے وہ عہدکر لیتی ہے کہ بقیہ تمام زندگی جھکنا نہیں، جھکانا ہے۔ اور ہوتا بھی یہ ہی ہے کہ شوہر، بیوی کے سامنے جھکتے جھکتے بالآخر کبڑا عاشق ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ سے لے کر موچی گیٹ تک حقوق نسواں کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے ۔ کبھی کسی مرد کو بھی '' حقوق مرداں'' کا خیال نہیں آیا۔ مرد فطرتا قربانی کا بکرا ہے (اگر چہ بکرے کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں)۔ چنانچہ وہ بے چارہ یہ سوچ کر صبر کر لیتا ہے۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
تاہم مغرب کے مردوں نے عورت کے مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے تالاب میں پہلا پتھر پھینک دیا ہے ۔ ان مظالم کے اعداد و شمار مردانگی کے نام پر دھبا ہیں۔ یہ '' لٹھ'' پر '' نتھ '' کی حکمرانی کی روح فرسا داستان سناتے ہیں ۔لندن میں قائم برطانیہ کے ایک فلاحی ادارے مینکائنڈ انیٹیٹوو کے مطابق اس ترقی یافتہ ملک کے 15 فی صد مردوں پر ان کی ہتھ چھٹ اور منہ پھٹ بیویاں جسمانی تشدد کرتی ہیںجسے وہ غریب تحمل سے برداشت کرتے رہے ہیں ۔ ان میں سے 31 فی صد کی عورتیں تو اتنی مرکھنی ہیں کہ ان کے شوہر ،ضرب شدید کا نشانہ بن کر اسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ مرد یہ سب کچھ سہہ رہے تھے اس کی ایک وجہ تو وہی خوش فہمی تھی جس کا ذکر ناصر کاظمی کے مندرجہ بالا شعر میں کیا گیا ہے جبکہ دوسری یہ تھی کہ وہ اپنی مردانگی کا بھانڈا نہیں پھوڑنا چاہتے تھے۔ یہ طعنہ نہیں سن سکتے تھے کہ '' یار کیسے مرد ہو عورت سے مار کھا گئے ؟ لو یہ سکرٹ پہن لو اور ہماری برادری سے دفع ہو جائو '' چنانچہ کوئی کسی سے پوچھتا کہ کہنی کیسے ٹوٹ گئی ہے ؟ تو جواب آتا کہ فرش پر سے پھسل گیا تھا۔ پیشانی کیوں نیلی ہے ؟ تو بتا دیا کہ کرکٹ کی گیند لگ گئی تھی۔ گال کی سرخی کی وجہ '' الرجی '' بتائی جاتی۔ یوں گھر کی بات گھر میں رکھ کر مرد، بیویوں کو اپنے اعصاب و عضلات پر حاوی کرتے جا رہے تھے۔ لیکن جیسا کہ حضرت داغ نے کہا تھا کہ
بھلا ضبط کی بھی کوئی انتہا ہے
کہاں تک طبیعت کو اپنی سنبھالیں
چنانچہ لندن کے مردوں نے متحد ہو کر فیصلہ کر لیا۔۔۔ بس بھئی بس ، زیادہ مار نہیں میم صاحب۔۔۔ انہوں نے مینکائنڈ انیٹیٹوو کے زیر اہتمام ڈومسیٹک ابیوز فورم کے نام سے ایک مزاحمتی تنظیم بنائی ہے۔ تنظیم کو پولیس ، مقامی کونسلوں کے نمائندوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اساتذہ غرض معاشرے کے ہر طبقے کے مردوں کی حمایت حاصل ہے کیونکہ سب ہی کو ان کے گھروں کو ان کی بیویوں نے ''گوانتانا موبے'' میں تبدیل کر رکھا ہے ۔ خود تنظیم کے ارکان میں ہر مکتبہ فکر کی نمائندگی موجود ہے ۔یہ لوگ جب اپنا اجلاس کرتے ہیں تو آغاز میں ہر شخص مائک پر آ کر اپنی روداد غم سناتا ہے ۔ عموما تقریر کی ابتدا کچھ اس طرح ہوتی ہو گی ۔
مظلومیت کا پیکر ہے آپ کی دعا سے
بندہ بھی ایک شوہر ہے آپ کی دعا سے
مینکائنڈ انیٹیٹوو کے ماہرین ان مظلوموں کو نفسیات، ابلاغیات، خودداری اور خود آ گہی جیسے موضرعات پر لیکچر دیتے ہیں اور عملی مشق کراتے ہیں۔ انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ ظلم و زیادتی پر پر دہ ڈالنا، ہر وقت اسے نظر انداز کرنا ،جسم پر لگی ہوئی چوٹوں کے جھوٹے اور نت نئے جواز تراشنا، حد سے زیادہ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا، گر بہ کشتن روز اول کی پالیسی پر عمل نہ کرنا، جی حضوریے بن کر زندگی گزارنا، مردانیت کے جلوے کو نسوانیت کے تلوے میں رکھنے کے برابر ہے ۔ گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہونا بز دلی ہے تو عورت سے مار کھا کر مسکرانا خود کشی ہے۔ پس، اپنی خودی کو اتنا بلند کرو کہ فریق ثانی خود تمہارے قدموں میں گر کر کہے بتا تیری رضا کیا ہے ؟؟ مرد کو گھر میں سرتاج کی حیثیت حاصل ہے ۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سر، تاج کے بغیر رہے ۔ الغرض انہیں پوری طرح باور کرایا جاتا ہے کہ ،
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے ، بغاوت نہیں کرتا
اسے حسن اتفاق کہیے یا حالات کی ستم ظریفی کہ '' بیداریْ نسواں '' کی لہر مغرب سے اٹھی تھی لیکن دامن کے تار اور گریباں کے تار میں کچھ فاصلہ نہ رہا تو اب وہیں سے '' بیداریٔ مرداں'' کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔ مغرب کی عورت مرد کے بارے میں کتنے خیر سگالی کے جذبات رکھتی ہے اس کا اندازہ ان چند اقوال زریں سے لگایئے ۔ سابق وزیر اعظم اور آئرن لیڈی (خاتون آہن) آنجہانی مار گریٹ تھیچر نے ایک بار یہ گوہر افشانی فرمائی '' سیاست میں آکر میں نے جو باتیں سیکھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مرد کوئی معقول جنس نہیں۔'' ان کا بس چلتا اور ووٹ بینک کھونے کا خطرہ نہ ہوتا تو کہتی کہ مرد کوئی باقاعدہ مخلوق ہی نہیں۔ یہ تو وہ کوڑا ہے جسے '' ری سائیکل'' بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور نامور ''مدبرہ '' نے اپنی بھڑاس یوں نکالی '' مرد موٹر کے الارم کی طرح ہے۔ دونوں اس انداز کا شور مچاتے ہیں جو کوئی نہیں سنتا ''انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مردوں کو شور مچانے پر مجبور کون کرتا ہے۔ ایک شعلہ بیان مقررہ نے یہ میزائل داغا'' میں جتنا مردوں کے بارے میں سوچتی ہوں اتنی ہی کتوں سے میری محبت بڑھ جاتی ہے''
کتا بے شک مغربی معاشرے میں انتہائی معزز مقام رکھتا ہے ، جس کا اندازہ اس واقعے سے ہو گا۔ ایک عورت نے دیکھا کہ اس کی پڑوسن مسز ٹیلر کا کتا سڑک پر ایک تیز رفتار ٹرک کے نیچے آ کر '' اوپر '' چلا گیا ہے ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کتے کی مالکن کو اس کے بارے میں کس طرح آگاہ کرے ۔ اس نے ایک دوسری پڑوسن سے مشورہ کیا۔ پڑوسن نے کہا '' واقعی مسز ٹیلر کو اپنے کتے سے بہت لگائو تھا اور وہ دل کی مریضہ بھی ہے ۔ اگر تم نے ایک دم اس سانحے کے بارے میں بتایا تو ممکن ہے وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ لہذا تم ایسا کرو کہ پہلے جھوٹ موٹ اسے شوہر کی موت کی خبر دو۔'' برطانوی رکن پارلیمنٹ لیڈی آسٹر نے ، جن کی مرد دشمنی ضرب المثل تھی اور جن کی چرچل سے اکثر نوک جھونک رہتی تھی۔ ایک بار ایوان میں یہ زہر اگلا '' آدم کو جیسے ہی پہلا موقع ملا، سارا الزام عورت کے اوپر تھوپ دیا ۔'' نرم سے نرم الفاظ میں لیڈی آسٹر کا یہ موقف مرد کے خلاف کینہ پروری کا مظہر تھا۔ دراصل یہ خصوصی صلاحیت صرف عورتوں کو حاصل ہے کہ اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کرتیں اور اس غلطی کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے اس کا ملبہ مردوں پر ڈال کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہیں۔ ایک صاحب نے گھر میں کھانا شروع کیا ۔ دو تین نوالوں کے بعد انہوں نے شکایت کی '' یہ آج تم نے کھانے کا کیا حشر کر دیا ہے، نہ گوشت گلا ہے نہ سبزی ۔ مجھ سے تویہ نہیں کھایا جا رہا ہے ۔ '' بیگم صاحبہ تنک کر بولیں '' غلطی اپنی اور غصہ مجھ پر اتار رہے ہو ۔کھانا تو میرے حلق سے بھی نہیں اتر رہا ۔''
'' میری غلطی ؟؟ '' شوہر کا پارہ اور چڑھ گیا '' کیا کھانا میں نے پکایا ہے؟؟ ''
''وہ کھانا پکانے کی ترکیبوں والی کتاب کس نے مجھے لا کر دی تھی ؟ '' بیوی نے پلیٹ سے ہاتھ کھینچتے ہوئے جوابی وار کیا '' اسی میں سے ایک پکوان کی ترکیب پڑھ کر میں نے یہ کھانا تیار کیا ہے۔ وہ ترکیب چار آدمیوں کے لیے تھی۔ ہم دو ہیں اس لیے میں نے ہر چیز آدھی کر دی ۔ برا کیا ؟؟ میں نے تو اتنی احتیاط برتی کہ اوون میں پکنے کا وقت بھی آدھا رکھا۔ اب اگر گوشت اور سبزی نہیں گلی تو قصور میرا ہے یا تمہارا ؟؟''
شوہر کی ٹھکائی اب مغربی عورت کے پسندیدہ مشاغل میں شامل ہوچکی ہے۔ پہلے جو بیوی اپنے میاں کو دھمکی دیتی تھی '' اب تم میری زبان نہ کھلواؤ '' اب وہ آنکھیں مٹکا کر آستینیں چڑھاتے ہوئے ڈانٹتی ہے'' دیکھو میرا ہاتھ نہ کھلوانا۔'' نیو یارک میں ایک بیمار عورت نے صحت یابی کے بعد دواوئں کی کمپنی کو اظہار تشکر کا خط لکھا '' جناب عالی، دو ہفتے قبل تک بیماری نے مجھے اتنا نڈھال کر کھا تھا کہ بڑی مشکل سے بستر چھوڑ پاتی تھی۔ گھر کا کوئی کام کرنے کے قابل نہ تھی۔ آپ کی دوا نے نہ صرف مجھے صحت بخشی بلکہ میری توانائی بھی بحال کر دی ہے ۔ اب میں تمام کام ، بشمول شوہر کی پٹائی، با آسانی انجام دے رہی ہوں ۔'' اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ذرا اس خط پر غور فرمائیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ'' عورتوں کو با اختیار بنانا ہو گا۔'' حضور وہ اور کتنی با اختیار ہوں گی ؟؟ مردوں کا بھرکس تو وہ پہلے ہی نکال رہی ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان غربا و مساکین کا بھرتہ بھی بنانے لگیں۔
چونکہ مغربی عورتیں مردوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ ان کی مرمت بھی کرنے لگی ہیں۔
(ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی)
ربط
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
تاہم مغرب کے مردوں نے عورت کے مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے تالاب میں پہلا پتھر پھینک دیا ہے ۔ ان مظالم کے اعداد و شمار مردانگی کے نام پر دھبا ہیں۔ یہ '' لٹھ'' پر '' نتھ '' کی حکمرانی کی روح فرسا داستان سناتے ہیں ۔لندن میں قائم برطانیہ کے ایک فلاحی ادارے مینکائنڈ انیٹیٹوو کے مطابق اس ترقی یافتہ ملک کے 15 فی صد مردوں پر ان کی ہتھ چھٹ اور منہ پھٹ بیویاں جسمانی تشدد کرتی ہیںجسے وہ غریب تحمل سے برداشت کرتے رہے ہیں ۔ ان میں سے 31 فی صد کی عورتیں تو اتنی مرکھنی ہیں کہ ان کے شوہر ،ضرب شدید کا نشانہ بن کر اسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ مرد یہ سب کچھ سہہ رہے تھے اس کی ایک وجہ تو وہی خوش فہمی تھی جس کا ذکر ناصر کاظمی کے مندرجہ بالا شعر میں کیا گیا ہے جبکہ دوسری یہ تھی کہ وہ اپنی مردانگی کا بھانڈا نہیں پھوڑنا چاہتے تھے۔ یہ طعنہ نہیں سن سکتے تھے کہ '' یار کیسے مرد ہو عورت سے مار کھا گئے ؟ لو یہ سکرٹ پہن لو اور ہماری برادری سے دفع ہو جائو '' چنانچہ کوئی کسی سے پوچھتا کہ کہنی کیسے ٹوٹ گئی ہے ؟ تو جواب آتا کہ فرش پر سے پھسل گیا تھا۔ پیشانی کیوں نیلی ہے ؟ تو بتا دیا کہ کرکٹ کی گیند لگ گئی تھی۔ گال کی سرخی کی وجہ '' الرجی '' بتائی جاتی۔ یوں گھر کی بات گھر میں رکھ کر مرد، بیویوں کو اپنے اعصاب و عضلات پر حاوی کرتے جا رہے تھے۔ لیکن جیسا کہ حضرت داغ نے کہا تھا کہ
بھلا ضبط کی بھی کوئی انتہا ہے
کہاں تک طبیعت کو اپنی سنبھالیں
چنانچہ لندن کے مردوں نے متحد ہو کر فیصلہ کر لیا۔۔۔ بس بھئی بس ، زیادہ مار نہیں میم صاحب۔۔۔ انہوں نے مینکائنڈ انیٹیٹوو کے زیر اہتمام ڈومسیٹک ابیوز فورم کے نام سے ایک مزاحمتی تنظیم بنائی ہے۔ تنظیم کو پولیس ، مقامی کونسلوں کے نمائندوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اساتذہ غرض معاشرے کے ہر طبقے کے مردوں کی حمایت حاصل ہے کیونکہ سب ہی کو ان کے گھروں کو ان کی بیویوں نے ''گوانتانا موبے'' میں تبدیل کر رکھا ہے ۔ خود تنظیم کے ارکان میں ہر مکتبہ فکر کی نمائندگی موجود ہے ۔یہ لوگ جب اپنا اجلاس کرتے ہیں تو آغاز میں ہر شخص مائک پر آ کر اپنی روداد غم سناتا ہے ۔ عموما تقریر کی ابتدا کچھ اس طرح ہوتی ہو گی ۔
مظلومیت کا پیکر ہے آپ کی دعا سے
بندہ بھی ایک شوہر ہے آپ کی دعا سے
مینکائنڈ انیٹیٹوو کے ماہرین ان مظلوموں کو نفسیات، ابلاغیات، خودداری اور خود آ گہی جیسے موضرعات پر لیکچر دیتے ہیں اور عملی مشق کراتے ہیں۔ انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ ظلم و زیادتی پر پر دہ ڈالنا، ہر وقت اسے نظر انداز کرنا ،جسم پر لگی ہوئی چوٹوں کے جھوٹے اور نت نئے جواز تراشنا، حد سے زیادہ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا، گر بہ کشتن روز اول کی پالیسی پر عمل نہ کرنا، جی حضوریے بن کر زندگی گزارنا، مردانیت کے جلوے کو نسوانیت کے تلوے میں رکھنے کے برابر ہے ۔ گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہونا بز دلی ہے تو عورت سے مار کھا کر مسکرانا خود کشی ہے۔ پس، اپنی خودی کو اتنا بلند کرو کہ فریق ثانی خود تمہارے قدموں میں گر کر کہے بتا تیری رضا کیا ہے ؟؟ مرد کو گھر میں سرتاج کی حیثیت حاصل ہے ۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سر، تاج کے بغیر رہے ۔ الغرض انہیں پوری طرح باور کرایا جاتا ہے کہ ،
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے ، بغاوت نہیں کرتا
اسے حسن اتفاق کہیے یا حالات کی ستم ظریفی کہ '' بیداریْ نسواں '' کی لہر مغرب سے اٹھی تھی لیکن دامن کے تار اور گریباں کے تار میں کچھ فاصلہ نہ رہا تو اب وہیں سے '' بیداریٔ مرداں'' کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔ مغرب کی عورت مرد کے بارے میں کتنے خیر سگالی کے جذبات رکھتی ہے اس کا اندازہ ان چند اقوال زریں سے لگایئے ۔ سابق وزیر اعظم اور آئرن لیڈی (خاتون آہن) آنجہانی مار گریٹ تھیچر نے ایک بار یہ گوہر افشانی فرمائی '' سیاست میں آکر میں نے جو باتیں سیکھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مرد کوئی معقول جنس نہیں۔'' ان کا بس چلتا اور ووٹ بینک کھونے کا خطرہ نہ ہوتا تو کہتی کہ مرد کوئی باقاعدہ مخلوق ہی نہیں۔ یہ تو وہ کوڑا ہے جسے '' ری سائیکل'' بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور نامور ''مدبرہ '' نے اپنی بھڑاس یوں نکالی '' مرد موٹر کے الارم کی طرح ہے۔ دونوں اس انداز کا شور مچاتے ہیں جو کوئی نہیں سنتا ''انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مردوں کو شور مچانے پر مجبور کون کرتا ہے۔ ایک شعلہ بیان مقررہ نے یہ میزائل داغا'' میں جتنا مردوں کے بارے میں سوچتی ہوں اتنی ہی کتوں سے میری محبت بڑھ جاتی ہے''
کتا بے شک مغربی معاشرے میں انتہائی معزز مقام رکھتا ہے ، جس کا اندازہ اس واقعے سے ہو گا۔ ایک عورت نے دیکھا کہ اس کی پڑوسن مسز ٹیلر کا کتا سڑک پر ایک تیز رفتار ٹرک کے نیچے آ کر '' اوپر '' چلا گیا ہے ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کتے کی مالکن کو اس کے بارے میں کس طرح آگاہ کرے ۔ اس نے ایک دوسری پڑوسن سے مشورہ کیا۔ پڑوسن نے کہا '' واقعی مسز ٹیلر کو اپنے کتے سے بہت لگائو تھا اور وہ دل کی مریضہ بھی ہے ۔ اگر تم نے ایک دم اس سانحے کے بارے میں بتایا تو ممکن ہے وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ لہذا تم ایسا کرو کہ پہلے جھوٹ موٹ اسے شوہر کی موت کی خبر دو۔'' برطانوی رکن پارلیمنٹ لیڈی آسٹر نے ، جن کی مرد دشمنی ضرب المثل تھی اور جن کی چرچل سے اکثر نوک جھونک رہتی تھی۔ ایک بار ایوان میں یہ زہر اگلا '' آدم کو جیسے ہی پہلا موقع ملا، سارا الزام عورت کے اوپر تھوپ دیا ۔'' نرم سے نرم الفاظ میں لیڈی آسٹر کا یہ موقف مرد کے خلاف کینہ پروری کا مظہر تھا۔ دراصل یہ خصوصی صلاحیت صرف عورتوں کو حاصل ہے کہ اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کرتیں اور اس غلطی کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے اس کا ملبہ مردوں پر ڈال کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہیں۔ ایک صاحب نے گھر میں کھانا شروع کیا ۔ دو تین نوالوں کے بعد انہوں نے شکایت کی '' یہ آج تم نے کھانے کا کیا حشر کر دیا ہے، نہ گوشت گلا ہے نہ سبزی ۔ مجھ سے تویہ نہیں کھایا جا رہا ہے ۔ '' بیگم صاحبہ تنک کر بولیں '' غلطی اپنی اور غصہ مجھ پر اتار رہے ہو ۔کھانا تو میرے حلق سے بھی نہیں اتر رہا ۔''
'' میری غلطی ؟؟ '' شوہر کا پارہ اور چڑھ گیا '' کیا کھانا میں نے پکایا ہے؟؟ ''
''وہ کھانا پکانے کی ترکیبوں والی کتاب کس نے مجھے لا کر دی تھی ؟ '' بیوی نے پلیٹ سے ہاتھ کھینچتے ہوئے جوابی وار کیا '' اسی میں سے ایک پکوان کی ترکیب پڑھ کر میں نے یہ کھانا تیار کیا ہے۔ وہ ترکیب چار آدمیوں کے لیے تھی۔ ہم دو ہیں اس لیے میں نے ہر چیز آدھی کر دی ۔ برا کیا ؟؟ میں نے تو اتنی احتیاط برتی کہ اوون میں پکنے کا وقت بھی آدھا رکھا۔ اب اگر گوشت اور سبزی نہیں گلی تو قصور میرا ہے یا تمہارا ؟؟''
شوہر کی ٹھکائی اب مغربی عورت کے پسندیدہ مشاغل میں شامل ہوچکی ہے۔ پہلے جو بیوی اپنے میاں کو دھمکی دیتی تھی '' اب تم میری زبان نہ کھلواؤ '' اب وہ آنکھیں مٹکا کر آستینیں چڑھاتے ہوئے ڈانٹتی ہے'' دیکھو میرا ہاتھ نہ کھلوانا۔'' نیو یارک میں ایک بیمار عورت نے صحت یابی کے بعد دواوئں کی کمپنی کو اظہار تشکر کا خط لکھا '' جناب عالی، دو ہفتے قبل تک بیماری نے مجھے اتنا نڈھال کر کھا تھا کہ بڑی مشکل سے بستر چھوڑ پاتی تھی۔ گھر کا کوئی کام کرنے کے قابل نہ تھی۔ آپ کی دوا نے نہ صرف مجھے صحت بخشی بلکہ میری توانائی بھی بحال کر دی ہے ۔ اب میں تمام کام ، بشمول شوہر کی پٹائی، با آسانی انجام دے رہی ہوں ۔'' اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ذرا اس خط پر غور فرمائیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ'' عورتوں کو با اختیار بنانا ہو گا۔'' حضور وہ اور کتنی با اختیار ہوں گی ؟؟ مردوں کا بھرکس تو وہ پہلے ہی نکال رہی ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان غربا و مساکین کا بھرتہ بھی بنانے لگیں۔
چونکہ مغربی عورتیں مردوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ ان کی مرمت بھی کرنے لگی ہیں۔
(ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی)
ربط