حمد ٭ استاد امام بخش ناسخ

لکھوں پہلے حمدِ علیِ عظیم
علیمٌ حکیمٌ رحیمٌ کریم

بدیع السمٰوات و الارض ہے
عبادت اسی کی فقط فرض ہے

وہی واجب و خالقِ ممکنات
کہا اس نے کُن، ہو گئی کائنات

نہیں کوئی موجود اس کے سوا
نہیں کوئی معبود اس کے سوا

اسی سے وجود اور اسی سے عدم
اسی سے حدوث اور اسی سے قدم

اسی کے ہیں وارفتہ یہ ماہ و مہر
اسی کے ہیں سرگشتہ ساتوں پہر

نہ وہ جسم ہے اور نہ وہ جان ہے
ہر اک جسم و جاں اِس میں حیران ہے

وہی شش جہت میں حضورِ نظر
نہ دیکھے اگر، ہے قصورِ نظر

ہر اک دل میں ہے درد اس کا مقیم
خلیل اس کا کہتا ہے اِنّی سقیم

سب اُس کے ہیں طالب، وہ مطلوب ہے
وہ غالب ہے، جو شے ہے مغلوب ہے

وہ خلاق ہے اور رزاق ہے
مبرا وہ ہے جفت سے، طاق ہے

خدائی میں بے مثل و ضد ہے وہی
وَلَم یُولِد اور لَم یُلِد ہے وہی

سنو آیہ اے اہلِ فقرِ مکب

وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب

وہ مستور ہے بینشِ وہم سے
بہت دور ہے دانشِ فہم سے

وہ دریا ہے موجیں ہیں ماو شما
مگر کوئی اُس سے نہیں آشنا

نہ وہ ہے مرکب نہ وہ ہے بسیط
مگر ہے عَلٰی کُلِّ شَیءٍ محیط

زیادہ رگِ جاں سے نزدیک ہے
فقط کید ہے، جن کو تشکیک ہے

یہ ہے ان کے حق میں کلامِ مبین

وَ أُمْلِی لَهُمْ إِنَّ كَیْدِی مَتِینٌ

نہیں اُس کی تحمید حدِ بشر
کہ اپنی بھی اس کو نہیں کچھ خبر

٭٭٭
استاد امام بخش ناسخؔ
 
Top