حقیقتِ دل
آئیں اسکول کے احباب سُنیں درد مرا
گرم کردے گا لہو ، ہر نفس سرد میرا
آئیں بیٹھیں ، مری تقریر سنیں غور کریں
عافیت کا سامان ، بہر طور کریں
کیوں شکایت ہے کہ "پڑھنے کا اسے شوق نہیں "
دل میں تحصیل کمالات کا کچھ ذوق نہیں
"مدرسہ" کیوں نہیں آتا " یہ شکایت کیا ہے
کاش پوچھیں تو ترے دل پہ مصیبت کیا ہے ؟
آئیں اور جھک کے سنیں کان لگا کر باتیں
تیغ باتیں ہیں ، چھری باتیں ہیں خنجر باتیں
میں لڑکپن سے جسے عشقِ کمالات رہا
علم حاصل ہو ، اسی فکر میں دن رات رہا
بھائی سے کام تھا مجھ کو نہ کسی ہمسن سے
لڑکے کہتے تھے کبھی ہم نہیں کھیلے ان سے
اور اب وہی کمبخت کہ پڑھتا ہی نہیں
سامنے علم کا میدان ہے بڑھتا ہی نہیں
دل یہ کہتا ہے کہ اب زیست کے دن تھوڑے
حرف گھِس گھِس کے نظر سے کوئی آنکھیں پھوڑے
دوستوں ! دل میں خیال اب یہی آیا ہو گا
کیوں ہوا اس میں یکا یک تغیر پیدا؟
اپنی تکلیف کے کس طرح بتاؤں اسباب
ہوگا مجھ سا بھی نہ دنیا میں کوئی خانہ خراب
غور سے اب مرے پڑھنے کی حکایت سنئے
دل کا جب تک نہ کہوں حال کوئی کیا جانے ؟
(۱)
ایک تنکا بھی اگر آنکھ میں پڑجاتا ہے
آدمی ہے کوئی ایسا جسے چین آتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین لینے دیں بھلا کب مجھے ایسی آنکھیں !
جن کے پردوں میں سمائی ہوں کسی کی آنکھیں !!
(۲)
اکثر آنکھوں کی اذیت کو بھلا دیتا ہوں
میز سے بڑھ کے کتاب اک اٹھا لیتا ہوں
لیکن آساں نہیں اس قلب کا شاداں ہونا
جس کی تقدیر میں لکھا ہو پریشاں ہونا
روبرو آنکھ کے جس وقت کتاب آتی ہے
اِک جھلک صفحۂ قرطاس پہ پڑجاتی ہے
نقطہ نقطہ نظر آتا ہے مجھے برق لباس
شمعیں جل اٹھتی ہیں ہر مرکز و اعراب کے پاس
دیر تک کچھ نظر آتا نہیں بجلی کے سوا
دفعتاً ہوتی ہے ہر سطر میں جنبش پیدا
حرف دب جاتے ہیں کچھ دیر میں رفتہ رفتہ
صاف کھنچ جاتا ہے ہر لفظ پہ ان کا نقشہ
(۳)
جب کیا قصد کریں یاد کتابیں سُنکر
ہم سبق آئے سُنانے کہ اٹھا دردِ جگر
یک بیک جوش ہوا ذہن و ذکا میں پیدا
اِک ترنّم سا ہوا موجِ ہوا میں پیدا
دوست کی آئی صدا " حسن یگانہ میرا
کان رکھتا ہے تو سن دل سے فسانہ میرا"
"میری آواز کی پابند سماعت تیری "
"گھیر لی ہے میرے جلوے نے بصارت تیری"
عاشقی چسیت ، بگو بندہ جاناں بودن
دل بدست دگرے دادن و حیراں بودن
جوش تعلیم کجا عشقِ جگر دوز کجا!
محفلِ علم کجا جلوہ گہہ سوز کجا !
جوش ملیح آبادی
رُوحِ ادب
39-40-41
آئیں اسکول کے احباب سُنیں درد مرا
گرم کردے گا لہو ، ہر نفس سرد میرا
آئیں بیٹھیں ، مری تقریر سنیں غور کریں
عافیت کا سامان ، بہر طور کریں
کیوں شکایت ہے کہ "پڑھنے کا اسے شوق نہیں "
دل میں تحصیل کمالات کا کچھ ذوق نہیں
"مدرسہ" کیوں نہیں آتا " یہ شکایت کیا ہے
کاش پوچھیں تو ترے دل پہ مصیبت کیا ہے ؟
آئیں اور جھک کے سنیں کان لگا کر باتیں
تیغ باتیں ہیں ، چھری باتیں ہیں خنجر باتیں
میں لڑکپن سے جسے عشقِ کمالات رہا
علم حاصل ہو ، اسی فکر میں دن رات رہا
بھائی سے کام تھا مجھ کو نہ کسی ہمسن سے
لڑکے کہتے تھے کبھی ہم نہیں کھیلے ان سے
اور اب وہی کمبخت کہ پڑھتا ہی نہیں
سامنے علم کا میدان ہے بڑھتا ہی نہیں
دل یہ کہتا ہے کہ اب زیست کے دن تھوڑے
حرف گھِس گھِس کے نظر سے کوئی آنکھیں پھوڑے
دوستوں ! دل میں خیال اب یہی آیا ہو گا
کیوں ہوا اس میں یکا یک تغیر پیدا؟
اپنی تکلیف کے کس طرح بتاؤں اسباب
ہوگا مجھ سا بھی نہ دنیا میں کوئی خانہ خراب
غور سے اب مرے پڑھنے کی حکایت سنئے
دل کا جب تک نہ کہوں حال کوئی کیا جانے ؟
(۱)
ایک تنکا بھی اگر آنکھ میں پڑجاتا ہے
آدمی ہے کوئی ایسا جسے چین آتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین لینے دیں بھلا کب مجھے ایسی آنکھیں !
جن کے پردوں میں سمائی ہوں کسی کی آنکھیں !!
(۲)
اکثر آنکھوں کی اذیت کو بھلا دیتا ہوں
میز سے بڑھ کے کتاب اک اٹھا لیتا ہوں
لیکن آساں نہیں اس قلب کا شاداں ہونا
جس کی تقدیر میں لکھا ہو پریشاں ہونا
روبرو آنکھ کے جس وقت کتاب آتی ہے
اِک جھلک صفحۂ قرطاس پہ پڑجاتی ہے
نقطہ نقطہ نظر آتا ہے مجھے برق لباس
شمعیں جل اٹھتی ہیں ہر مرکز و اعراب کے پاس
دیر تک کچھ نظر آتا نہیں بجلی کے سوا
دفعتاً ہوتی ہے ہر سطر میں جنبش پیدا
حرف دب جاتے ہیں کچھ دیر میں رفتہ رفتہ
صاف کھنچ جاتا ہے ہر لفظ پہ ان کا نقشہ
(۳)
جب کیا قصد کریں یاد کتابیں سُنکر
ہم سبق آئے سُنانے کہ اٹھا دردِ جگر
یک بیک جوش ہوا ذہن و ذکا میں پیدا
اِک ترنّم سا ہوا موجِ ہوا میں پیدا
دوست کی آئی صدا " حسن یگانہ میرا
کان رکھتا ہے تو سن دل سے فسانہ میرا"
"میری آواز کی پابند سماعت تیری "
"گھیر لی ہے میرے جلوے نے بصارت تیری"
عاشقی چسیت ، بگو بندہ جاناں بودن
دل بدست دگرے دادن و حیراں بودن
جوش تعلیم کجا عشقِ جگر دوز کجا!
محفلِ علم کجا جلوہ گہہ سوز کجا !
جوش ملیح آبادی
رُوحِ ادب
39-40-41