ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
حمد ہے بے حد۔۔۔۔۔۔
حمد ہے بے حد مرے پروردگار
ہے تو ہی معبود تو ہی کردگار
حمد ہے خالق ، خداے کارساز
تیری بخشش زندگیِ ذی وقار
تجھ سے قائم ہیں جہاںکے کا روبار
ذرّے ذرّے پر ہے تیرا اختیار
نور تیرا ہر جگہ موجود ہے
تیرا جلوہ ہر طرف ہے آشکار
رنگ و نکہت پھول کو دیتا ہے تو
بھیجتا ہے گلستانوں میں بہار
ہیں تری تخلیق یہ شمس و قمر
جن و انس و مرغزار و کوہ سار
ذرّے ذرّے کا تُو ہی مسجود ہے
ہے تُو ہی معبود اے پروردگار
ہے زمانہ تیرا اور اس کا نظام
تیرے تابع گردشِ لیل ونہار
کلمۂ توحید ہے وجہِ سکوں
ہے تری وحدانیت وجہِ قرار
تیری ستّاری کا یارب واسطہ
ہم سرِبازار ہوجائیں نہ خوار
ہوگیا تیرا جو اُن کا ہو گیا
ہے رسولِ پاک سے تجھ کو وہ پیار
ذکر سے تیرے ملے تسکینِ دل
ذکر کا بھر دے مرے دل میں خمار
اپنی الفت میں مجھے بے خود بنا
خود کو بھی پاوں نہ میں پروردگار
الفتِ شاہِ دو عالم کر عطا
عشقِ احمد میں رہوں میں بے قرا ر
مجھ سے عاصی کو بھروسہ تجھ پہ ہے
ہے ترے عَفو و کرم پر انحصار
حد نہیں میرے گناہوں کی مگر
اے عَفُو تیرے عَفو کا کیا شمار
ہیں ترے محبوب کی امُت میں ہم
ان کے صدقے بخش دے پروردگار
روزِ محشر کا تُو ہی مختار ہے
جس کو چاہے بخش دے پروردگار
واسطہ یارب ترے محبوب کا
جو رہے امت کی خاطر اشک بار
واسطہ صدّیق کا ، فاروق کا
ہم بھی صدق وعدل کرلیں اختیار
دیدے عثمان و علی کا واسطہ
ہو سخاوت اور شجاعت ہی شعار
از طفیلِ امّہات المؤمنین
دین کی حرمت پہ ہو جائیں نثار
از طفیلِ فاطمہ بنتِ نبی
الفتِ احمد ہو ہستی کا مدار
واسطہ حسنین کا ، اصحاب کا
حق کی خاطر ہوں بسر لیل و نہار
طیبّ و طاہر کے،قاسم کے طفیل
ہم کو دنیا میں بنا با اعتبار
صدقہ ابراہیم کا بھی ہو عطا
ہم کو تیری ہی رضا سے ہو قرار
غوث و خواجہ کا رضا کا واسطہ
الفتِ احمد کا ہو گردن میں ہا ر
شاہِ برکت اور حمزہ کے طفیل
کردے مولا مجھ سے بد کو نیکو کار
رحم کر اچھے میاں کے واسطے
نیک بن جاے ہر اک غفلت شعار
اچھے پیارے شمسِ دیں کے واسطے
دین پر ہوں ہم فدا پروانہ وار
میرے آقا حضرتِ نوری میاں
دے شب و روز ان کا صدقہ بار بار
حامد و نوری وجیلانی سے بھی
فیض حاصل ہوں خدایا صد ہزار
مسلکِ احمد رضا کا یاخدا
ہم مریدوں کو بنا خدمت گذار
اہلِ سنت کے سروں پر دائماً
سایۂ اختر رہے پروردگار
مصطفیٰ پیارے کا صدقہ دو جہاں
ہیں وہی وجہِ بِناے روزگار
پاک قرآں ہے ہدایت کی کتاب
آتا ہے ذکرِ محمد باربار
راہ اپنی چھوڑ کر سورج پھرے
وہ جو چاہیں لیل ہوجاے نہار
اک اشارے سے قمر ہوجائے شق
ہوں شبِ اسرا حدِ امکاں سے پار
پیڑ بولیں جانور سجدہ کریں
ایسے ایسے معجزے ہیں بے شمار
عظمتِ احمد میں جس کو ہے شبہ‘‘
اس کا انسانوں میں کیا کرنا شمار
’’بیٹھتے اُٹھتے مدد کے واسطے‘‘
اے مُشاہدؔ رب کے پیاروں کو پکار
میرے مُرشد حضرتِ اختر رضا
ہیں جہاں میں اک ہدایت کا مَنار
نظمی آقا کا کرم فیضِ رضا
نعت لکھواتا ہے مجھ سے باربار
اے مُشاہدؔ حمد و نعت و منقبت
روح کی تسکیٖن ہیں دل کا قرار
٭
ہے تو ہی معبود تو ہی کردگار
حمد ہے خالق ، خداے کارساز
تیری بخشش زندگیِ ذی وقار
تجھ سے قائم ہیں جہاںکے کا روبار
ذرّے ذرّے پر ہے تیرا اختیار
نور تیرا ہر جگہ موجود ہے
تیرا جلوہ ہر طرف ہے آشکار
رنگ و نکہت پھول کو دیتا ہے تو
بھیجتا ہے گلستانوں میں بہار
ہیں تری تخلیق یہ شمس و قمر
جن و انس و مرغزار و کوہ سار
ذرّے ذرّے کا تُو ہی مسجود ہے
ہے تُو ہی معبود اے پروردگار
ہے زمانہ تیرا اور اس کا نظام
تیرے تابع گردشِ لیل ونہار
کلمۂ توحید ہے وجہِ سکوں
ہے تری وحدانیت وجہِ قرار
تیری ستّاری کا یارب واسطہ
ہم سرِبازار ہوجائیں نہ خوار
ہوگیا تیرا جو اُن کا ہو گیا
ہے رسولِ پاک سے تجھ کو وہ پیار
ذکر سے تیرے ملے تسکینِ دل
ذکر کا بھر دے مرے دل میں خمار
اپنی الفت میں مجھے بے خود بنا
خود کو بھی پاوں نہ میں پروردگار
الفتِ شاہِ دو عالم کر عطا
عشقِ احمد میں رہوں میں بے قرا ر
مجھ سے عاصی کو بھروسہ تجھ پہ ہے
ہے ترے عَفو و کرم پر انحصار
حد نہیں میرے گناہوں کی مگر
اے عَفُو تیرے عَفو کا کیا شمار
ہیں ترے محبوب کی امُت میں ہم
ان کے صدقے بخش دے پروردگار
روزِ محشر کا تُو ہی مختار ہے
جس کو چاہے بخش دے پروردگار
واسطہ یارب ترے محبوب کا
جو رہے امت کی خاطر اشک بار
واسطہ صدّیق کا ، فاروق کا
ہم بھی صدق وعدل کرلیں اختیار
دیدے عثمان و علی کا واسطہ
ہو سخاوت اور شجاعت ہی شعار
از طفیلِ امّہات المؤمنین
دین کی حرمت پہ ہو جائیں نثار
از طفیلِ فاطمہ بنتِ نبی
الفتِ احمد ہو ہستی کا مدار
واسطہ حسنین کا ، اصحاب کا
حق کی خاطر ہوں بسر لیل و نہار
طیبّ و طاہر کے،قاسم کے طفیل
ہم کو دنیا میں بنا با اعتبار
صدقہ ابراہیم کا بھی ہو عطا
ہم کو تیری ہی رضا سے ہو قرار
غوث و خواجہ کا رضا کا واسطہ
الفتِ احمد کا ہو گردن میں ہا ر
شاہِ برکت اور حمزہ کے طفیل
کردے مولا مجھ سے بد کو نیکو کار
رحم کر اچھے میاں کے واسطے
نیک بن جاے ہر اک غفلت شعار
اچھے پیارے شمسِ دیں کے واسطے
دین پر ہوں ہم فدا پروانہ وار
میرے آقا حضرتِ نوری میاں
دے شب و روز ان کا صدقہ بار بار
حامد و نوری وجیلانی سے بھی
فیض حاصل ہوں خدایا صد ہزار
مسلکِ احمد رضا کا یاخدا
ہم مریدوں کو بنا خدمت گذار
اہلِ سنت کے سروں پر دائماً
سایۂ اختر رہے پروردگار
مصطفیٰ پیارے کا صدقہ دو جہاں
ہیں وہی وجہِ بِناے روزگار
پاک قرآں ہے ہدایت کی کتاب
آتا ہے ذکرِ محمد باربار
راہ اپنی چھوڑ کر سورج پھرے
وہ جو چاہیں لیل ہوجاے نہار
اک اشارے سے قمر ہوجائے شق
ہوں شبِ اسرا حدِ امکاں سے پار
پیڑ بولیں جانور سجدہ کریں
ایسے ایسے معجزے ہیں بے شمار
عظمتِ احمد میں جس کو ہے شبہ‘‘
اس کا انسانوں میں کیا کرنا شمار
’’بیٹھتے اُٹھتے مدد کے واسطے‘‘
اے مُشاہدؔ رب کے پیاروں کو پکار
میرے مُرشد حضرتِ اختر رضا
ہیں جہاں میں اک ہدایت کا مَنار
نظمی آقا کا کرم فیضِ رضا
نعت لکھواتا ہے مجھ سے باربار
اے مُشاہدؔ حمد و نعت و منقبت
روح کی تسکیٖن ہیں دل کا قرار
٭