قیصرانی
لائبریرین
امید کا رشتہ...سویرے سویرے…نذیر ناجی
ایسے مخالفین بہت کم ملتے ہیں‘ جو صدر زرداری کو ملے۔ وہ پہاڑوں جیسے اٹل ارادوں کے ساتھ ان کے خلاف افواہوں اور جھوٹ کے بڑے بڑے غباروں میں ہوا بھرتے ہیں۔ کبھی وہ غبارے پھٹ جاتے ہیں۔ کبھی ہوا نکلنے پر ٹھس ہو کے مٹی میں مل جاتے ہیں۔ لیکن کیا مجال ہے کہ مخالفین ان کی طرف دیکھتے ہوں۔ وہ اسی امیدمیں رہتے ہیں کہ ان کے غباروں کا کچھ نہیں بگڑا اور نئے نئے غبارے بھرتے اور چھوڑتے ہوئے اپنے اس یقین پر قائم رہتے ہیں کہ ان کے پھٹتے اور ٹھس ہوتے ہوئے غبارے صدر زرداری پر زبردست ضربیں لگا رہے ہیں۔ وہ اپنی خوش فہمیوں میں رہتے ہوئے مسلسل خبرنامے جاری کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ فوج صدر زرداری کے خلاف ہے۔ کبھی اطلاع آتی ہے کہ امریکہ ان کے خلاف ہو گیا ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے پارٹی کے لیڈر ان سے ناراض ہیں۔ کبھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان تعلقات کی خرابی کے افسانے تراشے جاتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ عدلیہ کے ہاتھوں گھر جانے والے ہیں اور کبھی اس پر یقین کر لیا جاتا ہے کہ ان کے پھٹتے اور ٹھس ہوتے ہوئے غباروں کی وجہ سے صدر زرداری کا ایوان صدر سے نکلنا یقینی ہو چکا ہے اور بحث صرف یہ رہ جاتی ہے کہ وہ ایوان صدر سے باہر کیسے جائیں گے؟ اپنے پیروں پہ چل کر نکلیں گے؟ ہیلی کاپٹر میں جائیں گے؟ یا انہیں ایمبولینس میں لے جایا جائے گا؟ کہا جاتا ہے کہ ایسی خودفریبیاں حقائق سے ٹکرا کر جلد ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ مگر صدر زرداری کے مخالفین کے حوصلے اور ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہیں باربار مایوسی کے تھپیڑے لگتے ہیں۔ ان کے خواب بار بار ٹوٹتے ہیں۔ انہیں بار بارمنہ کی کھانا پڑتی ہے۔ ان کی پیش گوئیاں مسلسل غلط ثابت ہوتی ہیں لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی۔صدر زرداری بھی ان سے اچھا سلوک نہیں کر رہے۔ چار سال ہونے کو آئے ہیں‘ وہ انہیں مایوس کرنے سے باز نہیں آتے۔
پچھلے چند ہفتوں سے تو مخالفین کو یوں لگ رہا تھا کہ بس اب لب بام دو چار ہاتھ رہ گیا ہے۔ صدر کو اچانک بیماری کا جھٹکا لگا۔ وہ علاج کے لئے دوبئی چلے گئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے پارٹی کے چیئرمین ‘اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو یہ کہہ کر پاکستان میں چھوڑاکہ وہ اپنی موجودگی کے ذریعے مخالفین کو بتائیں کہ ہم بھاگنے والے نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ثابت قدم مخالفین نے اپنی امیدوں کو بلندی کی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ خود فریبی کے ایسے ایسے محلات تعمیر کر لئے جن کے اندر حقائق اور سچائی کی ایک کرن بھی داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو یقین دلا کر بیٹھ گئے کہ صدر زرداری بیمار نہیں ہوئے بلکہ انہیں نکالا گیا ہے۔ کسی نے کہا نکالا نہیں گیا وہ خود ہی میموسکینڈل کے نتائج سے ڈر کے نکل گئے ہیں۔ ایک سیاستدان نے ٹیلیویژن پر اعلان کر دیا کہ 72گھنٹے کے اندر اندر کچھ ہونے والا ہے۔ وہ 72 گھنٹے کوئی چھ سات مرتبہ گزر چکے ہیں۔ دعویٰ کرنے والے سیاستدان نے کسی قسم کی ندامت یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ ایک اور سیاستدان نے پوری ڈھٹائی سے اعلان کیا کہ زرداری دوبئی سے سیدھے لندن چلے جائیں گے۔ تین چار روز بعد ان سے کہا گیا کہ زرداری صاحب تو لندن نہیں گئے۔ انہوں نے پورے اعتماد سے جواب دیا کہ وہ لندن پہنچ گئے ہیں۔ صدر میں ہر وہ بیماری ڈھونڈ نکالی گئی‘ جو ان کی خواہشوں کی تکمیل کر سکتی تھی۔ فالج‘ لقوہ‘ دل کا دورہ‘ خون کا دباؤ‘ ذہنی دباؤ‘ دماغی سٹروک‘ غرض کونسی بیماری ہے جس کا نام لے کر انہوں نے اپنے دلوں کو تسلیاں نہیں دیں۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے جا کر دور کی کوڑیاں لے آئے کہ صدر زرداری بولنے میں دقت محسوس کرنے لگے ہیں اور ان کی سپیچ تھراپی ہو رہی ہے۔ یاد رہے اس قسم کی مشکل پڑ جائے تو سپیچ تھراپی میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ لیکن صدر زرداری نے تو آتے ہی میٹنگیں بلانا شروع کر دیں اور بی بی شہید کی برسی پر روایتی تقریر بھی کر آئے۔ وہ اسی طرح فرفر بول رہے تھے‘ جس طرح بولنے کے عادی ہیں۔ وہ تمام ٹیلیویژن چینلوں پر اور لاکھوں کے اجتماع میں سینہ تان کر کھڑے مسلسل تقریر کر رہے تھے اور ان کے اندر بیماریاں ڈھونڈنے والے شرم سے زمین میں گڑنے کے بجائے جوں کے توں اپنی اپنی جگہ قائم تھے۔ صدر کے مخالفین اپنی ڈھٹائی سے باز نہیں آتے‘ تو صدر بھی ان کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔ وہ انہیں مسلسل جھوٹا‘ دروغ گو‘ فریب کار اور چکمے باز ثابت کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی‘ ان کے جھوٹ اور غلط پیش گوئیاں ہی بطور سزا‘ ان کے لئے کافی ہیں۔
صدر زرداری کیا؟ پیپلزپارٹی جب سے معرض وجود میں آئی ہے‘ اپنے مخالفین کے ساتھ اسی طرح کا ”بے رحمانہ“ سلوک کرتی آ رہی ہے‘ جو چند سال سے صدر زرداری کر رہے ہیں۔ ہر الیکشن کے چند مہینے بعد‘ مخالفین یہ آس لگا کے بیٹھ جاتے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی کی مقبولیت ختم ہو گئی اور آنے والے الیکشن میں اس کا بوریا بستر لپیٹا جا سکتا ہے۔ بھٹو صاحب کو اقتدار میں آئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ کچھ جنرلوں اور بریگیڈیئروں نے سوچ لیا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ان کی سازشیں پکڑی گئیں۔ اس کے بعد اپوزیشن نے سوچ لیا کہ اب بھٹو صاحب کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے اور انہیں الیکشن میں جلد از جلد اتار کے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ بھٹو صاحب نے قبل ازوقت الیکشن کا اعلان کر دیا۔ مخالفین نے فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے یہ تاثر پیدا کر دیا کہ پیپلزپارٹی ختم ہو گئی۔ لیکن جب انتخابی مہم شروع ہوئی‘ تو جیالے سیلاب کی طرح گلیوں اور سڑکوں پر امڈ آئے اور بھٹو صاحب دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو گئے۔ جس پر مخالفین نے دھاندلی کا شور مچایا اور آخر کار فوج کی مدد سے انہیں اقتدار سے باہر کر کے پھانسی لگوائی۔ آمر ضیاالحق نے پیپلزپارٹی والوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر کے سوچ لیا کہ اب اس پارٹی کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔ جب ضیاالحق اپنی اسمبلیاں بنا کر یقین کر بیٹھے کہ ان کا اقتدار مستحکم ہو گیا ہے‘ تو محترمہ بے نظیر شہید واپس آ گئیں اور جنرل صاحب جس کاغذ کی کشتی میں بیٹھ کر اپنے آپ کو مستحکم سمجھ رہے تھے‘ وہ پرزہ پرزہ ہونے لگی اور آخر میں وہ خود بھی پرزہ پرزہ ہو گئے۔ ان کے جانشین جنرلوں کو پریشانی ہوئی کہ پیپلزپارٹی پھر نہ آ جائے۔ چنانچہ انہوں نے اربوں روپے خرچ کر کے سیاسی جماعتوں کا ایک متحدہ محاذ بنایا اور اسے الیکشن میں کامیاب کرانے کے لئے دھاندلی کی انتہا کر دی۔ پیپلزپارٹی کو فیصلہ کن اکثریت تو حاصل نہ کرنے دی لیکن اسے حکومت بنانے سے بھی نہ روک پائے۔ تین سال پورے ہونے سے پہلے اس حکومت کو ختم کیا۔ اگلے انتخابات میں جھرلو پھیر کے ہرا دیا اور تیسرے انتخابات میں جھرلو ناکام رہا اور پیپلزپارٹی پھر آ گئی۔ پرویزمشرف نے اپنی آمریت میں یہ سمجھ کے الیکشن کرایا کہ بی بی کو جلاوطن رکھ کرپیپلزپارٹی کو ہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ پھر جیت گئی۔ جس پر مشرف نے پیپلزپارٹی کے جیتے ہوئے اراکین کو لوٹے بنا کر حکومت قائم کی۔ 2008ء کے انتخابات میں مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی پھر سب سے زیادہ نشستیں لے کر جیت گئی اور چار سال سے کامیابی کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں چند بڑے جلسے دیکھ کر مخالفین کی آرزوئیں بیدار ہو گئیں اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اب پیپلزپارٹی کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے۔ صدر زرداری نے سندھ کے ایک دوردراز گاؤں میں جا کر کراچی اور لاہور سے بڑا جلسہ کر دکھایا ۔ ایک پوری نسل پیپلزپارٹی کی انتخابی ناکامی کے خواب دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہو چکی ہے۔ موجودہ نسل کا انجام بھی وہی ہو گا۔ پیپلزپارٹی غریبوں کی جماعت ہے۔ جونہ ہی اخبار پڑھتے ہیں نہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ان کا رشتہ اپنی قیادت سے محبت اور امید کا رشتہ ہے۔ اس رشتے کو طبقاتی طاقت نے سیسہ پلائی دیوار بنا رکھا ہے۔ جب تک غریبی ہے‘ تب تک پیپلزپارٹی ہے اور اگر کسی نے غریبی کو دور کیا‘ تو وہ بھی پیپلزپارٹی ہو گی۔زرداری صاحب تو شاید نہیں‘ بلاول‘ بختاور اور آصفہ اپنی زندگی میں اپنے نانا کا وہ خواب ضرور پورا کریں گے‘ جو انہوں نے پاکستان کے غریب عوام کی خوشحالی کے لئے دیکھا تھا۔
اصل لنک یہ رہا
یعنی یہ لوگ اپنے نانا اور دادا کی "ذاتی جاگیروں" کی دیکھ بھال کرتے رہیں اور ان کی رعایا یعنی غلام ابن غلام وہیں کے وہیں رہیں
ایسے مخالفین بہت کم ملتے ہیں‘ جو صدر زرداری کو ملے۔ وہ پہاڑوں جیسے اٹل ارادوں کے ساتھ ان کے خلاف افواہوں اور جھوٹ کے بڑے بڑے غباروں میں ہوا بھرتے ہیں۔ کبھی وہ غبارے پھٹ جاتے ہیں۔ کبھی ہوا نکلنے پر ٹھس ہو کے مٹی میں مل جاتے ہیں۔ لیکن کیا مجال ہے کہ مخالفین ان کی طرف دیکھتے ہوں۔ وہ اسی امیدمیں رہتے ہیں کہ ان کے غباروں کا کچھ نہیں بگڑا اور نئے نئے غبارے بھرتے اور چھوڑتے ہوئے اپنے اس یقین پر قائم رہتے ہیں کہ ان کے پھٹتے اور ٹھس ہوتے ہوئے غبارے صدر زرداری پر زبردست ضربیں لگا رہے ہیں۔ وہ اپنی خوش فہمیوں میں رہتے ہوئے مسلسل خبرنامے جاری کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ فوج صدر زرداری کے خلاف ہے۔ کبھی اطلاع آتی ہے کہ امریکہ ان کے خلاف ہو گیا ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے پارٹی کے لیڈر ان سے ناراض ہیں۔ کبھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان تعلقات کی خرابی کے افسانے تراشے جاتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ عدلیہ کے ہاتھوں گھر جانے والے ہیں اور کبھی اس پر یقین کر لیا جاتا ہے کہ ان کے پھٹتے اور ٹھس ہوتے ہوئے غباروں کی وجہ سے صدر زرداری کا ایوان صدر سے نکلنا یقینی ہو چکا ہے اور بحث صرف یہ رہ جاتی ہے کہ وہ ایوان صدر سے باہر کیسے جائیں گے؟ اپنے پیروں پہ چل کر نکلیں گے؟ ہیلی کاپٹر میں جائیں گے؟ یا انہیں ایمبولینس میں لے جایا جائے گا؟ کہا جاتا ہے کہ ایسی خودفریبیاں حقائق سے ٹکرا کر جلد ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ مگر صدر زرداری کے مخالفین کے حوصلے اور ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہیں باربار مایوسی کے تھپیڑے لگتے ہیں۔ ان کے خواب بار بار ٹوٹتے ہیں۔ انہیں بار بارمنہ کی کھانا پڑتی ہے۔ ان کی پیش گوئیاں مسلسل غلط ثابت ہوتی ہیں لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی۔صدر زرداری بھی ان سے اچھا سلوک نہیں کر رہے۔ چار سال ہونے کو آئے ہیں‘ وہ انہیں مایوس کرنے سے باز نہیں آتے۔
پچھلے چند ہفتوں سے تو مخالفین کو یوں لگ رہا تھا کہ بس اب لب بام دو چار ہاتھ رہ گیا ہے۔ صدر کو اچانک بیماری کا جھٹکا لگا۔ وہ علاج کے لئے دوبئی چلے گئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے پارٹی کے چیئرمین ‘اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو یہ کہہ کر پاکستان میں چھوڑاکہ وہ اپنی موجودگی کے ذریعے مخالفین کو بتائیں کہ ہم بھاگنے والے نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ثابت قدم مخالفین نے اپنی امیدوں کو بلندی کی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ خود فریبی کے ایسے ایسے محلات تعمیر کر لئے جن کے اندر حقائق اور سچائی کی ایک کرن بھی داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو یقین دلا کر بیٹھ گئے کہ صدر زرداری بیمار نہیں ہوئے بلکہ انہیں نکالا گیا ہے۔ کسی نے کہا نکالا نہیں گیا وہ خود ہی میموسکینڈل کے نتائج سے ڈر کے نکل گئے ہیں۔ ایک سیاستدان نے ٹیلیویژن پر اعلان کر دیا کہ 72گھنٹے کے اندر اندر کچھ ہونے والا ہے۔ وہ 72 گھنٹے کوئی چھ سات مرتبہ گزر چکے ہیں۔ دعویٰ کرنے والے سیاستدان نے کسی قسم کی ندامت یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ ایک اور سیاستدان نے پوری ڈھٹائی سے اعلان کیا کہ زرداری دوبئی سے سیدھے لندن چلے جائیں گے۔ تین چار روز بعد ان سے کہا گیا کہ زرداری صاحب تو لندن نہیں گئے۔ انہوں نے پورے اعتماد سے جواب دیا کہ وہ لندن پہنچ گئے ہیں۔ صدر میں ہر وہ بیماری ڈھونڈ نکالی گئی‘ جو ان کی خواہشوں کی تکمیل کر سکتی تھی۔ فالج‘ لقوہ‘ دل کا دورہ‘ خون کا دباؤ‘ ذہنی دباؤ‘ دماغی سٹروک‘ غرض کونسی بیماری ہے جس کا نام لے کر انہوں نے اپنے دلوں کو تسلیاں نہیں دیں۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے جا کر دور کی کوڑیاں لے آئے کہ صدر زرداری بولنے میں دقت محسوس کرنے لگے ہیں اور ان کی سپیچ تھراپی ہو رہی ہے۔ یاد رہے اس قسم کی مشکل پڑ جائے تو سپیچ تھراپی میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ لیکن صدر زرداری نے تو آتے ہی میٹنگیں بلانا شروع کر دیں اور بی بی شہید کی برسی پر روایتی تقریر بھی کر آئے۔ وہ اسی طرح فرفر بول رہے تھے‘ جس طرح بولنے کے عادی ہیں۔ وہ تمام ٹیلیویژن چینلوں پر اور لاکھوں کے اجتماع میں سینہ تان کر کھڑے مسلسل تقریر کر رہے تھے اور ان کے اندر بیماریاں ڈھونڈنے والے شرم سے زمین میں گڑنے کے بجائے جوں کے توں اپنی اپنی جگہ قائم تھے۔ صدر کے مخالفین اپنی ڈھٹائی سے باز نہیں آتے‘ تو صدر بھی ان کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔ وہ انہیں مسلسل جھوٹا‘ دروغ گو‘ فریب کار اور چکمے باز ثابت کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی‘ ان کے جھوٹ اور غلط پیش گوئیاں ہی بطور سزا‘ ان کے لئے کافی ہیں۔
صدر زرداری کیا؟ پیپلزپارٹی جب سے معرض وجود میں آئی ہے‘ اپنے مخالفین کے ساتھ اسی طرح کا ”بے رحمانہ“ سلوک کرتی آ رہی ہے‘ جو چند سال سے صدر زرداری کر رہے ہیں۔ ہر الیکشن کے چند مہینے بعد‘ مخالفین یہ آس لگا کے بیٹھ جاتے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی کی مقبولیت ختم ہو گئی اور آنے والے الیکشن میں اس کا بوریا بستر لپیٹا جا سکتا ہے۔ بھٹو صاحب کو اقتدار میں آئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ کچھ جنرلوں اور بریگیڈیئروں نے سوچ لیا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ان کی سازشیں پکڑی گئیں۔ اس کے بعد اپوزیشن نے سوچ لیا کہ اب بھٹو صاحب کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے اور انہیں الیکشن میں جلد از جلد اتار کے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ بھٹو صاحب نے قبل ازوقت الیکشن کا اعلان کر دیا۔ مخالفین نے فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے یہ تاثر پیدا کر دیا کہ پیپلزپارٹی ختم ہو گئی۔ لیکن جب انتخابی مہم شروع ہوئی‘ تو جیالے سیلاب کی طرح گلیوں اور سڑکوں پر امڈ آئے اور بھٹو صاحب دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو گئے۔ جس پر مخالفین نے دھاندلی کا شور مچایا اور آخر کار فوج کی مدد سے انہیں اقتدار سے باہر کر کے پھانسی لگوائی۔ آمر ضیاالحق نے پیپلزپارٹی والوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر کے سوچ لیا کہ اب اس پارٹی کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔ جب ضیاالحق اپنی اسمبلیاں بنا کر یقین کر بیٹھے کہ ان کا اقتدار مستحکم ہو گیا ہے‘ تو محترمہ بے نظیر شہید واپس آ گئیں اور جنرل صاحب جس کاغذ کی کشتی میں بیٹھ کر اپنے آپ کو مستحکم سمجھ رہے تھے‘ وہ پرزہ پرزہ ہونے لگی اور آخر میں وہ خود بھی پرزہ پرزہ ہو گئے۔ ان کے جانشین جنرلوں کو پریشانی ہوئی کہ پیپلزپارٹی پھر نہ آ جائے۔ چنانچہ انہوں نے اربوں روپے خرچ کر کے سیاسی جماعتوں کا ایک متحدہ محاذ بنایا اور اسے الیکشن میں کامیاب کرانے کے لئے دھاندلی کی انتہا کر دی۔ پیپلزپارٹی کو فیصلہ کن اکثریت تو حاصل نہ کرنے دی لیکن اسے حکومت بنانے سے بھی نہ روک پائے۔ تین سال پورے ہونے سے پہلے اس حکومت کو ختم کیا۔ اگلے انتخابات میں جھرلو پھیر کے ہرا دیا اور تیسرے انتخابات میں جھرلو ناکام رہا اور پیپلزپارٹی پھر آ گئی۔ پرویزمشرف نے اپنی آمریت میں یہ سمجھ کے الیکشن کرایا کہ بی بی کو جلاوطن رکھ کرپیپلزپارٹی کو ہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ پھر جیت گئی۔ جس پر مشرف نے پیپلزپارٹی کے جیتے ہوئے اراکین کو لوٹے بنا کر حکومت قائم کی۔ 2008ء کے انتخابات میں مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی پھر سب سے زیادہ نشستیں لے کر جیت گئی اور چار سال سے کامیابی کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں چند بڑے جلسے دیکھ کر مخالفین کی آرزوئیں بیدار ہو گئیں اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اب پیپلزپارٹی کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے۔ صدر زرداری نے سندھ کے ایک دوردراز گاؤں میں جا کر کراچی اور لاہور سے بڑا جلسہ کر دکھایا ۔ ایک پوری نسل پیپلزپارٹی کی انتخابی ناکامی کے خواب دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہو چکی ہے۔ موجودہ نسل کا انجام بھی وہی ہو گا۔ پیپلزپارٹی غریبوں کی جماعت ہے۔ جونہ ہی اخبار پڑھتے ہیں نہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ان کا رشتہ اپنی قیادت سے محبت اور امید کا رشتہ ہے۔ اس رشتے کو طبقاتی طاقت نے سیسہ پلائی دیوار بنا رکھا ہے۔ جب تک غریبی ہے‘ تب تک پیپلزپارٹی ہے اور اگر کسی نے غریبی کو دور کیا‘ تو وہ بھی پیپلزپارٹی ہو گی۔زرداری صاحب تو شاید نہیں‘ بلاول‘ بختاور اور آصفہ اپنی زندگی میں اپنے نانا کا وہ خواب ضرور پورا کریں گے‘ جو انہوں نے پاکستان کے غریب عوام کی خوشحالی کے لئے دیکھا تھا۔
اصل لنک یہ رہا
یعنی یہ لوگ اپنے نانا اور دادا کی "ذاتی جاگیروں" کی دیکھ بھال کرتے رہیں اور ان کی رعایا یعنی غلام ابن غلام وہیں کے وہیں رہیں