محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
تُو نے گلچیں کبھی محسوس کیا تو ہوگا
کبھی کانٹا ترے پوروں میں چبھا تو ہوگا!
کیا بتائیں تمہیں ہم فلسفۂ شادی و غم
کھلکھلانا کبھی غنچے کا سنا تو ہوگا!
گوشۂ چشم میں تھی کیا کوئی سیال سی شے
کوئی پیغام زبانی بھی دیا تو ہوگا!
اس تصور ہی سے خوش ہیں، کہ ہمارا نامہ
سرِ انگشتِ حنائی سے چھوا تو ہو گا
کبھی گھٹتا، کبھی بڑھتا رہا ہوگا سایہ
اپنے پیکر پہ کبھی غور کیا تو ہو گا!
تنِ تنہا، لبِ دریا، سرِ راہے گاہے
تیرا بچھڑا ہوا ٰ’’میں‘‘ تجھ سے ملا تو ہو گا!
کبھی کانٹا ترے پوروں میں چبھا تو ہوگا!
کیا بتائیں تمہیں ہم فلسفۂ شادی و غم
کھلکھلانا کبھی غنچے کا سنا تو ہوگا!
گوشۂ چشم میں تھی کیا کوئی سیال سی شے
کوئی پیغام زبانی بھی دیا تو ہوگا!
اس تصور ہی سے خوش ہیں، کہ ہمارا نامہ
سرِ انگشتِ حنائی سے چھوا تو ہو گا
کبھی گھٹتا، کبھی بڑھتا رہا ہوگا سایہ
اپنے پیکر پہ کبھی غور کیا تو ہو گا!
تنِ تنہا، لبِ دریا، سرِ راہے گاہے
تیرا بچھڑا ہوا ٰ’’میں‘‘ تجھ سے ملا تو ہو گا!