حقیقی اسلام اور تخلیقی اسلام

ایس ایم شاہ

محفلین
تحریر: ایس ایم شاہ
اسلام و ہ جامع نظام حیات ہے جس نے انسانوں کی کھوئی ہوئی قدروں کو زندہ کیا۔ جہالت کو علم میں اور ظلمت کو ہدایت میں بدل دیا۔ محروموں کو محرومیت کے دلدل سے نکال کر معاشرے کے دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے افراد کے برابر لے آیا۔ معاشرے کے افراد سے ظلم کی زنجیر کو اتار پھینک کر اس کی جگہ متلاشیان انصاف کو سستا انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھا۔ یار و اغیار سب بھائی بھائی بن گئے۔ ہر ایک کی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد اب ختم ہوکر ایک جامع نظام سب پر حاکم ہوگیا۔ محروم افراد کا احساس زیاں اب امیدوں میں بدلتا محسوس ہوا۔ نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کو اس عدالت پر مشتمل نظام سے شہ ملنے لگی۔ لوگوں کی ذہنی کوفت کی جگہ اب اطمینان و سکون آگیا۔ عرصہ دراز سے رسم و رواج کے نام پر ہونے والے بے بنیاد اور موہوم طور اطوار اور عجیب و غریب خدوخال پر خط بطلان کھینچ کر معاشرے کے ڈھانچے کو عقل و منطق کی بنیاد پر استوار کیا۔ ناموس کی پامال شدہ عزت کو از سرنو بحال کرکے انھیں معاشرے کا رکن اصیل قرار دیا۔ ان کے وجود کو زندہ درگور ہونے سے بچا کر ماں، بہن اور بیٹی کی عناوین سے مزین کیا۔ عرصہ دراز سے چلنے والی بے بنیاد خاندانی اور قبائلی دشمنیوں کو محبت و الفت کے رشتے سے منسلک کیا۔ بےجا تعصبات کے بادل کو ختم کرکے معاشرے کے تمام طبقوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بناکر ان کے تانے بانے کو جوڑ لیا۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے منظم اور قابل عمل اصول و ضوابط متعارف کرایا۔ اب آقا اور غلام ایک ہی صف میں ایک ہی رب کےسامنے سربسجود ہونے لگے۔ اب غلامی کا طوق اترنے گا اور آزادی کی لہریں ہر سو پھیلنے لگیں۔ اب لوگ معاشرے میں سدھار کی واضح نشانیاں مشاہدہ کرنے لگے۔ مختلف حزبوں سے لوگ جوق در جوق برضا و رغبت اسلام کی چار دیواری میں پناہ لیتے گئے۔ المختصر تھوڑے ہی عرصے میں یہ دین نصف جہاں میں پھیل گیا۔ یوں ایوان اقتدار پر قابض حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہونے لگا۔ وہ اپنی دانست و طاقت کے مطابق اسلام کے خلاف پینترے تشکیل کھیلتے رہے۔ جب انھیں ہر جہت سے شکست سے دوچار ہونا پڑا تو وہ ورطہ حیرت میں پڑ گئے کہ کس طرح اس دین مبین کا چہرہ مسخ کیا جائے۔ ہر شیطان صفت نے اپنی شیطانی دکھائی لیکن اسلامی بنیادیں معاشرے میں اتنے راسخ ہو چکی تھی کہ اب اس میں رخنہ ڈالنا ایک ناممکن سا عمل بن گیا تھا۔ اب انھوں نے اپنے تیور بدل لیے۔ انھوں نے یہ تدبیر سوچی کہ اسلام کی بنیادیں تو اب راسخ ہوچکی ہیں پس ہمیں چاہیئے کہ مسلمانوں کا چہرہ مسخ کرے۔ درنتیجہ اس کا بلواسطہ اثر اسلام ہی پر پڑے گا اور اس کی بنیادیں خودبخود متزلزل ہوجائیں گی۔
بنوامیہ کے بعد بنو عباس کی حکومت آئی اور ان کے زوال کے بعد آہستہ آہستہ خلافت عثمانی کے نام سے ایک بہت وسیع و عریض اسلامی حکومت تشکیل پائی۔ یہ حکومت تیرھویں اور چودھویں قرن میں آتاتوئی میں تشکیل پائی۔ آہستہ آہستہ اس میں وسعت آتی گئی۔ اس حکومت کے حدود میں آتاتوئی، شام، فلسطین، عراق، ارمنستان۔ افریقہ میں سے مصر، لیبیا۔ یورپ میں بلغارستان اور یونان ۔ ایشیا میں صربستان، آلبانیا، بوسنیا اور رومانیا شامل تھی۔ اس کی وسعتیں یورپ میں "ویانا" تک پہنچ گئی تھی۔ اس وقت یہ حکومت فوجی طاقت، سیاسی اور معاشی تینوں حوالوں سے یورپ کی سب سے بہترین حکومت قرار دی جاتی تھی۔ یورپین کے نزدیک اس حکومت کے دور اقتدار میں اسلامی تمدن نے پورے یورپ میں اپنی تجلی دکھا دی۔ آخر کار مختلف اسباب و وجوہات کی بناپر 1922ء کو یہ خلافت دنیا کے نقشے سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔﴿۱﴾ اب دشمنوں نے اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک منظم کوشش شروع کی۔ ادھر اسلامی خلافت کا خاتمہ کردیا اور خلیفہ اسلامی کے منصب پر اب "اتاترک" جیسے سیکولر شخص کو برسراقتدار لایا۔ اس نے یورپین سیکولر گروہوں کے برخلاف جو دینی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے مدعی ہیں، سیکولر یزم کا ایک خطرناک چہرہ پیش کیا۔ اس نے اسلامی مظاہر و اقدار کے خلاف سخت اقدامات اٹھانا شروع کرکے آخرکار مسلمانوں کو اس حوالے سے بند گلی میں محبوس کردیا۔ اس نے اپنے نظریات کی پرچار کے لیے ایک مضبوط فوج تشکیل دی جو دینی معاملات میں سخت انداز سے نمٹتی تھی۔ اتاترک کے مرنے کے بعد بھی اس کی سیکولر فوج اتنی مضبوط ہوچکی تھی کہ وہ سیکولرازم کے خلاف ہر تحریک کو سرکوب کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔ درنتیجہ سیکولرازم کے خلاف اٹھنے والی کوئی بھی تحریک علم بغاوت بلند کرنے میں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوپائی۔ ﴿۲﴾
دوسری طرف سے استعماری طاقتوں نے اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کے لیے ایک اور خطرناک چال چلی۔ جس کے تحت انھوں نے اٹھارھویں قرن میں محمد بن عبدالوہاب اور عبدالعزیز بن عبد الرحمٰن کی ملی بھگت سے ایک اور گروہ "وہابی" تشکیل دیا۔ 1744ء میں شیخ محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود کے درمیان ایک معاہدہ ہواجس کے تحت محمد بن عبدالوہاب نے محمد بن سعود کی حکومت کی توسیع اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا تو دوسری طرف سے محمد بن سعود نے وہابی مکتب کو اپنا سرکاری مذہب قرار دینے اور اس کی ترویج کرنے کا عہد کیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ہر سعودی حکومت نے اس پر مہر تائید ثبت کی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ ﴿۳﴾
اب دشمن مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک طرف سیکولاریزم کے تابع مسلمان تو دوسری طرف تنگ نظر مسلمان۔ اب ان دونوں کو مسلمانوں کا نمائندہ قرار دیا گیا۔ یعنی یا ترکی اسلام قبول کرے یا سعودی اسلام۔ ان میں سے جس کی بھی پیروی کی جائے دونوں صورتوں میں نتیجہ اسلامی افکار و نظریات و اقدار کا خاتمہ اور مغربی افکار کی ترویج ہے۔ سعودی تنگ نظر فکر جس کے تحت ان کے علاوہ باقی تمام اسلامی فرقے شرک و گمراہی میں مبتلا ہیں، کو دنیائے اسلام کے مختلف ممالک میں متعارف کرانے کے لیے حکومت سے ہمآہنگی کرکے افغانستان میں طالبان کو وجود میں لایا۔ آخر کار حکومت بھی ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ اسلام کے نام پر انھوں نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے سر قلم کر دیے۔ بعد ازاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یکے بعد دیگرے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا۔ بہت سارے ان کے ہتھے چڑھ گئے لیکن انھوں نے دیکھا کہ اس طرح سے تو ہمارا بھی جانی و مالی نقصان ہورہا ہے لہذٰا اس سے بھی ایک آسان راستہ" جنگ نیابتی"ہے تاکہ مرے بھی مسلمان، مارے بھی مسلمان اور مال بھی مسلمانوں کا ضائع جائے۔ ساتھ ہی عرصہ دراز سے بنے ہوئے اپنے بوسیدہ اسلحوں کے فروخت کے لیے مارکیٹ بھی فراہم ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے مسلمانوں کا ایک منفور چہرہ پیش جائے اور اسرائیل کے لیے مزید وسعت پیدا کرنے اور اس کےلیے میدان صاف کرنے کا اہتمام ہو نیز رفتہ رفتہ اسلام کی جامعیت کو دیکھ کریورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا سے بڑی تعداد میں اسلام کی طرف لوگوں کی آمد کا سلسلہ قطع ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ماضی قریب میں پھر وہابی فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک اور جنگجو گروہ تیار کیا جو "داعش " سے موسوم ہے۔ اس گروہ نے عراق، شام، یمن اور بعض دوسرے اسلامی ممالک میں اسلام کا مقدس نام اورجہاد کی پاکیزہ تعبیر استعمال کرکے اپنے ہی مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائیں اور اب بھی یہ سلسلہ بڑے شد و مد سے جاری ہے۔ علاوہ ازیں بعض دوسرے اسلامی ممالک کی طرف پرواز کرنے کے لیے وہ ابھی سے پر تول رہے ہیں۔ اب بھی اگر مسلمان ہوش کے ناخن نہ لیں تو بعید نہیں کہ وہ آسانی سے اکثر اسلامی ممالک کو اپنے قبضے میں لے لیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلمان اپنے انفرادی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پورے عالم اسلام اور تمام مسلمانوں کی سرخروئی کے لیے مل بیٹھ کر ایک جامع حکمت عملی اپنائے اور دشمن کے ناپاک خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے نہ دیں تاکہ دنیا والے حقیقی اسلام کی روح تک رسائی پاکر اس کے دامن میں پناہ لیتے جائیں اور مسلمان بھی ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن کر مشترکہ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارثابت ہو۔ اللہ تعالی ہم سب کومتحد ہونے کی توفیق دے آمین!
منابع:
۱: mashegh news.ir
۲: بین المللی خبر، ۱۳۹۴، سکولاریزم ستیزہ گر تا اسلام گرایی معتدل
۳: خبرگزاری فارس، گروہ بین الملل، ۲۔۴۔۱۹۹۱ء
خبر کا کوڈ: 526391
 

حسینی

محفلین
حقیقی اسلام وہی ہے جو قرآن پاک اوراحادیث پاک میں آیا ہے۔۔۔
یہ اسلام امن کا دین ہے۔۔۔ سلامتی کا دین ہے۔۔۔
سب کی خیر اور بھلائی چاہتا ہے۔۔۔

اس کے مقابلے میں جھوٹا اور امریکائی اسلام لایا گیا۔۔۔ جس میں گردنیں کاٹتے ہوئے"اللہ اکبر" کی صدائیں بلند کی جاتی ہیں۔۔
تاکہ لوگ اس دین سے ہی متنفر ہوں۔۔
داعش ہو یا النصرہ یا کوئی اور دہشت گرد گروہ۔ ۔۔ ۔ یہ اسلام کے نقصان پہنچانے کے۔ ۔ بے گناہوں کا قتل عام کرنے کے۔۔ امریکہ اور اسرائیل کو خوش کرنے کے۔۔۔
کوئی اور کام نہیں کر رہے۔۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
بنوامیہ کے بعد بنو عباس کی حکومت آئی اور ان کے زوال کے بعد آہستہ آہستہ خلافت عثمانی کے نام سے ایک بہت وسیع و عریض اسلامی حکومت تشکیل پائی۔ یہ حکومت تیرھویں اور چودھویں قرن میں آتاتوئی میں تشکیل پائی۔ آہستہ آہستہ اس میں وسعت آتی گئی۔ اس حکومت کے حدود میں آتاتوئی، شام، فلسطین، عراق، ارمنستان۔ افریقہ میں سے مصر، لیبیا۔ یورپ میں بلغارستان اور یونان ۔ ایشیا میں صربستان، آلبانیا، بوسنیا اور رومانیا شامل تھی۔ اس کی وسعتیں یورپ میں "ویانا" تک پہنچ گئی تھی۔ اس وقت یہ حکومت فوجی طاقت، سیاسی اور معاشی تینوں حوالوں سے یورپ کی سب سے بہترین حکومت قرار دی جاتی تھی۔
مسلمان طاقتوں نے یہ جب یہ کام کیا ہے تو اب موجودہ طاقتوں کے اقدام پر واویلا کیوں ۔۔۔۔ ؟
 
Top