غزل قاضی
محفلین
حمد
ہم نے اُس قوّت ِ موہُوم کو دیکھا نہ سُنا
ہم نے اُس گوہر ِ نادیدہ کو پرکھا نہ چُنا
اِک سواری کہ شناسا نہ تھی ، گھر پر اُتری
اِک تجلّی تھی کہ تہذیب ِ نظر پر اُتری
جلوے دیکھے جو کبھی شامل ایماں بھی نہ تھے
اَور ہم اَیسے تن آساں تھے کہ حیراں بھی نہ تھے
دِل کے آغوش میں اک نُور ہُمکتا آیا
ایک لمحہ کئی صدیوں پہ چمکتا آیا
وہم و تشکِیک سے اِلہام شعاری نہ رُکی
شب سے شہزادہء خاور کی سواری نہ رُکی
پتّھروں کے صَدَف ِ تِیرہ سے ہِیرے اُبھرے
بےکراں مَوج سے بےنام جزیرے اُبھرے
آئتیں گُونج اُٹھیں حِکمت ِ گویا کے بغیر
مشعلیں جلنے لگِیں شُعلہء سِینہ کے بغیر
نکہت ِ بے بصرَاں دیدہ وری تک پہنچی
ضرب شیشے پہ لگی، شیشہ گری تک پہنچی
اجنبی شہر سے اِک بُوئے چمن ساز آئی
دم بخُود ، مُہر بہ لب ، وقت سے آواز آئی
" رات کا کرب بھی مَیں ، صُبح کا آرام بھی مَیں
حدّ و بےحد بھی مَیں ، بےنام بھی مَیں ، نام بھی مَیں
صحن ِ خاموش بھی مِیں ، حلقہء آواز بھی مَیں
دست ِ محمُود بھی مَیں ، آذر ِ بُت ساز بھی مَیں
سنگ و سنجاب بھی ہُوں ، شُعلہ بھی ہُوں ، خاک بھی ہُوں
مَیں تِرا وہم بھی ہُوں ، میَں تِرا ادراک بھی ہُوں
ساز کی گُونج بھی ہُوں ، تیغ کی جھنکار بھی ہُوں
مَیں کڑی دُھوپ بھی ہُوں ، سایہ ء دیوار بھی ہُوں
میرا ہی سوز ِ خموشی ہے ہر آہنگ کے ساتھ
میری ہی نرمی ء مسلک ہے رگ ِ سنگ کے ساتھ
میری رُوداد وُہی ہے جو جہاں پر گُزری
لا مکاں پر بھی وُہ گُزری جو مکاں پر گُزری
گردشیں تجھ سے ملیں تو مرے پاس آئیں بھی
مَیں تِرا جِسم بھی ہُوں ، مَیں تِری پرچھائیں بھی "
مصطفیٰ زیدی
قبائے سَاز