یعنی اس سارے بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کا کلام اتنا اہم تھا کہ اسے محفوظ کیا جائے اور نبی پاک ص کا کلام اتنا اہم نہیں تھا کہ اسے تحریر کیا جاتا، اس لئے اسے زبانی یاداشت پر چھوڑ دیا گیا؟
احادیث کی تعداد کے بارے بتائیے جس میں اہل سنت، اہل تشیع اور دیگر تمام فقہوں کا اجماع ہو، یعنی جس میں ایک حرف بھی فرق نہ ہو۔ پراپر فگر کی ضرورت نہیں، سو، دو سو، ہزار یا دو ہزار بھی کہہ سکتے ہیں
آپ کے ان دونوں سوالات کی وضاحت میری پہلی شراکت میں ہی موجود ہے ۔ البتہ کچھ مزید توضیح برداشت کیجیے
دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا نام ہے ۔ اللہ کلام اکثر قرآن مجید کے اندر موجود ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر کلام قرآن مجید میں موجود نہیں ۔ اب جو چیزیں دین ہیں لیکن قرآن مجید کے اندر براہ راست موجود نہیں ان کا نام ’’ حدیث ‘‘ ہے ۔ چونکہ اللہ نے دین کے اتمام اور حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اس لیے دونوں چیزیں تاقیامت محفوظ رہیں گی ۔ اب محفوظ رکھنے کا طریقہ کیا ہے یہ اللہ کی مرضی ہے جس طرح اللہ چاہے گا ان کو محفوظ رکھے گا ۔
اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں فرق ہے ایک خالق کا کلام ہے دوسرا مخلوق کا کلام ہے ۔ خالق کی کلام کی حفاظت کا جو طریقہ اللہ نے مناسب سمجھا اس کے لیے اپنے بندوں کے ذہن میں وہ طریقہ ڈال دیا ۔ مخلوق کی کلام کے لیے جو لائحہ عمل مناسب سمجھا وہ بھی اپنے بندوں کو سمجھا دیا ۔
دوسری بات کہ آپ نے احادیث کے سلسلے میں اتفاق و اختلاف کا ذکر کیا ہے ۔ بات سمجھیں حدیث کے قابل عمل ہونے کے لیے کسی بعد والے کی موافقت کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بذات خود قرآن میں بعض لوگوں نے اختلاف (صرف معنوی نہیں لفظی ) کیا ہے ۔ جیساکہ بعض بھائی پہلے اس کی وضاحت کرچکے ہیں ۔
آپ نے اجماعی مسائل کا ذکر کیا تو میں اہل سنت والجماعت کے متفق علیہ مسائل تو دکھا سکتا ہوں کہ اس پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں البتہ سنیوں کے بالمقابل حضرات کا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔ ان دونوں کے آپس میں متفق علیہ مسائل ہوں گے لیکن ان کو تلاش کرنا اور پھر موازنہ کرکے اختلاف و اتفاق نکالنا میرے جیسے کے بس کی بات نہیں ۔ کسی عالم دین سے رابطہ کرلیں ۔